یقیناً بہت اونچی شخصیت تھے۔ خاص طور سے عروضی حوالے سے وہ میرے روحانی استاد تھے۔ گو کہ کبھی انہیں دیکھا نہیں لیکن غضب کے محققانہ جراثیم ان میں پائے جاتے تھے۔ جس موضوع کو چھیڑتے، بال کی کھال نکال کر رکھ دیتے۔ روایتی آدمی تھے لیکن روایات سے خرافات اور مغالطات کو علی حدہ کرکے قبول کرنے قائل تھے۔ وہ ادبی بدعات کو پسند نہیں کرتے تھے۔ ادب میں منطق کو بہت اہمیت دیتے۔ غیر منطقی نظریات کو قبول کرنے کے قائل نہ تھے۔
کمال احمد صدیقی ادبی حوالے سے ہر چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے ادیب، شاعر، عروضی، ناقد اور مصنف کا بہت احترام کرتے لیکن ساتھ ہی نقد میں کسی جانبداری کے قائل نہ ہوتے۔ وہ جس کا جتنا احترام کرتے تھے اتنا ہی اس شخص کے مغالطات کو بھی واضح طور پر بتادینے سے گریز نہ کرتے۔ دیگر تنقیدی کتب کے علاوہ عروض جیسے خشک مضمون پر ان کا کام حیرت انگیز حد تک قابل قدر ہے۔ اردو عروض میں اس قدر کام اب تک نہیں دیکھنے میں آیا۔ اردو عروضیان میں قدر بلگرامی کے بعد اگر کوئی صحیح معنوں میں روایتی عروض کا عالم گزرا ہے تو وہ کمال احمد صدیقی ہی ہے۔ عروض میں انہوں نے ایک مزید مشکل بھی آسان کی جو ماضی میں عروضیوں کے یہاں محض ایک "بحث" کا درجہ رکھتی تھی۔ وہ عروضی رکن "مفاعلاتن" کی مشکل تھی۔ انہوں نے اس رکن کو دائرۂ طوسیہ سے استخراج کرکے اس سے نکلی مزید دو بحور اور اسکے فروعاتِ زحافات کی تفصیل بھی عروض کے لاوارث اوراق پر تحریر کی۔
۔
۔
۔
افسوس کہ ہم نے بے پایاں علوم کے مالک ایک اور محقق کو کھو دیا۔