راشد اشرف
محفلین
اردو کتابوں کی اسکیننگ-ایک دیرینہ خواب کی تکمیل میں مزید پیش رفت
دیکھو یہ میرے خواب تھے، دیکھو یہ میرے زخم ہیں
میں نے تو سب حسابِ جاں برسرِ عام رکھ دیا
صاحبو! راقم الحروف پرانی کتابوں کی اسکیننگ گزشتہ تین برسوں سے کررہا ہے۔ مقصد یہی ہے کہ ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ اس سے استفادہ کرسکیں۔اس عرصے میں پاک و بھارت کی مختلف جامعات سے وابستہ درجنوں طلبہ نے رابطہ کیا ، بہتیروں کی طلب فوری طور پر اپنے چھوٹے سے کتب خانے سے یا چند اہل دانش کے تعاون سے پوری کی گئی۔آپ میں سے اکثر احباب ان ”اہل دانش“ کے ناموں سے بخوبی ہیں ، ان میں سب کے سب وسیع القب اور وسیع المشرب لوگ ہیں۔(خدا کا شکر ہے کہ ”وسیع المشروب“ نہیں ہیں)۔ کئی طلبہ کو اسکین شدہ کتابوں کے موجودہ ذخیرے سے مطلوبہ کتب فراہم کی گئیں۔ایک محتاط اندازے (جو راقم کا اپنا ہی ہے) کے مطابق راقم السطور پونے دو لاکھ اوراق اسکین کرچکا ہے۔ یہ تما م ذخیرہ scribd.com
پر موجود ہے۔ان تمام کتابوں کو تادم تحریر دنیا بھر میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار لوگ دیکھ چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ادب الاطفال سے متعلق چند کتابیں کھام گاؤں کے برادرم محمد انیس الدین اور کینیڈا میں قیام پذیر برادرم محمد فرحان نے بھی اسکین کرکے بھیجیں ہیں۔ دو برس قبل علی گڑھ میں قیام پذیرراقم کے دیرینہ کرم فرما پروفیسر اطہر صدیقی نے اپنے کتب خانے سے کم و بیش چالیس خودنوشتیں اسکیننگ کے لیے فراہم کی تھیں۔
راقم کی اسکین کردہ کتا بوں کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے:
موضوع
اسکین شدہ کتابوں کی تعداد
ادب الاطفال۔سنہ چالیس۔ پچاس تا ستر
کی دہائی میں شائع ہوئے ناول
310
پاک بھارت کی خودنوشتیں مع زندانی ادب:
113
سفرنامے اور رپورتاژ
20
شخصی خاکے و تذکرے
38
تحقیقی مقالے(مختلف ذرائع سے حاصل کردہ)
24
ادب الاطفال پر کتابیں اور مقالے
05
متفرق موضوعات(کالم، تحقیق، تاریخ،وفیات، تصوف،جناب ابن صفی،
اکرم الہ آبادی،،مسعود جاوید،اظہار اثر، مشفق خواجہ کی کتابوں کے سرورق، فلمی موضوع پر کتابوں کے سرورق اے حمید ،محمد خالد اختر ، عبادت بریلوی کی کتابوں کے سرورق مع یادگار تصاویر،ڈائجسٹوں سے چند یادگار کہانیاں تین حصوں میں، بلونت سنگھ کی تحریریں،قیسی رام پوری کے تقسیم سے قبل شائع ہوئے افسانے وغیرہ 55
خطوط کے مجموعے
05
پرانی کتابوں کے اتوار بازار کی کتابوں
کے سرورق مع تفصیل
27
رسائل و جرائد سے منتخب کردہ اوراق
33
اسکین کردہ مواد کی کل تعداد
630
کتابوں کی اسکیننگ اور انٹرنیٹ پر ان کتب کی دستیابی
(uploading)
ایک ایسا طریقہ ہے جس کی مدد سے کتابوں کو ایک طویل عرصے تک محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ بصورت دیگر ان کی ”آخری آرام گاہ“ پرانی کتابوں کے اتوار بازار وںہی میں بنتی ہے ۔ اسی سوچ کے پیش نظر ڈاکٹر معین الدین عقیل نے اپنا کتب خانہ جاپان کی کیوتو یونیورسٹی کو سونپ دیا جہاں ان کی ستائیس ہزار کتابوں کی اسکیننگ تواتر کے ساتھ جاری ہے۔ ڈاکٹر نے اپنے اس فیصلے کے جواز میں 2012 میں ایک کتابچہ شائع کیا تھا جس میں ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:
حمیدالدین شاہد کا کتب خانہ دکنیات کے لحاظ سے اہم تھا۔ڈاکٹر سہیل بخاری، ڈاکٹر شوکت سبزواری، ڈاکٹر ریاض الحسن ، ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری جیسے متعدد نام ہیں جن کے کتب خانے کبھی شہرت اور اہمیت رکھتے تھے لیکن اب ان کے نام و نشان بھی نہیں۔ان میں سے مرزا علی اظہر برلاس اور ڈاکٹر ریاض الحسن اور دیگر کئی افراد نے اپنے کتب خانے اور قیمتی نوادرات و مخطوطات مشفق خواجہ کی نذر کردیے تھے۔ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری صاحب نے اپنا کتب خانہ ایک دارالعلوم کے کتب خانے کو دے دیا۔لیکن دیگر ذاتی کتب خانوں کا اب وجود نہیں رہا۔ایسے بیشتر کتب خانے کراچی ہی نہیں لاہور بلکہ ہر شہر میں کباڑیوں اور ردی فروشوں یا فٹ پاتھوں پر فروخت ہوئے۔اب ان کا نام و نشان نہیں۔ آج ہمارے اکابر میں کراچی میں ڈاکٹر جمیل جالبی اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے کتب خانے بہت وقیع سمجھے جاتے ہیں۔ان کے علاوہ سحر انصاری صاحب یالاہور میں محمد عالم مختار حق، افضل حق قرشی ، اکرام چغتائی، ڈاکٹر تحسین فراقی اور اقبال مجددی صاحبان وغیرہ کے کتب خانے بھی ایک مثال ہیں۔لیکن ان سب کا مستقبل کیاہے؟
