اردو کا آغاز اور ارتقاء

زیف سید

محفلین
شاہد بھائی:

آپ کے علم میں‌ہو گا کہ 1857 سے قبل برصغیر کی علمی، ادبی اور سرکاری زبان فارسی تھی۔ نہ صرف مسلمان بلکہ مرہٹہ ہندوؤں اور رنجیت سنگھ کی درباری زبان فارسی ہی تھی۔ (برسبیلِ تذکرہ، دلچسپ بات ہے کہ پنڈت نہرو کے شادی کارڈ فارسی زبان میں شائع ہوئے تھے!) لیکن پھر انگریزوں نے بہ یک جنبشِ قلم فارسی کو معزول کر کے انگریزی رائج کر دی۔ جس سے کیا ہوا کہ وہ لوگ جو کل تک فارسی کے علما و فضلا تھے، اچانک جہلا کی قطار میں آگئے کیوں کہ انہیں انگریزی نہیں‌آتی تھی۔ آپ نے جس ضرب المثل کا ذکر کیا ہے (پڑھو فارسی، بیچو تیل) وہ کسی ستم ظریف نے ایسے ہی حالات میں گھڑی ہوگی۔ ورنہ اس سے کچھ عرصہ پیشتر تو اس کہاوت کا چلن تھا:

آب آب کرتے مر گئے، پانی دھرا رہا سرہانے

آداب عرض ہے،

زیف
 

الف نظامی

لائبریرین
زیف سید نے کہا:
شاہد بھائی:

آپ کے علم میں‌ہو گا کہ 1857 سے قبل برصغیر کی علمی، ادبی اور سرکاری زبان فارسی تھی۔ نہ صرف مسلمان بلکہ مرہٹہ ہندوؤں اور رنجیت سنگھ کی درباری زبان فارسی ہی تھی۔ (برسبیلِ تذکرہ، دلچسپ بات ہے کہ پنڈت نہرو کے شادی کارڈ فارسی زبان میں شائع ہوئے تھے!) لیکن پھر انگریزوں نے بہ یک جنبشِ قلم فارسی کو معزول کر کے انگریزی رائج کر دی۔ جس سے کیا ہوا کہ وہ لوگ جو کل تک فارسی کے علما و فضلا تھے، اچانک جہلا کی قطار میں آگئے کیوں کہ انہیں انگریزی نہیں‌آتی تھی۔ آپ نے جس ضرب المثل کا ذکر کیا ہے (پڑھو فارسی، بیچو تیل) وہ کسی ستم ظریف نے ایسے ہی حالات میں گھڑی ہوگی۔ ورنہ اس سے کچھ عرصہ پیشتر تو اس کہاوت کا چلن تھا:

آب آب کرتے مر گئے، پانی دھرا رہا سرہانے

آداب عرض ہے،

زیف
اور ہم نے پنجابی میں یہی بات کچھ ایسے سنی ہے
آب آب کریندا مرگیا مینڈا بچڑا
تے جڑ پٹ چھڈی ساڈی انہاں “فارسیاں“ نے
 
زیف بھائی

تاریخ‌کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ تاریخ‌ ماضی پرستوں‌کو بھول جاتی ہے ۔۔آپ نے 1857 کا ذکر کیا ،، مگر بھائی کیا یہ 2006 نہیں‌ ہے ۔۔کیا آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں انگریزی کا چلن نہیں‌ہے ۔۔کیا آج کی کاروباری دنیا انگریزی کے بغیر چل سکتی ہے ۔۔۔کیا آج دنیا گلوبل ولیج کے عام آدمی کی زبان نہیں‌بن چکی ہے ۔۔آپ نے درست فرمایا کہ فارسی ڈیڑھ سو سال پہلے برصغیر کے خواص کی زبان تھی ، دربار کی زبان تھی ،،، مگر عام آدمی کی زبان تو نہ تھی میرے بھائی ۔۔۔ عام آدمی کے لئے تو فارسی بھی باہر سے درآمد ہوئی تھی اور انگریزی بھی ۔۔۔۔راجہ فار حریت نے ان بدیسی اور مسلط کی گئی زبانوں‌کے بارے میں‌پنجابی کی درست کہاوت بیان کی ہے ،،، عام آدمی اپنی زبان میں‌سوچتا ہے ۔۔بدیسی زبان آپ سیکھ اور بول تو سکتے ہیں‌اس میں‌سوچ نہیں‌سکتے ۔۔۔۔۔کیا کہتے ہیں‌آپ اس بارے میں‌۔۔ ویسے سچی بات ہے آپ سے بات کر کے خود سے بات کرنے کا احساس ہوتا ہے ۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
شاہد بھائی کی بات بالکل درست ہے کہ فارسی ہو یا انگریزی، دونوں باہر سے درآمد کی گئی ہیں۔ اس درآمد کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ علم اس زبان اور اس زبان کے ملک سے Influencedملا۔ یعنی ہر چیز کو ہم اس ملک کے باشندوں‌کے حوالے سے دیکھنے کے عادی ہو گئے جہاں‌سےوہ زبان آئی۔ اب اس کی مثال دیکھیں کہ فارسی میں‌اقبال رح کا کلام اردو کے کلام سے کہیں زیادہ ہے۔ غالب کے اشعار دیکھیں۔ سب ہم عام پاکستانیوں یا ہندوستانیوں یا اردو بولنے والوں‌کے لئے تو ان کا ہونا یا نہ ہونا ایک برابر ہے۔ :(
بےبی ہاتھی
 
