اسکے علاوہ سٹوڈنٹس بھی محنت سے جان چراتے ہیں۔ اکثر سٹوڈنٹس کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح اپنے سینیرز کے پراجیکٹس کاپی کرکے اپنا فائنل پراجیکٹ سبمٹ کرا دیں۔ ایسی صورتحال میں کسی نئے چیلنج کے لیے تحریک دینا مشکل ہوتا ہے۔
نظامی صاحب نے انتہائی اہم موضوع کا آغاز کیا ہے لیکن نبیل نے اس کا مفصل تجزیہ کر کے اور اردو کمپیوٹنگ کی موجودہ صورتِ حال پر روشنی ڈال کر اس کا حق ادا کر دیا ہے جو کمپیوٹر کے میرے جیسے ایک عام استعمال کنندہ کے علم میں کافی اضافے کا باعث ہے۔
چونکہ کمپیوٹر کا کو ئی نصابی علم نہ رکھنے کے باعث میں کمپیوٹر تکنیکوں اور اس سے متعلقہ پیچیدہ اصطلاحات سے اتنا واقف نہیں ہوں اس لئے اہنے تبصرے کو نبیل کے مندرجہ بالا حوالہ شدہ جملوں تک ہی محدود رکھتے ہوئےعرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ چربہ سازی تو اب کسی حد تک مِن حیث القوم ہمارا ایک عام وطیرہ اختیار کر گئی ہے۔ طلباء تو ایک طرف رہے، آج کل اساتذہ بھی، جن سے طلباء کے لئے ایک مثالی کردار کا حامل ہونا درکار ہوتا ہے، (بیرونی) ڈگریاں کمانے کے چکر میں اس قبیح اور غیر پیداواری فعل میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں (پنجاب یونیورسٹی کا ایک حالیہ مشہورِ عالم اور پاکستانی قوم کے لئے باعثِ شرم سکینڈل سب کے سامنے ہے)۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری تعلیم کے معیار کی عالمی سطح پر پذیرائی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور یہ قوم کے کارپردازوں اور اربابِ اختیار کے لئے صحیح معنوں میں ایک لمحۂ فکریہ ہے۔
اس سلسلے میں اپنے ایک ذاتی تجربے کا ذکر احباب کے لئے خالی از دلچسپی نہ ہوگا جو ہماری تعلیم کے معیار کی ایک ادنیٰ مثال سمجھی جا سکتی ہے:
ہماری ایک یونیورسٹی میں بی ایڈ کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے حالیہ طور پر متعارف شدہ پالیسی کے تحت فائنل تحقیقی پراجیکٹ کو ایک تھیسز کی شکل میں انگریزی زبان میں داخل کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ چند ماہ پیشتر میرے پاس ایک صاحب اپنی بیٹی کے پراجیکٹ (جو اردو میں تھا) کا انگریزی ترجمہ کروانے کے لئےآئے۔ میں اسے ھاتھ سے لکھے گئےعام تحریری مقالے کی بجائے خوبصورت نستعلیق میں ٹائپ شدہ ایک مجلّد تھیسز کی صورت میں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ میرے تحیّر میں مزید اضافہ یہ جان کر ہوا کہ یہ (نہایت ہلکے معیار کا نام نہاد) تحقیقی مواد ایک دوسرے شہر میں رہنے والی اس طالبہ کی کسی سہیلی کا ہے جس نے پنجاب کی ایک اور یونیورسٹی سے بی ایڈ کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے یہ تھیسزاردو میں اس یونیوریسٹی میں جمع کروایا تھا۔ اب وہ صاحب اپنی بیٹی کے ایماء پر میرے پاس آئے تھے کہ میں ناموں اور مقامات کوبدلتے ہوئے اس 'مقالے' کا ترجمہ ہو بہو اس طرح کردوں کہ یہ اس یونیورسٹی میں جمع کروایا جا سکے۔
اس سارے قصّے کا المناک اور اپنا سر پیٹنے پر مجبور کرنے والا پہلو یہ ہے کہ وہ یہ ترجمہ اپنی بیٹی کے نگران اساتذہ کی اس یقین دہانی پر کروا رہے تھے کہ انہیں اس ترجمہ شدہ مقالہ جمع کروانے پر اس طالبہ کو پاس کرنے پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