یہ سوال ہر ایک کے لیے، جس جس کے پاس ذاتی کتب خانہ موجود ہے، اذیت ناک ہے۔زیادہ سے زیادہ وہ یہ سوچتے ہیں کہ ان کے بعد ان کا کتب خانہ کسی لائبریری کو دے دیاجائے گا یا لائبریری میں پہنچ جائے گا۔لیکن کراچی یونیورسٹی ، ہمدرد یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی میں کئی ذاتی کتب خانے جمع ہوئے لیکن ان کا کیاحشر ہوا؟ یہ عبرت ناک ہے۔کراچی یونیورسٹی میں احسن مارہروی، مولوی بشیر الدین احمد،ڈاکٹر ابواللیث صدیقی اور دیگر متعدد اکابر و مشاہیرکے کتب خانے بھی آئے لیکن منوں مٹی تلے دبے ہوئے ہیں اور کوئی ان کا پرسان ِ حال نہیں۔بعض ذخائر ابھی تک بوریوں میں بند پڑے ہیں اور یوں ہی تباہ ہورہے ہیں، کوئی نہیں جو انھیں کھولنے اور ترتیب دینے تک کا سوچے، ان کی حفاظت اور دیکھ بھال اور انھیں ترتیب دینا اور قابل ِ استفادہ رکھنا تو دور کی بات ہے۔ یونیورسٹیوں کے خود اپنے ذخائر اب انتہائی کس مپرسی کی حالت میں ہیں اور تباہ ہوچکے ہیں اور جو بچ گئے ہیں ان کا مستقبل بھی مختلف نہیں۔ جس طرح ہم اور ہمارا معاشرہ، ہماری اقدار، ہماری روایات ہر چیز تباہی کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے اورذمے داروں میں کوئی نہیں جو اس تباہی کو روکنے کے لیے کوشاں یا مستعد ہو۔اسی طرح لائبریریاں بھی اور خاص طور پر جامعات کی لائبریریاں اپنے ارباب ِ اقتدار کی بے نیازی اور نااہلی کے سبب تباہی اور کس مپرسی کا شکار ہیں۔
بظاہر اقبال کا یہ شعر بطور ضرب المثل بھی ہمارے دلوں کو چھوتارہتاہے:
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آ باء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ
لیکن یورپ وامریکہ کا وہ کونسا کتب خانہ ہے جس کے بارے میں ہم یہ کہہ سکیں کہ وہاں کتابیں کس مپرسی کی حالت میں برباد ہورہی ہیں؟ یقینا ان کتابوں پر قوم و ملت کا زیادہ حق ہے لیکن اگر وہ یہیں رہتیں تو کیا اب تک وہ باقی رہتیں؟ ہندوستان میں مسلم عہد حکومت کے کتنے ہی بے مثال اور عالی شان کتب خانوں کے ذکر سے ہماری علمی تاریخ بھری پڑی ہے، لیکن آج وہ کہاں ہیں؟ ان کی کتابوں کی فہرستیں بھی مرتب ہوئی تھیں لیکن وہ فہرستیں تک اب یہاں موجود نہیں وہ بھی یورپ ہی کے کتب خانوں کی زینت ہیں! یوں دیکھیں تو علمی حوالے سے مغرب کے جو احسانات ہم پر ہیں، میں تو اسے بھی ان کے سامراجی اقدامات کے ساتھ ساتھ ایک ایسا اقدام بھی سمجھتاہوں کہ جس کی وجہ سے ہماری علمی و تہذیبی فضیلتیں ایک ثبوت اور حقیقت کے طور پروہاں محفوظ ہیں اور خود ہمارے استفادے کے لیے بھی موجود ہیں اور ہم ان سے حسب ِ استطاعت فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔اگر وہ سب کچھ، جو مغربی کتب خانوں میں آج محفوظ ہے،وہاں محفوظ نہ رہتا تویہاں ہمارے عبرت ناک اور نہ رُکنے والے زوال کے باعث وہ سب بھی ضائع ہوچکا ہوتا۔آج یہ بھی ہمارا دور ِ زوال ہی ہے کہ ہم اپنے معاشرے اور اپنی اقدار کو محفوظ رکھنے کے لیے رمق بھر بھی کوشش نہیں کررہے۔ ان ساٹھ پینسٹھ سالوں میں ہم نے ادارے بنائے نہیں، جو موجود تھے یا اگر کچھ بن بھی گئے تھے تو ہم نے انھیں بربادی کی حد تک پہنچادیاہے۔ماضی تو ایک طرف جب ہمارا حال بھی تیز تر زوال کا شکار ہے اور ہمارے نظام میں اب کوئی ایسی امید افزا صورت نظر نہیں آتی کہ ہم اپنی حالت کو سنبھالا دے سکیں اور اس مزید زوال کو ، جو ہمارا مقدر لگ رہاہے، روک بھی سکیں۔
معین الدین عقیل۔
٭==٭
یہ تو ہوئیں چند ابتدائی باتیں، کچھ تمہید ، کچھ دل کے پھپھولے۔
