ناصر علی مرزا
معطل
اردو کا نفاذ ناگزیر کیوں؟... ڈاکٹر حسیب احمد
کروڑوں پاکستانیوں کے دل کی آ واز کو زبان دی ہے محترم ڈاکٹر حسیب احمدصاحب نے ، اللہ ان کو دنیا اور آخرت کی کامیابیں عطا کرے آمین
خاکسار نے اس مضمون میں عنوانات دیے ہیں
اردو کے نفاذ کا مسئلہ کسی قومی، ملکی، یا نسلی عصبیت کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ مسئلہ دراصل دینی، قومی، ملکی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسئلہ ہے۔
اردو کا نفاذ - دینی مسئلہ
یہ دینی مسئلہ اس طرح ہے کہ عربی کے بعد سب سے زیادہ دینی لٹریچر اردو میں ہے۔ اردو فہمی آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ اگر استعماری اور ”غیر استعماری“ سازش کے تحت اردو زبان ختم ہو جاتی ہے تو ہماری آنے والی نسلوں کا کیا بنے گا؟کہا جا سکتا ہے کہ قرآن اور حدیث میں تو کسی خاص زبان کی ترویج کا حکم نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے کہ قرآن و حدیث میں ایسی کوئی صریح ہدایت نہیں لیکن کسی چیز یا موضوع کا ابلاغ متعلقہ لوگوں کی اپنی زبان میں ہی کماحقہ ممکن ہے۔ اجنبی زبان میں لوگوں کو صحیح طور پر نہیں سمجھایا جاسکتا۔
پاکستان میں اردو کا نفاذ اسلام کی روح کے عین مطابق ہے اور بدیسی زبان کا نفاذ اسلام کی روح کے بالکل منافی ہے۔ اسلام کا منشا یہ ہے کہ مسلمان اللہ اور رسول کی تعلیمات سے قریب ہوں اور دنیاوی طور پر تمام مروجہ علوم و فنون کے ماہر۔ اب سوچ لیجیے کہ اگر قوم کے اوپر غیر ملکی زبان مسلط ہو جس پر عبور رکھنے والے دو چار فیصد سے زیادہ نہ ہوں تو کیا اس قوم کے نوجوان مروجہ علوم و فنون پر باآسانی صحیح طور پر عبور حاصل کر سکیں گے؟ اپنی زبان کے خاتمے یا کم فہمی کی وجہ سے کیا یہ نوجوان اپنے تہذیبی ورثے سے کٹ نہیں جائیں گے؟ اپنی زبان اور ادب سے بے بہرہ یہ نوجوان جب شعبہ تعلیم و تدریس میں آئیں گے تو کیا اپنے شاگردوں کو آسان زبان میں موضوع کو سمجھا سکیں گے یا کسی مذاکرے میں اپنا ما فی الضمیر سہل انداز میں پیش کر سکیں گے؟ کسی موضوع پر کوئی مضمون یا کتاب آسان اور عام فہم زبان میں لکھ سکیں گے؟ اب آپ خود سوچ لیں کہ جہاں انگریزی سمجھنے والے دو چار فیصد سے زیادہ نہ ہوں، وہاں دفتری امور نمٹانا اور تعلیم حاصل کرنا انگریزی میں آسان ہو گا یا اردو میں؟
اردو کے متعلق مولانا اشرف علی تھانوی کا 1939ء کا یہ فتویٰ بھی موجود ہے کہ ”اس وقت اردو زبان کی حفاظت حسبِ استطاعت واجب ہو گی اور باوجود قدرت کے اس میں غفلت اور سستی کرنا معصیت اور موجبِ مواخذہٴ آخرت ہو گا“۔
غیر ملکی زبان بطور ذریعہ تعلیم
اب تو اردو کے لیے حالات اُس وقت سے بھی بدتر ہو گئے ہیں۔اگر قومی، ملکی اور سیاسی تناظر میں دیکھا جائے تو ذرا سوچیے کہ دنیا میں آپ کہیں ایک ملک کی بھی مثال دے سکتے ہیں، جس نے اپنی زبان چھوڑ کر کسی غیر ملکی زبان کو استعمال کر کے ترقی کی ہو؟ کرہٴ ارض پر ایسی کوئی مثال نہیں ہے۔ بلکہ جاپان کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ جب دوسری عالمگیر جنگ میں شکست کے بعد امریکہ ”بہادر“ (فی الاصل بزدل) نے شہنشاہ جاپان سے پوچھا ”مانگو کیا مانگتے ہو؟“ تو دانا اور محب وطن شہنشاہ نے جواب دیا ”اپنے ملک میں اپنی زبان میں تعلیم“۔ اس لین دین کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ غرض جاپان، جرمنی، فرانس وغیرہ بلکہ دنیا کے جس ملک نے بھی ترقی کی ہے، اپنی زبان میں تعلیم دے کر ہی کی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر غیر ملکی زبان میں تعلیم دی جائے تو طالب علم کی تقریباً پچاس فیصد توانائی (بعض تو 70 اور 80 فیصد کہتے ہیں) دوسری زبان پر خرچ ہوتی ہے اور بقیہ 30 تا 50 فیصد نفس مضمون پر۔