اردو کمپیوٹنگ کا مستقبل کیا ہے؟

نبیل

تکنیکی معاون
مستقبل کا اصل علم سوائے اللہ تعالی کے کسی کو نہیں ہے، البتہ ہم ماضی اور حال کے کچھ حقائق کا جائزہ لے کر مستقبل کے بارے میں کچھ اندازے لگا سکتے ہیں۔ مستقبل کے منظر نامے کو کسی حد تک جاننے کے لیے جن فیکٹرز کا مطالعہ کیا جاتا ہے انہیں میگاٹرینڈز کہا جاتا ہے۔ اور اگر ٹیکنالوجی کے مستقبل کا اندازہ لگانا ہو تو ٹیکنالوجی کے میگاٹرینڈز کو سٹڈی کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ مثال کے طور ٹیکنالوجی کے میگاٹرینڈز میں ذیل کے ٹرینڈ شمار کیے جا سکتے ہیں:

- میموری چپ کا سائز سکڑنے کے ساتھ ان کی کپیسٹی میں اضافہ
- براڈ بینڈ انٹرنیٹ کی وسیع پیمانے پر دستیابی
- آگمینٹڈ اور ورچوئل رئیلٹی ٹیکنالوجی میں تحقیق میں پیشرفت
- مصنوعی ذہانت کی استعداد میں حیرت انگیز اضافہ
- پراسیسر کورز میں اضافہ اور متوازی کمپیوٹنگ میں پیشرفت
۔۔۔

یہ ٹیکنالوجی میگاٹرینڈز کی محض ایک جھلک ہے۔ ان کے علاوہ بڑی کمپنیاں اور کارپوریشنز مستقبل کی جھلک دیکھنے کے لیے جن میگاٹرینڈز کا جائزہ لیتی ہیں ان میں آبادی میں عمر بڑھنے کا رجحان، قوت خرید میں اضافہ یا اس کے برعکس رجحان، گلوبلائزیشن، شئیرڈ اکانومی کی مقبولیت وغیرہ شامل ہیں۔ مستقبل میں جھانکنے کے لیے صرف شماریات اور سائنسی حقائق ہی کا سہارا نہیں لیا جاتا بلکہ اس میں تخیل بھی ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مستقبل کا جائزہ لگانا اب ایک باقاعدہ سائنس کی شکل اختیار کر چکا ہے جسے فیوچر سٹڈیز کہا جاتا ہے۔ فیوچر سٹڈیز میں سائنس فکشن اور سائی فائی فلموں کا اہم کردار مانا جاتا ہے۔ فیوچر سٹڈیز میں صرف مستقبل کے منظر نامے کا ہی اندازہ نہیں لگایا جاتا بلکہ اس بات پر بھی تحقیق کی جاتی ہے کہ ماضی کی سائنس فکشن فلموں میں مستقبل کی جو منظر کشی کی گئی تھی، اس میں سے کیا کچھ حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔ اور واقعی اگر جیٹ سنز کارٹون، پرانی کامکس اور بیک ٹو دا فیوچر جیسی فلموں کو دیکھا جائے تو حیران کن حد تک ان فلموں میں دکھائئ گئی ٹیکنالوجیز اب حقیقت میں معرض وجود میں آ چکی ہیں۔

فیوچر سٹڈیز میں مستقبل میں بہت دور تک نہیں جایا جاتا۔ تحقیقی اداروں کی اصل دلچسپی اگلے پندرہ، یا زیادہ سے زیادہ پچیس سال کے منظرناموں کا اندازہ لگانے کی ہوتی ہے۔ ٹیلی پورٹیشن اور کولڈ فیوژن جیسے عوامل کو حقیقت پسندانہ مستقبل تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ کم از کم یہ تحریر لکھتے وقت یہی معلوم ہوتا ہے۔ :)

میرا ارادہ ہے کہ آپ کے ساتھ تخیل کی پرواز کی جائے اور مستقبل کا حال معلوم کیا جائے۔ :) یہاں میں خاص طور پر اردو کمپیوٹنگ کے مستقبل کا اندازہ لگانا چاہوں گا۔ سب دوستوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ اشہب تخیل دوڑائیں اور مستقبل میں اردو کا حال معلوم کرکے آئیں۔ اس ضمن میں آج سے تیرہ سال قبل کی کچھ تحاریر کا مطالعہ بھی چشم کشا ثآبت ہوسکتا ہے جب ہم اردو ویب سیٹ اپ کرنے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ میں نے ایک جگہ لکھا تھا کہ کیا معلوم ایک وقت ایسا آئے گا جب ہم ویب پر طلسم ہوشربا نستعلیق فونٹ میں پڑھ سکیں گے۔ آج ہم اس مقام سے آگے ہی کھڑے ہیں۔ :)

میں یہاں اردو کمپیوٹنگ کے حوالے سے مستقبل قریب، یعنی اگلے دس سال تک کے منظرنامے کو چشم تخیل سے دیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ کچھ اندازے لگانے تو کافی آسان ہیں۔ عام طور پر اردو باقی زبانوں کی نسبت ٹیکنالوجی میں قدرے پیچھے رہتی ہے، لیکن جلد یا بدیر ٹیکنالوجی کمپنیاں اپنے سوفٹویر میں یونیکوڈ اور دائیں سے بائیں لکھی جانی والی زبانوں کی سپورٹ شامل کر لیتی ہیں۔ یہاں آکر بھی اردو کے شائقین کے ذوق کی تسکین نہیں ہوتی اور انہیں اردو نستعلیق فونٹ میں ہی چاہیے۔ :) اب موبائل فونز تک میں نستعلیق فونٹ میں اردو پڑھنا ممکن ہو گیا ہے۔ اسی ٹرینڈ پر استنباط کیا جائے تو جلد ہی مصنوعی ذہانت سے متعلق تحقیق اردو کا بھی کماحقہ احاطہ کر لے گی۔ انگریزی اور دوسری لاطینی زبانوں کی حد تک سپیچ ریکگنیشن اور او سی آر، یعنی تصویر متن سے تحریر اخذ کرنے میں کافی پیشرفت ہوئی ہے۔ اب ٹرانسلیٹر سوفٹویر صرف ٹیکسٹ ہی نہیں بلکہ رئیل ٹائم میں آواز کو بھی ایک زبان سے دوسری میں ترجمہ کر دیتے ہیں۔ اردو میں اگرچہ فی الحال اتنے اچھے نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے لیکن گوگل کلاؤڈ اے پی آئی کے ذریعےکمپیوٹر یا موبائل فون کو اردو میں املا کروائی جا سکتی ہے۔ علاوہ ازیں تصویری متن سے تحریر اخذ بھی کیا جا سکتا ہے، اگرچہ اس کےنتائج میں بہتری کی ابھی کافی گنجائش ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ کچھ ہی سال میں گوگل کے علاوہ دوسری بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں بھی مصنوعی ذہانت کی تحقیق میں اردو پر توجہ دیں گی۔ فی الوقت گوگل کلاؤڈ اے پی آئی کے استعمال کے لیے انٹرنیٹ سے مربوط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آئندہ ہو سکتا ہے کہ ایک موبائل فون پر یہ سوفٹویر آف لائن استعمال کیے جا سکیں۔ اردو سپیچ ریکگنیشن اور اردو او سی آر میں بہتری کا براہ راست اثر ویب میں اردو کے تاریخی اور ثقافتی ورثے کی منتقلی پر پڑے گا۔ سپیچ ریکگنیشن اور او سی آر کی بدولت اردو کی پرانی کتب کو تحریری متن میں بدلنے میں کئی گنا اضافہ ہوگا اور مہینوں کا کام دنوں یا گھنٹوں میں ہو جایا کرے گا۔

مصنوعی ذہانت کے میدان میں پیشرفت کی بدولت اب سپیچ سنتھسز یعنی تحریر کو آواز میں بدلنے کا کام بھی کافی مؤثر انداز میں کیا جانے لگا ہے۔ ابھی اردو کی سپورٹ موجود نہیں ہے، لیکن ٹیکنالوجی کے ٹرینڈ کو دیکھتے ہوئے امید کی جا سکتی ہے کہ جلد ہی اردو متن کو بھی خودکار انداز میں صوتی شکل میں تبدیل کیا جا سکے گا۔ سپیچ سنتھسز کے میدان میں ایک اور حیران کن اور کافی حد تک پریشان کن پیشرفت یہ بھی ہوئی ہے کہ کمپیوٹر اب کسی شخص کی آواز کچھ دیر سن کر اسی کے لہجے میں کوئی اور متن ادا کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔ لائر برڈ نامی سوفٹویر کے ذریعے حیران کن حد تک وائس کلوننگ کی جا سکتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ڈیپ لرننگ کے ذریعے ویڈیوز میں چہروں کو تبدیل کرنا بھی ممکن ہو گیا ہے۔ اس عمل کے لیے پہلے ہالی وڈ میں کئی ملین ڈالر کا ہارڈوئیر اور سوفٹوئیر درکار ہوتا تھا۔ اب کسی بھی اچھے گیمنگ پی سی کے ذریعے یہ کام ممکن ہوگیا ہے۔ اگر کسی کی آواز میں اپنی مرضی کی بات ادا کروا دی جائے، اور ویڈیو میں وہی شخص یہ الفاظ ادا کرتا نظر بھی آ رہا ہو تو سچ اور جھوٹ کو الگ کرنا مشکل ہو جائے گا، جو کہ پہلے ہی کافی مشکل ہے۔ ذیل کی ویڈیو میں اس کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔


دوسری جانب سپیچ سنتھسز اور چہروں کو تبدیل کرنے والی ٹیکنالوجیز کے ذریعے ان ایکٹرز کو بھی فلم میں زندہ کیا جا سکے جو اب اس دنیا میں نہیں رہے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے اب مختلف شکلوں کے امتزاج سے نئے چہرے تشکیل دینا ممکن ہو گیا ہے، جیسے کہ ذیل کی ویڈیو میں دکھایا گیا ہے:


عین ممکن ہے کہ مستقبل میں فلم میکر اپنی مرضی کے چہرے کٹیلاگ سے منتخب کرکے فلم کمپیوٹر کے ذریعے ہی فلم بند کر لیا کریں اور انہیں کسی ایکٹر کی ضرورت ہی نا پڑے۔ :)

اردو فونٹ سازی میں گزشتہ سالوں میں نمایاں پیشرفت ہوئی ہے اور اب ویب اور ڈیسک ٹاپ پر قابل استعمال نستعلیق فونٹ دستیاب ہیں۔ لیکن نستعلیق ٹائپوگرافی کی پیچیدگیاں مستقبل قریب اور بعید میں بھی اس میدان میں تحقیق کرنے والوں کو مصروف رکھیں گی۔ موبائل ڈیوائسز پر فونٹ انجن نستعلیق کو بہتر سپورٹ کریں گے۔ اب دوبارہ سے فیچرفون، یعنی کہ نان سمارٹ فونز کے استعمال کا پھر سے ٹرینڈ بڑھ رہا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ ان فونز میں بھی اردو کی سپورٹ بہتر بنائی جائے گی۔

ٹیکنالوجی کا ایک اور ٹرینڈ آگمنٹڈ اور ورچوئل رئیلٹی کا استعمال ہے۔ مستقبل میں کمیونٹی ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پر اس کا استعمال بڑھ سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آج سے کچھ سال بعد ہم مکسڈ رئیلٹی ہیڈ سیٹ لگا کر اس محفل میں آئیں۔ :) یوں ہم ایک مجازی دنیا میں ایک دوسرے سے ملاقات کر پائیں گے۔ :)

اس مضمون میں میں نے اپنی مستقبل کے بارے میں چند اندازے لگانے کی کوشش کی ہے۔ آپ دوستوں کو بھی دعوت دی جاتی ہے کہ آپ بھی اس بارے میں غور و فکر کریں اور یہاں اس بارے میں اپنے خیالات شئیر کریں کہ آنے والے وقت میں آپ اردو اور اردو کمپیوٹنگ کو کہاں دیکھتے ہیں؟
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
دلچسپ نبیل۔

میرے خیال سے اردو کمپیوٹنگ کی راہ میں ایک بڑا پتھر ہے اور وہ اردو صارفین کا کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر فقدان۔ تکنیکی میدان میں ترقی میں بھی یہ بات روڑے اٹکا رہی ہے۔ مثال کے طور پر گوگل ٹرانسلیٹ کو لیں۔ جب گوگل نے نیورل نیٹ استعمال کرنا شروع کیا تو کچھ زبانوں کا ترجمہ بہت بہتر ہو گیا۔ لیکن اردو انگریزی ترجمے میں خاطرخواہ بہتری نہیں آئی۔ اس کا موازنہ آپ ہندی سے بھی کر سکتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ بہت زیادہ اردو مواد نہ ہونا ہے جس سے نیورل نیٹ سیکھ سکے۔
 

شکیب

محفلین
مجھے تو مستقبل میں اردو کمپیوٹنگ کے لیے ہریالی ہی ہریالی نظر آ رہی ہے۔۔۔ ہاں اردو ادب کا پتہ نہیں!
 

جاسمن

لائبریرین
دوسری جانب سپیچ سنتھسز اور چہروں کو تبدیل کرنے والی ٹیکنالوجیز کے ذریعے ان ایکٹرز کو بھی فلم میں زندہ کیا جا سکے جو اب اس دنیا میں نہیں رہے ہیں۔ مصنوعی
طویل عرصہ پہلے میں نے ایک مضمون پڑھا تھا جس میں یہ بات لکھی تھی اور میں تب سے منتظر ہوں کہ منورظریف اور وحید مراد کی کوئی نئی فلم دیکھنے کو ملے:)
 
Top