مگر سچ پوچھئے تو کچھ عرصے سے راقم کی ہمت جواب دے گئی ہے۔ 650 کتابوں کی اسکیننگ ایک تھکا دینے والا کام ہے۔ یہ اپنا خراج طلب کرتا ہے۔ مشفق خواجہ لائبریر ی میں ایک برس سے کتابوں کی اسکیننگ پر مامور ایک دوست کے بقول ”شام کو جب گھر واپس جاتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ میری گردن اور کمر پر گویا کسی نے سیمنٹ کا لیپ کردیا ہے۔“
کچھ عرصہ قبل فرزند قابل اجمیر ی جناب ظفر قابل کا فون آیا۔ کہنے لگے کہ میں اپنے والد سے متعلق چند اہم کتابیں اور ان کے ہاتھ کا تحریر کردہ مسودہ ”دیدہ بیدار“ (1958 ء) بھیج رہا ہوں۔ان کے الفاظ یہ تھے:
”چونکہ آپ کتابوں کی اسکیننگ کرتے ہیں لہذا ان کو بھی انٹرنیٹ پر محفوظ کردیجئے۔میرے دل کا بائی پاس آپریشن ہونے والا ہے، ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ آپ کی زندگی کو خطرہ ہے، زندہ بچنے کا امکان کم ہے لہذا یہ امانت آپ کو بھیج رہا ہوں۔“
قابل اجمیری مرحوم کی کتابیں اور مسودہ جب میرے پاس پہنچے تو انہیں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ایک ایسا قیمتی اثاثہ جسے لوگ سینے سے لگا کر رکھتے ہیں مگر شاید ظفر صاحب کو اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ انٹرنیٹ پر اسے محفوظ کردینا ہی ان حالات میں سب سے مناسب ہے۔ (الحمد اللہ کہ ظفر قابل اجمیری صاحب کی سرجری کامیاب رہی اور وہ رو بہ صحت ہیں)۔
راقم الحروف اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ مزید کام کیسے کیا جائے ۔ کیا سبیل ہو۔
پھر یوں ہوا کہ اللہ تعالی نے ایک مہربان کو بھیج دیا۔ یہ نوجوان بیرون ملک سے آئے،راقم کے غریب خانے پر ملاقات کو تشریف لائے ،کہا کہ ایک عرصے سے ”بزم قلم“ پر آپ کے اسکیننگ کے کام کو دیکھ رہا ہوں۔خواہش ہے کہ اسے وسعت دی جائے۔اس سلسلے میں مالی تعاون کی پیشکش کی۔طے پایا کہ کسی ایسے شخص کی خدمات حاصل کی جائے گی جو مناسب معاوضے پر ماہانہ بنیادوں پر اسکیننگ کا کام کرسکے۔طے ہوا کہ ایک ماہ میں کم و بیش 15 کتابیں (فی الحال صرف نثری کتابیں) اسکین کی جائیں گی جن کی اسکیننگ کی لاگت وہ ماہانہ بنیادوں پر راقم کو ارسال کیا کریں گے۔
تمام معاملات طے پاجانے کے بعدہمارے ممدوح نے ابتدائی طور پر ایک معقول رقم اس کام کے لیے فراہم کردی۔
اس سلسلے میں بھی حیرت انگیز پیش رفت ہوئی اور دو ہفتے قبل ایک ایسا نوجوان مل گیا جو بخوشی اس کام پر تیار ہوگیا۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل سے درخواست کی گئی کہ اپنے باقی ماندہ کتب خانے سے متفرق موضوعات (تحقیق، خودنوشت، وفیات، سفرنامہ وغیرہ) پر مبنی 20 کتابیں عنایت کردیں آپ نے بخوشی حامی بھرلی، اٹلانٹس پبلی کیشنز کے جناب فاروق احمد نے کتابیں فراہم کرنے کا کہا،راقم نے اپنے کتب خانے سے 50 کتابیں علاحدہ کیں، سید معراج جامی صاحب نے اپنے کتب خانے سے 12 اہم ہندوستانی کتب فراہم کیں۔ HP کا ایک مناسب سا ’جواں سال‘ اسکینر خریدا گیا اور مذکورہ نوجوان کو فراہم کردیا گیا۔ابتدائی طور پر قابل اجمیری کے دو مسودات اور چند کتابیں اسکیننگ کے لیے دے دی گئیں۔
دو ہی ہفتے قبل اسکیننگ کا آغاز ہوگیا اور ان دنوں بھی روزانہ کی بنیادوں پر یہ کام جاری ہے۔
اب تک اسکین کی گئی کتابوں/مسودوں کے نام یہ ہیں:
دریچوں میں رکھے چراغ ۔ رام لعل
عطریات و تنقیحات ۔ قابل اجمیری
دیدہ بیدار ۔ قابل اجمیری
یادوں کی پرچھائیاں ۔ خاکے، تحقیقی مضامین ۔ رحمت امروہوی، دہلی
مشرقی پاکستان کی کہانیاں ۔ ابصار عبدالعلی
جبکہ درج ذیل کتابیں اسکیننگ کے مراحل سے گزر رہی ہیں:
نقد بجنوری از ڈاکٹر حدیقہ بیگم (بھارت)، میرا - شخصیت اور فن،سیمنار میں پڑھے گئے مقالوں کا مجموعہ(بھارت)،ن میم راشد شخصیت اور فن از مغنی تبسم (بھارت)، غالب شکن اور یگانہ از ڈاکٹر نجیب جمال، آزادی کے بعد دہلی میں اردو انشائیہ، سوالات و خیالات از پروفیسر کرار حسین، یادِ یار ِ مہرباں ( زیڈ اے بخاری پر خاکے اور مضامین)، کیا صورتیں ہوں گی(موسیقی پر مضامین)، آئینہ خانے میں ،خاکے از اسلوب احمد انصاری۔
اب کچھ مزید باتیں :
اسکرائبڈ ڈاٹ کام
(scribd.com )
پر گرچہ راقم الحروف کے نام سے ایک علاحدہ ویب صفحہ موجود ہے جہاں تمام کتابیں دیکھی جاسکتی ہیں