قیصرانی ،، اگر ہم نے اپنی زبان کو اس کا درست مقام دیا ہوتا تو آج کیوں ہم اس فکر میں‌ہوتے کہ اردو کو کیسے نیٹ‌پر رائج کریں‌۔۔ یقینا اردو پر کام کیا گیا ہوتا تو اب تک یہ نیٹ‌ کیا دنیا بھر کے مختلف فورمز پر اپنی جگہ بنا چکی ہوتی ۔۔۔ پتا نہیں‌ہمارا احساس کمتری کب ختم ہوگا اور کب ہم اپنی زبانوں کو اپنا کہہ سکیں‌گے،،، ہم کہ 6 ہزار سال پہلے موئن جو دڑو اور ہڑپہ میں تحریر کے فن سے واقف تھے ۔ آج اتنے بے زبان بن گئے ہیں‌کہ کبھی فارسی کے محتاج ہوتے ہیں‌تو کبھی انگریزی کے ۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
شاہد بھائی، اب کیا کہوں۔بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی :(
یہ بتائیں کہ جو ہو گیا وہ تو نہیں بدلے گا۔ اب آئندہ کے لئے کیا پروگرام ہو، کیا لائن آف ایکشن ہو؟
بےبی ہاتھی
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم دوستو، اردو کے ارتقاء کے موضوع پر بات یہاں ہر کچھ عرصے بعد بات چھڑ جاتی ہے۔ میں کوئی ماہر لسانیات نہیں ہوں اور نہ ہی مجھے اردو کی تاریخ پر دسترس حاصل ہے اس لیے آپ میری گزارشات کو یکسر نظر انداز کر سکتے ہیں۔ بعد اس تمہید کے مجھے یہ عرض کرنا تھا کہ غالبا اردو دوسری زبانوں کے ملاپ سے ہی بنی ہے اور فارسی میں اس کی جڑیں ہیں۔ اردو سیکھنے کے لیے فارسی سیکھنا ضروری نہیں ہے لیکن اس سے ہمیں اردو کو بہتر سمجھنے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔ ویسے بھی فارسی زبان میں تاریخ اسلام کا گراں قدر مذہبی اور ادبی سرمایہ محفوظ ہے۔

ابتدائے انسانیت سے نئی زبانیں بنتی اور پرانی متروک ہوتی آئی ہیں۔ کوئی زبان ارتقاء کی کتنی منازل طے کرتی ہے، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زمانے کے تقاضوں کے لحاظ سے اس زبان میں کس انداز میں تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ زبانیں دوسری ثقافتوں کے اثرات قبول کرتی ہیں اور دوسری زبانوں کے الفاظ ان کی لغت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس تناظر میں کسی زبان کو خالص رکھنے کی بحث کچھ غیر متعلقہ سی لگتی ہے۔ انگریزی زبان کی مثال لی جائے تو اس کی بین الاقوامی مقبولیت میں ایک عنصر اس کا زمانے کے لحاظ سے بدلتے رہنا بھی ہے جبکہ دوسری یورپی زبانیں اس دوڑ میں انگریزی سے پیچھے رہ گئی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دوسری زبانوں، جیسے جرمن اور فرانسیسی وغیرہ کی گرامر کے قواعد میں وقت کے ساتھ زیادہ تبدیلی نہیں آئی جبکہ انگریزی کے قواعد اس قدر بدلے ہیں کہ اب اس کو سیکھنے کا کوئی قاعدہ رہا ہی نہیں۔ :cry:

انگریزی زبان میں ان گنت الفاظ دوسری زبانوں سے آئے ہوئے ہیں اور آج بھی اس میں نئے الفاظ شامل ہو رہے ہیں۔ انگریزی زبان میں شامل عربی سے ماخوذ الفاظ یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے عہد کی یاد دلاتے ہیں۔ اب اگر اردو دوسری زبانوں کا اثر قبول کرتی ہے تو اس میں کوئی انہونی بات نہیں ہونی چاہیے۔ خود جدید فارسی میں فرانسیسی کے بے شمار الفاظ شامل ہو گئے ہیں۔ آپ لوگ 2006 کی بات کرتے ہیں جبکہ اٹھارویں صدی کی لکھی ہوئی کتاب یادگار غالب میں مولانا حالی متعدد انگریزی الفاظ جیسے لائف اور ریویو وغیرہ کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔

بہرحال اب ہمارا عزم نیٹ پر اردو کی ترویج ہے اور اس کے لیے ہم سب کو ایک مشترکہ کاوش کی ضرورت ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
نبیل نے کہا:
السلام علیکم دوستو، اردو کے ارتقاء کے موضوع پر بات یہاں ہر کچھ عرصے بعد بات چھڑ جاتی ہے۔ میں کوئی ماہر لسانیات نہیں ہوں اور نہ ہی مجھے اردو کی تاریخ پر دسترس حاصل ہے اس لیے آپ میری گزارشات کو یکسر نظر انداز کر سکتے ہیں۔ بعد اس تمہید کے مجھے یہ عرض کرنا تھا کہ غالبا اردو دوسری زبانوں کے ملاپ سے ہی بنی ہے اور فارسی میں اس کی جڑیں ہیں۔ اردو سیکھنے کے لیے فارسی سیکھنا ضروری نہیں ہے لیکن اس سے ہمیں اردو کو بہتر سمجھنے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔ ویسے بھی فارسی زبان میں تاریخ اسلام کا گراں قدر مذہبی اور ادبی سرمایہ محفوظ ہے۔

