فاتح
لائبریرین
ماہِ آزادی کے حوالے سے میری ایک پرانی غزل جو کئی سال پہلے کہی تھی لیکن آج بھی تازہ ہے۔
ارضِ وطَن کو پھر سے لہُو کا خراج دو
قربانیوں کی رسم کو پھر سے رِواج دو
ظلمت کی بادِ تیز سے جو سرنگوں نہ ہو
طاقِ وطن کو ایسا کوئی اب سراج دو
گر "کَل" سنوارنی ہے تمہیں ارضِ پاک کی
مقتل میں وقت کے یہ ضروری ہے "آج" دو
ماں سر برہنہ ہوتی چلی جا رہی ہے پھر
بیٹے ہو اس کے چاہئے عظمت کا تاج دو
دھرتی کی گود میں جو پلے ہو تو اب بشیر
قرضِ وفا بھی تم مع سود و بیاج دو
قربانیوں کی رسم کو پھر سے رِواج دو
ظلمت کی بادِ تیز سے جو سرنگوں نہ ہو
طاقِ وطن کو ایسا کوئی اب سراج دو
گر "کَل" سنوارنی ہے تمہیں ارضِ پاک کی
مقتل میں وقت کے یہ ضروری ہے "آج" دو
ماں سر برہنہ ہوتی چلی جا رہی ہے پھر
بیٹے ہو اس کے چاہئے عظمت کا تاج دو
دھرتی کی گود میں جو پلے ہو تو اب بشیر
قرضِ وفا بھی تم مع سود و بیاج دو