مگر راقم کا یہ خیال ہے کہ ریختہ ڈاٹ کام کی طرز پر ایک علاحدہ ویب سائٹ اسی مقصد کے لیے تخلیق کی جائے جہاں پہلے سے اسکین شدہ کتابیں جن کی تعداد 650 ہے مع ان کے کتابوں کے جو زیر موضوع اسکیننگ کے منصوبے کے تحت اسکین ہوتی جائیں گی۔
ہند میں ”ریختہ ڈاٹ کام “نامی معروف سائٹ بڑے پیمانے پر کام کررہی ہے، اس کے لیے علاحدہ عملہ رکھا گیا ہے جبکہ راقم سمجھتا ہے کہ ایک ایسی سادہ سی،قابل ِ انتظام ویب سائٹ بھی ہمارے ارادے کی تکمیل کے لیے فی الحال مناسب ہوگی۔ ریختہ ایک ادارے کا نام ہے جبکہ راقم نے انفرادی سطح پر جو کچھ ہوسکا، حسب مقدور و استطاعت کیا ۔کسی فرد ِ واحد کا کام کبھی بھی کسی ادارے کے ہم پلہ نہیں ہوسکتا۔ یہ تو چراغ سے چراغ جلنے والی بات ہے، لوگ آتے جائیں اور قافلہ نہ سہی ،پان سات افراد کی ایک ٹیم ہی بن جائے تب بھی غنیمت۔
دکن میں ویب سائٹ برقی کتابیں کے نگراں کار جناب اعجاز عبید کا انتہائی گراں قدر کام بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ آپ کی سائٹ پر کتابیں یونی کوڈ میں دستیاب ہیں۔
بہرکیف، اس کے لیے راقم نے چند احباب سے مدد کی درخواست کی ہے۔ سرفہرست ہمارے عزیز دوست اور مربی جناب محمد حنیف صاحب ہیں جو ابن صفی ڈاٹ انفو کے نگران کار ہیں۔ ویب سائٹ بن جانے کی صورت میں ایک سے زائد لوگوں کو اس کے انتظامی حقوق یا
administrative rights
دے دیے جائیں گے تاکہ کسی ایک شخص پر مکمل انحصار نہ کیا جاسکے ۔
ویب سائٹ پر کتابیں ورق بہ ورق امیج فائل کی شکل میں دستیاب ہوں گی جنہیں پڑھا اور ہر صفحے کا پرنٹ آؤٹ لیا جاسکے گا۔ مکمل کتاب کی ڈاوؤن لوڈنگ کے اختیارات دینے میں کچھ قباحتیں ہیں۔ ادب الاطفال کے معاملے میں ایسا ہی کچھ راقم کے ساتھ ہوا جب ایک مہربان نے ایک معروف سلسلے کی تیرہ کتابوں کو ڈاؤن لوڈ کیا اور پھر انٹرنیٹ ہی پر فی کتاب تین سو روپے کا اشتہار آویزاں کردیا۔ مذکورہ اشتہار کو دیکھ کر ہم نے جگر کو پیٹنے کا ارادہ کیا مگر چونکہ اس میں بھی سراسر اپنا ہی گھاٹا ہی تھا لہذا ارادہ ترک کرنا پڑا۔
امکان ہے ویب سائٹ کو بنانے اور اس کا
domain name
حاصل کرنے کے لیے شاید وہ مرحلہ آئے کہ’ فیس بک ‘احباب سے تعاون کی درخواست کی جائے۔
احباب سے درخواست:
متفرق اہم نثری موضوعات پر کتابیں فراہم کرسکیں تو اچھا ہو۔کتاب نئی نہ ہو۔ کسی مرحوم یا آنجہانی ادارے کی کتابیں فراہم کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ کتابیں احتیاط سے اسکیننگ کے بعد واپس کردی جائیں گی۔
جو حضرات مائل بہ تعاون ہونے کا ارادہ کریں ان کے لیے کتب کے انتخاب میں آسانی کی خاطر ایک
excel
فائل منسلک کی جارہی ہے جبکہ محفل کے لیے لنک درج کیا جارہا ہے جس میں راقم کی تادم تحریر اسکین شدہ کتابوں (جن کی تفصیل اوپر درج کی گئی ہے) کے نام شامل ہیں:
٭==٭
چند ماہ قبل دہلی میں ہوئے جشن ریختہ میں ہمارے یہاں سے جناب ضیاء محی الدین نے شرکت کی تھی۔ وہ بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ :
”جس طرح ریختہ نے اردو کتابوں کی اسکیننگ کی ہے اور انہیں عوام کے استفادے کے لیے پیش کیا ہے بالکل اسی طرز پر ہمارے یہاں پاکستان میں بھی کام ہونا چاہیے۔ میں واپس جا کر اپنے لوگوں کو شرم دلاؤں گا کہ اس جانب بھی توجہ کریں۔“
ضیاء صاحب کے علم میں شاید یہ بات نہیں کہ مشفق خواجہ مرحوم کا بے مثال کتب خانہ بھی تین برس سے کیٹلاگنگ
(cataloging)
اور اب اسکیننگ کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ ادھر ڈاکٹر معین الدین عقیل کے کتب خانے کی ستائیس ہزار کتابوں کی روزانہ کی بنیاد پر آٹھ افراد اسکیننگ میں مصروف ہیں۔ انجمن ترقی اردو کراچی(پاکستان) کی انتظامیہ بھی انہی خطوط پر سوچ رہی ہے۔ پاکستان میں دینی کتابوں کو بھی اسکین کرنے کا کام جاری ہے۔
مذکورہ بالا معاملے میں راقم کے’ بخت‘ میں جو درج تھا وہ ہوگیا،اب وہ بھرپایا، اک وقفہ لیا ہے اوراب دم کے کر آگے چلیں گے مگر اس میں ہمیشہ کی طرح کچھ پرخلوص لوگ شامل ہوگئے ہیں، یہی باعث طمانیت ہے، یہی اصل کمائی ہے۔
بحمد اللہ ! تُو ہے جس کا ہم دم
کہاں اس قلب میں گنجائش ِغم؟
خیر اندیش
راشد اشرف،کراچی
دیکھو یہ میرے خواب تھے، دیکھو یہ میرے زخم ہیں
میں نے تو سب حسابِ جاں برسرِ عام رکھ دیا
صاحبو! راقم الحروف پرانی کتابوں کی اسکیننگ گزشتہ تین برسوں سے کررہا ہے۔ مقصد یہی ہے کہ ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ اس سے استفادہ کرسکیں۔اس عرصے میں پاک و بھارت کی مختلف جامعات سے وابستہ درجنوں طلبہ نے رابطہ کیا ، بہتیروں کی طلب فوری طور پر اپنے چھوٹے سے کتب خانے سے یا چند اہل دانش کے تعاون سے پوری کی گئی۔آپ میں سے اکثر احباب ان ”اہل دانش“ کے ناموں سے بخوبی ہیں ، ان میں سب کے سب وسیع القب اور وسیع المشرب لوگ ہیں۔(خدا کا شکر ہے کہ ”وسیع المشروب“ نہیں ہیں)۔ کئی طلبہ کو اسکین شدہ کتابوں کے موجودہ ذخیرے سے مطلوبہ کتب فراہم کی گئیں۔ایک محتاط اندازے (جو راقم کا اپنا ہی ہے) کے مطابق راقم السطور پونے دو لاکھ اوراق اسکین کرچکا ہے۔ یہ تما م ذخیرہ scribd.com
پر موجود ہے۔ان تمام کتابوں کو تادم تحریر دنیا بھر میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار لوگ دیکھ چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ادب الاطفال سے متعلق چند کتابیں کھام گاؤں کے برادرم محمد انیس الدین اور کینیڈا میں قیام پذیر برادرم محمد فرحان نے بھی اسکین کرکے بھیجیں ہیں۔ دو برس قبل علی گڑھ میں قیام پذیرراقم کے دیرینہ کرم فرما پروفیسر اطہر صدیقی نے اپنے کتب خانے سے کم و بیش چالیس خودنوشتیں اسکیننگ کے لیے فراہم کی تھیں۔
راقم کی اسکین کردہ کتا بوں کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے:
موضوع
اسکین شدہ کتابوں کی تعداد
ادب الاطفال۔سنہ چالیس۔ پچاس تا ستر
کی دہائی میں شائع ہوئے ناول
310
پاک بھارت کی خودنوشتیں مع زندانی ادب:
113
سفرنامے اور رپورتاژ
20
شخصی خاکے و تذکرے
38
تحقیقی مقالے(مختلف ذرائع سے حاصل کردہ)
24
ادب الاطفال پر کتابیں اور مقالے
05
متفرق موضوعات(کالم، تحقیق، تاریخ،وفیات، تصوف،جناب ابن صفی،
اکرم الہ آبادی،،مسعود جاوید،اظہار اثر، مشفق خواجہ کی کتابوں کے سرورق، فلمی موضوع پر کتابوں کے سرورق اے حمید ،محمد خالد اختر ، عبادت بریلوی کی کتابوں کے سرورق مع یادگار تصاویر،ڈائجسٹوں سے چند یادگار کہانیاں تین حصوں میں، بلونت سنگھ کی تحریریں،قیسی رام پوری کے تقسیم سے قبل شائع ہوئے افسانے وغیرہ 55
خطوط کے مجموعے
05
پرانی کتابوں کے اتوار بازار کی کتابوں
کے سرورق مع تفصیل
27
رسائل و جرائد سے منتخب کردہ اوراق
33
اسکین کردہ مواد کی کل تعداد
630
کتابوں کی اسکیننگ اور انٹرنیٹ پر ان کتب کی دستیابی
(uploading)
ایک ایسا طریقہ ہے جس کی مدد سے کتابوں کو ایک طویل عرصے تک محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ بصورت دیگر ان کی ”آخری آرام گاہ“ پرانی کتابوں کے اتوار بازار وںہی میں بنتی ہے ۔ اسی سوچ کے پیش نظر ڈاکٹر معین الدین عقیل نے اپنا کتب خانہ جاپان کی کیوتو یونیورسٹی کو سونپ دیا جہاں ان کی ستائیس ہزار کتابوں کی اسکیننگ تواتر کے ساتھ جاری ہے۔ ڈاکٹر نے اپنے اس فیصلے کے جواز میں 2012 میں ایک کتابچہ شائع کیا تھا جس میں ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:
حمیدالدین شاہد کا کتب خانہ دکنیات کے لحاظ سے اہم تھا۔ڈاکٹر سہیل بخاری، ڈاکٹر شوکت سبزواری، ڈاکٹر ریاض الحسن ، ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری جیسے متعدد نام ہیں جن کے کتب خانے کبھی شہرت اور اہمیت رکھتے تھے لیکن اب ان کے نام و نشان بھی نہیں۔ان میں سے مرزا علی اظہر برلاس اور ڈاکٹر ریاض الحسن اور دیگر کئی افراد نے اپنے کتب خانے اور قیمتی نوادرات و مخطوطات مشفق خواجہ کی نذر کردیے تھے۔ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری صاحب نے اپنا کتب خانہ ایک دارالعلوم کے کتب خانے کو دے دیا۔لیکن دیگر ذاتی کتب خانوں کا اب وجود نہیں رہا۔ایسے بیشتر کتب خانے کراچی ہی نہیں لاہور بلکہ ہر شہر میں کباڑیوں اور ردی فروشوں یا فٹ پاتھوں پر فروخت ہوئے۔اب ان کا نام و نشان نہیں۔ آج ہمارے اکابر میں کراچی میں ڈاکٹر جمیل جالبی اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے کتب خانے بہت وقیع سمجھے جاتے ہیں۔ان کے علاوہ سحر انصاری صاحب یالاہور میں محمد عالم مختار حق، افضل حق قرشی ، اکرام چغتائی، ڈاکٹر تحسین فراقی اور اقبال مجددی صاحبان وغیرہ کے کتب خانے بھی ایک مثال ہیں۔لیکن ان سب کا مستقبل کیاہے؟
یہ سوال ہر ایک کے لیے، جس جس کے پاس ذاتی کتب خانہ موجود ہے، اذیت ناک ہے۔زیادہ سے زیادہ وہ یہ سوچتے ہیں کہ ان کے بعد ان کا کتب خانہ کسی لائبریری کو دے دیاجائے گا یا لائبریری میں پہنچ جائے گا۔لیکن کراچی یونیورسٹی ، ہمدرد یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی میں کئی ذاتی کتب خانے جمع ہوئے لیکن ان کا کیاحشر ہوا؟ یہ عبرت ناک ہے۔کراچی یونیورسٹی میں احسن مارہروی، مولوی بشیر الدین احمد،ڈاکٹر ابواللیث صدیقی اور دیگر متعدد اکابر و مشاہیرکے کتب خانے بھی آئے لیکن منوں مٹی تلے دبے ہوئے ہیں اور کوئی ان کا پرسان ِ حال نہیں۔بعض ذخائر ابھی تک بوریوں میں بند پڑے ہیں اور یوں ہی تباہ ہورہے ہیں، کوئی نہیں جو انھیں کھولنے اور ترتیب دینے تک کا سوچے، ان کی حفاظت اور دیکھ بھال اور انھیں ترتیب دینا اور قابل ِ استفادہ رکھنا تو دور کی بات ہے۔ یونیورسٹیوں کے خود اپنے ذخائر اب انتہائی کس مپرسی کی حالت میں ہیں اور تباہ ہوچکے ہیں اور جو بچ گئے ہیں ان کا مستقبل بھی مختلف نہیں۔ جس طرح ہم اور ہمارا معاشرہ، ہماری اقدار، ہماری روایات ہر چیز تباہی کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے اورذمے داروں میں کوئی نہیں جو اس تباہی کو روکنے کے لیے کوشاں یا مستعد ہو۔اسی طرح لائبریریاں بھی اور خاص طور پر جامعات کی لائبریریاں اپنے ارباب ِ اقتدار کی بے نیازی اور نااہلی کے سبب تباہی اور کس مپرسی کا شکار ہیں۔
بظاہر اقبال کا یہ شعر بطور ضرب المثل بھی ہمارے دلوں کو چھوتارہتاہے:
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آ باء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ
لیکن یورپ وامریکہ کا وہ کونسا کتب خانہ ہے جس کے بارے میں ہم یہ کہہ سکیں کہ وہاں کتابیں کس مپرسی کی حالت میں برباد ہورہی ہیں؟ یقینا ان کتابوں پر قوم و ملت کا زیادہ حق ہے لیکن اگر وہ یہیں رہتیں تو کیا اب تک وہ باقی رہتیں؟ ہندوستان میں مسلم عہد حکومت کے کتنے ہی بے مثال اور عالی شان کتب خانوں کے ذکر سے ہماری علمی تاریخ بھری پڑی ہے، لیکن آج وہ کہاں ہیں؟ ان کی کتابوں کی فہرستیں بھی مرتب ہوئی تھیں لیکن وہ فہرستیں تک اب یہاں موجود نہیں وہ بھی یورپ ہی کے کتب خانوں کی زینت ہیں! یوں دیکھیں تو علمی حوالے سے مغرب کے جو احسانات ہم پر ہیں، میں تو اسے بھی ان کے سامراجی اقدامات کے ساتھ ساتھ ایک ایسا اقدام بھی سمجھتاہوں کہ جس کی وجہ سے ہماری علمی و تہذیبی فضیلتیں ایک ثبوت اور حقیقت کے طور پروہاں محفوظ ہیں اور خود ہمارے استفادے کے لیے بھی موجود ہیں اور ہم ان سے حسب ِ استطاعت فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔اگر وہ سب کچھ، جو مغربی کتب خانوں میں آج محفوظ ہے،وہاں محفوظ نہ رہتا تویہاں ہمارے عبرت ناک اور نہ رُکنے والے زوال کے باعث وہ سب بھی ضائع ہوچکا ہوتا۔آج یہ بھی ہمارا دور ِ زوال ہی ہے کہ ہم اپنے معاشرے اور اپنی اقدار کو محفوظ رکھنے کے لیے رمق بھر بھی کوشش نہیں کررہے۔ ان ساٹھ پینسٹھ سالوں میں ہم نے ادارے بنائے نہیں، جو موجود تھے یا اگر کچھ بن بھی گئے تھے تو ہم نے انھیں بربادی کی حد تک پہنچادیاہے۔ماضی تو ایک طرف جب ہمارا حال بھی تیز تر زوال کا شکار ہے اور ہمارے نظام میں اب کوئی ایسی امید افزا صورت نظر نہیں آتی کہ ہم اپنی حالت کو سنبھالا دے سکیں اور اس مزید زوال کو ، جو ہمارا مقدر لگ رہاہے، روک بھی سکیں۔
معین الدین عقیل۔
٭==٭
یہ تو ہوئیں چند ابتدائی باتیں، کچھ تمہید ، کچھ دل کے پھپھولے۔
مگر سچ پوچھئے تو کچھ عرصے سے راقم کی ہمت جواب دے گئی ہے۔ 650 کتابوں کی اسکیننگ ایک تھکا دینے والا کام ہے۔ یہ اپنا خراج طلب کرتا ہے۔ مشفق خواجہ لائبریر ی میں ایک برس سے کتابوں کی اسکیننگ پر مامور ایک دوست کے بقول ”شام کو جب گھر واپس جاتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ میری گردن اور کمر پر گویا کسی نے سیمنٹ کا لیپ کردیا ہے۔“
کچھ عرصہ قبل فرزند قابل اجمیر ی جناب ظفر قابل کا فون آیا۔ کہنے لگے کہ میں اپنے والد سے متعلق چند اہم کتابیں اور ان کے ہاتھ کا تحریر کردہ مسودہ ”دیدہ بیدار“ (1958 ء) بھیج رہا ہوں۔ان کے الفاظ یہ تھے:
”چونکہ آپ کتابوں کی اسکیننگ کرتے ہیں لہذا ان کو بھی انٹرنیٹ پر محفوظ کردیجئے۔میرے دل کا بائی پاس آپریشن ہونے والا ہے، ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ آپ کی زندگی کو خطرہ ہے، زندہ بچنے کا امکان کم ہے لہذا یہ امانت آپ کو بھیج رہا ہوں۔“
قابل اجمیری مرحوم کی کتابیں اور مسودہ جب میرے پاس پہنچے تو انہیں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ایک ایسا قیمتی اثاثہ جسے لوگ سینے سے لگا کر رکھتے ہیں مگر شاید ظفر صاحب کو اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ انٹرنیٹ پر اسے محفوظ کردینا ہی ان حالات میں سب سے مناسب ہے۔ (الحمد اللہ کہ ظفر قابل اجمیری صاحب کی سرجری کامیاب رہی اور وہ رو بہ صحت ہیں)۔
راقم الحروف اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ مزید کام کیسے کیا جائے ۔ کیا سبیل ہو۔
پھر یوں ہوا کہ اللہ تعالی نے ایک مہربان کو بھیج دیا۔ یہ نوجوان بیرون ملک سے آئے،راقم کے غریب خانے پر ملاقات کو تشریف لائے ،کہا کہ ایک عرصے سے ”بزم قلم“ پر آپ کے اسکیننگ کے کام کو دیکھ رہا ہوں۔خواہش ہے کہ اسے وسعت دی جائے۔اس سلسلے میں مالی تعاون کی پیشکش کی۔طے پایا کہ کسی ایسے شخص کی خدمات حاصل کی جائے گی جو مناسب معاوضے پر ماہانہ بنیادوں پر اسکیننگ کا کام کرسکے۔طے ہوا کہ ایک ماہ میں کم و بیش 15 کتابیں (فی الحال صرف نثری کتابیں) اسکین کی جائیں گی جن کی اسکیننگ کی لاگت وہ ماہانہ بنیادوں پر راقم کو ارسال کیا کریں گے۔
تمام معاملات طے پاجانے کے بعدہمارے ممدوح نے ابتدائی طور پر ایک معقول رقم اس کام کے لیے فراہم کردی۔
اس سلسلے میں بھی حیرت انگیز پیش رفت ہوئی اور دو ہفتے قبل ایک ایسا نوجوان مل گیا جو بخوشی اس کام پر تیار ہوگیا۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل سے درخواست کی گئی کہ اپنے باقی ماندہ کتب خانے سے متفرق موضوعات (تحقیق، خودنوشت، وفیات، سفرنامہ وغیرہ) پر مبنی 20 کتابیں عنایت کردیں آپ نے بخوشی حامی بھرلی، اٹلانٹس پبلی کیشنز کے جناب فاروق احمد نے کتابیں فراہم کرنے کا کہا،راقم نے اپنے کتب خانے سے 50 کتابیں علاحدہ کیں، سید معراج جامی صاحب نے اپنے کتب خانے سے 12 اہم ہندوستانی کتب فراہم کیں۔ HP کا ایک مناسب سا ’جواں سال‘ اسکینر خریدا گیا اور مذکورہ نوجوان کو فراہم کردیا گیا۔ابتدائی طور پر قابل اجمیری کے دو مسودات اور چند کتابیں اسکیننگ کے لیے دے دی گئیں۔
دو ہی ہفتے قبل اسکیننگ کا آغاز ہوگیا اور ان دنوں بھی روزانہ کی بنیادوں پر یہ کام جاری ہے۔
اب تک اسکین کی گئی کتابوں/مسودوں کے نام یہ ہیں:
دریچوں میں رکھے چراغ ۔ رام لعل
عطریات و تنقیحات ۔ قابل اجمیری
دیدہ بیدار ۔ قابل اجمیری
یادوں کی پرچھائیاں ۔ خاکے، تحقیقی مضامین ۔ رحمت امروہوی، دہلی
مشرقی پاکستان کی کہانیاں ۔ ابصار عبدالعلی
جبکہ درج ذیل کتابیں اسکیننگ کے مراحل سے گزر رہی ہیں:
نقد بجنوری از ڈاکٹر حدیقہ بیگم (بھارت)، میرا - شخصیت اور فن،سیمنار میں پڑھے گئے مقالوں کا مجموعہ(بھارت)،ن میم راشد شخصیت اور فن از مغنی تبسم (بھارت)، غالب شکن اور یگانہ از ڈاکٹر نجیب جمال، آزادی کے بعد دہلی میں اردو انشائیہ، سوالات و خیالات از پروفیسر کرار حسین، یادِ یار ِ مہرباں ( زیڈ اے بخاری پر خاکے اور مضامین)، کیا صورتیں ہوں گی(موسیقی پر مضامین)، آئینہ خانے میں ،خاکے از اسلوب احمد انصاری۔
اب کچھ مزید باتیں :
اسکرائبڈ ڈاٹ کام
(scribd.com )
پر گرچہ راقم الحروف کے نام سے ایک علاحدہ ویب صفحہ موجود ہے جہاں تمام کتابیں دیکھی جاسکتی ہیں
