ناصر علی مرزا
معطل
سید تاثیر مصطفی 27 /06/2014
لاہور ہائی کورٹ نے ملک میں اردو کے بطور سرکاری، دفتری و تعلیمی زبان نفاذ کے سلسلے میں وفاقِ پاکستان سے جواب طلب کرلیا ہے اور اسے ہدایت کی ہے کہ وہ ایک ماہ کے اندر اندر جواب دے کہ آئین پاکستان کی دفعہ 251 پر اب تک کیوں عمل نہیں کیا گیا جب کہ آئین کی اس دفعہ میں وضاحت کی گئی ہے کہ اردو پاکستان کی قومی، سرکاری، دفتری اور تعلیمی زبان ہوگی اور حکومت 15 سال کے اندر بتدریج انگریزی کی جگہ اردو کے نفاذ کے لیے عملی اقدامات کرے گی۔ اس طرح حکومت 1988ء تک اردو کو بطور سرکاری و قومی زبان ملک بھر میں لاگو کرنے کی پابند تھی، مگر 15 سال کے بجائے حکومت 40 سال بعد بھی اس کا نفاذ کیوں نہیں کر سکی اور اب تک اس نے اس سلسلے میں کیا اقدامات کیے ہیں؟
شریف نظامی صدر قومی زبان تحریک کی ایک آئینی پٹیشن
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سید افتخار حسین نے یہ حکم ڈاکٹر شریف نظامی صدر قومی زبان تحریک کی ایک آئینی پٹیشن پر دیا ہے۔ معروف قانون دان جناب اے کے ڈوگر کے ذریعے جون 2013ء میں دائر کی گئی اس پٹیشن میں وفاق پاکستان کو مرکزی سیکرٹری تعلیم اور وفاقی سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے اور حکومت پنجاب کے سیکرٹری وزارتِ تعلیم کو فریق بنایا گیا ہے۔ ڈاکٹر شریف نظامی نے یہ پٹیشن دراصل پنجاب میں پہلی جماعت سے انگریزی کو لازمی قرار دینے اور تمام سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں انگریزی کو بطور ذریعہ تعلیم نافذ کرنے کے پنجاب حکومت کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے دائر کی تھی، جس میں استدعا کی گئی تھی کہ آئین کی دفعہ 251 پر عمل درآمد کرتے ہوئے اردو کو سرکاری و قومی زبان کے طور پر لاگو کیا جائے اور پنجاب میں انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کا نوٹیفکیشن منسوخ کیا جائے۔
٭٭٭٭
اس پٹیشن کی سماعت ابتدا میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کی۔ انہوں نے تینوں مدعا علیہان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے جواب طلب کیا، جس پر مرکزی وزارت تعلیم نے عدالت کو بتایا کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی معاملہ بن گیا ہے اور اب صوبے تعلیم کے معاملات میں مکمل آزاد ہیں، اس لیے وفاقی وزارت تعلیم کو اس مقدمہ میں استثناء دے دیا جائے۔ عدالت نے ان کی یہ استدعا قبول کرلی۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا جواب تھا کہ اب بین الصوبائی رابطوں اور قومی ورثہ کی الگ وزارت بن گئی ہے اور یہ معاملہ ان سے متعلق ہے۔ عدالت نے اس نکتے کو مانتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو دوبارہ نوٹس جاری نہیں کیا، جب کہ پنجاب حکومت کا جواب تھا کہ انگریزی بین الاقوامی زبان ہے، سائنس کی کتب اردو زبان میں موجود ہی نہیں، اس لیے نئی نسل کو آنے والے چیلنجوں کے لیے تیار کرنے کے لیے انگریزی زبان میں تعلیم دینا ضروری ہوگیا ہے۔ اس عرصے کے دوران جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے تبادلے کے باعث یہ مقدمہ جسٹس افتخار حسین کی عدالت میں منتقل ہوگیا اور عدالت نے قومی ورثہ کی وزارت کو نوٹس جاری کیا کہ وہ بتائے کہ اس نے اب تک اردو کے نفاذ کے لیے کیا کیا اقدامات کیے ہیں اور حکومت سے پوچھ کر جواب دے کہ وہ کب تک اردو کو بطور سرکاری قومی زبان نافذ کرے گی۔ عدالت کے نوٹس پر گزشتہ سماعت کے دوران قومی ورثہ کی وزارت نے مقتدرہ قومی زبان کی کارکردگی کا ایک ضمیمہ عدالت میں پیش کردیا کہ حکومت اردو کے نفاذ کے لیے بڑی کوششیں کررہی ہے اور گزشتہ حکومت نے اس سلسلے میں تین سینیٹرز اور تین ارکان قومی اسمبلی پر مشتمل ایک کمیٹی بھی بنائی تھی۔ تاہم عدالت نے استفسار کیا کہ اردو کے نفاذ کی مدت 1988ء میں ختم ہوچکی، اب حکومت بتائے کہ وہ کب تک اسے بطور سرکاری و قومی زبان لاگو کرے گی؟ اس دوران عدالت میں اُس وقت دلچسپ صورت حال پیدا ہوگئی جب مدعی ڈاکٹر شریف نظامی کے وکیل اے کے ڈوگر ایڈووکیٹ نے عدالت کے سامنے لارڈ میکالے کی فروری 1835ء کی ایک تقریر کا حوالہ دیا جس میں اُس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نظام تعلیم کے ذریعے ہم برصغیر میں پلنے والی نسلوں کی سوچ تک تبدیل کردیں گے۔ فاضل عدالت نے یہ ریمارکس پڑھ کر مدعی کے وکیل جناب اے کے ڈوگر سے کہا کہ اس اقتباس کی نقل یہاں موجود لوگوں میں بھی تقسیم کریں۔
اب عدالت نے اگلی سماعت تک وفاقی حکومت سے دوٹوک جواب طلب کرلیا ہے اور ہدایت کی ہے کہ وہ عدالت کو بتائے کہ وہ کیوں آئین کی دفعہ 251 کے تحت اردو کو لاگو نہیں کررہی۔
اس عدالتی نوٹس کے بعد وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت نے اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔ حکومتی کارروائیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اردو کا نفاذ نہیں چاہتی بلکہ آئین کے اس آرٹیکل پر عملدرآمد سے گریزاں ہے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رکن قومی اسمبلی ماروی میمن نے قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کردیا ہے۔ آئینی ترمیمی بل 2014ء کے نام سے پیش کیے جانے والے اس بل کو آئین پاکستان کی دفعہ 251 کا متبادل قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بلوچی، بلتی، براہوی، پنجابی، پشتو، شینا، سرائیکی، ہندکو، اردو پاکستان کی قومی زبانیں ہیں۔ ملک کی بڑی بڑی مادری زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کے لیے ماہرین پر مشتمل ایک نیشنل لینگوئج کمیشن تشکیل دیا گیا ہے۔ اس بل کی منظوری کے 15 سال تک پاکستان کی قومی زبان انگریزی رہے گی۔ تاہم اگلے پندرہ سال کے دوران اس کی جگہ اردو نافذ کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے۔
معلوم ہوا ہے کہ اس بل کی منظوری کے لیے مسلم لیگ (ن) اور اس کی حکومت خاصی سرگرم ہے۔ اس مقصد کے لیے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کا تین روز تک اجلاس بھی ہوتا رہا ہے۔ خیال یہی ہے کہ جب حکومت اس ترمیمی بل کی منظوری چاہتی ہے تو حکومتی پارٹی کے ارکان اس بل کی حمایت کریں گے۔ اس طرح یہ متنازع بل بآسانی منظور ہو جائے گا، جس میں آٹھ زبانوں (بلکہ اس میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے) کو قومی زبان کا درجہ مل جائے گا۔ اور اس طرح نہ صرف اتحادِ ملت پارہ پارہ ہو جائے گا بلکہ بے پناہ انتظامی مشکلات بھی پیدا ہو جائیں گی۔
