اردو ۔ انگلش بھائی بھائی

شعیب

محفلین
آئیے آج یہ بحث کریں کہ آخر انگریزی زبان اس قدر طاقتور کیسے بن گئی؟ کیسے یہ زبان دنیا بھر کی ساری زبانوں کو چیلنج کر رہی ہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس کے اسباب پر غور کرنے کے بجائے انگریزی زبان کو جی بھر کر کوسا جارہا ہے، گالیاں دی جارہی ہیں ۔ کوئی اسے فرنگی کہہ رہا ہے اور کوئی بیرونی بلا، جس قدر اس زبان پر لوگ اپنا بخار اتار رہے ہیں اس قدر یہ زبان طاقتور ہوتی جارہی ہے ۔

انگریزی کے خلاف اس محاذ آرائی میں ادو والے بھی پیش پیش رہے ۔ اردو بچانے کی تدابیر کا پتہ کرنے کے بجائے وہ انگریزی ہٹاؤ مہم میں شریک ہوگئے مگر اس دوران اردو اسکولیں بند ہونے لگیں اور انگریزی کا چلن بڑھتا گیا کچھ اس حد تک کہ ممبئی ہی کی مثال کہ سارے مسلم محلوں سے اسکول بسیں بھر بھر کر بچے کانونٹ اسکولوں میں جارہے ہیں اور ان علاقوں میں جو چند اردو اسکولیں بچی ہیں ان کو زندہ رکھنے کے لئے ایک خیراتی ادارہ دور دراز کی جھونپڑ پٹیوں اور فٹ پاتھ کے بچوں کو ’’مفت کتابیں و بیاضیں‘‘، ’’مفت یونیفارم اور مفت کھچڑی‘‘ کا سہارا لے رہا ہے ۔ شہر ممبئی میں آج درجن بھر اردو ہائی اسکولس ایسی ہیں جن سے اس سال ایس ایس سی کے امتحان میں بمشکل بیس تا پچیس طلبہ نے شرکت کی یہی نہیں اردو ذریعہ تعلیم سے اردو طبقے کا اعتماد اٹھ جانے کے لئے یہی ایک مثال کافی ہے کہ ممبئی کے ٩٠ میں سے پچاس سے زائد اردو ہائی اسکولوں کے پرنسپل صاحبان کے بچے بھی انگریزی اسکولوں ہی میں پڑھتے ہیں ۔

اب یہ اعتماد کیسے بحال ہوگا؟ اردو اسکولیں صرف زندہ نہیں بلکہ دم خم کے ساتھ اور وقار کے ساتھ زندہ کیسے رہیں گی؟ آئیے اس کا حل تلاش کریں اور اس کے لئے ہمیں سب سے پہلے صدق دل سے ’’اردو انگلش بھائی بھائی‘‘ کا نعرہ لگانا ہوگا ۔ اردو تعلیم یا انگریزی تعلیم اس تنازعہ سے نکل کر ’’اردو تعلیم اور انگریزی تعلیم‘‘ اس فارمولے کو تسلیم کرنا ہوگا ۔ انگریزی کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ ختم کرنا ہوگا ۔ آخر کچھ تو بات ہوگی جس کی وجہ سے اس زبان کی آج دنیا بھر میں طوطی بول رہا ہے ۔ آئیے سوچیں کہ انگریزی اور اردو اسکولوں میں ایک واضح فرق آج کیا ہے؟ اور کیا وجہ ہے کہ لوگ جوق در جوق انگریزی کی طرف لپک رہے ہیں ۔ دراصل فرق ان اسکولوں میں صرف دو باتوں کا ہے:
١) انگریزی میڈیم کے بچے روانی کے ساتھ انگریزی میں بات کرسکتے ہیں اور
٢) انگریزی میڈیم کے بچوں کی ایک بڑی اکثریت مقابلہ جاتی امتحانات میں بہتر کارکردگی کر رہی ہے ۔
آئیے پہلے سوچیں کہ کیا اردو اسکولوں کے بچوں میں بھی روانی سے انگریزی میں بات کرنے کی صلاحیت پیدا کی جاسکتی ہے؟

