السلام علیکم،
محترمہ فرزانہ نیناں صاحبہ بہت اچھی تحریر ہے آپکی، لا جواب۔
میرے خیال میں، یہ احساس آپ کو بھی تھا جب آپ نے اس تحریر کا عنوان سوچا ہوگا اور پھر آپ نے اپنی تحریر میں اسکا جواب دینے یا اس کو justify کرنے کی بھی کوشش کی ہے، میرا اشارہ "سب سے بڑی ناول نگار" کی طرف ہے۔ اگر آپ اسے "سب سے بڑی ناول نگارہ" لکھتیں تو شاید پھر تو کوئی بات ہی نہیں تھی، لیکن سب سے بڑے ناول نگار پر مجھے، خاکم بدہن، اعتراضات تو نہیں ہیں مگر کچھ تحفظات ضرور ہیں۔
سب سے بڑا، یا عظیم ترین مصنف یا شاعر ہونا ایک انتہائی موضوعی subjective بات ہے اور اسے ہم دو جمع دو چار یعنی معروضیت کے معیار سے کبھی بھی ماپ نہیں سکتے۔ مثلاً اگر آج آپ اپنی نوجوان نسل بالخصوص خواتین سے پوچھیں کہ اردو کا سب سے بڑا ناول نگار کون ہے تو آپ کو جواب شاید "عمیرہ احمد" ملے اور آج سے کچھ سال پہلے یہی "اعزاز" رضیہ بٹ کو حاصل تھا، لیکن اربابِ علم و دانش اچھی طرح جانتے ہیں کہ اردو ادب میں ان دونوں مصنفات کی کوئی مستقل حیثیت نہیں ہے، گو کہ شاید یہ سب سے زیادہ پڑھے جانے والے لکھاری ہیں۔ اسی طرح "تقسیم" کے ارد گرد کے زمانے میں یہی حیثیت "ایم اسلم" کو حاصل تھی اور اسکے بعد "نسیم حجازی" کو یہی مقام حاصل تھا جنہوں نے قرۃ العین کے والد سید سجاد حیدر یلدرم کا ہی ناولوں میں تتبع کیا۔
قرۃ العین کی حیثیت اردو ادب میں مسلم ہے، انکے ناول اور افسانے بقائے دوام حاصل کر چکے ہیں۔ خاص طور پر "آگ کا دریا" کا جس کا سحر میں آج بھی مبتلا ہوں کہ اسے میں نے کوئی پندرہ سترہ سال پہلے پڑھا تھا۔ "کارِ جہاں دراز ہے" سوانحی ناول بھی اعلٰی پائے کی چیز ہے، لیکن ایک بات شاید آپ بھی نوٹ کریں کہ قرۃ العین کی سبھی کہانیوں اور ناولوں میں ایک بوہیمین معاشرے اور رومانویت کا گہرا اثر ہے جسکو انہوں نے دہرایا بھی ہے۔
آگ کا دریا ایک ایسا ناول ہے جس کو اردو کے سب سے بڑے ناول کا درجہ دیا جاتا ہے، لیکن یہ اکیلا ہی نہیں ہے اسکے مقابلے میں عزیز احمد کا "گریز" ہے، شامِ اودھ" ہے، تارڑ کا "بہاؤ" ہے اور سب سے اہم عبداللہ حسین کا "اداس نسلیں" ہے۔ اگر ایک ناول اپنے مصنف کو سب سے بڑے ناول نگار کا درجہ دلا سکتا ہے تو پھر قرۃ العین کے ساتھ ساتھ یہ سب مصنفین بھی اسکا دعوٰی کر سکتے ہیں بلکہ پھر رسوا کا "امراو جان ادا" بھی اس میں آ سکتا ہے۔
میرے ذاتی خیال، عبداللہ حسین، شاید اردو کے سب سے بڑے ناول نگار ہیں۔ ان کے ہاں زندگی کا تنوع ہے (جسکی شاید قرۃ العین حیدر کے ہاں کمی ہے)۔ عبداللہ حسین نے معاشرے کے ہر طبقے کو اپنے ناولوں میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہیں۔ اداس نسلیں، باگھ، قید، نادار لوگ اردو ادب کے بڑے فن پارے ہیں اور اپنے مصنف کی عظمت پر دال ہیں۔
لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ قرۃ العین حیدر کا مقام کچھ کم ہے، میں نے شروع میں عرض کیا تھا کہ "بڑا" یا "سب سے بڑا" یا "چھوٹا" ہونا موضوعی باتیں ہیں، اور اپنے اپنے معیار کے ساتھ یہ حیثیت تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ لیکن کچھ تحریرں یا فن پارے یا شاہکار اور ان کے تخلیق کار ایسے ہوتے ہیں جو زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوجاتے ہیں اور امر ہو جاتے ہیں۔ "آگ کا دریا" اور قرۃ العین حیدر انہی میں سے ہیں۔
امید ہے میری یہ گزارشات گراں نہیں گزریں گی۔ والسلام۔
۔