ابتدائے انسانیت سے نئی زبانیں بنتی اور پرانی متروک ہوتی آئی ہیں۔ کوئی زبان ارتقاء کی کتنی منازل طے کرتی ہے، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زمانے کے تقاضوں کے لحاظ سے اس زبان میں کس انداز میں تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ زبانیں دوسری ثقافتوں کے اثرات قبول کرتی ہیں اور دوسری زبانوں کے الفاظ ان کی لغت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس تناظر میں کسی زبان کو خالص رکھنے کی بحث کچھ غیر متعلقہ سی لگتی ہے۔ انگریزی زبان کی مثال لی جائے تو اس کی بین الاقوامی مقبولیت میں ایک عنصر اس کا زمانے کے لحاظ سے بدلتے رہنا بھی ہے جبکہ دوسری یورپی زبانیں اس دوڑ میں انگریزی سے پیچھے رہ گئی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دوسری زبانوں، جیسے جرمن اور فرانسیسی وغیرہ کی گرامر کے قواعد میں وقت کے ساتھ زیادہ تبدیلی نہیں آئی جبکہ انگریزی کے قواعد اس قدر بدلے ہیں کہ اب اس کو سیکھنے کا کوئی قاعدہ رہا ہی نہیں۔ :cry:

انگریزی زبان میں ان گنت الفاظ دوسری زبانوں سے آئے ہوئے ہیں اور آج بھی اس میں نئے الفاظ شامل ہو رہے ہیں۔ انگریزی زبان میں شامل عربی سے ماخوذ الفاظ یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے عہد کی یاد دلاتے ہیں۔ اب اگر اردو دوسری زبانوں کا اثر قبول کرتی ہے تو اس میں کوئی انہونی بات نہیں ہونی چاہیے۔ خود جدید فارسی میں فرانسیسی کے بے شمار الفاظ شامل ہو گئے ہیں۔ آپ لوگ 2006 کی بات کرتے ہیں جبکہ اٹھارویں صدی کی لکھی ہوئی کتاب یادگار غالب میں مولانا حالی متعدد انگریزی الفاظ جیسے لائف اور ریویو وغیرہ کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔

بہرحال اب ہمارا عزم نیٹ پر اردو کی ترویج ہے اور اس کے لیے ہم سب کو ایک مشترکہ کاوش کی ضرورت ہے۔
تُس ٹھیک کہنے او۔
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داگ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
:lol:
 

الف نظامی

لائبریرین
شاہد احمد خان نے کہا:
آج اتنے بے زبان بن گئے ہیں‌کہ کبھی
فارسی کے محتاج ہوتے ہیں‌تو کبھی انگریزی کے ۔۔۔
جب ذہن محتاج انگریز کے ہوں تو انگریزی کی محتاجی تو آئے گی۔
سرکاری زبان میں تو انگریزیاں چل رہی ہیں۔ اور اردو بے چاری سارے جہاں کا درد اپنے جگر میں سمیٹنے کیلیے رہ گئی ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
نبیل نے کہا:
السلام علیکم دوستو، اردو کے ارتقاء کے موضوع پر بات یہاں ہر کچھ عرصے بعد بات چھڑ جاتی ہے۔ میں کوئی ماہر لسانیات نہیں ہوں اور نہ ہی مجھے اردو کی تاریخ پر دسترس حاصل ہے اس لیے آپ میری گزارشات کو یکسر نظر انداز کر سکتے ہیں۔ بعد اس تمہید کے مجھے یہ عرض کرنا تھا کہ غالبا اردو دوسری زبانوں کے ملاپ سے ہی بنی ہے اور فارسی میں اس کی جڑیں ہیں۔ اردو سیکھنے کے لیے فارسی سیکھنا ضروری نہیں ہے لیکن اس سے ہمیں اردو کو بہتر سمجھنے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔ ویسے بھی فارسی زبان میں تاریخ اسلام کا گراں قدر مذہبی اور ادبی سرمایہ محفوظ ہے۔

ابتدائے انسانیت سے نئی زبانیں بنتی اور پرانی متروک ہوتی آئی ہیں۔ کوئی زبان ارتقاء کی کتنی منازل طے کرتی ہے، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زمانے کے تقاضوں کے لحاظ سے اس زبان میں کس انداز میں تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ زبانیں دوسری ثقافتوں کے اثرات قبول کرتی ہیں اور دوسری زبانوں کے الفاظ ان کی لغت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس تناظر میں کسی زبان کو خالص رکھنے کی بحث کچھ غیر متعلقہ سی لگتی ہے۔ انگریزی زبان کی مثال لی جائے تو اس کی بین الاقوامی مقبولیت میں ایک عنصر اس کا زمانے کے لحاظ سے بدلتے رہنا بھی ہے جبکہ دوسری یورپی زبانیں اس دوڑ میں انگریزی سے پیچھے رہ گئی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دوسری زبانوں، جیسے جرمن اور فرانسیسی وغیرہ کی گرامر کے قواعد میں وقت کے ساتھ زیادہ تبدیلی نہیں آئی جبکہ انگریزی کے قواعد اس قدر بدلے ہیں کہ اب اس کو سیکھنے کا کوئی قاعدہ رہا ہی نہیں۔ :cry:

