محمد علم اللہ
محفلین
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
آصف جیلانی
خواجہ آصف ملک کے ممتاز رہنما ہیں ۔۔ ان کا تعلق اس مردم خیز شہر سیالکوٹ سے ہے جہاں سے علامہ اقبال ابھرے جنہوںنے اردو شاعری کو ایسا نایاب خزینہ بخشا جس کی درخشندگی کبھی ماند نہیں پڑے گی اور سیالکوٹ کی اسی زمین سے فیض صاحب نے اردو کی بے مثل آبیاری کی
۔۔پچھلے دنوں میں ایک دوست کے ساتھ بیٹھا ایک ٹیلی وژن چینل پر خواجہ آصف کا انٹرویو دیکھ رہا تھا۔طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں خواجہ صاحب کہہ رہے تھے ’’ حکومت کے ایک فنکشنری ہوتے ہؤے مجھے جو انفارمیشن ہے اس کے بیسس پر مذاکرات کی پراگریس کو کوانٹی فأیی نہیں کر سکتا۔ ‘‘ میرے دوست نے اپنا سر پکڑ لیا ۔ خواجہ آصف کہہ رہے تھے’’ میں پھر رپیٹ کروں گا کہ یہ نیگوسیشن اوپن ہینڈڈ نہیں ہونے چاہیں۔ابھی تک جو بھی موو(Move) کیا جارہا ہے وہ کنسنسس ()Consensusکے ذریعہ کیا جارہا ہے اینڈ رزلٹ یہ ہے کہ ابھی تک جو آپریشن نہیں کیا گیا اس پر کنسنسس ہے اور فوج مکمل طور پر آن بورڈ ہے۔ ہم چاہیںگے کہ جلد پیس ریٹرن ہو‘‘ میرے دوست سر پکڑے روہانسی آواز میںبولے’’پاکستان میں اردو کا یہ کیا حشر ہورہا ہے؟۔ خواجہ صاحب کا یہ انٹرویو سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اردو نہیں بلکہ کؤی اور نٔئ اجنبی زبان ہے ۔ اس میں انگریزی کے الٹے سیدھے جو پیوند لگأے جارہے ہیں اس سے جان پڑتا ہے کہ اردو سے اس کے ناکردہ گنا ہوں کاانتقام لیا جارہا ہے میرے دوست نے کہا کہ ٹیلی وژن چینلز پر جو سیاسی مباحثے ہوتے ہیں ان میں سیاست دان انگریزی اصطلاحات کو طوطے کی طرح دہراتے ہیں۔ مثلا یہ انسٹیٹیوشنز ایک پیج پر نہیں ہیں۔ سب اسٹیک ہولڈرس کو آن بورڈ ہونا چاہے۔یہ ماینڈ سیٹ کی بات ہے کنسنسس اور ری کنسلیسشن کی پالیسی ایڈاپٹ کرنی چاہییوہ کہہ رہے تھے کہ۔کیا انگریزی کی ان اصطلاحات کے لٔے ہماری اردو زبان میں کؤی نعم البدل نہیں کیا ہماری اردو اتنی تہی دامن ہے ۔کیا ایک پیج کے مفہوم کے لٔے ہم نے یک زبان’ ہم خیال اور ہم رأے کی خوبصورت اصطلاحات قربان کر دی ہیں اور ماینڈ سیٹ کے لیے سوچ’ انداز فکر یا طرز فکر کی اصطلاحات کو تج کردیا ہے ۔
میں نے کہا کہ یہ تو ہمارے سیاست دان ہیں جو انگریزی میں اپنی بقراطیت ثابت کرنے کے لیے یوں اردو کو مسخ کر رہے ہیں لیکن ہمارے اخبارات اس میدان میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ اردو ادب کا صحافت کے ساتھ کتنا قدیم اورکس قدرگہرا رشتہ رہا ہے وہی اردو صحافت اردو زبان کو مسخ کرنے میں پیش پیش ہے بلاشبہہ اردو زبان کی ترقی اور فروغ میں اردو اخبارات کا بڑا اہم کردار رہا ہے۔ اسی زمانہ میں جب کہ اردو زبان کم سنی کے عہد سے نکل کر بلوغت کی شعوری منزلوں کو چھو رہی تھی اردو صحافت کا آغاز ہوا تھا۔یہ حقیقت ہے کہ اردو صحافت نے اپنے اوائل ہی سے اردو ادب اور اردو ادیبوں کو عوام سے روشناس کرایا اور یہ مبالغہ نہ ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ اردو ادب صحافت ہی کے ذریعہ عوام میں مقبول ہوااور پروان چڑھا۔
اردو شاعری کے بارے میں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسے جو فروغ ہوا اور عوام میں جو مقبولیت حاصل ہوئی اس میں شاہی درباروں۔‘ نوابوں کے ڈیروں اور مشاعروں کی پرانی روایت کا بڑا ہاتھ تھا لیکن اردو نثر کی ترقی خالصتاً صحافت کی مرہون منت رہی ہے۔
مولانا محمد علی جوہر کے ہمدرد ‘ سرسید کے رسالے تہذیب الاخلاق ‘ مولانا ابوالکلام آزاد کے اخبار الہلال او ر البلاغ‘ بنارس کے اردو اخبار آوازہ اخلاق ‘ کانپور کے زمانہ ‘ حسرت موہانی کے رسالہ اردوئے معلی اور امتیاز علی تاج کے کہکشاں اور مولانا ظفر علی خان کے اخبار زمیندار نے اردو شاعری کے فروغ کے ساتھ نثر کی ترقی اور ترویج میں جو اہم حصہ ادا کیا ہے وہ اردو ادب کی تاریخ کے لئے قابل فخر ہے۔ سرسید نے تہذیب الاخلاق کے ذریعہ اردو کے ادیبوں کی ایک کہکشاں سجائی تھی جس میں مولانا حالی‘ مولانا شبلی‘ ڈپٹی نذیر احمد‘ ذکا اللہ خان ‘ محسن الملک اور چراخ علی نمایاں ہی یہ اردو صحافت کی خوش قسمتی ہے کہ اردو ادب کے ممتاز دانشوروں اور شاعروں نے اردو صحافت کی عملی رہنمائی کی ہے جن میں مولانا محمد علی جوہر‘ مولانا ابوالکلام آزاد ‘ مولانا ظفر علی خان ‘ حیات اللہ انصاری ‘ غلام رسول مہر اور مولانا جالب نمایاں ہیں اور آزادی کے بعد فیض احمد فیض ‘ احمد ندیم قاسمی اور چراخ حسن حسرت اردو اخبارات کے مدیر رہے لیکن اسے بدقسمتی کہہ لیں یا بدلتے ہوئے حالات کے تقاضے کہ جب سے اردو صحافت نے تجارت کا لبادہ اوڑھا ہے ایڈیٹری خاندانی میراث بنتی جارہی ہے۔ اب یہ عہدہ محض اخبارات کے مالکوں کے بیٹوں اور بھتیجوں کے لئے مخصوص ہوکر رہ گیا ہے اور حقیقی ایڈیٹر مفقود ہوتے جا رہے ہیں۔
ایک زمانہ تک پاکستان میں صحافت کو زبان بندی کے مسئلہ کا سامنا رہا تھا لیکن اب اردو اخبارات کو زبان کی ابتری کے سنگین مسئلہ نے اپنی گرفت میں لے لیا ہے ۔ ایک زمانہ تھا کہ سائنس اور دوسرے علوم کی فنی اصطلاحات کے اردو میں مناسب ترجموں کی کوشش کو فوقیت دی جاتی تھی لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ یکسر مفقود ہوگیا ہے۔ انگریزی الفاظ کا ایک سیل بے کراں ہے کہ وہ اردوزبان میں اور اس کے راستہ اخبارات میں درآیا ہے۔ سائنس اور ٹیکنولوجی کی نئی اصطلاحات یعنی کمپیوٹر ‘ سافٹ ویر‘ ڈسک‘ ماؤس ‘ مانیٹر‘ کی بورڈ‘ کنکشن‘ ہارڈ ڈرائیو‘ براڈ بینڈ‘ انٹینا‘ ٹرانسسٹر اور ایسے ہی بے شمار الفاظ اور اصطلاحات ہیں جن کے ترجمے کے کوئی کوشش نہیں کی گئی اور یہی مستعمل ہوگئے ہیں لیکن بدقسمتی تو یہ ہے کہ اردو اخبارات ‘ اردو کے اچھے اور مقبول الفاظ ترک کر کے ان کی جگہ انگریزی کے الفاظ ٹھونسے جا رہے ہیں۔ مثلاً رو برو یا تخلیہ میں ملاقات کے لئے انگریزی کی اصطلاح ‘ ون ٹو ون استعمال کی جارہی ہے حالانکہ انگریزی کی صحیح اصطلاح ون آن ون ہے۔ اسی طرح تعطل اردو کا اتنا اچھا لفظ ہے اس کی جگہ سینہ تان کر ڈیڈ لاک استعمال کیا جارہا ہے ۔ انتخاب کی جگہ الیکشن ‘ عام انتخابات کی جگہ جنرل الیکشن ‘ جوہری طاقت کی جگہ ایٹامک انرجی‘ کا وائی کی جگہ آپریشن‘ حزب مخالف کی جگہ اپوزیشن‘بدعنوانی کی جگہ کرپشن‘ استاد کی جگہ ٹیچر ‘ مجلس قایمہ کی جگہ اسڈینڈنگ کمیٹی‘ جلسہ کو میٹنگ اور پارلیمان کے اجلاس کو سیشن لکھاجاتا ہے۔ چرس جو خاص طور پر اپنے ہاں کی سوغات ہے اسے اردو اخبارات کینیبیز لکھتے ہیں۔ محصول کو ڈیوٹی کہتے ہیں قرطاس ابیض اتنا اچھا لفظ ہے اب اخبارات اس کی جگہ وایٹ پیپر لکھتے ہیں اور ہوائ اڈہ کو ایرپورٹ ۔ ایک عرصہ ہوا قومی اسمبلی میں حزب مخالف کے کچھ اراکین گرفتار کر لئے گئے ان کو ایوان میں طلبی کے حکم کے لئے بے دھڑک پروڈکشن آرڈر لکھا جاتا رہا اور تو اور پیپلز پارٹی کے اراکین نے بغاوت کرکے اقتدار میں شمولیت کے لئے اپنا الگ دھڑا بنایا اور نام انہوں نے اسے پیٹریاٹ گروپ کا دیا ۔ اب ان سے کون پوچھے کہ پیٹریاٹ کے لئے محب وطن یا وفادار کے اتنے خوبصورت لفظ کو انہوں نے کیوں ترک کیا۔ کیا انگریزی کا لفظ استعمال کر کے وہ اپنے آپ کو اعلی و ارفع ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں یا جتن عوام کو بے وقوف بنانے کے ہیں۔
پچھلے دنوں ایک اخبار میں جلی سرخی دیکھ کر بے ساختہ ہنسی آگئی۔ سرخی تھی۔۔فری ہینڈ ملنے کے باوجود حکومت نے کوئی لیجسلیشن نہیں کی۔ ایک اخبار میں سرخی تھی۔۔۔یورپی یونین کی اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی لگانے کی دھمکی دی ہے۔ اس خبر میں لکھا تھا کہ پی وی سی کی ڈمپنگ کی انویسٹی گیشن کے لئے انکوایری ٹیم بھیجی جائے اگر ہماری بیڈ لینن پر اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی لگائی گئی تو ہماری ایکسپورٹ متاثر ہوگی۔ ہماری چھپن ہزار بیڈ لینن کی ایکسپورٹ یورپ کی مارکٹ میں جاتی ہیں جو کہ اٹھائیس فی صد
شئیر ہے۔ اب آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ کیا یہ اردو ہے؟ ۔ انگریزوں سے آزادی تو حاصل کر لی لیکن ایسا لگتا ہے کہ خود اپنے آپ اپنے اوپر مغربی ذہنی غلامی طاری کر لی۔ اس زمانہ میں جب ملک انگریزوں کا غلام تھا اردو زبان کی ایسی غلامانہ درگت نہیں بنی تھی۔۔