دوسری طرف یہ دیکھیے کہ میٹرک اور انٹر میں ہمارے طلبہ و طالبات کی اکثریت کس مضمون میں ناکام (فیل) ہوتی ہے؟ جواب واضح ہے کہ انگریزی میں۔ پنجاب میں پچھلے دس سال کے نتائج کے مطابق میٹرک کے اوسطاً 46 فیصد طلبہ انگریزی میں فیل ہوئے اور انٹر کے 78 فیصد۔ ان طلبہ میں کافی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہو سکتی ہے جو انگریزی کے علاوہ دوسرے مضامین یا شعبوں میں اچھے ہوں اور آگے چل کر دوسرے شعبوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں۔ اس طرح ملک و قوم ہر سال معتد بہ تعداد میں اچھے اذہان سے محروم ہو جاتی ہے اور یہ بچے بھی ممکنہ سماجی و معاشی مرتبے سے محروم رہ جاتے ہیں
معاشی پہلو
۔پاکستان میں اردو کے نفاذ کا ایک معاشی پہلو یوں بھی ہے کہ ملک میں انگریزی سمجھنے والے دو چار فیصد سے زیادہ نہیں ہیں۔ یہ زبان (انگریزی) دراصل ہماری اشرافیہ یا ”کالے انگریزوں“ جرنیلوں اور نوکر شاہی کی زبان ہے۔ انگریزی ہی کی بدولت ان ان لوگوں کا اقتدار اور برتری ہے۔ اگر اردو پاکستان کی سرکاری زبان بن جاتی ہے تو ان کالے انگریزوں اور ان کی آنے والی نسلوں کا اقتدار اور برتری ختم ہو جائے گی۔ اگر اردو ہماری سرکاری زبان نہیں بنتی تو غریب اور متوسط طبقے کے بچے کلرک، مزدور اور چپراسی ہی بنیں گے، چاہے کتنے ہی ذہین کیوں نہ ہوں، اور کلیدی اسامیاں مقتدر طبقے ہی کے بچوں کا مقدر بنیں گی۔ سی ایس ایس کے امتحان اردو میں نہ کروانے کی بڑی وجہ یہی ہے۔ آج بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ امتحانی مراحل اور مصاحبوں (انٹرویو) میں وہی امیدوار کامیاب ہوتے ہیں جن کی انگریزی اچھی ہوتی ہے، چاہے نفسِ مضمون میں وہ کتنے ہی کم زور کیوں نہ ہوں۔اردو اپنے حق کے مطابق اگر مروج نہیں ہو سکی ہے تو اس کا ایک معاشرتی نقصان یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کی انگریزی اچھی نہ ہو وہ انگریزی جاننے والوں سے عموماً خود کو کم تر سمجھنے لگتے ہیں اور نتیجتاً اپنی قوت کار کو گھٹا لیتے ہیں۔ دوسری طرف انگریزی جاننے اور اس کو اوڑھنا بچھونا بنا لینے والے خواہ مخواہ احساس برتری کا شکار ہو کر دوسروں کو حقیر سمجھنے لگتے ہیں اور اپنی علمیت کا رعب جھاڑنا ان کی عادت ثانیہ بن جاتی ہے، نیز وہ اپنی زبان کو بگاڑ لیتے ہیں۔ اور آج اپنی زبان کو مردہ کرنے کی یہ کوششیں کافی آگے بڑھ چکی ہیں۔ اردو، رومن انگریزی میں لکھی جانے لگی ہے بلکہ اب تو قبروں کے کتبے بھی انگریزی میں لکھے جانے لگے ہیں، خود راقم الحروف نے کراچی کے دو قبرستانوں میں یہ کتبے دیکھے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ہماری یہی روش رہی تو اردو بس لگ بھگ بیس سال کی مہمان ہے۔جملہ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ
اردو کا ماضی میں عروج
جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن میں تیس سال تک تمام مضامین اردو میں پڑھائے جاتے رہے۔ یہ سلسلہ سقوط حیدرآباد تک جاری رہا جس کے بعد وہاں اردو ذریعہٴ تعلیم کو ختم کر دیا گیا۔ بعد میں ایک غیر ملکی وفد نے وہاں کا دورہ کرنے کے بعد اردو ذریعہٴ تعلیم ختم کرنے کی وجہ پوچھی تو منتظمین کوئی جواب نہ دے سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جو واقعی بڑے لوگ گزرے ہیں (مثلاً ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب) ان کی بہت بڑی اکثریت اردو میڈیم کی پڑھی ہوئی ہے، انگریزی میڈیم نے کوئی بڑی شخصیت پیدا نہیں کی، الا ماشاء اللہ۔ جامعہ عثمانیہ کے فارغ التحصیل ڈاکٹروں کی اپنے مضمون پر گرفت اتنی مضبوط تھی کہ انگلستان میں ایف آر سی ایس وغیرہ کے داخلہ ٹیسٹ سے ان کو مستثنیٰ کر دیا گیا تھا۔ دراصل تخلیقی قوت اپنی ہی زبان سے آتی ہے۔ہمارے پڑوسی ملک میں آزادی کے بعد جب اسمبلی میں سرکاری زبان کے سلسلے میں رائے شماری ہوئی تو اردو اور ہندی کے ووٹ بالکل برابر ہو گئے۔ اس کے بعد اسپیکر کے فیصلہ کن ووٹ سے ہندی سرکاری زبان بن گئی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ لوگ ہر سال اپنی مردہ زبان سنسکرت کے کچھ الفاظ منتخب کر لیتے ہیں اور پھر میڈیا اور دوسرے ذرائع ان مردہ الفاظ کو عام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔آپ نے کسی انگریز یا امریکی کو انگلستان یا امریکہ میں نمبر (اعداد) اردو میں بتاتے ہوئے یا اپنی گفتگو میں جابجا اردو الفاظ استعمال کرتے ہوئے دیکھا یا سنا ہے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں، تو ان کے مقابلے میں تھوڑی بہت غیرت کا مظاہرہ تو ہمیں بھی کرنا چاہئے۔
دو واقعات
یہاں پر میں دو افراد کے واقعات نقل کر رہا ہوں جو کہ آنکھیں کھول دینے والے ہیں۔ ایک معالج امراض ذہنی کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسے انگریزی میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کی جہاں پڑھانے والے بھی انگریز تھے۔ اگر غلطی سے کوئی اردو کا لفظ زبان سے نکل جاتا تو بہت شرمندگی اٹھانی پڑتی تھی۔ پھر انٹر میں بھی ذریعہ تعلیم انگریزی ہی تھی۔ ایم بی بی ایس تو تھا ہی انگریزی میں۔ اسکے بعد وہ اسپیشلائزیشن کے لیے امریکہ چلے گئے۔ وہاں پڑوسی ملک میکسیکو (جو کہ امریکہ کے بالکل ساتھ لگا ہوا ہے) سے بھی ڈاکٹر اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ آئے ہوئے تھے۔ ان ڈاکٹروں کو انگریزی بالکل نہیں آتی تھی۔ڈاکٹر صاحب اپنی انگریزی دانی پر بہت خوش تھے کہ انہیں انگریزی آتی ہے اور میکسیکو والے ڈاکٹروں کو انگریزی نہیں آتی۔ وہ بتاتے ہیں کہ پھر دیکھتے ہی دیکھتے چھ ماہ کے اندر میکسیکو کے ڈاکٹروں نے انگریزی میں اتنی استعداد پیدا کر لی کہ اپنا کام بخوبی چلانے لگے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ پھر مجھے بڑا افسوس ہوا کہ جو کام میں چھ مہینے کی محنت سے کر سکتا تھا، اس کے لیے میں اپنے تہذیبی ورثے، اقبال، غالب، میر، اکبر الہ آبادی وغیرہ سے کٹ گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اتنی انگریزی پڑھنے کے باوجود ان کے لیے انگریزی کی نسبت اردو میں اظہار خیال کرنا زیادہ آسان ہے کیونکہ اردو اپنی زبان ہے۔
دوسرا واقعہ
دوسرا واقعہ انگلستان کے ایک وزیر تعلیم کا ہے۔ ایک بار یہ صاحب پاکستان آئے، ہمارے کالے انگریزوں نے انہیں اپنے انگریزی میڈیم اسکولوں کا دورہ کرایا۔ دورے کے بعد ان سے پاکستانی بچوں کو انگریزی میں تعلیم دیے جانے پر ان کے تاثرات پوچھے گئے۔ ہمارے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ وہ صاحب اس بات سے بہت خوش ہوں گے لیکن انہوں نے جو جواب دیا وہ سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں اپنے ملک میں ایسا کرتا کہ کسی غیر ملکی زبان میں طلبہ کو تعلیم دلواتا تو دو جگہوں میں سے ایک جگہ مجھے ضرور جانا پڑتا، پھانسی گھاٹ یا پھر پاگل خانہ۔ بقول ان کے دوسری زبان میں تعلیم دینے سے بچے کی ذہانت اور تخلیقی صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں۔اس مسئلے کو ایک اور مثال سے سمجھئے۔ فرض کریں، آپ اپنے دوست کے ساتھ جا رہے ہیں، آپ کی جیب میں دو سو تیس روپے ہیں۔ راستے میں آپ کو کوئی چیز خریدنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے جس کی قیمت دو سو چالیس روپے ہے۔ اب اگر آپ دوست سے دس روپے قرض لیتے ہیں تو کیا یہ جائز ہوگا؟ یقینا آپ کہیں گے کہ اس قرض میں کوئی برائی نہیں، اور واقعتاً نہیں ہے۔ اب ذرا معاملے کو اس طرح دیکھئے کہ آپ کو جو چیز خریدنی ہے اس کی قیمت صرف دس روپے ہے۔ اپنی جیب میں دو سو تیس روپے رکھتے ہوئے بھی اگر آپ دوست سے دس روپے مانگیں تو کیا یہ جائز ہوگا؟ یقینا نہیں