انگریزی زبان میں ان گنت الفاظ دوسری زبانوں سے آئے ہوئے ہیں اور آج بھی اس میں نئے الفاظ شامل ہو رہے ہیں۔ انگریزی زبان میں شامل عربی سے ماخوذ الفاظ یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے عہد کی یاد دلاتے ہیں۔ اب اگر اردو دوسری زبانوں کا اثر قبول کرتی ہے تو اس میں کوئی انہونی بات نہیں ہونی چاہیے۔ خود جدید فارسی میں فرانسیسی کے بے شمار الفاظ شامل ہو گئے ہیں۔ آپ لوگ 2006 کی بات کرتے ہیں جبکہ اٹھارویں صدی کی لکھی ہوئی کتاب یادگار غالب میں مولانا حالی متعدد انگریزی الفاظ جیسے لائف اور ریویو وغیرہ کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔

بہرحال اب ہمارا عزم نیٹ پر اردو کی ترویج ہے اور اس کے لیے ہم سب کو ایک مشترکہ کاوش کی ضرورت ہے۔
نبیل بھائی، اردو کے ارتقاء اور اس کے دوسری زبانوں‌کے اختلاط والی تو بات ہی نہیں‌ہو رہی۔ یہ تو زندہ زبانوں کی بہت اہم خاصیت ہے۔ ہم یہ بات کر رہے تھے کہ ہم لوگ اردو کو اس کا صحیح مقام کب دیں‌گے؟ انگریزی کے رائج ہونے سے برٍ صغیر میں فارسی دان جاہل قرار پائے۔ لیکن کیا جب فارسی رائج ہوئی، کیا اس وقت کے مقامی زبان کے جاننے والے کیا جاہل قرار نہیں‌پائے ہوں گے؟ فارسی میں‌جو ادب ہے، اس کی قدر ہم کیسے کریں کہ وہ تو ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ اس لئے تو ایرانی اقبال رح کی اتنی قدر کرتے ہیں۔ اتنی توجہ ہم نے عربی پر کی ہوتی تو شاید ہم قرآن پاک کو صحیح‌طرح سے سمجھنے کے قابل ہو چکے ہوتے۔ اس طرح‌کی چھوٹی چھوٹی باتوں‌پر بات ہو رہی تھی۔ باقی جو آپ نے لکھا، اس سے تو کوئی اختلاف کیسے کرے، یہ تو روزٍ روشن کی طرح عیاں‌ہے۔:)
بےبی ہاتھی
 
زیف سید نے کہا:
جناب محب صاحب:

آپ نے درست فرمایا، دوسرے مصرعے میں میں نے لکھنا بھول گیا تھا۔ ظاہر ہے میر بے وزن شعر تو لکھنے سے رہے۔


آپ نے بہت عمدہ واقعہ سنایا۔ یہ مولانا آزاد نے اپنی شہرہ آفاق کتاب آب حیات میں نقل کیا ہے۔ ویسے، بائی دا وے، تقطیع میں خیال کی ی ظاہر کی جا سکتی ہے اور وہ یوں کہ اگرخیال سے پہلے آنے والے لفظ ہی کہ ی گرا دی جائے۔ واضح رہے کہ ہندی الفاظ، کی، ہی، بھی، تھی، وغیرہ کی ی گرانا بہت عام ہے، لیکن خیال کی ی گرانے کا کوئی اور واقعہ نظر سے نہیں گزرا۔ لیکن کیا ہے کہ میر جیسے عظیم شاعر کو حق ہے کہ وہ جیسے چاہے، زبان کو برتے۔

زیف

پس نوشت: پچھلی تحریر میں میں غلطی سے آپ کی بجاے قیصرانی صاحب کو مخاطب کر بیٹھا تھا، آپ دونوں سے معذرت۔

زیف ،

آپ سے بات کرکے بہت لطف آرہا ہے اور ادب کی چاشنی بھی پوری ہو رہی ہے۔ چلیں میر کا ایک اور شعر بھی منظر عام پر آیا اور ڈرتے ڈرتے جو میں نے کہا تھا وہ بھی ٹھیک ہو گیا۔
میر نے زبان کا حق حاصل کیا ہے اور پھر ہمیں پابند بھی کر دیا ہے اپنے حق کے ساتھ۔ دکنی اور ہندی اسلوب اب خاصا پرانا ہو گیا ہے اور اردو کی شکل کافی نکھر گئی ہے ، کوئی پرانے شعر پڑھے تو اسے بہت سے شعر وزن سے گرے ہوئے اور الفاظ عجیب محسوس ہوں ، وجہ دکنی اور ہندی الفاظ کی زیادتی ۔
 

