ماوراء
محفلین
اردو کا مستقبل، امکانات اور اندیشے
سنجے گوڈ بولے
کرشن مھشیوری
سنجے گوڈ بولے
کرشن مھشیوری
اردو ہے جسکا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستان میں دھوم ہماری زبان کی ہے
ہندوستان میں دھوم ہماری زبان کی ہے
میری آج کی گفتگو جس قدر محدود ہے اسکا اتنا ہی وسیع و لا محدود ہے۔ براہِ راست اس موضوع پر گفتگو کرنے سے قبل میں ‘ اردو زبان‘ کی مختصر تارخ بیان کرتا چلوں۔ زبان کے طور پر لفظ ‘اردو‘ ابھی کمسن اور نسبتاً نو عمر ہے۔ پرانے زمانے میں ‘اردو‘ نام کی کوئی زبان نہیں، جو لوگ قدیم اردو کی اصلاح استعمال کرتے ہیں وہ لسانی اور تاریخی اعتبار سے نادرست ہے۔
اردو کا نام
بقول شمس الرحمٰن فاروقی: زبان کی حیثیت سے لفظ ‘اردو‘ پہلی بار ١٧٨٠ء کے آس پاس استعمال ہوا۔ اتفاق یہ کہ اولین استعمال کی تمام کی تمام، یا تقریباً تمام مثالیں صفحی ہی کے یہاں ہیں۔ دیوان اول ہی میں ہے۔ البتہ مصفحی کو ہے ریختے میں دعویٰ
یعنی کے ہے زبان داں اردو کی زبان کا
یعنی کے ہے زبان داں اردو کی زبان کا
اغلب ہے کہ یہاں ‘اردو‘ سے ‘ شاہجہان آباد کا شہر‘ مراد ہے نہ کہ ‘اردو زبان‘۔ فقرہ ‘اردو کی زبان‘ کے معنی وہ زبان سمجھنا جسکا نام ‘اردو‘ ہے اسی وقت صیحح ہو گا جب یہ یقین ہو کہ لفظ ‘اردو‘ کو ‘شاہجہان آباد‘ کے معنی میں نہیں استعمال کیا گیا ہے۔ شمال کے لوگ عرصہ دراز تک ‘اردو‘ کو ‘شاہجہان آباد‘ کے معنی میں بولتے تھے اور ‘زبان اردو‘ سے بعض اوقات ‘ فارسی‘ بھی مراد لی گئی ہے۔ خیر مصحفی کے دیوان چہارم (مرتبہ تقریباً ١٧٩٦ء) میں جو استعمال ہے وہ صاف طور پر ‘زبان اردو‘ کے معنی میں ہے۔ لکھنوء والوں کی شکایت میں مصحفی ایک مخمس میں کہتے ہیں :
ہر جائے گوش چشم بناناک کان کو
اپنی زبان سمجھے ہیں اردو زبان کو
اپنی زبان سمجھے ہیں اردو زبان کو
اسی طرح مصحفی کا ایک غیر مطبوعہ درج ذیل شعر جو علامہ حافظ محمد شیرانی نے اپنے ایک مضمون میں ‘اردو زبان‘ اور اسکے مختلف نام‘ میں درج کیا ہے۔ اس شعر کا زمانہ ١٧٧١ء سے ١٧٧٣ء کے آس پاس کا ہو سکتا ہے۔
خدا رکھے زبان ہم نے سنی ہے میر ومرزا کی
کہیں کس منہ سے ہم اے مصحفی اردو ہماری ہے
جس طرح بچے کی ولادت اور اسکے نام رکھنے کی رسم تک گو خاصہ کم عرصہ ہوتا ہے مگر اس قلیل عرصہ میں بھی اس بچے کو ماں، باپ اور اسکے دیگر احباب کئی ناموں سے پکارتے ہیں۔ اماں کا لال، دادی کا دلارا وغہرہ، اور اسکے اعضاء و حرکات میں اسکے والدین و رشتہ داروں کا وجود تلاش کیا جاتا ہے۔ اور پھر نام تجویز کیا جاتا ہے، اور وہ اسی نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ اردو کا بھی تقریباً کچھ ایسا ہی حال ہے، اسکے نام ‘اردو‘ سے قبل اسے مختلف ناموں سے پکارا، لکھا اور پڑھا گیا۔ اسے شروع میں ‘ہندی‘، ‘دہلوی‘، ‘گجری‘، ‘دکنی‘، اور پھر ‘ریختہ‘، کہا گیا۔ جبکہ برطانوی حکومت کے پیروکاروں نے اپنی لاعلمی، پسند اور سیاسی مصلحت کے طور پر اس زبان کو مختلف ناموں سے یاد کیا۔ انگریزوں کے اس زبان کے لیے دئیے گئے ناموں میں کہیں کس منہ سے ہم اے مصحفی اردو ہماری ہے
Hindostanic, Hindostanee, Indostan, Indostans
شامل ہیں۔ ان ناموں سے تقریباً اردو والے نا آشنا تھے۔ (ہاں آجکل دیونا گری میں لکھی اردو کو لوگ ہندوستانی کے نام سے ضرور یاد کرتے ہیں۔ )
ایک اور بات واضح کرتا چلوں کہ ‘ہندی‘ (آج کی جدید ہندی نہیں) ہو کو ‘زبان اردوئے معلٰی، کہا گیا، پھیر دھیرے دھیرے یہ نام گھٹ کر ‘زبان اردو‘ یا ‘اردو کی زبان‘ اور بالآخر ‘اردو‘ رہ گیا۔
اردو کے ہلکے تاریخی اسکیچ کے بعد اب بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ہندوستان میں اٹھارہ قومی زبانوں میں سے ایک اردو ہے، جو سیاسی اور ذاتی وجوہ کی بناء پر الجھی رہتی ہے۔ جبکہ پاکستان میں اردو واحد قومی زبان قبول اور تسلیم کی جا چکی ہے۔ مگر صبائی سطح پر اردو کی حیثیت ایک باندی کی سی ہے۔ اس وقت دنیا کے سو سے زائید ممالک میں کسی نہ کسی مقام پر کوئی نہ کوئی اردو بولنے، لکھنے اور پڑھنے والا موجود ہے۔ یعنی اردو بولنے، لکھنے اور پڑھنے والے ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اردو کی جڑیں، ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک میں ہیں اور اس حقیقت کی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ کوئی بے جڑ پودا تا دیر سلامت نہیں رہ سکتا۔ اس ‘ اردو‘ پودے کی جڑیں تو ہیں، مگر اب اسکی دیکھ بھال، پھیلاؤ کے لئے جڑوں کو پانی اور کھاد کی ضرورت ہے تا کہ یہ نہ صرف رہتی دنیا تک سلامت رہے بلکہ اپنی جڑوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ پھول پھل اور گھنا سایہ بھی عطا کرتی رہے۔
اردو کے مسائل
اردو کی کتابوں کی اشاعت میں ہر سال بتدریج اضافے کے باوجود اردو قارئین کی تعداد میں اضافہ کے بجائے کمی آ رہی ہے۔ مادہ پرستی کے غلبہ سے لیکر ٹی۔ وی چینلز تک اسے کے بہت سے اسباب ہیں۔ آج ہر طرف اردو کے کچھ خود ساختہ سر پرست پیدا ہوگئے ہیں، جنہیں صرف اپنے نام و نمود کی فکر ہے اور انہیں اپنی ناک سے آگے کبھی کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ انہیں اردو زبان اور اسکے مسائل سئ نہ تو کوئی دلچسپی ہے نہ حقیقی آگہی۔ آج اردو کو درپیش مسائل کا رونا رونے سے قبل ہمیں سنجیدگی کے ساتھ سوچنا ہو گا کہ ہم اردو داں اس کے لیے کیا کر رہے ہیں اور کیا کرنا ہے؟ اردو کا ایک مسئلہ اسکی تدریس وتعلیم کے میدان کا سکڑنا بھی ہے۔ آج یہ مسئلہ دن بہ دن زور پکڑتا جا رہا ہے۔ اردو تعلیم و تدریس کو فروغ دینا نہایت ہی اہم، ضروری اور ہمارے اولین اقدامات میں سے ایک ہونا چاہیے۔ کیا قومی اور کیا صوبائی سطح تقریباً آج ہندوستان کے ہر صوبے میں اس مسئلے پر باتیں تو سبھی کرتے ہیں مگر کوئی مثبت عمل نہیں ہو رہا۔ وہی پرانی مگر سچی بات دہرا رہا ہوں کہ آج بڑے سے بڑے ادیب شاعر کی اولادیں اردو سے نہ صرف نا آشنا ہیں بلکہ انہیں اس سے کچھ رغبت بھی نہیں۔ ہمیں انگریزی کے اس جملے پر عمل پیرا ہونا ہو گا کہ Charity begins at home
اور اسکو آگے بڑھانا ہو گا۔ چراغ تلے اندھیرے والی بات کو غلط ثابت کرنے کے لئے اردو کے شاعروں اور ادیبوں کو پہلے انفرادی طور پر اپنی اولادوں کو اردو سے آشنا کرنے کی ضرورت ہے پھر اجتماعی طور پر اسکی ترقی کے لئے کوشاں ہونا پڑیگا۔
زبان اردو مذہب نہیں
ہماری زبان “ اردو“ مذہب نہیں۔ اسے مذہب کے ساتھ جوڑنا
اسکے ساتھ دشمنی کرنے کے مترادف ہے۔ یہ غلط نظریہ کی ‘اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے‘ کو کچھ لوگ حقیقت کا جامہ پہنانے کی ناکام کوشش میں لگے ہوئے ہیں، جو سراسر غلط اور مضر ہے۔ اور اگر کچھ لوگ ایسا سوچتے ہیں تو اسمیں انکی نظر اور سوچ کا قصور ہے۔ تاریخ کے ساتھ حال اس بات کا گوارہ ہے کہ اس زبان کے لئے ہندو، مسلم اور عیسائی ہر کسی نے بلاامتیاز مذہب و ملت کام کیا ہے۔ یہ ہر اس فرد کی زبان ہے جو اس کے قریب آنا چاہتا ہے۔ جس طرح اس زبان میں دوسری زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر سمو لینے کی صلاحیت ہے، اسی طرح اس نے ہر حبِ اردو کو نہ صرف قبول کیا بلکہ عزت بھی بخشی۔ میر ہو یا بدھ قلندر سنگھ، فراق ہو یا فیض یا وزیر آغا ہو یا گوپی چند نارنگ ہر کسی نے اردو کی ارتنی ہی خدمت کی ہے اور اردو نے بھی ان کو عزت و شہرت سے مالا مال کیا ہے۔ آل احمد سرور ایک جگہ لکھتے ہیں کہ:
“اردو کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ نہ تو یہ صرف ایک یا دو ریاستوں کی حدود میں مقید ہے نہ ایک مذہبی گروہ کے ماننے والوں میں۔ بلکہ خدا کے گھر کی طرح اسکی بہت سی ریاستوں میں بستیاں ہیں اور اسکے بولنے والے یا اس کے بولنے والے یا اس کے سمجھنے والے کشمیر سے کنیا کماری اور کلکتے سے کچھ تک پھیلے ہوئے ہیں، (پہچان اور پرکھ - - - - - ص نمبر ٦)
رسم الحظ
اب بات کچھ اردو کے لباس یعنی رسم الحظ۔ جہاں تک رسم الحظ کو بدلنے کی بات ہے، اسے خوامخواہ مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ سیدھی سی بات ہے کہہ اس رسم الحظ کے بدلنے سے مکمل طور پر جائیگی۔ رسم الحظ کے بدلنے سے مکمل طور پر جائیگی۔ رسم الحظ بدلنے والی بات کہنے والوں کو شاید اسکا فوری نقصان نظر نہ آتا ہو مگر یہ حقیقت ہے کہ جو غیر اردو دان اس زبان کو سراہتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اسکا رسم الحظ بدل کر اردو کا حلقہ وسیع ہو گا، یہ سراسر غلط مفروضہ ہے کیونکہ اس طرح سے جو اردوداں اردو کو ملیں گے، انکا تلفظ جس طرز کا ہو گا یہ سوچ کر ہی دل دہل جاتا ہے۔ واضح رہے کہ غیر اردوداں اگر اس زبان کے الفاظ و محاورات سے جس بناء پر متاثر ہیں وہ ہماری اس زبان کے دیگر لوازمات کے ساتھ اسکا انداز اور درست تلفظ ہی ہے جو صرف اردو رسم الحظ ہی میں ممکن ہے۔ مثال کے طور پر پڑوسن کو رومن میں Parosan یا Padosan لکھا جائے گا، تو اسکی شکل آگے چل کر ‘ پڈوسن‘ یا ‘ پروسن‘ ہو جائے گی۔ یہ صرف ایک عام اور ادنٰی مثال ہے، اسطرح کے ہزاروں الفاظ اور محاورات ہیں جنکا دیگر رسم الحظ دیگر رسم الحظ میں فوری اور وقتی تلفظ تو ممکن ہے مگر رسم الحظ کی تبدیلی مستقبل قریب میں اسکی شکل اور تلفظ کو برباد کر دیگی۔
اس سلسلے میں میں دو باتوں کا خاص طور پر کرتا چلوں۔ ایک یہ کہ ترکی کا رسم الحظ رومن کر کے اس کی ساتھ کھلواڑا ہوا ہے اس سے ہم سب بہ خوبی واقف ہیں۔ آج ترکی کا کلاسیکل ادب انھیرے میں دھکیل دیا گیا ہے۔ جو شاید ترکوں کی آئندہ نسل اپنے ترک کلاسیکل ادب سے تو کیا خود اپنے ادیبوں کے ناموں سے بھی ناواقف ہو گی۔ دوسری بات یہ کہ کچھی (Kutchi) ادب اپنی ایک الگ حیثیت رکھتا ہے۔ اسکو دنیا کے کسی بھی اچھے ادب کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے، مگر اسکی اشاعت و تدریج کے بیچ حائل دیوار صرف اس زبان کا اپنا رسم الحظ ہوتا تو یہ اپنی موجودہ حالت سے کچھ اور ہی ہوتا۔ ہمیں اوپر والے کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ہماری زبان ‘اردو‘ کا اپنا رسم الحظ ہے، جو قائم اور دائم رہے گا۔ جب تک اردو لکھنے، سمجھنے اور پڑھنے والے موجود ہیں اردو ایک زبان کی حیثیت سے نہ صرف موجود رہے گی بلکہ اس کا رسم الحظ بھی یہی رہے گا۔