ماروی میمن کے اس بل کے پیش کرنے کے بعد پنجاب حکومت کے زیر انتظام کام کرنے والا ادارہ پلاک (پنجابی انسٹی ٹیوٹ فار لینگویج آرٹ اینڈ کلچر) بھی اردو کے خلاف سرگرم ہو گیا ہے اور اس کی سربراہ ڈاکٹرصغریٰ صدف تو کھلے عام اردو کے خلاف اپنے بغض اور کینے کا اظہار کرتی پھر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اردو کے نام پر پنجابی زبان اور ثقافت پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔ ان کا الزام ہے کہ یوپی سے آنے والے لوگوں نے یہ قبضہ کیا ہے۔ پنجاب حکومت کے ایک سرکاری ادارے کی سربراہی کرنے والی اس خاتون کا یہ بھی کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی علیحدگی کی وجہ اردو زبان تھی۔ اگر اردو کو قومی زبان بنانے پر اصرار نہ کیا جاتا تو پاکستان نہ ٹوٹتا۔
ایک طرف ’پلاک‘ کی سربراہ یہ زہر افشانیاں کررہی ہیں، دوسری جانب قومی زبان تحریک کے عہدیدار جن میں سے بیشتر پنجابی بولنے والے لوگ اور سائنسدان ہیں، قومی جذبے سے سرشار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اردو میں نہ صرف ذریعہ تعلیم بننے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے بلکہ اردو ہی کے ذریعے پاکستانی قوم کو یکجا کیا جاسکتا ہے، ورنہ علاقائی زبانوں کا پنڈورا بکس کھولا گیا تو قومی سلامتی پارہ پارہ ہوجائے گی۔ قومی زبان تحریک کے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماروی میمن کے ترمیمی بل کے ذریعے حکومت اردو کا رسم الخط تبدیل کرنے کی سازش کررہی ہے لیکن وہ اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ کاش حکومت جو پہلے ہی بے پناہ مسائل سے دوچار ہے اور اب تک کچھ ڈیلیور نہیں کرسکی، ایک نیا فساد کھڑا کرنے سے باز رہے اور قومی امنگوں اور یک جہتی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اردو کو قومی زبان اور ذریعہ تعلیم بنانے کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی نہ کرے، ورنہ پاکستان کو تو اِن شاء اللہ کچھ نہیں ہوگا البتہ اِس حکومت کا باقی رہنا مشکل ہوجائے گا۔
لاہور ہائی کورٹ نے ملک میں اردو کے بطور سرکاری، دفتری و تعلیمی زبان نفاذ کے سلسلے میں وفاقِ پاکستان سے جواب طلب کرلیا ہے اور اسے ہدایت کی ہے کہ وہ ایک ماہ کے اندر اندر جواب دے کہ آئین پاکستان کی دفعہ 251 پر اب تک کیوں عمل نہیں کیا گیا جب کہ آئین کی اس دفعہ میں وضاحت کی گئی ہے کہ اردو پاکستان کی قومی، سرکاری، دفتری اور تعلیمی زبان ہوگی اور حکومت 15 سال کے اندر بتدریج انگریزی کی جگہ اردو کے نفاذ کے لیے عملی اقدامات کرے گی۔ اس طرح حکومت 1988ء تک اردو کو بطور سرکاری و قومی زبان ملک بھر میں لاگو کرنے کی پابند تھی، مگر 15 سال کے بجائے حکومت 40 سال بعد بھی اس کا نفاذ کیوں نہیں کر سکی اور اب تک اس نے اس سلسلے میں کیا اقدامات کیے ہیں؟
شریف نظامی صدر قومی زبان تحریک کی ایک آئینی پٹیشن
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سید افتخار حسین نے یہ حکم ڈاکٹر شریف نظامی صدر قومی زبان تحریک کی ایک آئینی پٹیشن پر دیا ہے۔ معروف قانون دان جناب اے کے ڈوگر کے ذریعے جون 2013ء میں دائر کی گئی اس پٹیشن میں وفاق پاکستان کو مرکزی سیکرٹری تعلیم اور وفاقی سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے اور حکومت پنجاب کے سیکرٹری وزارتِ تعلیم کو فریق بنایا گیا ہے۔ ڈاکٹر شریف نظامی نے یہ پٹیشن دراصل پنجاب میں پہلی جماعت سے انگریزی کو لازمی قرار دینے اور تمام سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں انگریزی کو بطور ذریعہ تعلیم نافذ کرنے کے پنجاب حکومت کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے دائر کی تھی، جس میں استدعا کی گئی تھی کہ آئین کی دفعہ 251 پر عمل درآمد کرتے ہوئے اردو کو سرکاری و قومی زبان کے طور پر لاگو کیا جائے اور پنجاب میں انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کا نوٹیفکیشن منسوخ کیا جائے۔
٭٭٭٭
اس پٹیشن کی سماعت ابتدا میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کی۔ انہوں نے تینوں مدعا علیہان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے جواب طلب کیا، جس پر مرکزی وزارت تعلیم نے عدالت کو بتایا کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی معاملہ بن گیا ہے اور اب صوبے تعلیم کے معاملات میں مکمل آزاد ہیں، اس لیے وفاقی وزارت تعلیم کو اس مقدمہ میں استثناء دے دیا جائے۔ عدالت نے ان کی یہ استدعا قبول کرلی۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا جواب تھا کہ اب بین الصوبائی رابطوں اور قومی ورثہ کی الگ وزارت بن گئی ہے اور یہ معاملہ ان سے متعلق ہے۔ عدالت نے اس نکتے کو مانتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو دوبارہ نوٹس جاری نہیں کیا، جب کہ پنجاب حکومت کا جواب تھا کہ انگریزی بین الاقوامی زبان ہے، سائنس کی کتب اردو زبان میں موجود ہی نہیں، اس لیے نئی نسل کو آنے والے چیلنجوں کے لیے تیار کرنے کے لیے انگریزی زبان میں تعلیم دینا ضروری ہوگیا ہے۔ اس عرصے کے دوران جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے تبادلے کے باعث یہ مقدمہ جسٹس افتخار حسین کی عدالت میں منتقل ہوگیا اور عدالت نے قومی ورثہ کی وزارت کو نوٹس جاری کیا کہ وہ بتائے کہ اس نے اب تک اردو کے نفاذ کے لیے کیا کیا اقدامات کیے ہیں اور حکومت سے پوچھ کر جواب دے کہ وہ کب تک اردو کو بطور سرکاری قومی زبان نافذ کرے گی۔ عدالت کے نوٹس پر گزشتہ سماعت کے دوران قومی ورثہ کی وزارت نے مقتدرہ قومی زبان کی کارکردگی کا ایک ضمیمہ عدالت میں پیش کردیا کہ حکومت اردو کے نفاذ کے لیے بڑی کوششیں کررہی ہے اور گزشتہ حکومت نے اس سلسلے میں تین سینیٹرز اور تین ارکان قومی اسمبلی پر مشتمل ایک کمیٹی بھی بنائی تھی۔ تاہم عدالت نے استفسار کیا کہ اردو کے نفاذ کی مدت 1988ء میں ختم ہوچکی، اب حکومت بتائے کہ وہ کب تک اسے بطور سرکاری و قومی زبان لاگو کرے گی؟ اس دوران عدالت میں اُس وقت دلچسپ صورت حال پیدا ہوگئی جب مدعی ڈاکٹر شریف نظامی کے وکیل اے کے ڈوگر ایڈووکیٹ نے عدالت کے سامنے لارڈ میکالے کی فروری 1835ء کی ایک تقریر کا حوالہ دیا جس میں اُس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نظام تعلیم کے ذریعے ہم برصغیر میں پلنے والی نسلوں کی سوچ تک تبدیل کردیں گے۔ فاضل عدالت نے یہ ریمارکس پڑھ کر مدعی کے وکیل جناب اے کے ڈوگر سے کہا کہ اس اقتباس کی نقل یہاں موجود لوگوں میں بھی تقسیم کریں۔
اب عدالت نے اگلی سماعت تک وفاقی حکومت سے دوٹوک جواب طلب کرلیا ہے اور ہدایت کی ہے کہ وہ عدالت کو بتائے کہ وہ کیوں آئین کی دفعہ 251 کے تحت اردو کو لاگو نہیں کررہی۔
اس عدالتی نوٹس کے بعد وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت نے اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔ حکومتی کارروائیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اردو کا نفاذ نہیں چاہتی بلکہ آئین کے اس آرٹیکل پر عملدرآمد سے گریزاں ہے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رکن قومی اسمبلی ماروی میمن نے قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کردیا ہے۔ آئینی ترمیمی بل 2014ء کے نام سے پیش کیے جانے والے اس بل کو آئین پاکستان کی دفعہ 251 کا متبادل قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بلوچی، بلتی، براہوی، پنجابی، پشتو، شینا، سرائیکی، ہندکو، اردو پاکستان کی قومی زبانیں ہیں۔ ملک کی بڑی بڑی مادری زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کے لیے ماہرین پر مشتمل ایک نیشنل لینگوئج کمیشن تشکیل دیا گیا ہے۔ اس بل کی منظوری کے 15 سال تک پاکستان کی قومی زبان انگریزی رہے گی۔ تاہم اگلے پندرہ سال کے دوران اس کی جگہ اردو نافذ کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے۔
معلوم ہوا ہے کہ اس بل کی منظوری کے لیے مسلم لیگ (ن) اور اس کی حکومت خاصی سرگرم ہے۔ اس مقصد کے لیے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کا تین روز تک اجلاس بھی ہوتا رہا ہے۔ خیال یہی ہے کہ جب حکومت اس ترمیمی بل کی منظوری چاہتی ہے تو حکومتی پارٹی کے ارکان اس بل کی حمایت کریں گے۔ اس طرح یہ متنازع بل بآسانی منظور ہو جائے گا، جس میں آٹھ زبانوں (بلکہ اس میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے) کو قومی زبان کا درجہ مل جائے گا۔ اور اس طرح نہ صرف اتحادِ ملت پارہ پارہ ہو جائے گا بلکہ بے پناہ انتظامی مشکلات بھی پیدا ہو جائیں گی۔
ماروی میمن کے اس بل کے پیش کرنے کے بعد پنجاب حکومت کے زیر انتظام کام کرنے والا ادارہ پلاک (پنجابی انسٹی ٹیوٹ فار لینگویج آرٹ اینڈ کلچر) بھی اردو کے خلاف سرگرم ہو گیا ہے اور اس کی سربراہ ڈاکٹرصغریٰ صدف تو کھلے عام اردو کے خلاف اپنے بغض اور کینے کا اظہار کرتی پھر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اردو کے نام پر پنجابی زبان اور ثقافت پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔ ان کا الزام ہے کہ یوپی سے آنے والے لوگوں نے یہ قبضہ کیا ہے۔ پنجاب حکومت کے ایک سرکاری ادارے کی سربراہی کرنے والی اس خاتون کا یہ بھی کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی علیحدگی کی وجہ اردو زبان تھی۔ اگر اردو کو قومی زبان بنانے پر اصرار نہ کیا جاتا تو پاکستان نہ ٹوٹتا۔
ایک طرف ’پلاک‘ کی سربراہ یہ زہر افشانیاں کررہی ہیں، دوسری جانب قومی زبان تحریک کے عہدیدار جن میں سے بیشتر پنجابی بولنے والے لوگ اور سائنسدان ہیں، قومی جذبے سے سرشار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اردو میں نہ صرف ذریعہ تعلیم بننے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے بلکہ اردو ہی کے ذریعے پاکستانی قوم کو یکجا کیا جاسکتا ہے، ورنہ علاقائی زبانوں کا پنڈورا بکس کھولا گیا تو قومی سلامتی پارہ پارہ ہوجائے گی۔ قومی زبان تحریک کے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماروی میمن کے ترمیمی بل کے ذریعے حکومت اردو کا رسم الخط تبدیل کرنے کی سازش کررہی ہے لیکن وہ اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ کاش حکومت جو پہلے ہی بے پناہ مسائل سے دوچار ہے اور اب تک کچھ ڈیلیور نہیں کرسکی، ایک نیا فساد کھڑا کرنے سے باز رہے اور قومی امنگوں اور یک جہتی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اردو کو قومی زبان اور ذریعہ تعلیم بنانے کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی نہ کرے، ورنہ پاکستان کو تو اِن شاء اللہ کچھ نہیں ہوگا البتہ اِس حکومت کا باقی رہنا مشکل ہوجائے گا۔