اردو پر انگریزی مسلط کرنے کی کوشش کے حق میں ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ انگریزی بین الاقوامی رابطہ اور سائنس تجارت صنعت اور ٹیکنولوجی کی زبان ہے اور اردو سے چمٹے رہنے کا مطلب ان شعبوں میں پسماندگی کی راہ اختیار کرنا ہے۔ لیکن اس دلیل کے حامی اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ چین ‘ روس ‘ جرمنی اور فرانس ایسے ترقی یافتہ ملکوں نے بھی آخر ترقی کی ہے اپنی زبانوں میں اپنے بچوں کو تعلیم دے کر اور اپنی زبان کو زندہ رکھ کر۔
سن ستر کے اوایل میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے سندہ کے اسکولوںمیں سندھی کو لازمی مضمون کے طور پر بحال کیا تھا تو رٔیس امروہوی نے لکھا تھا’’ اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘‘ ان کا یہ مصرعہ روزنامہ جنگ نے شہہ سرخی کی صورت میں شایع کیا تھااور ایک ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔ اس وقت تو اردو کا جنازہ نہیں نکلا تھا لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ اردو کا جنازہ نکلنے کے لیے تیار ہوگیا ہے۔
مذکورہ مضمون وائس آف امریکہ سے وابستہ سینیر صحافی سہیل انجم کےذریعہ ای میل سے موصول ہوا ہے ۔
آصف جیلانی
خواجہ آصف ملک کے ممتاز رہنما ہیں ۔۔ ان کا تعلق اس مردم خیز شہر سیالکوٹ سے ہے جہاں سے علامہ اقبال ابھرے جنہوںنے اردو شاعری کو ایسا نایاب خزینہ بخشا جس کی درخشندگی کبھی ماند نہیں پڑے گی اور سیالکوٹ کی اسی زمین سے فیض صاحب نے اردو کی بے مثل آبیاری کی
۔۔پچھلے دنوں میں ایک دوست کے ساتھ بیٹھا ایک ٹیلی وژن چینل پر خواجہ آصف کا انٹرویو دیکھ رہا تھا۔طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں خواجہ صاحب کہہ رہے تھے ’’ حکومت کے ایک فنکشنری ہوتے ہؤے مجھے جو انفارمیشن ہے اس کے بیسس پر مذاکرات کی پراگریس کو کوانٹی فأیی نہیں کر سکتا۔ ‘‘ میرے دوست نے اپنا سر پکڑ لیا ۔ خواجہ آصف کہہ رہے تھے’’ میں پھر رپیٹ کروں گا کہ یہ نیگوسیشن اوپن ہینڈڈ نہیں ہونے چاہیں۔ابھی تک جو بھی موو(Move) کیا جارہا ہے وہ کنسنسس ()Consensusکے ذریعہ کیا جارہا ہے اینڈ رزلٹ یہ ہے کہ ابھی تک جو آپریشن نہیں کیا گیا اس پر کنسنسس ہے اور فوج مکمل طور پر آن بورڈ ہے۔ ہم چاہیںگے کہ جلد پیس ریٹرن ہو‘‘ میرے دوست سر پکڑے روہانسی آواز میںبولے’’پاکستان میں اردو کا یہ کیا حشر ہورہا ہے؟۔ خواجہ صاحب کا یہ انٹرویو سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اردو نہیں بلکہ کؤی اور نٔئ اجنبی زبان ہے ۔ اس میں انگریزی کے الٹے سیدھے جو پیوند لگأے جارہے ہیں اس سے جان پڑتا ہے کہ اردو سے اس کے ناکردہ گنا ہوں کاانتقام لیا جارہا ہے میرے دوست نے کہا کہ ٹیلی وژن چینلز پر جو سیاسی مباحثے ہوتے ہیں ان میں سیاست دان انگریزی اصطلاحات کو طوطے کی طرح دہراتے ہیں۔ مثلا یہ انسٹیٹیوشنز ایک پیج پر نہیں ہیں۔ سب اسٹیک ہولڈرس کو آن بورڈ ہونا چاہے۔یہ ماینڈ سیٹ کی بات ہے کنسنسس اور ری کنسلیسشن کی پالیسی ایڈاپٹ کرنی چاہییوہ کہہ رہے تھے کہ۔کیا انگریزی کی ان اصطلاحات کے لٔے ہماری اردو زبان میں کؤی نعم البدل نہیں کیا ہماری اردو اتنی تہی دامن ہے ۔کیا ایک پیج کے مفہوم کے لٔے ہم نے یک زبان’ ہم خیال اور ہم رأے کی خوبصورت اصطلاحات قربان کر دی ہیں اور ماینڈ سیٹ کے لیے سوچ’ انداز فکر یا طرز فکر کی اصطلاحات کو تج کردیا ہے ۔
میں نے کہا کہ یہ تو ہمارے سیاست دان ہیں جو انگریزی میں اپنی بقراطیت ثابت کرنے کے لیے یوں اردو کو مسخ کر رہے ہیں لیکن ہمارے اخبارات اس میدان میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ اردو ادب کا صحافت کے ساتھ کتنا قدیم اورکس قدرگہرا رشتہ رہا ہے وہی اردو صحافت اردو زبان کو مسخ کرنے میں پیش پیش ہے بلاشبہہ اردو زبان کی ترقی اور فروغ میں اردو اخبارات کا بڑا اہم کردار رہا ہے۔ اسی زمانہ میں جب کہ اردو زبان کم سنی کے عہد سے نکل کر بلوغت کی شعوری منزلوں کو چھو رہی تھی اردو صحافت کا آغاز ہوا تھا۔یہ حقیقت ہے کہ اردو صحافت نے اپنے اوائل ہی سے اردو ادب اور اردو ادیبوں کو عوام سے روشناس کرایا اور یہ مبالغہ نہ ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ اردو ادب صحافت ہی کے ذریعہ عوام میں مقبول ہوااور پروان چڑھا۔
اردو شاعری کے بارے میں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسے جو فروغ ہوا اور عوام میں جو مقبولیت حاصل ہوئی اس میں شاہی درباروں۔‘ نوابوں کے ڈیروں اور مشاعروں کی پرانی روایت کا بڑا ہاتھ تھا لیکن اردو نثر کی ترقی خالصتاً صحافت کی مرہون منت رہی ہے۔
مولانا محمد علی جوہر کے ہمدرد ‘ سرسید کے رسالے تہذیب الاخلاق ‘ مولانا ابوالکلام آزاد کے اخبار الہلال او ر البلاغ‘ بنارس کے اردو اخبار آوازہ اخلاق ‘ کانپور کے زمانہ ‘ حسرت موہانی کے رسالہ اردوئے معلی اور امتیاز علی تاج کے کہکشاں اور مولانا ظفر علی خان کے اخبار زمیندار نے اردو شاعری کے فروغ کے ساتھ نثر کی ترقی اور ترویج میں جو اہم حصہ ادا کیا ہے وہ اردو ادب کی تاریخ کے لئے قابل فخر ہے۔ سرسید نے تہذیب الاخلاق کے ذریعہ اردو کے ادیبوں کی ایک کہکشاں سجائی تھی جس میں مولانا حالی‘ مولانا شبلی‘ ڈپٹی نذیر احمد‘ ذکا اللہ خان ‘ محسن الملک اور چراخ علی نمایاں ہی یہ اردو صحافت کی خوش قسمتی ہے کہ اردو ادب کے ممتاز دانشوروں اور شاعروں نے اردو صحافت کی عملی رہنمائی کی ہے جن میں مولانا محمد علی جوہر‘ مولانا ابوالکلام آزاد ‘ مولانا ظفر علی خان ‘ حیات اللہ انصاری ‘ غلام رسول مہر اور مولانا جالب نمایاں ہیں اور آزادی کے بعد فیض احمد فیض ‘ احمد ندیم قاسمی اور چراخ حسن حسرت اردو اخبارات کے مدیر رہے لیکن اسے بدقسمتی کہہ لیں یا بدلتے ہوئے حالات کے تقاضے کہ جب سے اردو صحافت نے تجارت کا لبادہ اوڑھا ہے ایڈیٹری خاندانی میراث بنتی جارہی ہے۔ اب یہ عہدہ محض اخبارات کے مالکوں کے بیٹوں اور بھتیجوں کے لئے مخصوص ہوکر رہ گیا ہے اور حقیقی ایڈیٹر مفقود ہوتے جا رہے ہیں۔
ایک زمانہ تک پاکستان میں صحافت کو زبان بندی کے مسئلہ کا سامنا رہا تھا لیکن اب اردو اخبارات کو زبان کی ابتری کے سنگین مسئلہ نے اپنی گرفت میں لے لیا ہے ۔ ایک زمانہ تھا کہ سائنس اور دوسرے علوم کی فنی اصطلاحات کے اردو میں مناسب ترجموں کی کوشش کو فوقیت دی جاتی تھی لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ یکسر مفقود ہوگیا ہے۔ انگریزی الفاظ کا ایک سیل بے کراں ہے کہ وہ اردوزبان میں اور اس کے راستہ اخبارات میں درآیا ہے۔ سائنس اور ٹیکنولوجی کی نئی اصطلاحات یعنی کمپیوٹر ‘ سافٹ ویر‘ ڈسک‘ ماؤس ‘ مانیٹر‘ کی بورڈ‘ کنکشن‘ ہارڈ ڈرائیو‘ براڈ بینڈ‘ انٹینا‘ ٹرانسسٹر اور ایسے ہی بے شمار الفاظ اور اصطلاحات ہیں جن کے ترجمے کے کوئی کوشش نہیں کی گئی اور یہی مستعمل ہوگئے ہیں لیکن بدقسمتی تو یہ ہے کہ اردو اخبارات ‘ اردو کے اچھے اور مقبول الفاظ ترک کر کے ان کی جگہ انگریزی کے الفاظ ٹھونسے جا رہے ہیں۔ مثلاً رو برو یا تخلیہ میں ملاقات کے لئے انگریزی کی اصطلاح ‘ ون ٹو ون استعمال کی جارہی ہے حالانکہ انگریزی کی صحیح اصطلاح ون آن ون ہے۔ اسی طرح تعطل اردو کا اتنا اچھا لفظ ہے اس کی جگہ سینہ تان کر ڈیڈ لاک استعمال کیا جارہا ہے ۔ انتخاب کی جگہ الیکشن ‘ عام انتخابات کی جگہ جنرل الیکشن ‘ جوہری طاقت کی جگہ ایٹامک انرجی‘ کا وائی کی جگہ آپریشن‘ حزب مخالف کی جگہ اپوزیشن‘بدعنوانی کی جگہ کرپشن‘ استاد کی جگہ ٹیچر ‘ مجلس قایمہ کی جگہ اسڈینڈنگ کمیٹی‘ جلسہ کو میٹنگ اور پارلیمان کے اجلاس کو سیشن لکھاجاتا ہے۔ چرس جو خاص طور پر اپنے ہاں کی سوغات ہے اسے اردو اخبارات کینیبیز لکھتے ہیں۔ محصول کو ڈیوٹی کہتے ہیں قرطاس ابیض اتنا اچھا لفظ ہے اب اخبارات اس کی جگہ وایٹ پیپر لکھتے ہیں اور ہوائ اڈہ کو ایرپورٹ ۔ ایک عرصہ ہوا قومی اسمبلی میں حزب مخالف کے کچھ اراکین گرفتار کر لئے گئے ان کو ایوان میں طلبی کے حکم کے لئے بے دھڑک پروڈکشن آرڈر لکھا جاتا رہا اور تو اور پیپلز پارٹی کے اراکین نے بغاوت کرکے اقتدار میں شمولیت کے لئے اپنا الگ دھڑا بنایا اور نام انہوں نے اسے پیٹریاٹ گروپ کا دیا ۔ اب ان سے کون پوچھے کہ پیٹریاٹ کے لئے محب وطن یا وفادار کے اتنے خوبصورت لفظ کو انہوں نے کیوں ترک کیا۔ کیا انگریزی کا لفظ استعمال کر کے وہ اپنے آپ کو اعلی و ارفع ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں یا جتن عوام کو بے وقوف بنانے کے ہیں۔
پچھلے دنوں ایک اخبار میں جلی سرخی دیکھ کر بے ساختہ ہنسی آگئی۔ سرخی تھی۔۔فری ہینڈ ملنے کے باوجود حکومت نے کوئی لیجسلیشن نہیں کی۔ ایک اخبار میں سرخی تھی۔۔۔یورپی یونین کی اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی لگانے کی دھمکی دی ہے۔ اس خبر میں لکھا تھا کہ پی وی سی کی ڈمپنگ کی انویسٹی گیشن کے لئے انکوایری ٹیم بھیجی جائے اگر ہماری بیڈ لینن پر اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی لگائی گئی تو ہماری ایکسپورٹ متاثر ہوگی۔ ہماری چھپن ہزار بیڈ لینن کی ایکسپورٹ یورپ کی مارکٹ میں جاتی ہیں جو کہ اٹھائیس فی صد
شئیر ہے۔ اب آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ کیا یہ اردو ہے؟ ۔ انگریزوں سے آزادی تو حاصل کر لی لیکن ایسا لگتا ہے کہ خود اپنے آپ اپنے اوپر مغربی ذہنی غلامی طاری کر لی۔ اس زمانہ میں جب ملک انگریزوں کا غلام تھا اردو زبان کی ایسی غلامانہ درگت نہیں بنی تھی۔۔
اردو پر انگریزی مسلط کرنے کی کوشش کے حق میں ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ انگریزی بین الاقوامی رابطہ اور سائنس تجارت صنعت اور ٹیکنولوجی کی زبان ہے اور اردو سے چمٹے رہنے کا مطلب ان شعبوں میں پسماندگی کی راہ اختیار کرنا ہے۔ لیکن اس دلیل کے حامی اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ چین ‘ روس ‘ جرمنی اور فرانس ایسے ترقی یافتہ ملکوں نے بھی آخر ترقی کی ہے اپنی زبانوں میں اپنے بچوں کو تعلیم دے کر اور اپنی زبان کو زندہ رکھ کر۔
سن ستر کے اوایل میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے سندہ کے اسکولوںمیں سندھی کو لازمی مضمون کے طور پر بحال کیا تھا تو رٔیس امروہوی نے لکھا تھا’’ اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘‘ ان کا یہ مصرعہ روزنامہ جنگ نے شہہ سرخی کی صورت میں شایع کیا تھااور ایک ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔ اس وقت تو اردو کا جنازہ نہیں نکلا تھا لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ اردو کا جنازہ نکلنے کے لیے تیار ہوگیا ہے۔
مذکورہ مضمون وائس آف امریکہ سے وابستہ سینیر صحافی سہیل انجم کےذریعہ ای میل سے موصول ہوا ہے ۔