اردو اسکولوں میں بھی انگریزی زباندانی پہلی جماعت ہی سے لازمی ہے مگر اس کے باوجود اسکے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوتے اس کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:
١) اردو اسکولوں میں انگریزی کے اساتذہ کی اکثریت کی اپنی انگریزی قابل رحم ہوتی ہے ۔
٢) ان اسکولوں میں یہ اساتذہ اگر انگریزی پڑھانے کے اہل نہیں ہیں تو البتہ اس کے اہل بننے کے انہوں نے کوشش بھی نہیں کی ۔
٣) یہ اساتذہ صرف یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ’’نصاب ہی پورا نہیں ہوتا‘‘ اور اس طرح پورا سال صرف نصاب پورا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ۔
٤) ہمارے ان اسکولوں میں انگریزی کو آسان بنانے کے لئے ایک عرصہ دراز تک بچوں کو انگریزی کے گرامر میں الجھایا جاتا ہے جس سے بچہ کچھ اس قدر کنفیوژ ہوجاتا ہے کہ وہ انگریزی کو بے حد مشکل زبان سمجھتا ہے ۔
٥) نصاب پورا کرتے رہنے کے اپنے محبوب مشغلے میں الجھے رہنے کی وجہ سے اردو میڈیم کے اساتذہ نصاب سے ہٹ کر عام بول چال کی انگریزی پر توجہ نہیں دے پاتے ۔

آخر ان سارے مسائل کے حل کیا ہیں؟ ہمارے خیال سے ہمارے مندرجہ ذیل دو اقدامات اس صورت حال کو تبدیل کرسکتے ہیں ۔
١) ہمارے اردو اسکولوں میں چونکہ ہمارے اساتذہ نصاب کے ارد گرد گھومتے رہتے ہیں اور عام بول چال کی انگریزی پر توجہ نہیں دے پاتے اس لئے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ہمارے اسکولوں میں انگریزی بول چال کے روزانہ ایک زائد کلاس کا نظم کیا جائے ۔ اسکول کے اوقات سے قبل یا بعد ہر روز ایک گھنٹہ ایک زائد کلاس میں کسی ماہر استاد سے انگریزی پڑھائی جائے ۔ اس پریڈ میں روز مرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والے الفاظ و جملے پڑھائے جائیں ۔ اس انتہائی اہم کلاس کے لئے کسی نصاب مرتب کرنے تک بازار میں دستیاب انگریزی بول چال کی کسی معیاری کتاب کا سہارا لیا جاسکتا ہے ۔ پیر تا جمعہ ہر روز ایک گھنٹہ انگریزی کا کلاس ہو اور ہر سنیچر کو لازمی طور پر اس کا امتحان لیا جائے ۔

عام طور پر اردو میڈیم اسکول کے بچوں کو کالج میں بول چال کے علاوہ جس دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ ہے: انگریزی اصطلاحات، خصوصا سائنس اور کامرس کی اصطلاحات کے متبادل الفاظ سے عدم جانکاری کی وجہ سے ان کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہوتی رہتی ہے ۔ اس کا ایک موثر حل مہاراشٹر میں موجود ہے ۔ آج یہاں یہ بڑی اچھی سہولت موجود ہے کہ غیر انگریزی اسکولوں میں ریاضی اور سائنس مضامین انگریزی زبان میں پڑھائے جائیں اور اس صورت میں اسکولوں کی گرانٹ میں کوئی کمی نہیں ہوتی یعنی ان اساتذہ کی تنخواہ حکومت ہی ادا کرتی ہے اور اس کے لئے انگریزی میڈیم کے اساتذہ کی تقرری ضروری نہیں ہے بلکہ اردو ذریعہ تعلیم کے وہ اساتذہ جنہوں نے بی ایس سی انگریزی میڈیم سے کیا ہے وہ یہ مضامین اسکولوں میں پڑھاتے ہیں ۔

اردو کی قصیدہ خوانی اور نوحہ خوائی چھوڑ دیجئے ۔ ہمیں یقین کامل ہے کہ اردو اسکولوں میں انگریزی بول چال کے روزانہ ایک گھنٹہ اور ذہنی آزمائش کے روزانہ آدھ گھنٹے کے ان زائد پریڈ کی بظاہر معمولی کوششیں صرف چار پانچ برسوں میں بے حد مثبت نتائج برآمد کریں گی ۔ ضرورت ہے ہمارے اساتذہ، والدین، طلبہ، انتظامیہ اور معاشرے کی مکمل مثبت فکر کی اور خوب خوب محنت کی، مایوسی کا لبادہ اتار دینے کی، ہمیشہ برامید ہرنے کی اور پھر دیکھنا ہماری نازک و ناتواں اردو زبان انگریزی کی سونامی کے سامنے یقینا ٹک پائے گی ۔

شکریہ روز نامہ انقلاب کالم نویس : مبارک کاپڑی
 
یہ ایک عمدہ مضمُون ہے اور پندرہ برس گزر جانے کے باوُجود آج بھی بدقسمتی سے کم و بیش اسی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ انگریزی سے غیر ضروری بغض رکھنا ایک غَلط روش ہے۔
 
Top