زیف سید

محفلین
(انتباہ: طویل اور خشک تحریر)

دوستو، آداب:

شاہد بھائی نے ماضی پرستی کی بات کی ہےاور آج پر زور دینے کی تلقین کی ہے۔ میری ان سے گذارش ہے کہ حضور، ماضی سے سبق نہ سیکھنے والوں کو آج بھی بھول جاتاہے۔ جس درخت کی جڑیں زمین میں گہری نہ پھیلی ہوں، وہ ہواکے معمولی جھونکے سے گر جاتا ہے۔ حال ہمیشہ ماضی کے بیساکھی ٹیکتے ہوئے مستقبل کی طرف پیش قدمی کرتا ہے۔ آپ نے آئن سٹائن کا قول سنا ہو گا کہ میں اس لیے اونچا ہوں کہ اپنے بلند قامت پیش رووں کے کندھوں پر کھڑا ہوں۔

آپ نےفارسی کا ذکر کیا ہے، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہم کل سے فارسی بولنا شروع کردیں۔ میرا مطلب فقط یہ تھایہ ہماری اپنی زبان تھی۔ ہماری تاریخ کا درخشاں باب ہے۔ ہم کیسے اس کو طاقِ پر رکھ کر انگریزی کے گن گانا شروع کردیں؟ اگر ہم نے ایسا کیا تو پھرہمارے اس مذہبی، ثقافتی، فنی اور ادبی ورثے کا کیا ہوگا جو مسلمانوں نے پچھلے ہزار سال میں اکٹھا کیا تھا؟ آپ فارسی کوباہر سے مسلط کی جانے والی زبان گردانتے ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں‌کہ زبانیں، خیالات، حتیٰ کی قومیں تک ایک جگہ سے دوسرے جگہ آتی جاتی رہتی ہیں۔ شاید آپ کو علم ہو گا کہ جینیاتی تجزیے کے مطابق پاکستان کے 60 فیصد سے زیادہ لوگ افغانستان، وسطی ایشیا اور ایران سے آئے ہوئے ہیں، یعنی باہر سے درآمدہ۔ سو نہ صرف فارسی زبان باہر سے آئی ہے بلکہ ہم میں سے بیشتر لوگ بھی ہجرت کر کے یہاں‌آباد ہو ئے ہیں۔ انگریزتجارت کرنے آئے تھے، اپنے منافع وصول کرکے چلتے بنےلیکن فارسی بولنے والے مسلمان ایک ہزار سال سے یہاں‌رہ رہے ہیں۔ فارسی کا عظیم ادب یہاں تخلیق ہوا ہے۔ ہندوستانی فارسی شعرا امیر خسرو، فیضی، کلیم، طالب آملی، بیدل، مرزا قتیل، مرزا غالب ، مولانا گرامی اور اقبال کو آپ کسی بھی بڑے فارسی شاعر کے پہلو بہ پہلو رکھ سکتے ہیں۔ ان قدما کا فارسی شاعری کے تین اسالیب میں سے ایک الگ اسلوب تھا جسے سبکِ ہندی کہا جاتاہے(دوسرے دو اسالیب سبکِ خراسانی اور سبکِ ایرانی ہیں۔)

اور پھر مغلیہ دور میں‌جو مصوری تخلیق ہوئی ہے، جو عمارات بنی ہیں، وہ سب ہمارا مشترکہ تاریخی ورثہ ہے۔ جس پر ہمیں فخر کرنا چاہیے۔ دو سال قبل امریکہ میں مغلیہ تصاویر کے ایک سلسلے کی نمائش ہوئی تھی، دی ایڈونچرز آف حمزہ۔ اس میں داستان امیر حمزہ پر مبنی دو سو تصاویر نمائش کے لیے پیش کی گئی تھیں جو اکبر کے دور میں‌لاہور میں 1585 اور 1600 کے درمیان تخلیق کی گئی تھیں۔ اس نمائش کے بارے میں ایک بااثرامریکی نقاد‌نے کہا تھا کہ ایک ایک پینٹنگ سےمیںنے وہ جمالیاتی حظ حاصل کیا ہے جو مونا لیزاسے بھی نہیں‌ملا تھا۔ تو کیاہم اس ورثے سے منھ چھپا لیں کہ یہ تو پرانی اور دقیانوسی باتیں‌ہیں؟‌

اور زبانوں کا کیا ہے، آج امریکہ سپر پاور ہے تو انگریزی کا چار دانگ میں چلن ہے۔ لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ امریکہ ہمیشہ اقتدار میں رہے گا؟ بعض مبصرین کی پیش گوئی ہے کہ اکیسویں صدی چین کی صدی ہے۔ بتائیے کہ اگر آئندہ پچاس سال میں چین امریکہ کو ہٹا کر عالمی اقتدار کی گدی پر براجمان ہو گیا تو پھر انگریزی کا کیا ہوگا؟ تاریخ بتاتی ہے کہ تین سوسال قبل مسیح سے لے کر ایک سوسال بعد از مسیح تک یونانی دنیا کی علمی زبان تھی۔ پھر مسلمانوں کے عروج کے بعد 1250 تک عربی دنیا کی لنگوا فرانکا بنی رہی۔ بعدازاں لاطینی صدیوں سائنسی زبان کے مرتبے پر فائز رہی۔ ابھی کوئی پچاس برس قبل بھی دنیا میں چارعالمی زبانیں رائج تھیں، فرانسیسی، روسی اور ہسپانوی۔ گویا زبانوں کا اقتدار بھی قوموں کے اقتدار کے مانند چڑھتی ڈھلتی چھایا ہے۔ آج ہے، کل نہیں۔ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں!

جہاں تک علم حاصل کرنے کی خاطر انگریزی کو اپنانے کی بات ہے تو عرض ہے کہ زبان یا رسم الخط کا علم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ روس روسی زبان بولتے ہوئے بھی اور رومن سے مختلف رسم الخط کے باوجود سائنس میں امریکہ سے بہت آگے تھا، جاپان کی ٹیکنالوجی آج بھی امریکہ سے ایک عشرہ آگے چل رہی ہے‌‌۔ فرانسیسی ادب و فن اپنی زبان پر اصرار کر کے بھی وہاں ہے کہ جہاں انگریزی کے پر جلتے ہیں۔

اس طول طویل بھاشن کے لیے معذرت چاہتا ہوں۔ لیکن موضوع ہی ایسا تھا کہ جو میرے دل کے بہت قریب ہے۔ بس آخر میں لبِ‌لباب پیش کر کے اجازت چاہوں گا:

- فارسی ہمارے بزرگوں‌کی زبان ہے، ہمارا ثقافتی اور تاریخی ورثہ ہے۔

- اپنے تاریخی ورثے کی قدر کرکے ہی ہم ایک زندہ قوم کہلا سکتے ہیں۔

- انگریزی زبان کوکسی اور زبان پر لسانیاتی فوقیت حاصل نہیں ہے۔ یہ محض انگریزی بولنے والی اقوام کی سیاسی اور فوجی قوت کے باعث دنیا پر مسلط ہو گئی ہے۔

- انگریزی ضرور سیکھیں، کون کہتا ہے نہ سیکھیں۔ یہ دورِحاضر کی علمی مجبوری ہے۔ لیکن اپنی شناخت برقرار رکھتے ہوئے۔

- انگریزی کا اقتدار ابدی نہیں‌ہے۔ کسی بھی وقت کوئی اور زبان اس کی جگہ لے سکتی ہے۔

- اور سب سے اہم بات یہ کہ اپنی جڑوں کو کبھی کبھی پانی دیتے رہیںورنہ سوکھ جائیں گی۔

آداب عرض ہے

زیف‌‌‌‌
 

قیصرانی

لائبریرین
ابھی تو میں صرف یہی کہ سکتا ہوں، وہ بھی آپ سے شکریہ کے ساتھ۔
آداب عرض ہے۔
بےبی ہاتھی
 

نبیل

تکنیکی معاون
زیف سید، زبردست مضمون لکھا ہے آپ نے۔ آپ کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ کل انگریزی کی جگہ کوئی اور زبان بھی لے سکتی ہے۔ میں نے کچھ عرصہ قبل ایک جرمن ماہر لسانیات کا مضمون پڑھا تھا جس میں دنیا کی مختلف زبانوں کی ڈیویلپمنٹ کا تجزیہ کیا گیا تھا اور یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ آنے والے وقت میں ہندی اور اردو دنیا کی اہم ترین زبانوں میں سے ہوں گی۔
 
بہت خوب زیف ، عمدگی سے اپنا اور فارسی کا مقدمہ لڑا ہے اور ماضی کی اہمیت کو خوب اجاگر کیا ہے۔ ماضی سے سبق سیکھ کر اور وراثت میں جو خوبیاں ملی ہیں انہیں لے کر ساتھ چلنا ہی دانشمندی ہے۔ فارسی اردو کی بنیاد میں ہے اور ہندی سے شروع ہو کر اردو نے سب سے زیادہ اثر فارسی کا ہی قبول کیا جس کی وجہ اس کے گرد و نواح میں فارسی کا اثر رسوخ اور خود ہند میں فارسی کا سرکاری زبان ہونا تھا۔ بحیثیت زبان فارسی بہت مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہے اور ایک بھرپور ثقافت اور تمدن کی حامل ہے ، آج اردو کے دامن میں شاعری کا جو ذخیرہ ہے وہ بہت حد تک فارسی کا ہی مرہونِ منت ہے ۔ سب سے خوبصورت تحفہ جو فارسی نے اردو کو دیا اور جس نے اردو کے دامن کو چار چاند لگا دیے وہ ہے “غزل“۔ یہ ایک صنف ہی ایسی ہے کہ اگر فارسی کچھ اور عنایت نہ بھی کرتی تو بھی اردو کا سر ہمیشہ اس عطا کے بدلے شکر گزاری سے جھکا رہتا۔ جس طرح انگریزی سے بہت سے الفاظ لاطینی ، یونانی ، فرنچ ، جرمن ، ہسپانوی سے مستعار لیے ہیں اسی طرح اردو نے ہندی ، فارسی ، عربی ، ترکی سے زیادہ تر الفاظ لیے اور پھر آہستہ آہستہ ترقی کی منازل طے کرتی چلی گئی۔ اردو ہندی زبان پراکرت کے خاندان سے ہے اور فارسی ، عربی زبانوں کے الفاظ کی کثرت سے اب یہ اسی خاندان کی ایک زبان بن گئی جبکہ انگریزی ایک بالکل مختلف لسانی خاندان سے تعلق رکھتی ہے ۔ گو اردو نے اس کے بھی بہت سے الفاظ قبول کیے ہیں مگر انگریزی کی عالمگیریت کی وجہ سے ورنہ طبعا اردو اور انگریزی خاصی مختلف زبانیں ہیں اور دونوں کی ثقافت ، تمدن میں بعید المشرقین ہے۔
یہاں مجھے ایک دلچسپ قصہ یاد آگیا ، آج تک یہ پراپیگنڈہ جاری ہے کہ مغلوں کے دور میں تعلیمی پس ماندگی تھی اور انگریزوں کے آنے سے تعلیم پر زور دیا جانے لگا۔ ١٩١٢ کی انگریزوں کی اپنی رپورٹ کے مطابق جب انگریزوں نے مغلوں سے اقتدار لیا تو شرح خواندگی ٩٠ فیصد کے قریب تھی اور ١٩١٢ میں یہ کم ہوتے ہوتے ١٥ فیصد سے بھی کم رہ گئی تھی۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ سب پر انگریزی مسلط کر دی گئی اور جو لوگ فارسی اور عربی جانتے تھے وہ علماء کی قطار سے نکال کر جہلا کی قطار میں کھڑے کر دیے گئے۔
 
سب دوست،، زیف و محب

اچھی بات یہ ہے کہ آپ لوگوں‌کے کی بورڈز سے سوچ کے پھول مہک رہے ہں‌۔۔اردو گل دستہ ہائے رنگ برنگ ہے ، اس میں‌کوئی شک نہیں‌۔ مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں‌کہ اردو فارسی اور عربی سے الگ ایک زبان ہے ، ایک زندہ زبان جس میں‌اپنی بقا کی جنگ لڑنے کی صلاحیت بھی موجود ہے ۔۔۔برصغیر میں فارسی شاعری میں بہت کام کیا گیا ہے ،،ادب کی دیگر اصناف پر کسی نے نظر کرم نہیں‌کی ۔۔شاعری بھی اس لئے پنپ سکی کہ دربار کا سایہ ظل الہی کے سائے کی طرح‌ چھپر چھایا کئے ہوئے تھا ۔۔۔اس سے کس کو اختلاف ہے کہ بر صغیر میں مسلم ایلیٹ‌کلاس نے فارسی کو اپنا کر اس میں ادب کے گراں‌بہا موتیوں‌کا اضافہ نہیں کیا ۔۔۔لیکن وہ ماضی کا قصہ ہے اب نہ بھارتی یا پاکستانی مسلمان کو فارسی سے کوئی واسطہ ہے اور نہ ہی کوئی کام ۔۔۔۔زبان وہی سیکھی جاتی ہے جس سے معاش وابستہ ہوتا ہے ۔اسی لئے پاکستانی مسلمان انگریزی اور بھارتی مسلمان ہندی اور انگریزی دونوں سیکھنے اور بولنے پر مجبور ہے ۔۔۔۔اور بھائی زبان تو تبدیل ہوتی رہتی ہے ،، آج کے ایرانی بھی وہ فارسی نہیں‌سمجھ سکتے جس میں ہمارے برصغیر کے اسلاف شاعری فرمایا کرتے تھے ۔۔۔
اردو پر فارسی کے علاوہ عربی کا بہت زیادہ اثر ہے اس کی مذہبی وجہ بھی ہے ۔۔ہم برصغیر کے واسی تمام عمر اپنی شین قاف سیدھی کرنے میں گزار دیتے ہیں‌۔۔برسبیل تذکرہ ایک دلچسپ بات بتاتا چلوں‌۔۔مجھے کچھ عرصہ سعودی عرب میں‌رہنے کا اتفاق ہوا ( شمشاد بھائی میں بھی ریاض‌کے نسیم علاقے میں رہا ہوں ) ۔۔ہاں‌ تو وہاں‌ اصلی تے وڈے عربوں کی عربی دیکھی اور کانوں‌کو ہاتھ لگایا ۔۔ آپ لوگوں‌کو شائد حیرت ہو کہ سعودی عرب کی عربی میں قاف نہیں‌ہوتا اس کا تلفظ ‌وہ گ سے کرتے ہیں‌،، مثلا قاسم وہاں‌گاسم ہوتا ہے اور قفل گفل ہو جاتا ہے ۔۔اسی طرح‌ ث‌ کا تلفظ‌ ت سے کرتے ہیں‌،، ثریا ، تریا ہے ،، کثیر ، کتیر ہے اور کوثر،، کوتر ہے ،،ض‌، ظ‌، ز ، ذ سب کا تلفظ‌ د ہے جی ہاں‌دال (‌کوئی بتلاو کہ ہم بتلائیں‌کیا ) ۔۔ایک اور بہت مزے کی بات سعودی عرب میں‌دیکھی کہ وہاں‌مساجد میں‌300 ریال ماہانہ میں بنگالی موذن رکھے جاتے ہیں جن کی اپنی شین قاف کا اللہ حافظ‌ہے اور وہ عربی بچوں‌کو قرآن پاک ناظرہ پڑھنا سکھاتے ہیں‌، اور ہاں‌ سعودی عرب ہی میں‌اس بات کا بھی پتہ چلا کہ قرآن پاک کی عربی جتنی ہمارے لئے اجنبی ہے اتنی ہی ان کے لئے بھی ،،کیونکہ ان کی عام زبان وہ عربی نہیں‌جو ڈیڑھ ہزار سال پہلے بولی جاتی تھی ۔۔۔رہے نام اللہ کا ۔۔۔۔۔۔اردو ، ہندی ، پراکرت ، کھڑی ، پنجابی ، فارسی اور انگریزی کے لسانی رشتے پر زندگی رہی تو پھر بات ہوگی ۔۔۔۔ ۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
بہت عمدہ، ایک اور مزے کی بات، بہت سے عربی ف کو و بولتے ہیں، ک کو چ(جی ہاں چ)۔ اسی طرح ذ، ز، ض اور ظ کو د بولنا تو عربوں میں بہت پرانا ہے۔ اسی وجہ سے تو ہمارے کچھ مذہبی فرقے ہنستے ہیں کہ مسلمانو، عام زندگی میں ذ، ز، ض اور ظ تو ذ، ز، ض اور ظ ہی ہیں، قرآن پڑھتے ہوئے یہ کیوں د میں‌بدل جاتے ہیں؟ خیر ہم نے تو وہی لہجہ قرآن پاک کے لئے اپنانا ہے جو عربوں کا ہے۔ لیکن عربوں کے کون سے لہجے کو مانا جائے؟ یہ ایک الگ بحث ہے۔
بےبی ہاتھی
 
قیصرانی ، مختلف عرب ملکوں‌کے لوگوں‌کی عربی بھی مختلف ہے ۔ سوڈانی کی عربی ،اردن کے باشندے نہیں‌سمجھتے ،،اسی طرح‌عراقی کی عربی ، الجزائر والے کے سر پر سے گزرتی ہے۔۔مصر والے اپنی ہی عربی بولتے ہیں‌جس میں ج سرے سے موجود ہی نہیں‌ اس کی جگہ گ استعمال ہوتا ہے اسی لئے مصر میں‌جمال عبدالناصر نہیں‌ہوتا گمال عبدالناصر ہوتا ہے اور ق سے انہیں‌خدا واستے کا بیر ہے اس کی جگہ وہ الف استعمال کرتے ہیں ،،،، اسی طرح مختلف عرب ملکوں‌میں‌ مختلف حروف استعمال ہوتے ہیں‌ جنہیں ہم عربی نہیں سمجھتے جیسے کہ چ اور پ وغیرہ ۔۔کچھ حروف ایسے بھی ہیں‌ جنہیں‌ہم جانتے ہی نہیں‌جیسے آپ نے واو کی آواز والے ف کا ذکر کیا اس حرف کو ف پر تین نقطے لگا کر بنایا جاتا ہے اور یہ آج کی اسٹینڈرڈ‌عربی میں‌شامل ہے ۔۔‌۔
 

زیف سید

محفلین
محب علوی نے کہا:
جس طرح انگریزی سے بہت سے الفاظ لاطینی ، یونانی ، فرنچ ، جرمن ، ہسپانوی سے مستعار لیے ہیں اسی طرح اردو نے ہندی ، فارسی ، عربی ، ترکی سے زیادہ تر الفاظ لیے اور پھر آہستہ آہستہ ترقی کی منازل طے کرتی چلی گئی۔ اردو ہندی زبان پراکرت کے خاندان سے ہے اور فارسی ، عربی زبانوں کے الفاظ کی کثرت سے اب یہ اسی خاندان کی ایک زبان بن گئی جبکہ انگریزی ایک بالکل مختلف لسانی خاندان سے تعلق رکھتی ہے ۔ گو اردو نے اس کے بھی بہت سے الفاظ قبول کیے ہیں مگر انگریزی کی عالمگیریت کی وجہ سے ورنہ طبعا اردو اور انگریزی خاصی مختلف زبانیں ہیں اور دونوں کی ثقافت ، تمدن میں بعید المشرقین ہے۔

جناب محب صاحب: کیا ہی اچھا ہو کہ اگر آپ ایک نئی لڑی شروع کر دیں (موجودہ لڑی تو شیطان کی آنت کی طرح گنجلک ہوتی چلی جا رہی ہے! :D ) جس میں اردو کی لسانی تاریخ پر تھوڑی بات ہو جائے۔ اس خاک نشیں نے بھی اس موضوع پر بہت صفحے کالے کیے ہیں۔ بلکہ ایک کتاب کا مسودہ پڑا ہوا ہے ، بس ذرا کشاکشِ غمِ دوراں سے فرصت کا انتظار ہے کہ اس کی نوک پلک درست کر کے شائع کرا دیں۔ سو کیا عجب کہ ہم ‌‌مثبت بحث و تمحیص (بحث و تکرار نہیں، اس سے میں ایسے بھاگتا ہوں جیسے افیمی نہانے سے!) سے ایک دوسرے کے علم میں‌اضافے کا باعث بن جائیں؟

آداب عرض ہے،

زیف
 
Top