مگر راقم کا یہ خیال ہے کہ ریختہ ڈاٹ کام کی طرز پر ایک علاحدہ ویب سائٹ اسی مقصد کے لیے تخلیق کی جائے جہاں پہلے سے اسکین شدہ کتابیں جن کی تعداد 650 ہے مع ان کے کتابوں کے جو زیر موضوع اسکیننگ کے منصوبے کے تحت اسکین ہوتی جائیں گی۔
ہند میں ”ریختہ ڈاٹ کام “نامی معروف سائٹ بڑے پیمانے پر کام کررہی ہے، اس کے لیے علاحدہ عملہ رکھا گیا ہے جبکہ راقم سمجھتا ہے کہ ایک ایسی سادہ سی،قابل ِ انتظام ویب سائٹ بھی ہمارے ارادے کی تکمیل کے لیے فی الحال مناسب ہوگی۔ ریختہ ایک ادارے کا نام ہے جبکہ راقم نے انفرادی سطح پر جو کچھ ہوسکا، حسب مقدور و استطاعت کیا ۔کسی فرد ِ واحد کا کام کبھی بھی کسی ادارے کے ہم پلہ نہیں ہوسکتا۔ یہ تو چراغ سے چراغ جلنے والی بات ہے، لوگ آتے جائیں اور قافلہ نہ سہی ،پان سات افراد کی ایک ٹیم ہی بن جائے تب بھی غنیمت۔
دکن میں ویب سائٹ برقی کتابیں کے نگراں کار جناب اعجاز عبید کا انتہائی گراں قدر کام بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ آپ کی سائٹ پر کتابیں یونی کوڈ میں دستیاب ہیں۔
بہرکیف، اس کے لیے راقم نے چند احباب سے مدد کی درخواست کی ہے۔ سرفہرست ہمارے عزیز دوست اور مربی جناب محمد حنیف صاحب ہیں جو ابن صفی ڈاٹ انفو کے نگران کار ہیں۔ ویب سائٹ بن جانے کی صورت میں ایک سے زائد لوگوں کو اس کے انتظامی حقوق یا
administrative rights
دے دیے جائیں گے تاکہ کسی ایک شخص پر مکمل انحصار نہ کیا جاسکے ۔
ویب سائٹ پر کتابیں ورق بہ ورق امیج فائل کی شکل میں دستیاب ہوں گی جنہیں پڑھا اور ہر صفحے کا پرنٹ آؤٹ لیا جاسکے گا۔ مکمل کتاب کی ڈاوؤن لوڈنگ کے اختیارات دینے میں کچھ قباحتیں ہیں۔ ادب الاطفال کے معاملے میں ایسا ہی کچھ راقم کے ساتھ ہوا جب ایک مہربان نے ایک معروف سلسلے کی تیرہ کتابوں کو ڈاؤن لوڈ کیا اور پھر انٹرنیٹ ہی پر فی کتاب تین سو روپے کا اشتہار آویزاں کردیا۔ مذکورہ اشتہار کو دیکھ کر ہم نے جگر کو پیٹنے کا ارادہ کیا مگر چونکہ اس میں بھی سراسر اپنا ہی گھاٹا ہی تھا لہذا ارادہ ترک کرنا پڑا۔
امکان ہے ویب سائٹ کو بنانے اور اس کا
domain name
حاصل کرنے کے لیے شاید وہ مرحلہ آئے کہ’ فیس بک ‘احباب سے تعاون کی درخواست کی جائے۔
احباب سے درخواست:
متفرق اہم نثری موضوعات پر کتابیں فراہم کرسکیں تو اچھا ہو۔کتاب نئی نہ ہو۔ کسی مرحوم یا آنجہانی ادارے کی کتابیں فراہم کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ کتابیں احتیاط سے اسکیننگ کے بعد واپس کردی جائیں گی۔
جو حضرات مائل بہ تعاون ہونے کا ارادہ کریں ان کے لیے کتب کے انتخاب میں آسانی کی خاطر ایک
excel
فائل منسلک کی جارہی ہے جبکہ محفل کے لیے لنک درج کیا جارہا ہے جس میں راقم کی تادم تحریر اسکین شدہ کتابوں (جن کی تفصیل اوپر درج کی گئی ہے) کے نام شامل ہیں:
٭==٭
چند ماہ قبل دہلی میں ہوئے جشن ریختہ میں ہمارے یہاں سے جناب ضیاء محی الدین نے شرکت کی تھی۔ وہ بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ :
”جس طرح ریختہ نے اردو کتابوں کی اسکیننگ کی ہے اور انہیں عوام کے استفادے کے لیے پیش کیا ہے بالکل اسی طرز پر ہمارے یہاں پاکستان میں بھی کام ہونا چاہیے۔ میں واپس جا کر اپنے لوگوں کو شرم دلاؤں گا کہ اس جانب بھی توجہ کریں۔“
ضیاء صاحب کے علم میں شاید یہ بات نہیں کہ مشفق خواجہ مرحوم کا بے مثال کتب خانہ بھی تین برس سے کیٹلاگنگ
(cataloging)
اور اب اسکیننگ کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ ادھر ڈاکٹر معین الدین عقیل کے کتب خانے کی ستائیس ہزار کتابوں کی روزانہ کی بنیاد پر آٹھ افراد اسکیننگ میں مصروف ہیں۔ انجمن ترقی اردو کراچی(پاکستان) کی انتظامیہ بھی انہی خطوط پر سوچ رہی ہے۔ پاکستان میں دینی کتابوں کو بھی اسکین کرنے کا کام جاری ہے۔
مذکورہ بالا معاملے میں راقم کے’ بخت‘ میں جو درج تھا وہ ہوگیا،اب وہ بھرپایا، اک وقفہ لیا ہے اوراب دم کے کر آگے چلیں گے مگر اس میں ہمیشہ کی طرح کچھ پرخلوص لوگ شامل ہوگئے ہیں، یہی باعث طمانیت ہے، یہی اصل کمائی ہے۔
بحمد اللہ ! تُو ہے جس کا ہم دم
کہاں اس قلب میں گنجائش ِغم؟
خیر اندیش
راشد اشرف،کراچی
آخری تدوین: