شاہد بھائی:
آپ کے علم میںہو گا کہ 1857 سے قبل برصغیر کی علمی، ادبی اور سرکاری زبان فارسی تھی۔ نہ صرف مسلمان بلکہ مرہٹہ ہندوؤں اور رنجیت سنگھ کی درباری زبان فارسی ہی تھی۔ (برسبیلِ تذکرہ، دلچسپ بات ہے کہ پنڈت نہرو کے شادی کارڈ فارسی زبان میں شائع ہوئے تھے!) لیکن پھر انگریزوں نے بہ یک جنبشِ قلم فارسی کو معزول کر کے انگریزی رائج کر دی۔ جس سے کیا ہوا کہ وہ لوگ جو کل تک فارسی کے علما و فضلا تھے، اچانک جہلا کی قطار میں آگئے کیوں کہ انہیں انگریزی نہیںآتی تھی۔ آپ نے جس ضرب المثل کا ذکر کیا ہے (پڑھو فارسی، بیچو تیل) وہ کسی ستم ظریف نے ایسے ہی حالات میں گھڑی ہوگی۔ ورنہ اس سے کچھ عرصہ پیشتر تو اس کہاوت کا چلن تھا:
آب آب کرتے مر گئے، پانی دھرا رہا سرہانے
آداب عرض ہے،
زیف
آپ کے علم میںہو گا کہ 1857 سے قبل برصغیر کی علمی، ادبی اور سرکاری زبان فارسی تھی۔ نہ صرف مسلمان بلکہ مرہٹہ ہندوؤں اور رنجیت سنگھ کی درباری زبان فارسی ہی تھی۔ (برسبیلِ تذکرہ، دلچسپ بات ہے کہ پنڈت نہرو کے شادی کارڈ فارسی زبان میں شائع ہوئے تھے!) لیکن پھر انگریزوں نے بہ یک جنبشِ قلم فارسی کو معزول کر کے انگریزی رائج کر دی۔ جس سے کیا ہوا کہ وہ لوگ جو کل تک فارسی کے علما و فضلا تھے، اچانک جہلا کی قطار میں آگئے کیوں کہ انہیں انگریزی نہیںآتی تھی۔ آپ نے جس ضرب المثل کا ذکر کیا ہے (پڑھو فارسی، بیچو تیل) وہ کسی ستم ظریف نے ایسے ہی حالات میں گھڑی ہوگی۔ ورنہ اس سے کچھ عرصہ پیشتر تو اس کہاوت کا چلن تھا:
آب آب کرتے مر گئے، پانی دھرا رہا سرہانے
آداب عرض ہے،
زیف