نبیل
تکنیکی معاون
حوالہ: اردو کل اور آج، روزنامہ جنگ 6 دسمبر 2011
1961ء آج سے ٹھیک پچاس برس پہلے اپنے ایک اسٹیج پلے یعنی ڈرامے کے بعد تھیا سافیکل ہال کراچی میں صحافی دوستوں سے باتیں کرتے ہوئے میں نے کہا تھا” اردو انتہا رومانوی زبان ہے، اگر مجھے کبھی کسی انگریز لڑکی سے عشق ہوجائے تو اس سے اظہار محبت اردو میں کروں گا“۔
میری بات کو صحافی دوستوں نے بڑے پیار سے اپنے اپنے اخبار میں اہمیت دی تھی۔ میری عمر پچہتر برس ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ اردو میں نے کب، کیسے اور کس سے سیکھی۔ مجھے بس اتنا احساس ہے کہ پیدائشی طور پر مجھے اردو آتی تھی۔ میری والدہ پونے میں پیدا ہوئیں اور بمبئی (اب ممبئی) میں بڑی ہوئی تھیں۔ وہ سندھ بولتی تھیں، سندھی پڑھتی تھیں اور سندھی میں لکھ سکتی تھیں۔ صوفی عقیدے کی تھیں، سچل سرمست کی معتقد تھیں۔ اس لئے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری مادری زبان اردو ہے لیکن مجھے نہیں یاد کہ میں نے اپنی نانی کو کبھی سندھی بولتے ہوئے سنا تھا۔ وہ مہاراشٹر کی تھیں۔ آخری دم تک وہ مراٹھی ملی ہوئی اردو میں بات کرتی تھیں۔ لوگ کہتے تھے نانی ہندوستانی میں بات کرتی تھیں۔تقسیم ہند سے پہلے کراچی میں ہم ہندوستانی بولتے تھے جو کہ بنیادی طور پر اردو زبان ہوتی تھی۔ اردو کا کمال ہے کہ اپنے حیرت انگیز پھیلاؤ میں ہندوستان میں جہاں جہاں پہنچی وہاں کی مقامی زبانوں کے اظہار کو اپنے اندر سمیٹ لیا۔ کسی بھی مقامی یا صوبائی زبان کو بے دخل نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ پھلتی پھولتی رہی۔ نئے نئے الفاظ خود بخود بغیر کسی دانستہ کوشش یا ارادے کے اپنے اندر سمیٹتی رہی۔ اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اردو کہیں یا ہندوستانی زبان، پورے ہندوستان میں پھیل گئی۔ اردو ہندوستانی زبان پورے ہندوستان میں پھیل گئی۔ اردو اور ہندوستانی میں فرق بول چال یا بات چیت میں محسوس نہیں ہوتا تھا۔ زبانی کلامی اظہار میں اردو اور ہندوستانی میں کوئی واضح فرق محسوس نہیں ہوتا تھا۔ فرق تب محسوس ہوتا تھا جب تحریری اظہار کے لئے خط و کتابت کی نوبت آتی تھی۔ تب ہندوستانی بائین سے دائیں جانب ہندی یا سنسکرت یا بنگلہ کی طرح لکھی جاتی تھی اور اردو دائیں سے بائیں طرف فارسی یا عربی کی طرح لکھی جاتی تھی۔ ورنہ اس کے علاوہ اردو یا ہندوستانی میں مجھے کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا تھا بلکہ اردو اور ہندوستانی ایک ہی زبان کے دو نام لگتے تھے۔یہ باتیں میرے اپنے تجربے کی باتیں ہیں، سنی سنائی یا کتابوں میں لکھی ہوئی باتیں نہیں ہیں۔ بٹوارے سے پہلے کراچی میں اچھی خاصی تعداد میں سنیما ہوتے تھے۔ صدر میں واقع پیراڈائیز سنیما، کیپٹل سنیما، پیلس سنیما، ریکس سنیما، میفیئرسنیما میں انگریزی فلمیں لگتی تھیں۔ باقی شہر کے سنیماؤں میں ہندوستانی فلمیں لگتی تھیں۔ دیکھنے جائیں تو فلمیں اردو میں ہوتی تھیں۔ مکالمے اردو میں،گانے اردو میں۔ فلم کا نام تین زبانوں میں لکھا جاتا تھا۔ انگریزی، ہندی اور اردو۔ فلم کے باقی کریڈٹ انگریزی میں لکھے ہوئے ہوتے تھے۔
ماہر لسانیات جانیں ان کا کام جانے۔ مجھے اس بات سے قطعی کوئی سروکار، کوئی دلچسپی نہیں کہ ہندی میں غیر ملکی زبانوں خاص طور پر فارسی، ترکی اور افغان پرشین کے الفاظ کی آمیزش سے اردو زبان وجود میں آئی تھی۔ پچھتر برس سے ایک لکھنے اور پڑھنے والے کی حیثیت سے میں نے اردو کے مزاج میں آنے والی تبدیلیوں کو غور سے دیکھا اور محسوس کیا ہے۔ اردو ایک کرشماتی زبان ہے۔ اس زبان کے ہندوستان کے کونے کونے تک پھیل جانے کا سہرا کوئی شخص،کوئی اشخاص، کوئی ادارہ نہیں لے سکتا۔ اردو میں خود بخود پھیلنے اور دیگر زبانوں کے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لینے کی خداداد صلاحیت ہے۔ یہی حیرت انگیز وجہ ہے کہ اردو لکھنے والوں میں واضح اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کی مادری زبان اردو نہیں کچھ اور ہے۔ کرشن چندر، سرلادیوی، اپندر ناتھ اشک، اقبال، فیض‘ فراز، منشا، مظہر السلام، اشفاق احمد، امجد اسلام امجد، صوفی تبسم ،احمد ندیم قاسمی، بانوقدسیہ، شفیق الرحمن، سردست ان کے نام گنوائے جاسکتے ہیں اور اسد الله خان غالب! غالب کی مادری زبان اردو نہیں تھی۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ اردو میں کچھ غیر معمولی ہے جس کی وضاحت نہیں ہوسکتی صرف محسوس کی جاسکتی ہے، کشش ہے، جاذبیت ہے، طلسم ہے، مقناطیسیت ہے۔ ہم بس اتنا کہہ سکتے ہیں کہ اردو میں رومانیت ہے اور رومانیت بین الاقوامی جذبہ ہے جو سب کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔جب تک برصغیر میں سیاستدانوں نے لوگوں کے درمیان نفرتوں کی دیواریں کھڑی نہیں کی تھیں تب تک اردو کے لئے ہندوستان میں سب کچھ ٹھیک تھا۔کوئی زبان ہندو یا مسلمان نہیں ہوتی۔ عربی مسلمانوں کے لئے سب سے مقدس زبان ہے لیکن مسلمانوں کے خلاف یہودیوں کی مہم جوئی اور نفرتوں کی اجرا عربی میں کی جاتی ہے۔
زبانوں کا مذہب نہیں ہوتا۔ اگر ہوتا تو انگریزی کامذہب کرسچینٹی یعنی عیسائیت ہوتا مگر ایسا نہیں ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے پورے ہندوستان میں مقبول، بولے جانے والی اور سمجھ میں آنے والی زبان اردو کو کاری ضرب آل انڈیا مسلم لیگ نے پہچائی انہوں نے تقسیم ہند کی مہم میں اردو کا بے دریغ استعمال کیا۔ ہونا تو یوں چاہئے تھا کہ وہ جہاں جہاں تقسیم ہند کے لئے لوگوں کو آمادہ کرنے جاتے وہاں کی مقامی زبان میں لوگوں کو مخاطب کرتے۔ سندھ میں سندھی زبان میں، بلوچستان میں بلوچی میں، پنجاب میں پنجابی زبان میں، فرنٹیئر میں پشتو میں، مدراس میں مدراسی میں، گجرات میں گجراتی میں، بنگال میں بنگالی زبان میں خطاب کرتے مگر انہوں نے اس کے برعکس کیا۔ وہ جہاں جاتے تقسیم ہند کی بات اردو میں کرتے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی کوتاہ نظری کی وجہ سے اردو کو اپنے ہی وطن ہندوستان میں متنازع بنادیا۔ اردو پر مسلمان یا مسلمانوں کی زبان ہونے کا ٹھپہ لگ گیا۔ اردو اگر مسلمانوں کی زبان ہے تو پھر کرشن چندر، بیدی، گوپی چند نارنگ کا کیا ہوگا؟ کرشن چندر کی کتابیں ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں بکتی تھیں۔ شمع اور بیسویں صدی جیسے سیکڑوں ادبی رسالے شائع ہوئے تھے۔ سب ٹھپ ہوگیا۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ پاکستان میں ایک بھی ماہوار اردو ادبی مخزن شائع نہیں ہوتا اور ہندوستان میں اردو کے پیروں تلے زمین کھسکتی جارہی ہے۔ اس کے باوجود اردو اپنی کرشماتی کشش اور قدرت کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں گھر کرتی جارہی ہے۔
1961ء آج سے ٹھیک پچاس برس پہلے اپنے ایک اسٹیج پلے یعنی ڈرامے کے بعد تھیا سافیکل ہال کراچی میں صحافی دوستوں سے باتیں کرتے ہوئے میں نے کہا تھا” اردو انتہا رومانوی زبان ہے، اگر مجھے کبھی کسی انگریز لڑکی سے عشق ہوجائے تو اس سے اظہار محبت اردو میں کروں گا“۔
میری بات کو صحافی دوستوں نے بڑے پیار سے اپنے اپنے اخبار میں اہمیت دی تھی۔ میری عمر پچہتر برس ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ اردو میں نے کب، کیسے اور کس سے سیکھی۔ مجھے بس اتنا احساس ہے کہ پیدائشی طور پر مجھے اردو آتی تھی۔ میری والدہ پونے میں پیدا ہوئیں اور بمبئی (اب ممبئی) میں بڑی ہوئی تھیں۔ وہ سندھ بولتی تھیں، سندھی پڑھتی تھیں اور سندھی میں لکھ سکتی تھیں۔ صوفی عقیدے کی تھیں، سچل سرمست کی معتقد تھیں۔ اس لئے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری مادری زبان اردو ہے لیکن مجھے نہیں یاد کہ میں نے اپنی نانی کو کبھی سندھی بولتے ہوئے سنا تھا۔ وہ مہاراشٹر کی تھیں۔ آخری دم تک وہ مراٹھی ملی ہوئی اردو میں بات کرتی تھیں۔ لوگ کہتے تھے نانی ہندوستانی میں بات کرتی تھیں۔تقسیم ہند سے پہلے کراچی میں ہم ہندوستانی بولتے تھے جو کہ بنیادی طور پر اردو زبان ہوتی تھی۔ اردو کا کمال ہے کہ اپنے حیرت انگیز پھیلاؤ میں ہندوستان میں جہاں جہاں پہنچی وہاں کی مقامی زبانوں کے اظہار کو اپنے اندر سمیٹ لیا۔ کسی بھی مقامی یا صوبائی زبان کو بے دخل نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ پھلتی پھولتی رہی۔ نئے نئے الفاظ خود بخود بغیر کسی دانستہ کوشش یا ارادے کے اپنے اندر سمیٹتی رہی۔ اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اردو کہیں یا ہندوستانی زبان، پورے ہندوستان میں پھیل گئی۔ اردو ہندوستانی زبان پورے ہندوستان میں پھیل گئی۔ اردو اور ہندوستانی میں فرق بول چال یا بات چیت میں محسوس نہیں ہوتا تھا۔ زبانی کلامی اظہار میں اردو اور ہندوستانی میں کوئی واضح فرق محسوس نہیں ہوتا تھا۔ فرق تب محسوس ہوتا تھا جب تحریری اظہار کے لئے خط و کتابت کی نوبت آتی تھی۔ تب ہندوستانی بائین سے دائیں جانب ہندی یا سنسکرت یا بنگلہ کی طرح لکھی جاتی تھی اور اردو دائیں سے بائیں طرف فارسی یا عربی کی طرح لکھی جاتی تھی۔ ورنہ اس کے علاوہ اردو یا ہندوستانی میں مجھے کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا تھا بلکہ اردو اور ہندوستانی ایک ہی زبان کے دو نام لگتے تھے۔یہ باتیں میرے اپنے تجربے کی باتیں ہیں، سنی سنائی یا کتابوں میں لکھی ہوئی باتیں نہیں ہیں۔ بٹوارے سے پہلے کراچی میں اچھی خاصی تعداد میں سنیما ہوتے تھے۔ صدر میں واقع پیراڈائیز سنیما، کیپٹل سنیما، پیلس سنیما، ریکس سنیما، میفیئرسنیما میں انگریزی فلمیں لگتی تھیں۔ باقی شہر کے سنیماؤں میں ہندوستانی فلمیں لگتی تھیں۔ دیکھنے جائیں تو فلمیں اردو میں ہوتی تھیں۔ مکالمے اردو میں،گانے اردو میں۔ فلم کا نام تین زبانوں میں لکھا جاتا تھا۔ انگریزی، ہندی اور اردو۔ فلم کے باقی کریڈٹ انگریزی میں لکھے ہوئے ہوتے تھے۔
ماہر لسانیات جانیں ان کا کام جانے۔ مجھے اس بات سے قطعی کوئی سروکار، کوئی دلچسپی نہیں کہ ہندی میں غیر ملکی زبانوں خاص طور پر فارسی، ترکی اور افغان پرشین کے الفاظ کی آمیزش سے اردو زبان وجود میں آئی تھی۔ پچھتر برس سے ایک لکھنے اور پڑھنے والے کی حیثیت سے میں نے اردو کے مزاج میں آنے والی تبدیلیوں کو غور سے دیکھا اور محسوس کیا ہے۔ اردو ایک کرشماتی زبان ہے۔ اس زبان کے ہندوستان کے کونے کونے تک پھیل جانے کا سہرا کوئی شخص،کوئی اشخاص، کوئی ادارہ نہیں لے سکتا۔ اردو میں خود بخود پھیلنے اور دیگر زبانوں کے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لینے کی خداداد صلاحیت ہے۔ یہی حیرت انگیز وجہ ہے کہ اردو لکھنے والوں میں واضح اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کی مادری زبان اردو نہیں کچھ اور ہے۔ کرشن چندر، سرلادیوی، اپندر ناتھ اشک، اقبال، فیض‘ فراز، منشا، مظہر السلام، اشفاق احمد، امجد اسلام امجد، صوفی تبسم ،احمد ندیم قاسمی، بانوقدسیہ، شفیق الرحمن، سردست ان کے نام گنوائے جاسکتے ہیں اور اسد الله خان غالب! غالب کی مادری زبان اردو نہیں تھی۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ اردو میں کچھ غیر معمولی ہے جس کی وضاحت نہیں ہوسکتی صرف محسوس کی جاسکتی ہے، کشش ہے، جاذبیت ہے، طلسم ہے، مقناطیسیت ہے۔ ہم بس اتنا کہہ سکتے ہیں کہ اردو میں رومانیت ہے اور رومانیت بین الاقوامی جذبہ ہے جو سب کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔جب تک برصغیر میں سیاستدانوں نے لوگوں کے درمیان نفرتوں کی دیواریں کھڑی نہیں کی تھیں تب تک اردو کے لئے ہندوستان میں سب کچھ ٹھیک تھا۔کوئی زبان ہندو یا مسلمان نہیں ہوتی۔ عربی مسلمانوں کے لئے سب سے مقدس زبان ہے لیکن مسلمانوں کے خلاف یہودیوں کی مہم جوئی اور نفرتوں کی اجرا عربی میں کی جاتی ہے۔
زبانوں کا مذہب نہیں ہوتا۔ اگر ہوتا تو انگریزی کامذہب کرسچینٹی یعنی عیسائیت ہوتا مگر ایسا نہیں ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے پورے ہندوستان میں مقبول، بولے جانے والی اور سمجھ میں آنے والی زبان اردو کو کاری ضرب آل انڈیا مسلم لیگ نے پہچائی انہوں نے تقسیم ہند کی مہم میں اردو کا بے دریغ استعمال کیا۔ ہونا تو یوں چاہئے تھا کہ وہ جہاں جہاں تقسیم ہند کے لئے لوگوں کو آمادہ کرنے جاتے وہاں کی مقامی زبان میں لوگوں کو مخاطب کرتے۔ سندھ میں سندھی زبان میں، بلوچستان میں بلوچی میں، پنجاب میں پنجابی زبان میں، فرنٹیئر میں پشتو میں، مدراس میں مدراسی میں، گجرات میں گجراتی میں، بنگال میں بنگالی زبان میں خطاب کرتے مگر انہوں نے اس کے برعکس کیا۔ وہ جہاں جاتے تقسیم ہند کی بات اردو میں کرتے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی کوتاہ نظری کی وجہ سے اردو کو اپنے ہی وطن ہندوستان میں متنازع بنادیا۔ اردو پر مسلمان یا مسلمانوں کی زبان ہونے کا ٹھپہ لگ گیا۔ اردو اگر مسلمانوں کی زبان ہے تو پھر کرشن چندر، بیدی، گوپی چند نارنگ کا کیا ہوگا؟ کرشن چندر کی کتابیں ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں بکتی تھیں۔ شمع اور بیسویں صدی جیسے سیکڑوں ادبی رسالے شائع ہوئے تھے۔ سب ٹھپ ہوگیا۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ پاکستان میں ایک بھی ماہوار اردو ادبی مخزن شائع نہیں ہوتا اور ہندوستان میں اردو کے پیروں تلے زمین کھسکتی جارہی ہے۔ اس کے باوجود اردو اپنی کرشماتی کشش اور قدرت کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں گھر کرتی جارہی ہے۔