لسانی قرض“
۔ زبان کے مسئلے کو بھی اسی طرح دیکھئے۔ جو الفاظ ہماری اپنی زبان میں ہیں، ان کی جگہ ہمیں دوسری زبان کے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہئیں۔ غلط اور بلاضرورت قرضوں نے ہمارے پیارے وطن کا کیا حال کر دیا ہے؟ ”لسانی قرض“ بھی کچھ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنی فلاح کے لیے صرف روحانی طور پر ہی نہیں بلکہ لسانی طور پر بھی اپنی اصل کی طرف پلٹنا چاہیے
آئینی پہلو
۔پاکستان میں اردو کا نفاذ صرف سیاسی ہی نہیں آئینی پہلو سے بھی اہم ہے۔ پاکستان کے ہر آئین میں اردو کے نفاذ کی ضمانت دی گئی ہے۔ آئین کسی قوم اور ملک کی نہایت اہم اور مقدس دستاویز ہوتی ہے جس پر عمل ضروری ہوتا ہے۔ پاکستان کے 1973ء کے آئین کی دفعہ نمبر 251 میں ان الفاظ میں اردو کے نفاذ کی ضمانت دی گئی ہے۔پاکستان کی قومی زبان اردو ہے۔ تاریخ اجرا (14 اگست 1973ء) سے پندرہ سال (یعنی 88ء تک) کے اندر سرکاری اور دیگر مقاصد کے لیے اس کے استعمال کا انتظام کیا جائے گا۔تو ہمارے ساتھ یہ کتنا بڑا مذاق یا پھر المیہ ہے کہ ہماری قومی زبان الگ ہے اور سرکاری زبان الگ، لیکن ہم اس تضاد کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ ہم نے اس کو زندگی کا لازمہ سمجھ لیا ہے۔
سیاسی پہلو
دراصل اردو کے نفاذ سے اقتدار نیچے تک یعنی عوام کو منتقل ہو جائے گا۔ شاید یہی امر اردو کے نفاذ میں رکاوٹ ہے۔کوئی بھی دانش مند انسان یہ نہیں کہتا کہ آپ اپنا سو فیصد وقت اردو کے نفاذ کے لیے وقف کر دیں۔ نہیں ہرگز یہ ہمارا مقصد نہیں کہ اپنی نوکری، اہل خانہ اور سماجی ذمہ داریوں کو چھوڑ کر بس، اردو کی ترویج میں لگ جائیں۔ ہمیں اردو کے نفاذ کی کوششوں کے لیے اپنا پچاس فیصد یا پچیس فیصد بلکہ دس فیصد وقت بھی خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ایک فیصد وقت تو اس کام کا حق بنتا ہے۔ یہ بھی دین اور ملک کی اہم خدمت ہے، بلکہ ایسی خدمت جو اہم ہونے کے باوجود توجہ سے محروم ہے۔ہم نے انگریزی (بمقابلہ اردو) کے لیے جو کچھ کہا ہے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انگریزی کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اور ہم انگریزی سے بالکل قطع تعلق کر لیں۔ فی زمانہ انگریزی سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان ہے۔ اگر ہمیں سائنس اور ٹیکنالوجی میں آگے بڑھنا ہے تو ہمیں انگریزی سیکھنی ہو گی۔ ہم صرف انگریزی کے ذریعہ تعلیم اور سرکاری زبان بنانے کے مخالف ہیں، بطور مضمون انگریزی کے مخالف نہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کے لیے اصل کتب کے اردو تراجم ہونے چاہئیں۔ لیکن یہ کام سرکاری سرپرستی چاہتا ہے جس کے لیے ہمیں کوشش کرنی پڑے گی۔ یاد رکھیے! ہمارے بعد جو لوگ آ رہے ہیں وہ اس مسئلے کی اہمیت کو بالکل نہیں جانتے۔ یعنی یہ کام اگر ہم نے کر لیا یا کرانے کی کوشش کرتے رہے تو ٹھیک ہے، ورنہ بعد میں یہ کام اور زیادہ مشکل ہو جائے گا اور وقت نکل جائے گا جو ابھی ہمارے پاس ہے۔ ذرا سوچئے، ہمارا ملک ایک ایسے ملک کے طور پر شناخت کیا جائے گا جس کی زمین، فصلیں، ثقافت، لباس، غذائیں تو اپنی ہوں، اور زبان اپنی نہ ہو۔ بلاشبہ اگر آپ کو اردو سے محبت ہے تو اردو کی محبت میں یہ کام کریں۔ اگر آپ کو پاکستان سے محبت ہے تو آپ پاکستان کی ترقی و استحکام کے لیے یہ کام کریں۔
روحانی بابا ،
کروڑوں پاکستانیوں کے دل کی آ واز کو زبان دی ہے محترم ڈاکٹر حسیب احمدصاحب نے ، اللہ ان کو دنیا اور آخرت کی کامیابیں عطا کرے آمین
خاکسار نے اس مضمون میں عنوانات دیے ہیں
اردو کے نفاذ کا مسئلہ کسی قومی، ملکی، یا نسلی عصبیت کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ مسئلہ دراصل دینی، قومی، ملکی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسئلہ ہے۔
اردو کا نفاذ - دینی مسئلہ
یہ دینی مسئلہ اس طرح ہے کہ عربی کے بعد سب سے زیادہ دینی لٹریچر اردو میں ہے۔ اردو فہمی آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ اگر استعماری اور ”غیر استعماری“ سازش کے تحت اردو زبان ختم ہو جاتی ہے تو ہماری آنے والی نسلوں کا کیا بنے گا؟کہا جا سکتا ہے کہ قرآن اور حدیث میں تو کسی خاص زبان کی ترویج کا حکم نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے کہ قرآن و حدیث میں ایسی کوئی صریح ہدایت نہیں لیکن کسی چیز یا موضوع کا ابلاغ متعلقہ لوگوں کی اپنی زبان میں ہی کماحقہ ممکن ہے۔ اجنبی زبان میں لوگوں کو صحیح طور پر نہیں سمجھایا جاسکتا۔
پاکستان میں اردو کا نفاذ اسلام کی روح کے عین مطابق ہے اور بدیسی زبان کا نفاذ اسلام کی روح کے بالکل منافی ہے۔ اسلام کا منشا یہ ہے کہ مسلمان اللہ اور رسول کی تعلیمات سے قریب ہوں اور دنیاوی طور پر تمام مروجہ علوم و فنون کے ماہر۔ اب سوچ لیجیے کہ اگر قوم کے اوپر غیر ملکی زبان مسلط ہو جس پر عبور رکھنے والے دو چار فیصد سے زیادہ نہ ہوں تو کیا اس قوم کے نوجوان مروجہ علوم و فنون پر باآسانی صحیح طور پر عبور حاصل کر سکیں گے؟ اپنی زبان کے خاتمے یا کم فہمی کی وجہ سے کیا یہ نوجوان اپنے تہذیبی ورثے سے کٹ نہیں جائیں گے؟ اپنی زبان اور ادب سے بے بہرہ یہ نوجوان جب شعبہ تعلیم و تدریس میں آئیں گے تو کیا اپنے شاگردوں کو آسان زبان میں موضوع کو سمجھا سکیں گے یا کسی مذاکرے میں اپنا ما فی الضمیر سہل انداز میں پیش کر سکیں گے؟ کسی موضوع پر کوئی مضمون یا کتاب آسان اور عام فہم زبان میں لکھ سکیں گے؟ اب آپ خود سوچ لیں کہ جہاں انگریزی سمجھنے والے دو چار فیصد سے زیادہ نہ ہوں، وہاں دفتری امور نمٹانا اور تعلیم حاصل کرنا انگریزی میں آسان ہو گا یا اردو میں؟
اردو کے متعلق مولانا اشرف علی تھانوی کا 1939ء کا یہ فتویٰ بھی موجود ہے کہ ”اس وقت اردو زبان کی حفاظت حسبِ استطاعت واجب ہو گی اور باوجود قدرت کے اس میں غفلت اور سستی کرنا معصیت اور موجبِ مواخذہٴ آخرت ہو گا“۔
غیر ملکی زبان بطور ذریعہ تعلیم
اب تو اردو کے لیے حالات اُس وقت سے بھی بدتر ہو گئے ہیں۔اگر قومی، ملکی اور سیاسی تناظر میں دیکھا جائے تو ذرا سوچیے کہ دنیا میں آپ کہیں ایک ملک کی بھی مثال دے سکتے ہیں، جس نے اپنی زبان چھوڑ کر کسی غیر ملکی زبان کو استعمال کر کے ترقی کی ہو؟ کرہٴ ارض پر ایسی کوئی مثال نہیں ہے۔ بلکہ جاپان کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ جب دوسری عالمگیر جنگ میں شکست کے بعد امریکہ ”بہادر“ (فی الاصل بزدل) نے شہنشاہ جاپان سے پوچھا ”مانگو کیا مانگتے ہو؟“ تو دانا اور محب وطن شہنشاہ نے جواب دیا ”اپنے ملک میں اپنی زبان میں تعلیم“۔ اس لین دین کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ غرض جاپان، جرمنی، فرانس وغیرہ بلکہ دنیا کے جس ملک نے بھی ترقی کی ہے، اپنی زبان میں تعلیم دے کر ہی کی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر غیر ملکی زبان میں تعلیم دی جائے تو طالب علم کی تقریباً پچاس فیصد توانائی (بعض تو 70 اور 80 فیصد کہتے ہیں) دوسری زبان پر خرچ ہوتی ہے اور بقیہ 30 تا 50 فیصد نفس مضمون پر۔دوسری طرف یہ دیکھیے کہ میٹرک اور انٹر میں ہمارے طلبہ و طالبات کی اکثریت کس مضمون میں ناکام (فیل) ہوتی ہے؟ جواب واضح ہے کہ انگریزی میں۔ پنجاب میں پچھلے دس سال کے نتائج کے مطابق میٹرک کے اوسطاً 46 فیصد طلبہ انگریزی میں فیل ہوئے اور انٹر کے 78 فیصد۔ ان طلبہ میں کافی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہو سکتی ہے جو انگریزی کے علاوہ دوسرے مضامین یا شعبوں میں اچھے ہوں اور آگے چل کر دوسرے شعبوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں۔ اس طرح ملک و قوم ہر سال معتد بہ تعداد میں اچھے اذہان سے محروم ہو جاتی ہے اور یہ بچے بھی ممکنہ سماجی و معاشی مرتبے سے محروم رہ جاتے ہیں
معاشی پہلو
۔پاکستان میں اردو کے نفاذ کا ایک معاشی پہلو یوں بھی ہے کہ ملک میں انگریزی سمجھنے والے دو چار فیصد سے زیادہ نہیں ہیں۔ یہ زبان (انگریزی) دراصل ہماری اشرافیہ یا ”کالے انگریزوں“ جرنیلوں اور نوکر شاہی کی زبان ہے۔ انگریزی ہی کی بدولت ان ان لوگوں کا اقتدار اور برتری ہے۔ اگر اردو پاکستان کی سرکاری زبان بن جاتی ہے تو ان کالے انگریزوں اور ان کی آنے والی نسلوں کا اقتدار اور برتری ختم ہو جائے گی۔ اگر اردو ہماری سرکاری زبان نہیں بنتی تو غریب اور متوسط طبقے کے بچے کلرک، مزدور اور چپراسی ہی بنیں گے، چاہے کتنے ہی ذہین کیوں نہ ہوں، اور کلیدی اسامیاں مقتدر طبقے ہی کے بچوں کا مقدر بنیں گی۔ سی ایس ایس کے امتحان اردو میں نہ کروانے کی بڑی وجہ یہی ہے۔ آج بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ امتحانی مراحل اور مصاحبوں (انٹرویو) میں وہی امیدوار کامیاب ہوتے ہیں جن کی انگریزی اچھی ہوتی ہے، چاہے نفسِ مضمون میں وہ کتنے ہی کم زور کیوں نہ ہوں۔اردو اپنے حق کے مطابق اگر مروج نہیں ہو سکی ہے تو اس کا ایک معاشرتی نقصان یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کی انگریزی اچھی نہ ہو وہ انگریزی جاننے والوں سے عموماً خود کو کم تر سمجھنے لگتے ہیں اور نتیجتاً اپنی قوت کار کو گھٹا لیتے ہیں۔ دوسری طرف انگریزی جاننے اور اس کو اوڑھنا بچھونا بنا لینے والے خواہ مخواہ احساس برتری کا شکار ہو کر دوسروں کو حقیر سمجھنے لگتے ہیں اور اپنی علمیت کا رعب جھاڑنا ان کی عادت ثانیہ بن جاتی ہے، نیز وہ اپنی زبان کو بگاڑ لیتے ہیں۔ اور آج اپنی زبان کو مردہ کرنے کی یہ کوششیں کافی آگے بڑھ چکی ہیں۔ اردو، رومن انگریزی میں لکھی جانے لگی ہے بلکہ اب تو قبروں کے کتبے بھی انگریزی میں لکھے جانے لگے ہیں، خود راقم الحروف نے کراچی کے دو قبرستانوں میں یہ کتبے دیکھے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ہماری یہی روش رہی تو اردو بس لگ بھگ بیس سال کی مہمان ہے۔جملہ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ
اردو کا ماضی میں عروج
جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن میں تیس سال تک تمام مضامین اردو میں پڑھائے جاتے رہے۔ یہ سلسلہ سقوط حیدرآباد تک جاری رہا جس کے بعد وہاں اردو ذریعہٴ تعلیم کو ختم کر دیا گیا۔ بعد میں ایک غیر ملکی وفد نے وہاں کا دورہ کرنے کے بعد اردو ذریعہٴ تعلیم ختم کرنے کی وجہ پوچھی تو منتظمین کوئی جواب نہ دے سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جو واقعی بڑے لوگ گزرے ہیں (مثلاً ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب) ان کی بہت بڑی اکثریت اردو میڈیم کی پڑھی ہوئی ہے، انگریزی میڈیم نے کوئی بڑی شخصیت پیدا نہیں کی، الا ماشاء اللہ۔ جامعہ عثمانیہ کے فارغ التحصیل ڈاکٹروں کی اپنے مضمون پر گرفت اتنی مضبوط تھی کہ انگلستان میں ایف آر سی ایس وغیرہ کے داخلہ ٹیسٹ سے ان کو مستثنیٰ کر دیا گیا تھا۔ دراصل تخلیقی قوت اپنی ہی زبان سے آتی ہے۔ہمارے پڑوسی ملک میں آزادی کے بعد جب اسمبلی میں سرکاری زبان کے سلسلے میں رائے شماری ہوئی تو اردو اور ہندی کے ووٹ بالکل برابر ہو گئے۔ اس کے بعد اسپیکر کے فیصلہ کن ووٹ سے ہندی سرکاری زبان بن گئی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ لوگ ہر سال اپنی مردہ زبان سنسکرت کے کچھ الفاظ منتخب کر لیتے ہیں اور پھر میڈیا اور دوسرے ذرائع ان مردہ الفاظ کو عام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔آپ نے کسی انگریز یا امریکی کو انگلستان یا امریکہ میں نمبر (اعداد) اردو میں بتاتے ہوئے یا اپنی گفتگو میں جابجا اردو الفاظ استعمال کرتے ہوئے دیکھا یا سنا ہے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں، تو ان کے مقابلے میں تھوڑی بہت غیرت کا مظاہرہ تو ہمیں بھی کرنا چاہئے۔
دو واقعات
یہاں پر میں دو افراد کے واقعات نقل کر رہا ہوں جو کہ آنکھیں کھول دینے والے ہیں۔ ایک معالج امراض ذہنی کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسے انگریزی میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کی جہاں پڑھانے والے بھی انگریز تھے۔ اگر غلطی سے کوئی اردو کا لفظ زبان سے نکل جاتا تو بہت شرمندگی اٹھانی پڑتی تھی۔ پھر انٹر میں بھی ذریعہ تعلیم انگریزی ہی تھی۔ ایم بی بی ایس تو تھا ہی انگریزی میں۔ اسکے بعد وہ اسپیشلائزیشن کے لیے امریکہ چلے گئے۔ وہاں پڑوسی ملک میکسیکو (جو کہ امریکہ کے بالکل ساتھ لگا ہوا ہے) سے بھی ڈاکٹر اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ آئے ہوئے تھے۔ ان ڈاکٹروں کو انگریزی بالکل نہیں آتی تھی۔ڈاکٹر صاحب اپنی انگریزی دانی پر بہت خوش تھے کہ انہیں انگریزی آتی ہے اور میکسیکو والے ڈاکٹروں کو انگریزی نہیں آتی۔ وہ بتاتے ہیں کہ پھر دیکھتے ہی دیکھتے چھ ماہ کے اندر میکسیکو کے ڈاکٹروں نے انگریزی میں اتنی استعداد پیدا کر لی کہ اپنا کام بخوبی چلانے لگے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ پھر مجھے بڑا افسوس ہوا کہ جو کام میں چھ مہینے کی محنت سے کر سکتا تھا، اس کے لیے میں اپنے تہذیبی ورثے، اقبال، غالب، میر، اکبر الہ آبادی وغیرہ سے کٹ گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اتنی انگریزی پڑھنے کے باوجود ان کے لیے انگریزی کی نسبت اردو میں اظہار خیال کرنا زیادہ آسان ہے کیونکہ اردو اپنی زبان ہے۔
دوسرا واقعہ
دوسرا واقعہ انگلستان کے ایک وزیر تعلیم کا ہے۔ ایک بار یہ صاحب پاکستان آئے، ہمارے کالے انگریزوں نے انہیں اپنے انگریزی میڈیم اسکولوں کا دورہ کرایا۔ دورے کے بعد ان سے پاکستانی بچوں کو انگریزی میں تعلیم دیے جانے پر ان کے تاثرات پوچھے گئے۔ ہمارے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ وہ صاحب اس بات سے بہت خوش ہوں گے لیکن انہوں نے جو جواب دیا وہ سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں اپنے ملک میں ایسا کرتا کہ کسی غیر ملکی زبان میں طلبہ کو تعلیم دلواتا تو دو جگہوں میں سے ایک جگہ مجھے ضرور جانا پڑتا، پھانسی گھاٹ یا پھر پاگل خانہ۔ بقول ان کے دوسری زبان میں تعلیم دینے سے بچے کی ذہانت اور تخلیقی صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں۔اس مسئلے کو ایک اور مثال سے سمجھئے۔ فرض کریں، آپ اپنے دوست کے ساتھ جا رہے ہیں، آپ کی جیب میں دو سو تیس روپے ہیں۔ راستے میں آپ کو کوئی چیز خریدنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے جس کی قیمت دو سو چالیس روپے ہے۔ اب اگر آپ دوست سے دس روپے قرض لیتے ہیں تو کیا یہ جائز ہوگا؟ یقینا آپ کہیں گے کہ اس قرض میں کوئی برائی نہیں، اور واقعتاً نہیں ہے۔ اب ذرا معاملے کو اس طرح دیکھئے کہ آپ کو جو چیز خریدنی ہے اس کی قیمت صرف دس روپے ہے۔ اپنی جیب میں دو سو تیس روپے رکھتے ہوئے بھی اگر آپ دوست سے دس روپے مانگیں تو کیا یہ جائز ہوگا؟ یقینا نہیں
لسانی قرض“
۔ زبان کے مسئلے کو بھی اسی طرح دیکھئے۔ جو الفاظ ہماری اپنی زبان میں ہیں، ان کی جگہ ہمیں دوسری زبان کے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہئیں۔ غلط اور بلاضرورت قرضوں نے ہمارے پیارے وطن کا کیا حال کر دیا ہے؟ ”لسانی قرض“ بھی کچھ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنی فلاح کے لیے صرف روحانی طور پر ہی نہیں بلکہ لسانی طور پر بھی اپنی اصل کی طرف پلٹنا چاہیے
آئینی پہلو
۔پاکستان میں اردو کا نفاذ صرف سیاسی ہی نہیں آئینی پہلو سے بھی اہم ہے۔ پاکستان کے ہر آئین میں اردو کے نفاذ کی ضمانت دی گئی ہے۔ آئین کسی قوم اور ملک کی نہایت اہم اور مقدس دستاویز ہوتی ہے جس پر عمل ضروری ہوتا ہے۔ پاکستان کے 1973ء کے آئین کی دفعہ نمبر 251 میں ان الفاظ میں اردو کے نفاذ کی ضمانت دی گئی ہے۔پاکستان کی قومی زبان اردو ہے۔ تاریخ اجرا (14 اگست 1973ء) سے پندرہ سال (یعنی 88ء تک) کے اندر سرکاری اور دیگر مقاصد کے لیے اس کے استعمال کا انتظام کیا جائے گا۔تو ہمارے ساتھ یہ کتنا بڑا مذاق یا پھر المیہ ہے کہ ہماری قومی زبان الگ ہے اور سرکاری زبان الگ، لیکن ہم اس تضاد کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ ہم نے اس کو زندگی کا لازمہ سمجھ لیا ہے۔
سیاسی پہلو
دراصل اردو کے نفاذ سے اقتدار نیچے تک یعنی عوام کو منتقل ہو جائے گا۔ شاید یہی امر اردو کے نفاذ میں رکاوٹ ہے۔کوئی بھی دانش مند انسان یہ نہیں کہتا کہ آپ اپنا سو فیصد وقت اردو کے نفاذ کے لیے وقف کر دیں۔ نہیں ہرگز یہ ہمارا مقصد نہیں کہ اپنی نوکری، اہل خانہ اور سماجی ذمہ داریوں کو چھوڑ کر بس، اردو کی ترویج میں لگ جائیں۔ ہمیں اردو کے نفاذ کی کوششوں کے لیے اپنا پچاس فیصد یا پچیس فیصد بلکہ دس فیصد وقت بھی خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ایک فیصد وقت تو اس کام کا حق بنتا ہے۔ یہ بھی دین اور ملک کی اہم خدمت ہے، بلکہ ایسی خدمت جو اہم ہونے کے باوجود توجہ سے محروم ہے۔ہم نے انگریزی (بمقابلہ اردو) کے لیے جو کچھ کہا ہے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انگریزی کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اور ہم انگریزی سے بالکل قطع تعلق کر لیں۔ فی زمانہ انگریزی سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان ہے۔ اگر ہمیں سائنس اور ٹیکنالوجی میں آگے بڑھنا ہے تو ہمیں انگریزی سیکھنی ہو گی۔ ہم صرف انگریزی کے ذریعہ تعلیم اور سرکاری زبان بنانے کے مخالف ہیں، بطور مضمون انگریزی کے مخالف نہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کے لیے اصل کتب کے اردو تراجم ہونے چاہئیں۔ لیکن یہ کام سرکاری سرپرستی چاہتا ہے جس کے لیے ہمیں کوشش کرنی پڑے گی۔ یاد رکھیے! ہمارے بعد جو لوگ آ رہے ہیں وہ اس مسئلے کی اہمیت کو بالکل نہیں جانتے۔ یعنی یہ کام اگر ہم نے کر لیا یا کرانے کی کوشش کرتے رہے تو ٹھیک ہے، ورنہ بعد میں یہ کام اور زیادہ مشکل ہو جائے گا اور وقت نکل جائے گا جو ابھی ہمارے پاس ہے۔ ذرا سوچئے، ہمارا ملک ایک ایسے ملک کے طور پر شناخت کیا جائے گا جس کی زمین، فصلیں، ثقافت، لباس، غذائیں تو اپنی ہوں، اور زبان اپنی نہ ہو۔ بلاشبہ اگر آپ کو اردو سے محبت ہے تو اردو کی محبت میں یہ کام کریں۔ اگر آپ کو پاکستان سے محبت ہے تو آپ پاکستان کی ترقی و استحکام کے لیے یہ کام کریں۔
روحانی بابا ،
آخری تدوین: