سید اسد محمود
محفلین
اروڑ کا مست
=========
سراج چنا (لنک)بشکریہ اردو ڈائجسٹ
میں اللہ بخش مست کی زیارت کرنے اروڑ آیا تھا۔قدیم مسجد کے پاس گھوڑے سے اترا۔ روہڑی سے اروڑ تک بغیر رکے سفر کیا تھا۔ فاصلہ زیادہ نہیں تھا، لیکن کپتان کو ہوا میں اڑاتا آیا تھا۔ گھوڑا ہانپ رہا تھا اس کے کھُر پسینے اور مٹی میں اٹ گئے تھے۔ اسے ببول کے درخت کے ساتھ باندھ کر شاباش دی۔ وہ میرا پرانا ساتھی ہے، اسے بے حد چاہتا ہوں۔ ہر مصیبت اور مشکل میں وفا دار رہا ہے۔ میں اسے کپتان کہتا ہوں۔
میرا پیروں اور فقیروں پر اعتقاد نہیں۔ میں رہزن ہوں، خونی ہوں۔ مجھے اپنے یونانی خنجر اور رائفل پر اعتبار ہے، اپنی قوت پر میرا اعتماد ہے۔ جسے چاہوں، جب چاہوں قتل کر دیتا ہوں۔ جان بخشی صرف ان کی کرتا ہوں جو قرآن اٹھا کر امان مانگتے ہیں۔ ایسوں کو صرف لوٹتا ہوں اس قدر کہ جسم کے کپڑے بھی اتروا لیتا ہوں۔ لیکن میرا جگری یار عارف ماچھی قرآن کو بھی نہیں مانتا،
کسی کو منت سماجت کرتے دیکھ کر ایک پل ضائع کیے بغیر ختم کر دیتا ہے، لیکن ایک رات عارف ماچھی گم ہو گیا۔
اللہ بخش مست کے معجزات کے قصے سن کر، فیصلہ کر کے آیا تھا کہ اگر مست سے عارف ماچھی کا پتا نہ چلا تو رائفل کی ساری گولیاں مست کے سینے میں اتار دوں گا۔
منہ پر بندھا ہوا کپڑا کھول کر پسینہ صاف کیا، اِدھر اُدھر دیکھا کوئی بھی انسان دور دور تک دکھائی نہ دیا۔ رائفل کو مضبوطی سے تھام کر، ٹوٹی دیواروں، تباہ شدہ بنیادوں اور اِدھر اُدھر بکھری ہوئی لال اینٹوں پر قدم رکھتا ہوا اروڑ کے کھنڈروں میں جا پہنچا۔ پیچھے قدیم قبرستان کی قبریں تھیں اور سامنے پہاڑوں کی خوف ناک ڈھلانیں۔ اچانک خاموشی میں اپنے پیچھے کسی کے قدموں کی آہٹ سنی۔ کچھ پتھر پہاڑ کی ڈھلانوں سے گرتے، قلابازیاں کھاتے نیچے جا گرے۔ میں نے کمر کے ساتھ بندھے ہوئے خنجر کے دستے پر ہاتھ رکھ کر بجلی کی سی تیزی سے پیچھے مڑ کر دیکھا اور کہا ’’کون ہو؟‘‘
وہ پیچھے ہٹ گیا۔ دبلا پتلا کمزور سا آدمی تھا۔ کالی چادر اور اجرک سے میرا منہ چھپا ہونے کی وجہ سے اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
’’تم کون ہو؟‘‘
’مسافر ہوں۔‘‘
’’خوش آمدید بھائی!‘‘ اس نے اپنا کمزور ہاتھ بڑھایا۔ میں نے ہاتھ ملایا اور اسے بتایا کہ ’’میں اللہ بخش کی زیارت کرنے آیا ہوں۔‘‘
’’خوش آمدید بھائی! ہمارے سر آنکھوں پر۔‘‘
’’پتا بتائو گے؟‘‘
’’میں خود سائیں کو سلام کرنے جا رہا ہوں، ساتھ ہی چلتے ہیں۔‘‘
’’اچھی بات ہے۔‘‘ میں نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے کہا، چلتے چلتے میں نے اس سے پوچھا ’’آپ اروڑ کے ہو کیا؟‘‘
’’ہاں، میں پلا بڑھا بھی یہیں ہوں۔‘‘ اس کے پانؤ کھنڈروں میں جم جم کے پڑ رہے تھے اور قدم بھی وہ بڑے بڑے اٹھا رہا تھا۔ ایک قدم مجھ سے آگے چل رہا تھا۔ چلتے چلتے اس نے پوچھا ’’تم کون ہو؟‘‘
’’جی!‘‘ میں گھبرایا۔
اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’ہاں، تم کون ہو؟‘‘
’’ میں مچھیرا ہوں۔‘‘ میں نے جھوٹ بولا۔
’’ہماری آنکھوں پر بھائی جی! آئیے۔‘‘
وہ بڑے بڑے قدم اٹھاتا آگے بڑھتا رہا۔ اس نے پوچھا ’’پہلی دفعہ آئے ہو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’مجاہد والی مسجد کے پاس تمھارا گھوڑا بندھا ہے؟‘‘
’’مجاہد! کون سا مجاہد؟‘‘
’’محمد بن قاسم۔‘‘
’’ہاں، میرا گھوڑا ہے۔‘‘
ہم لال اینٹوں پر پیر رکھتے ہوئے قلعے کے کھنڈروں سے ہوتے ہوئے ایک سالم مسجد کے قریب آ پہنچے تو اس نے بتایا۔ ’’یہ مسجد بھی مجاہد کی تعمیر کردہ ہے۔‘‘
’یہ توبہتر حالت میں ہے!‘‘
’’اللہ کی رحمت ہے۔‘‘
’’اور اس پرانی مسجد پر؟‘‘ میرے سوال پر مڑ کے اس نے میری طرف دیکھا اور کڑک دار آواز میں پوچھا ’’تو مسلمان ہے؟‘‘
’’پکا۔‘‘ میں نے کہا۔
مسجد کے پیچھے پہاڑی پچرا اترتے وقت اس نے کہا ’’اس زمین سے مجاہد نے کفر کا خاتمہ کیا۔‘‘
میں چلتے چلتے رک گیا، چار سو نظر گھما کر دیکھا تو ہر طرف کھنڈر ہی کھنڈر نظر آئے۔ ویرانی تھی۔ میں نے کہا ’’اس زمین پر باقی کچھ بھی نہیں بچا۔‘‘
اسے میری بات اچھی نہ لگی، وہ باقی پچرا دوڑتا ہوا اتر گیا۔ پہاڑ کے نیچے اتر کر اس نے اپنی شلوار جھاڑ کر میری طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، جیسے وہ میرے محتاط انداز سے اترنے پر ہنس رہا ہو۔ میں بھی بالآخر پہاڑ سے اتر گیا۔ اس کی آنکھوں میں شرارت تھی۔ اس نے اپنی پتلی کمر پر ہاتھ رکھے اور ایک جگہ کھڑے ہو کر کہا ’’اس میدان میں سلائج کے بیٹے چچ نے دھوکے سے بادشاہ مہیرت کو قتل کر دیا تھا۔‘‘
میں چچ اور مہیرت کے ناموں سے متاثر نہ ہوا، دونوں میرے لیے اجنبی تھے، لیکن میں نے دونوں کے درمیان دھوکے کی دیوار دیکھ لی تھی۔ صدیوں سے چلتی ہوائیں بھی فریب کو چھپانہ سکی تھیں۔
میں نے خنجر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ’’یہ زمین دھوکے اور فریب کو جنم دیتی رہی ہے کیا؟‘‘
قمیص کے نیچے، کمر کے ساتھ بندھے ہوئے خنجر کو وہ نہ دیکھ سکا، لیکن میرے جمیل کی چبھن اس نے محسوس کر لی۔ اس کی آنکھوں میں نفرت ابھر آئی۔ مجھ سے کمزور اور ڈرا نہ ہوتا تو ضرور مجھے طمانچہ رسید کر دیتا۔
’’گالیاں برداشت کرو گے۔‘‘ اس نے اچانک عجیب سا سوال کیا۔
’’میں سندھی ہوں۔‘‘
’’مست کی گالیاں۔‘‘ اس نے وضاحت کی۔
’’اوہ! ہاں اپنی مراد پانے کے لیے مست کی گالیاں برداشت کر لوں گا۔‘‘
میں اللہ بخش مست کے بارے میں بہت کچھ سن کے آیا تھا۔ میں نے سنا تھا، وہ عرض داروں کو فحش اور ننگی گالیاں دیتا ہے۔ اس کے علاوہ ان پر گندا کچرا بھی پھینکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نے اس کی کرامتوں کے قصے بھی سنے تھے۔ وہ جوان عورتوں کے جن نکالتا تھا، بے اولاد، اولاد اور نامراد، مراد پاتے تھے۔ اس کے فیض سے بچھڑے ہوئوں نے وصال اور پیاسوں نے پانی پایا تھا۔ مجھے اپنے بچھڑے دوست کی تلاش تھی۔ عارف ماچھی میرا جگری یار تھا۔ مذاق ہی مذاق میں مَیں اسے کھو بیٹھا۔ ایک رات میں نے اسے بھنگ میں جمال گھوٹا ملا کے پلا دیا تھا، اسی رات وہ اپنی قمیص کا گریبان چاک کر کے اندھیرے میں گم ہو گیا تھا۔ میں نے سندھ کا کونا کونا چھان مارا، لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔ جب میں ہر طرف سے مایوس ہو چکا تو ایک نیک بندے سے اللہ بخش مست کے معجزات کے قصے سنے، میں بھی اپنے من کی مراد پانے اروڑ آ گیا تھا۔
’’اروڑ مدرستۂ عارفی کی وجہ سے مشہور ہے، طلبہ یہاں مفت مذہبی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔‘‘ اس اجنبی نے کھنڈروں سے گزرتے وقت بتایا۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔
’’اس پہاڑ کے پیچھے درگاہِ عارفی ہے اور اس درگاہ کے سامنے مائی کالکاں کا غار اور مندر ہے۔‘‘
میں نے کوئی دلچسپی نہ لی، میری سوچ کا مرکز تو اللہ بخش مست تھا۔
اس نے کہا ’’کالکاں کی مورتی اور مندر کے بت مدرسۂ عارفی کے طلبہ نے توڑ دیے ہیں۔‘‘
میں اجنبی کی باتوں میں دلچسپی نہیں لے رہا تھا، کیونکہ میں اللہ بخش مست کے متعلق سوچ رہا تھا۔ اس نے ٹوپی اتار کے اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرا۔
میں نے پوچھا ’’تم کون ہو؟‘‘
’’عارفی۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’کیا کام کرتے ہو؟‘‘
’’اروڑ میں سندھی ماسٹر ہوں۔‘‘
’’تو عالم ہو!‘‘
اس کی چھوٹی آنکھوں میں چمک ابھر آئی، خوش ہوتے ہوئے بولا ’’کیسی باتیں کرتے ہو بھائی! اس زمانے میں عالم کی قدر کہاں ہے۔‘‘
’’سچ کہتے ہو جناب۔‘‘ میں نے کہا۔
سفید مینار کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے اس نے کہا ’’شاہ شکر گنج کا مینار دیکھ رہے ہو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’اور زمین کا یہ حصہ بھی شاہ شکر گنج کا ہے۔‘‘
میں نے پوچھا ’’اللہ بخش مست کی درگاہ ابھی دور ہے کیا؟‘‘
’’کیوں؟ تھک گئے ہو؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’سامنے فصیل دیکھ رہے ہو، اس کے پیچھے اللہ بخش مست کی درگاہ ہے۔‘‘ اس نے بتایا کہ فصیل پر چڑھ کر راجا داہر کے سپاہی پہرا دیتے تھے۔
ہم جہاں سے گزر رہے تھے، وہ زمین پتھریلی تھی۔ کسی وقت میں پانی کے مسلسل بہائو کی وجہ سے پتھر چکنے ہو گئے تھے۔ قریب ہی اناروں کے درخت تھے۔ یقین کرنے کے لیے میں نے پوچھا ’’یہ انار کے درخت ہیں نا؟‘‘
’’ہاں، یہ انار کے درخت ہیں۔‘‘ اور اشارہ کرتے ہوئے بولا ’’سامنے دودھ کا کنواں ہے۔‘‘
’’دودھ کا کنواں!‘‘
’’ہاں، آئو دکھائوں۔‘‘ ہم کنویں کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے وہ سوکھا ہوا تھا اور اس میں پتھر پڑے تھے۔
اس نے کہا ’’یہ دودھ کا کنواں اور انار کے درخت شاہ شکر گنج کے ہیں۔‘‘
’’اس میں تو پتھر پڑے ہیں جناب!‘‘
’’ہاں لیکن پرانے زمانے میں، اس کنویں میں دودھ اور ان درختوں میں انار ہوتے تھے۔‘‘ ہم کنویں سے ہٹے اس نے اپنی بات جاری رکھی ’’شاہ کی وفات کے بعد اس کے لالچی زائرین نے دودھ اور انار بیچنے شروع کر دیے۔ ایک دن کنواں سوکھ گیا اور درختوں نے پھل دینے چھوڑ دیے۔ اب درختوں میں پھول ہوتے ہیں لیکن انار نہیں۔‘‘
درخت لال پھولوں سے لدا ہوا تھا۔ میں نے مینار کی طرف دیکھا۔ وہ بولتا رہا۔ شاہ شکر گنج کے مقبرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس نے کہا ’’مقبرے کے پیچھے سفید پتھر کے چکنے میدان ہیں، چودھویں کی رات وہاں زبردست جؤا کھیلا جاتا ہے۔ سکھر، روہڑی، شکارپور اور جیکب آباد کے بڑے بڑے سیٹھ، زمیندار اور افسر جؤا کھیلنے آتے ہیں۔‘‘
میں نے کہا ’’اس چودھویں کو میں اپنے دوستوں کے ساتھ آئوں گا اور جواریوں کی ساری دولت لوٹ کے لے جائوں گا۔‘‘
’’کیسی باتیں کر رہے ہو بھائی! یہاں بڑے بڑے جؤاری آتے ہیں۔ لاکھوں کا جؤا کھیلا جاتا ہے۔ ہم غریبوں کے بس کی بات نہیں ہے۔
میں نے رائفل بائیں کندھے سے اتار کر دائیں میں مضبوط کرتے ہوئے کہا ’’جس رات میں آئوں گا، اس رات یہاں کے سب جؤاری اپنی جھولیاں میرے سامنے خالی کر دیں گے۔‘‘ دبلے پتلے ماسٹر کو میری بات پر ہنسی آ گئی۔ میں نے پوچھا ’’پولیس بھی آتی ہے؟‘‘
’’ہاں، ایک دو تھانے دار اور چند سپاہی آتے ہیں لیکن کسی سے کچھ نہیں کہتے۔‘‘
’’جس رات میں آئوں گا، اس رات سندھیوں اور عربوں کی روحیں چیخ اٹھیں گی۔‘‘
’’کیسی باتیں کر رہے ہوٖ اروڑ کرامتوں کا شہر ہے۔‘‘ شہر یا کھنڈر؟‘‘
اسے غصہ آ گیا۔ ’’کرامتوں پر اعتبار نہیں ہے تو پھر مست کی زیارت پر کیوں آئے ہو؟‘‘ اس نے غصے بھرے لہجے میں کہا۔
میں نے کہا ’’میں سندھی ہوں، سندھیوں کا بچہ بچہ پیروں، فقیروں اور مرشدوں کے آگے گردن جھکاتا ہے۔‘‘
ہم فصیل کے قریب آ گئے، فصیل کے پیچھے اللہ بخش مست کی درگاہ تھی۔ درگاہ کے سامنے ایک تنگ راستہ تھا، جہاں پر لوگوں کا بہت بڑا ہجوم کھڑا تھا۔ میں غلط راستے سے آیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ پختہ راستہ بھی تھا جو گھوٹکی جاتا تھا۔
ماسٹر نے مجھ سے کہا ’’یہاں کسی کی نہیں چلتی، جو طاقتور وہی آگے بڑھے۔‘‘
ماسٹر مجھ سے ہاتھ ملا کے لوگوں کی بھیڑ میں گم ہو گیا۔ ہجوم میں مرد کم اور عورتیں لاتعداد تھیں، گائوں کی معصوم، بھولی بھالی، شہر کی گوری عورتیں بھی تھیں۔ چالاک، چست اور ہوشیار۔
میں ہجوم کو چیرتا، دھکے کھاتا بالآخر مست کی کوٹھی کے قریب جا پہنچا۔ اس وقت وہ کوٹھی میں کسی عورت کا جن نکال رہا تھا۔ اندر سے ہنسی کی آواز آ رہی تھی۔ وہاں موجود لوگ کہہ رہے تھے ’’عورت کا جن سائیں سے جھگڑا کر رہا ہے۔‘‘
کوٹھی کا دروازہ کھلا ایک دوشیزہ بال درست کرتی باہر نکلی۔ کچھ دیر بعد اللہ بخش مست باہر آیا۔ ایک جانگیے کے سوا اس کے بدن پر کچھ نہیں تھا۔ مٹی سے اَٹا بدن، گھنی داڑھی اور آنکھیں لال تھیں۔ باہر آ کر بیٹھ گیا۔ میں آگے بڑھ کر اس کے سامنے جا بیٹھا۔ اس نے ابتدا ہی میں تین چار گالیاں دے دیں، میں نے برداشت کیا۔
اللہ بخش مست نے گھور کے میری آنکھوں میں دیکھا، کچھ دیر تک دیکھتا رہا، آنکھیں گویا لال لہو۔ اس نے ہاتھ بڑھا کے جھٹکے سے میری چادر اتار دی۔ میں اب بھی خاموش رہا۔ منہ پر بندھے ہوئے کپڑے کی طرف اس نے ہاتھ بڑھایا تو میں نے کہا ’’مست بابا، میری عزت رکھنا۔‘‘
اس نے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا، اٹھ کھڑاہوا اور کہا ’’اندر آ!‘‘ میں اس کے ساتھ اندر چلا گیا۔ دروازہ بند کر کے وہ میرے سامنے کھڑا ہو گیا، بولا ’’کیوں آیا ہے؟‘‘
’’اپنے دوست کی تلاش میں آیا ہوں۔‘‘ میں نے ادب سے کہا ’’میں نے سندھ کا چپّہ چپّہ چھان مارا ہے، لیکن کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔‘‘
اس نے لال آنکھوں سے گھور کے میری طرف دیکھا۔ آنکھیں آنکھوں سے ملاتے ہوئے بولا ’’تُو عبدالرحمان ڈاکو ہے نا۔‘‘
میں خوف سے ایک قدم پیچھے ہٹ گیا… اس کی کرامت کا معجزہ دیکھ کر اعتقاد سے میرا دل بھر آیا۔
اس نے کہا ’’اور تُو اپنے دوست عارف ماچھی کی تلاش میں ہے۔‘‘ اللہ بخش مست کے متعلق جو کچھ سنا تھا وہ آنکھوں سے دیکھ لیا۔ پورا سندھ پیروں فقیروں سے بھرا ہوا لیکن سائیں اللہ بخش جیسا ڈھونڈے بھی نہ ملتا۔ وہ جوکچھ کہہ رہا تھا اس کا ایک ایک لفظ درست تھا۔
’’تُو سکھر والی پرانی درگاہ کے گدّی نشیں میاں سکل پتھارے دار کا آدمی ہے۔‘‘
’’بس سائیں، بس!‘‘ میں اس کے پیروں میں بیٹھ گیا، میں نے کہا ’’اب پتا بتائو کہ عارف ماچھی کہاں ہے؟‘‘
سائیں اللہ بخش نے مجھے کندھے سے پکڑ کے کھڑا کیا۔ مجھے سر سے لے کر پانؤ تک دیکھنے کے بعد وہ میرے پیچھے آ کے کھڑا ہو گیا اور اچانک زور دار آواز میں بولا ’’عارف ماچھی مر گیا ہے، تُو بھی سورج غروب ہونے سے پہلے اروڑ سے نکل جا۔‘‘
اس نے کوٹھی کا دروازہ کھولا اور مجھے دھکا دے کے باہر نکال دیا۔ میں گردن جھکا کر پانی کے مٹکوں کے پاس بیٹھ گیا۔
میں سندھ کا بدنام ڈاکو عبدالرحمن ہوں۔ میں، عارف ماچھی اور دوسرے سرکش ڈاکو سکھر والی پرانی درگاہ کے گدی نشیں میاں سکل کے سائے میں رہتے ہیں۔ بڑے بڑے خونی اور نامور ڈاکو اس کے پاس سُکھ اور سلامتی کی زندگی گزارتے ہیں۔ بہت پہنچ والا بندہ ہے۔ کسی میں ہمت ہی نہیں کہ اس کے بندوں کی طرف آنکھ اٹھا کے بھی دیکھے۔ اس کے سائے میں ایسے ایسے ڈاکو رہتے ہیں جن کا نام سن کر اردگرد کے شہر اور گائوں کانپ اٹھتے ہیں۔
عارف ماچھی جیسے ڈاکو کے گم ہونے کی خبر سن کے لوگوں نے خوشیاں منائی تھیں اور میں کچھ عرصے بعد عارف ماچھی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا تھا۔
’’کیا تمھارے من کی مراد پوری ہوئی؟‘‘ میں نے اوپر دیکھا سامنے وہی ماسٹر کھڑا تھا۔ ’’نہیں۔‘‘
’’ایسے نہیں ہو سکتا اس مست نے پتھر سے پانی نکالا ہے۔‘‘
’’تمھارے لیے نکالا ہو گا۔‘‘
’’تمھارا تو کرامتوں اور معجزوں پر اعتبار نہیں ہے۔‘‘
’’کورا اعتبار کیسے کروں؟‘‘
’’تمھیں کیا کہا مست نے؟‘‘
’’ اس نے کہا، تیرا دوست مر گیا ہے۔‘‘
’’تو مر گیا ہو گا۔‘‘
’’کیسے مر گیا ہو گا؟‘‘ میں نے کہا ’’میرا دل گواہی دیتا ہے کہ میرا یار زندہ ہے۔‘‘
’’تم غلطی پر ہو دوست، مست کی بات پتھر پر لکیر کی طرح ہے۔‘‘
میں نے غصے میں کہا ’’میں تمھیں اور اور تمھارے مست کو گولیوں سے چھلنی کردوں گا۔‘‘
’’کفر بک رہے ہو، تمھاری بندوق کو فقیر ایک اشارے سے خاک کر دے گا۔‘‘
’’میں خون سے شب قدر مناتا ہوں۔‘‘
’’تمھارا دماغ خراب ہو گیا ہے۔‘‘
’’آج تمھارے بھر کی اور میری تلاش کی آخری شام ہے۔‘‘ میں نے رائفل ہاتھ میں تھام لی تو دبلا پتلا ماسٹر میرے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اس نے کہا ’’کیا طاقتور اور خوبصورت نوجوان ہو، کم سے کم اپنی جوانی پر ہی رحم کھائو اور واپس لوٹ جائو۔‘‘
ایک لمحے کے لیے میں نے ماسٹر کی طرف دیکھا اور اس سے پوچھا ’’کیا مست بتا سکے گا کہ میرا دوست کہاں دفن ہے؟‘‘
کیوں نہیں۔‘‘ اس نے فخر سے کہا۔ ’’ارے وہ اللہ کا پیارا بندہ ہے، اسے ستر ہزار فرشتے اروڑ میں چھوڑ گئے تھے۔‘‘
’’ستر ہزار فرشتے!ہاں۔‘‘ ماسٹر نے بتایا ’’کچھ سال ہوئے کہ اللہ بخش مست اس فصیل کے سامنے بے ہوش پڑا تھا۔ اس نے کالی قمیص پہنی ہوئی تھی اور قمیص کا گریبان پھٹا ہوا تھا۔ اس کے سینے پر گہرے زخم کا نشان تھا۔
’’کالی قمیص، گہرا زخم۔‘‘ میں ایک دم اٹھ کھڑا ہوا۔ ماسٹر کو دھکا دے کے میں ہجوم کو چیرتا ہوا اللہ بخش مست کی کوٹھی کے قریب آ گیا۔ اس وقت وہ نذرانہ لینے دو نوجوان عورتوں سمیت کوٹھی میں داخل ہو رہا تھا۔ میں ایک دم اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ عورتیں خوف سے ایک طرف ہٹ گئیں۔ مست نے گالیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ میں نے مست کو بازو سے پکڑا۔ پورا ہجوم اٹھ کھڑا ہوا ۔ کسی نے ڈنڈے اٹھائے، کسی نے جوتے ہاتھ میں پکڑ لیے اور کئی لوگوں نے کلھاڑیاں اٹھا لیں۔ اللہ بخش مست کو کوٹھی کے اندر دھکا دے کے میں ہجوم کے سامنے رائفل سیدھی کر کے کھڑا ہو گیا۔ میں نے انھیں بتایا ’’میں عبدالرحمن ڈاکو ہوں۔‘‘
لوگوں پر جیسے برف گر گئی، جو ایک دم آگے بڑھ کے آئے تھے، ایک قدم پیچھے ہٹ گئے۔ کسی نے کہا ’’اسے چھوڑ دو، مست خود سیدھا کر دے گا۔‘‘
اندر جا کے میںنے کوٹھی کا دروازہ بند کر دیا۔ مست کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر اس نے گالیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ میں نے خنجر نکال کے اس کے سینے پر رکھا۔
میں نے کہا ’’تُو جھوٹا ہے، فریبی ہے۔‘‘ اس نے جواب میں گالیاں دینی شروع کر دیں۔
میں نے اسے گردن سے پکڑتے ہوئے کہا ’’تُو عارف ماچھی ہے۔‘‘
اس کی آنکھوں کی آگ ٹھنڈی ہو گئی، ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ اس نے میرا ہاتھ اپنی گردن سے ہٹاتے ہوئے کہا ’’پہلی نظر میں تو نہ پہچان سکا۔‘‘
ہم ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔ میں نے کہا ’’بڑے بہروپیے بن گئے ہو۔‘‘
’’بننا پڑا ہے۔‘‘
’’واپس نہیں چلو گے؟‘‘
’’بیٹھ تو جائو۔‘‘ ہم دونوں بیٹھ گئے، جو عرصہ الگ گزرا تھا، بیٹھ کے خوب اس کی باتیں کیں۔ باتیں کرنے کے بعد میں نے کہا ’’عارف! تمھارے بن کلہاڑی پر زنگ لگ گیا ہے۔‘‘
’’میرے مرید بنو گے؟‘‘ ہنستے ہوئے اس نے کہا۔
’’کیوں اپنی چمڑی کے دشمن بنے ہو۔‘‘ ہم دونوں ہنس پڑے۔ میں نے کہا ’’پہلے تم کہتے تھے، ڈاکا زنی کے بغیر میں مر جائوں گا، اب کیوں کر زندہ ہو؟‘‘
اس کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ پھیل گئی۔ کہا ’’ارے بے وقوف! کیا سندھی صرف کلھاڑی اور بندوق سے لُوٹے جا سکتے ہیں۔‘‘
اس نے نیچے بچھی ہوئی چٹائی کا ایک حصہ اوپر اٹھا کر گڑھے میں پڑے ہوئے زیورات اور پیسوں کا ڈھیر دکھایا اور بولا ’’کسی دن آ کے یہ سب لے جانا۔‘‘
میں نے ترچھی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ’’بہت مال جمع کر لیا ہے۔‘‘
اس نے کہا ’’سندھ میں کرامتوں والے پیر بن جائو یا رہزن، ڈاکو دونوں دھندے ایک جیسے ہیں۔ دونوں میں ایک جیسی کمائی ہے۔‘‘
’’کفر بک رہے ہو تم۔‘‘
’’میں پیر ہوں، یاد رکھ!‘‘ اس نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’ڈاکو کے لیے قانون ہے، لیکن خود ساختہ کرامتوں والے پیر کے لیے کوئی قانون نہیں۔‘‘
’’تجھ سے بحث کرنا شیطان سے بحث کے برابر ہے۔‘‘
’’یہ جملہ سننے کے لیے کان ترس رہے تھے، رحمان! پرانے دن یاد آ گئے۔
’’چلو گے؟‘‘
’’نہیں، ابھی اور بھی مال جمع کرنا ہے۔‘‘
’’پکڑے نہ جائو۔‘‘
’’ماہر ہو گیا ہوں۔ اس ڈاکے کا نہ خوف ہے، نہ خطرہ، سیدھے سادے اور معصوم لوگ ساری جمع پونجی نذرانے کے طور پر دینے آ جاتے ہیں۔‘‘
باہر لوگوں میں بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ باہر سے آوازیں اندر آ رہی تھیں۔ میں اٹھ کھڑا ہوا۔ میں نے اس سے پوچھا ’’یہیں رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے کیا؟‘‘
’’ہاں، جب تک راز، راز رہے گا، میں پیر بنا رہوں گا۔ نہیں تو تم سے آملوں گا۔‘‘
’’میں انتظار کروں گا، سائیں اللہ بخش مست۔‘‘ وہ ہنس پڑا، کہا ’’سندھ میں پاگلوں کو پیر اور دیوانوں کو پہنچا ہوا کہتے ہیں۔‘‘
’’اچھا عارف! چلتا ہوں، خوش ہوں کہ تجھے ڈھونڈ لیا۔‘‘
’’ٹھہر جائو۔‘‘ وہ میرے سامنے کھڑا ہو گیا اور بولا ’’میرا کام خراب کر دیا ہے تم نے، اس لیے اب میری ساکھ برقرار رکھنے کے لیے تم سب کے سامنے میرے پیروں پر ہاتھ رکھ کے ایک طرف چلے جانا۔‘‘
ہم ایک دوسرے کے گلے لگ کر وداع ہوئے، میں نے کہا ’’تم تو موٹے ہو گئے ہو۔‘‘
’’دیسی گھی اور خوب صورت جوانیوں کی مہربانی ہے۔‘‘
عارف ماچھی کوٹھی کا دروازہ کھول کر باہر آ کھڑا ہوا۔ لوگوں کی زبانیں تالوئوں سے لگ گئیں۔ میں باہر آیا۔ عارف کے قدموں میں بیٹھ کر اس کے پیروں پر ہاتھ رکھے تو لوگوں کا اعتقاد مزید پختہ ہو گیا۔ آواز اٹھی ’’واہ وا، اللہ بخش مست! تُو نے عبدالرحمن جیسے ڈاکو کو جھکا لیا۔‘‘
میں اٹھ کھڑا ہوا، گردن جھکائے آگے نکل گیا۔ کسی نے کہا ’’سائیں کی کرامت تو کوئی کوٹھی میں دیکھے۔‘‘
فصیل سے ہوتے ہوئے میں نے اروڑ کے تباہ شدہ قلعے کا رخ کیا۔ سورج ڈوب چکا تھا۔ کھنڈروں اور پہاڑوں پر اندھیرے کی کالی چادر چھا گئی تھی۔
=========
سراج چنا (لنک)بشکریہ اردو ڈائجسٹ
میں اللہ بخش مست کی زیارت کرنے اروڑ آیا تھا۔قدیم مسجد کے پاس گھوڑے سے اترا۔ روہڑی سے اروڑ تک بغیر رکے سفر کیا تھا۔ فاصلہ زیادہ نہیں تھا، لیکن کپتان کو ہوا میں اڑاتا آیا تھا۔ گھوڑا ہانپ رہا تھا اس کے کھُر پسینے اور مٹی میں اٹ گئے تھے۔ اسے ببول کے درخت کے ساتھ باندھ کر شاباش دی۔ وہ میرا پرانا ساتھی ہے، اسے بے حد چاہتا ہوں۔ ہر مصیبت اور مشکل میں وفا دار رہا ہے۔ میں اسے کپتان کہتا ہوں۔
میرا پیروں اور فقیروں پر اعتقاد نہیں۔ میں رہزن ہوں، خونی ہوں۔ مجھے اپنے یونانی خنجر اور رائفل پر اعتبار ہے، اپنی قوت پر میرا اعتماد ہے۔ جسے چاہوں، جب چاہوں قتل کر دیتا ہوں۔ جان بخشی صرف ان کی کرتا ہوں جو قرآن اٹھا کر امان مانگتے ہیں۔ ایسوں کو صرف لوٹتا ہوں اس قدر کہ جسم کے کپڑے بھی اتروا لیتا ہوں۔ لیکن میرا جگری یار عارف ماچھی قرآن کو بھی نہیں مانتا،
کسی کو منت سماجت کرتے دیکھ کر ایک پل ضائع کیے بغیر ختم کر دیتا ہے، لیکن ایک رات عارف ماچھی گم ہو گیا۔
اللہ بخش مست کے معجزات کے قصے سن کر، فیصلہ کر کے آیا تھا کہ اگر مست سے عارف ماچھی کا پتا نہ چلا تو رائفل کی ساری گولیاں مست کے سینے میں اتار دوں گا۔
منہ پر بندھا ہوا کپڑا کھول کر پسینہ صاف کیا، اِدھر اُدھر دیکھا کوئی بھی انسان دور دور تک دکھائی نہ دیا۔ رائفل کو مضبوطی سے تھام کر، ٹوٹی دیواروں، تباہ شدہ بنیادوں اور اِدھر اُدھر بکھری ہوئی لال اینٹوں پر قدم رکھتا ہوا اروڑ کے کھنڈروں میں جا پہنچا۔ پیچھے قدیم قبرستان کی قبریں تھیں اور سامنے پہاڑوں کی خوف ناک ڈھلانیں۔ اچانک خاموشی میں اپنے پیچھے کسی کے قدموں کی آہٹ سنی۔ کچھ پتھر پہاڑ کی ڈھلانوں سے گرتے، قلابازیاں کھاتے نیچے جا گرے۔ میں نے کمر کے ساتھ بندھے ہوئے خنجر کے دستے پر ہاتھ رکھ کر بجلی کی سی تیزی سے پیچھے مڑ کر دیکھا اور کہا ’’کون ہو؟‘‘
وہ پیچھے ہٹ گیا۔ دبلا پتلا کمزور سا آدمی تھا۔ کالی چادر اور اجرک سے میرا منہ چھپا ہونے کی وجہ سے اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
’’تم کون ہو؟‘‘
’مسافر ہوں۔‘‘
’’خوش آمدید بھائی!‘‘ اس نے اپنا کمزور ہاتھ بڑھایا۔ میں نے ہاتھ ملایا اور اسے بتایا کہ ’’میں اللہ بخش کی زیارت کرنے آیا ہوں۔‘‘
’’خوش آمدید بھائی! ہمارے سر آنکھوں پر۔‘‘
’’پتا بتائو گے؟‘‘
’’میں خود سائیں کو سلام کرنے جا رہا ہوں، ساتھ ہی چلتے ہیں۔‘‘
’’اچھی بات ہے۔‘‘ میں نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے کہا، چلتے چلتے میں نے اس سے پوچھا ’’آپ اروڑ کے ہو کیا؟‘‘
’’ہاں، میں پلا بڑھا بھی یہیں ہوں۔‘‘ اس کے پانؤ کھنڈروں میں جم جم کے پڑ رہے تھے اور قدم بھی وہ بڑے بڑے اٹھا رہا تھا۔ ایک قدم مجھ سے آگے چل رہا تھا۔ چلتے چلتے اس نے پوچھا ’’تم کون ہو؟‘‘
’’جی!‘‘ میں گھبرایا۔
اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’ہاں، تم کون ہو؟‘‘
’’ میں مچھیرا ہوں۔‘‘ میں نے جھوٹ بولا۔
’’ہماری آنکھوں پر بھائی جی! آئیے۔‘‘
وہ بڑے بڑے قدم اٹھاتا آگے بڑھتا رہا۔ اس نے پوچھا ’’پہلی دفعہ آئے ہو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’مجاہد والی مسجد کے پاس تمھارا گھوڑا بندھا ہے؟‘‘
’’مجاہد! کون سا مجاہد؟‘‘
’’محمد بن قاسم۔‘‘
’’ہاں، میرا گھوڑا ہے۔‘‘
ہم لال اینٹوں پر پیر رکھتے ہوئے قلعے کے کھنڈروں سے ہوتے ہوئے ایک سالم مسجد کے قریب آ پہنچے تو اس نے بتایا۔ ’’یہ مسجد بھی مجاہد کی تعمیر کردہ ہے۔‘‘
’یہ توبہتر حالت میں ہے!‘‘
’’اللہ کی رحمت ہے۔‘‘
’’اور اس پرانی مسجد پر؟‘‘ میرے سوال پر مڑ کے اس نے میری طرف دیکھا اور کڑک دار آواز میں پوچھا ’’تو مسلمان ہے؟‘‘
’’پکا۔‘‘ میں نے کہا۔
مسجد کے پیچھے پہاڑی پچرا اترتے وقت اس نے کہا ’’اس زمین سے مجاہد نے کفر کا خاتمہ کیا۔‘‘
میں چلتے چلتے رک گیا، چار سو نظر گھما کر دیکھا تو ہر طرف کھنڈر ہی کھنڈر نظر آئے۔ ویرانی تھی۔ میں نے کہا ’’اس زمین پر باقی کچھ بھی نہیں بچا۔‘‘
اسے میری بات اچھی نہ لگی، وہ باقی پچرا دوڑتا ہوا اتر گیا۔ پہاڑ کے نیچے اتر کر اس نے اپنی شلوار جھاڑ کر میری طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، جیسے وہ میرے محتاط انداز سے اترنے پر ہنس رہا ہو۔ میں بھی بالآخر پہاڑ سے اتر گیا۔ اس کی آنکھوں میں شرارت تھی۔ اس نے اپنی پتلی کمر پر ہاتھ رکھے اور ایک جگہ کھڑے ہو کر کہا ’’اس میدان میں سلائج کے بیٹے چچ نے دھوکے سے بادشاہ مہیرت کو قتل کر دیا تھا۔‘‘
میں چچ اور مہیرت کے ناموں سے متاثر نہ ہوا، دونوں میرے لیے اجنبی تھے، لیکن میں نے دونوں کے درمیان دھوکے کی دیوار دیکھ لی تھی۔ صدیوں سے چلتی ہوائیں بھی فریب کو چھپانہ سکی تھیں۔
میں نے خنجر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ’’یہ زمین دھوکے اور فریب کو جنم دیتی رہی ہے کیا؟‘‘
قمیص کے نیچے، کمر کے ساتھ بندھے ہوئے خنجر کو وہ نہ دیکھ سکا، لیکن میرے جمیل کی چبھن اس نے محسوس کر لی۔ اس کی آنکھوں میں نفرت ابھر آئی۔ مجھ سے کمزور اور ڈرا نہ ہوتا تو ضرور مجھے طمانچہ رسید کر دیتا۔
’’گالیاں برداشت کرو گے۔‘‘ اس نے اچانک عجیب سا سوال کیا۔
’’میں سندھی ہوں۔‘‘
’’مست کی گالیاں۔‘‘ اس نے وضاحت کی۔
’’اوہ! ہاں اپنی مراد پانے کے لیے مست کی گالیاں برداشت کر لوں گا۔‘‘
میں اللہ بخش مست کے بارے میں بہت کچھ سن کے آیا تھا۔ میں نے سنا تھا، وہ عرض داروں کو فحش اور ننگی گالیاں دیتا ہے۔ اس کے علاوہ ان پر گندا کچرا بھی پھینکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نے اس کی کرامتوں کے قصے بھی سنے تھے۔ وہ جوان عورتوں کے جن نکالتا تھا، بے اولاد، اولاد اور نامراد، مراد پاتے تھے۔ اس کے فیض سے بچھڑے ہوئوں نے وصال اور پیاسوں نے پانی پایا تھا۔ مجھے اپنے بچھڑے دوست کی تلاش تھی۔ عارف ماچھی میرا جگری یار تھا۔ مذاق ہی مذاق میں مَیں اسے کھو بیٹھا۔ ایک رات میں نے اسے بھنگ میں جمال گھوٹا ملا کے پلا دیا تھا، اسی رات وہ اپنی قمیص کا گریبان چاک کر کے اندھیرے میں گم ہو گیا تھا۔ میں نے سندھ کا کونا کونا چھان مارا، لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔ جب میں ہر طرف سے مایوس ہو چکا تو ایک نیک بندے سے اللہ بخش مست کے معجزات کے قصے سنے، میں بھی اپنے من کی مراد پانے اروڑ آ گیا تھا۔
’’اروڑ مدرستۂ عارفی کی وجہ سے مشہور ہے، طلبہ یہاں مفت مذہبی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔‘‘ اس اجنبی نے کھنڈروں سے گزرتے وقت بتایا۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔
’’اس پہاڑ کے پیچھے درگاہِ عارفی ہے اور اس درگاہ کے سامنے مائی کالکاں کا غار اور مندر ہے۔‘‘
میں نے کوئی دلچسپی نہ لی، میری سوچ کا مرکز تو اللہ بخش مست تھا۔
اس نے کہا ’’کالکاں کی مورتی اور مندر کے بت مدرسۂ عارفی کے طلبہ نے توڑ دیے ہیں۔‘‘
میں اجنبی کی باتوں میں دلچسپی نہیں لے رہا تھا، کیونکہ میں اللہ بخش مست کے متعلق سوچ رہا تھا۔ اس نے ٹوپی اتار کے اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرا۔
میں نے پوچھا ’’تم کون ہو؟‘‘
’’عارفی۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’کیا کام کرتے ہو؟‘‘
’’اروڑ میں سندھی ماسٹر ہوں۔‘‘
’’تو عالم ہو!‘‘
اس کی چھوٹی آنکھوں میں چمک ابھر آئی، خوش ہوتے ہوئے بولا ’’کیسی باتیں کرتے ہو بھائی! اس زمانے میں عالم کی قدر کہاں ہے۔‘‘
’’سچ کہتے ہو جناب۔‘‘ میں نے کہا۔
سفید مینار کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے اس نے کہا ’’شاہ شکر گنج کا مینار دیکھ رہے ہو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’اور زمین کا یہ حصہ بھی شاہ شکر گنج کا ہے۔‘‘
میں نے پوچھا ’’اللہ بخش مست کی درگاہ ابھی دور ہے کیا؟‘‘
’’کیوں؟ تھک گئے ہو؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’سامنے فصیل دیکھ رہے ہو، اس کے پیچھے اللہ بخش مست کی درگاہ ہے۔‘‘ اس نے بتایا کہ فصیل پر چڑھ کر راجا داہر کے سپاہی پہرا دیتے تھے۔
ہم جہاں سے گزر رہے تھے، وہ زمین پتھریلی تھی۔ کسی وقت میں پانی کے مسلسل بہائو کی وجہ سے پتھر چکنے ہو گئے تھے۔ قریب ہی اناروں کے درخت تھے۔ یقین کرنے کے لیے میں نے پوچھا ’’یہ انار کے درخت ہیں نا؟‘‘
’’ہاں، یہ انار کے درخت ہیں۔‘‘ اور اشارہ کرتے ہوئے بولا ’’سامنے دودھ کا کنواں ہے۔‘‘
’’دودھ کا کنواں!‘‘
’’ہاں، آئو دکھائوں۔‘‘ ہم کنویں کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے وہ سوکھا ہوا تھا اور اس میں پتھر پڑے تھے۔
اس نے کہا ’’یہ دودھ کا کنواں اور انار کے درخت شاہ شکر گنج کے ہیں۔‘‘
’’اس میں تو پتھر پڑے ہیں جناب!‘‘
’’ہاں لیکن پرانے زمانے میں، اس کنویں میں دودھ اور ان درختوں میں انار ہوتے تھے۔‘‘ ہم کنویں سے ہٹے اس نے اپنی بات جاری رکھی ’’شاہ کی وفات کے بعد اس کے لالچی زائرین نے دودھ اور انار بیچنے شروع کر دیے۔ ایک دن کنواں سوکھ گیا اور درختوں نے پھل دینے چھوڑ دیے۔ اب درختوں میں پھول ہوتے ہیں لیکن انار نہیں۔‘‘
درخت لال پھولوں سے لدا ہوا تھا۔ میں نے مینار کی طرف دیکھا۔ وہ بولتا رہا۔ شاہ شکر گنج کے مقبرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس نے کہا ’’مقبرے کے پیچھے سفید پتھر کے چکنے میدان ہیں، چودھویں کی رات وہاں زبردست جؤا کھیلا جاتا ہے۔ سکھر، روہڑی، شکارپور اور جیکب آباد کے بڑے بڑے سیٹھ، زمیندار اور افسر جؤا کھیلنے آتے ہیں۔‘‘
میں نے کہا ’’اس چودھویں کو میں اپنے دوستوں کے ساتھ آئوں گا اور جواریوں کی ساری دولت لوٹ کے لے جائوں گا۔‘‘
’’کیسی باتیں کر رہے ہو بھائی! یہاں بڑے بڑے جؤاری آتے ہیں۔ لاکھوں کا جؤا کھیلا جاتا ہے۔ ہم غریبوں کے بس کی بات نہیں ہے۔
میں نے رائفل بائیں کندھے سے اتار کر دائیں میں مضبوط کرتے ہوئے کہا ’’جس رات میں آئوں گا، اس رات یہاں کے سب جؤاری اپنی جھولیاں میرے سامنے خالی کر دیں گے۔‘‘ دبلے پتلے ماسٹر کو میری بات پر ہنسی آ گئی۔ میں نے پوچھا ’’پولیس بھی آتی ہے؟‘‘
’’ہاں، ایک دو تھانے دار اور چند سپاہی آتے ہیں لیکن کسی سے کچھ نہیں کہتے۔‘‘
’’جس رات میں آئوں گا، اس رات سندھیوں اور عربوں کی روحیں چیخ اٹھیں گی۔‘‘
’’کیسی باتیں کر رہے ہوٖ اروڑ کرامتوں کا شہر ہے۔‘‘ شہر یا کھنڈر؟‘‘
اسے غصہ آ گیا۔ ’’کرامتوں پر اعتبار نہیں ہے تو پھر مست کی زیارت پر کیوں آئے ہو؟‘‘ اس نے غصے بھرے لہجے میں کہا۔
میں نے کہا ’’میں سندھی ہوں، سندھیوں کا بچہ بچہ پیروں، فقیروں اور مرشدوں کے آگے گردن جھکاتا ہے۔‘‘
ہم فصیل کے قریب آ گئے، فصیل کے پیچھے اللہ بخش مست کی درگاہ تھی۔ درگاہ کے سامنے ایک تنگ راستہ تھا، جہاں پر لوگوں کا بہت بڑا ہجوم کھڑا تھا۔ میں غلط راستے سے آیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ پختہ راستہ بھی تھا جو گھوٹکی جاتا تھا۔
ماسٹر نے مجھ سے کہا ’’یہاں کسی کی نہیں چلتی، جو طاقتور وہی آگے بڑھے۔‘‘
ماسٹر مجھ سے ہاتھ ملا کے لوگوں کی بھیڑ میں گم ہو گیا۔ ہجوم میں مرد کم اور عورتیں لاتعداد تھیں، گائوں کی معصوم، بھولی بھالی، شہر کی گوری عورتیں بھی تھیں۔ چالاک، چست اور ہوشیار۔
میں ہجوم کو چیرتا، دھکے کھاتا بالآخر مست کی کوٹھی کے قریب جا پہنچا۔ اس وقت وہ کوٹھی میں کسی عورت کا جن نکال رہا تھا۔ اندر سے ہنسی کی آواز آ رہی تھی۔ وہاں موجود لوگ کہہ رہے تھے ’’عورت کا جن سائیں سے جھگڑا کر رہا ہے۔‘‘
کوٹھی کا دروازہ کھلا ایک دوشیزہ بال درست کرتی باہر نکلی۔ کچھ دیر بعد اللہ بخش مست باہر آیا۔ ایک جانگیے کے سوا اس کے بدن پر کچھ نہیں تھا۔ مٹی سے اَٹا بدن، گھنی داڑھی اور آنکھیں لال تھیں۔ باہر آ کر بیٹھ گیا۔ میں آگے بڑھ کر اس کے سامنے جا بیٹھا۔ اس نے ابتدا ہی میں تین چار گالیاں دے دیں، میں نے برداشت کیا۔
اللہ بخش مست نے گھور کے میری آنکھوں میں دیکھا، کچھ دیر تک دیکھتا رہا، آنکھیں گویا لال لہو۔ اس نے ہاتھ بڑھا کے جھٹکے سے میری چادر اتار دی۔ میں اب بھی خاموش رہا۔ منہ پر بندھے ہوئے کپڑے کی طرف اس نے ہاتھ بڑھایا تو میں نے کہا ’’مست بابا، میری عزت رکھنا۔‘‘
اس نے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا، اٹھ کھڑاہوا اور کہا ’’اندر آ!‘‘ میں اس کے ساتھ اندر چلا گیا۔ دروازہ بند کر کے وہ میرے سامنے کھڑا ہو گیا، بولا ’’کیوں آیا ہے؟‘‘
’’اپنے دوست کی تلاش میں آیا ہوں۔‘‘ میں نے ادب سے کہا ’’میں نے سندھ کا چپّہ چپّہ چھان مارا ہے، لیکن کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔‘‘
اس نے لال آنکھوں سے گھور کے میری طرف دیکھا۔ آنکھیں آنکھوں سے ملاتے ہوئے بولا ’’تُو عبدالرحمان ڈاکو ہے نا۔‘‘
میں خوف سے ایک قدم پیچھے ہٹ گیا… اس کی کرامت کا معجزہ دیکھ کر اعتقاد سے میرا دل بھر آیا۔
اس نے کہا ’’اور تُو اپنے دوست عارف ماچھی کی تلاش میں ہے۔‘‘ اللہ بخش مست کے متعلق جو کچھ سنا تھا وہ آنکھوں سے دیکھ لیا۔ پورا سندھ پیروں فقیروں سے بھرا ہوا لیکن سائیں اللہ بخش جیسا ڈھونڈے بھی نہ ملتا۔ وہ جوکچھ کہہ رہا تھا اس کا ایک ایک لفظ درست تھا۔
’’تُو سکھر والی پرانی درگاہ کے گدّی نشیں میاں سکل پتھارے دار کا آدمی ہے۔‘‘
’’بس سائیں، بس!‘‘ میں اس کے پیروں میں بیٹھ گیا، میں نے کہا ’’اب پتا بتائو کہ عارف ماچھی کہاں ہے؟‘‘
سائیں اللہ بخش نے مجھے کندھے سے پکڑ کے کھڑا کیا۔ مجھے سر سے لے کر پانؤ تک دیکھنے کے بعد وہ میرے پیچھے آ کے کھڑا ہو گیا اور اچانک زور دار آواز میں بولا ’’عارف ماچھی مر گیا ہے، تُو بھی سورج غروب ہونے سے پہلے اروڑ سے نکل جا۔‘‘
اس نے کوٹھی کا دروازہ کھولا اور مجھے دھکا دے کے باہر نکال دیا۔ میں گردن جھکا کر پانی کے مٹکوں کے پاس بیٹھ گیا۔
میں سندھ کا بدنام ڈاکو عبدالرحمن ہوں۔ میں، عارف ماچھی اور دوسرے سرکش ڈاکو سکھر والی پرانی درگاہ کے گدی نشیں میاں سکل کے سائے میں رہتے ہیں۔ بڑے بڑے خونی اور نامور ڈاکو اس کے پاس سُکھ اور سلامتی کی زندگی گزارتے ہیں۔ بہت پہنچ والا بندہ ہے۔ کسی میں ہمت ہی نہیں کہ اس کے بندوں کی طرف آنکھ اٹھا کے بھی دیکھے۔ اس کے سائے میں ایسے ایسے ڈاکو رہتے ہیں جن کا نام سن کر اردگرد کے شہر اور گائوں کانپ اٹھتے ہیں۔
عارف ماچھی جیسے ڈاکو کے گم ہونے کی خبر سن کے لوگوں نے خوشیاں منائی تھیں اور میں کچھ عرصے بعد عارف ماچھی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا تھا۔
’’کیا تمھارے من کی مراد پوری ہوئی؟‘‘ میں نے اوپر دیکھا سامنے وہی ماسٹر کھڑا تھا۔ ’’نہیں۔‘‘
’’ایسے نہیں ہو سکتا اس مست نے پتھر سے پانی نکالا ہے۔‘‘
’’تمھارے لیے نکالا ہو گا۔‘‘
’’تمھارا تو کرامتوں اور معجزوں پر اعتبار نہیں ہے۔‘‘
’’کورا اعتبار کیسے کروں؟‘‘
’’تمھیں کیا کہا مست نے؟‘‘
’’ اس نے کہا، تیرا دوست مر گیا ہے۔‘‘
’’تو مر گیا ہو گا۔‘‘
’’کیسے مر گیا ہو گا؟‘‘ میں نے کہا ’’میرا دل گواہی دیتا ہے کہ میرا یار زندہ ہے۔‘‘
’’تم غلطی پر ہو دوست، مست کی بات پتھر پر لکیر کی طرح ہے۔‘‘
میں نے غصے میں کہا ’’میں تمھیں اور اور تمھارے مست کو گولیوں سے چھلنی کردوں گا۔‘‘
’’کفر بک رہے ہو، تمھاری بندوق کو فقیر ایک اشارے سے خاک کر دے گا۔‘‘
’’میں خون سے شب قدر مناتا ہوں۔‘‘
’’تمھارا دماغ خراب ہو گیا ہے۔‘‘
’’آج تمھارے بھر کی اور میری تلاش کی آخری شام ہے۔‘‘ میں نے رائفل ہاتھ میں تھام لی تو دبلا پتلا ماسٹر میرے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اس نے کہا ’’کیا طاقتور اور خوبصورت نوجوان ہو، کم سے کم اپنی جوانی پر ہی رحم کھائو اور واپس لوٹ جائو۔‘‘
ایک لمحے کے لیے میں نے ماسٹر کی طرف دیکھا اور اس سے پوچھا ’’کیا مست بتا سکے گا کہ میرا دوست کہاں دفن ہے؟‘‘
کیوں نہیں۔‘‘ اس نے فخر سے کہا۔ ’’ارے وہ اللہ کا پیارا بندہ ہے، اسے ستر ہزار فرشتے اروڑ میں چھوڑ گئے تھے۔‘‘
’’ستر ہزار فرشتے!ہاں۔‘‘ ماسٹر نے بتایا ’’کچھ سال ہوئے کہ اللہ بخش مست اس فصیل کے سامنے بے ہوش پڑا تھا۔ اس نے کالی قمیص پہنی ہوئی تھی اور قمیص کا گریبان پھٹا ہوا تھا۔ اس کے سینے پر گہرے زخم کا نشان تھا۔
’’کالی قمیص، گہرا زخم۔‘‘ میں ایک دم اٹھ کھڑا ہوا۔ ماسٹر کو دھکا دے کے میں ہجوم کو چیرتا ہوا اللہ بخش مست کی کوٹھی کے قریب آ گیا۔ اس وقت وہ نذرانہ لینے دو نوجوان عورتوں سمیت کوٹھی میں داخل ہو رہا تھا۔ میں ایک دم اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ عورتیں خوف سے ایک طرف ہٹ گئیں۔ مست نے گالیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ میں نے مست کو بازو سے پکڑا۔ پورا ہجوم اٹھ کھڑا ہوا ۔ کسی نے ڈنڈے اٹھائے، کسی نے جوتے ہاتھ میں پکڑ لیے اور کئی لوگوں نے کلھاڑیاں اٹھا لیں۔ اللہ بخش مست کو کوٹھی کے اندر دھکا دے کے میں ہجوم کے سامنے رائفل سیدھی کر کے کھڑا ہو گیا۔ میں نے انھیں بتایا ’’میں عبدالرحمن ڈاکو ہوں۔‘‘
لوگوں پر جیسے برف گر گئی، جو ایک دم آگے بڑھ کے آئے تھے، ایک قدم پیچھے ہٹ گئے۔ کسی نے کہا ’’اسے چھوڑ دو، مست خود سیدھا کر دے گا۔‘‘
اندر جا کے میںنے کوٹھی کا دروازہ بند کر دیا۔ مست کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر اس نے گالیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ میں نے خنجر نکال کے اس کے سینے پر رکھا۔
میں نے کہا ’’تُو جھوٹا ہے، فریبی ہے۔‘‘ اس نے جواب میں گالیاں دینی شروع کر دیں۔
میں نے اسے گردن سے پکڑتے ہوئے کہا ’’تُو عارف ماچھی ہے۔‘‘
اس کی آنکھوں کی آگ ٹھنڈی ہو گئی، ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ اس نے میرا ہاتھ اپنی گردن سے ہٹاتے ہوئے کہا ’’پہلی نظر میں تو نہ پہچان سکا۔‘‘
ہم ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔ میں نے کہا ’’بڑے بہروپیے بن گئے ہو۔‘‘
’’بننا پڑا ہے۔‘‘
’’واپس نہیں چلو گے؟‘‘
’’بیٹھ تو جائو۔‘‘ ہم دونوں بیٹھ گئے، جو عرصہ الگ گزرا تھا، بیٹھ کے خوب اس کی باتیں کیں۔ باتیں کرنے کے بعد میں نے کہا ’’عارف! تمھارے بن کلہاڑی پر زنگ لگ گیا ہے۔‘‘
’’میرے مرید بنو گے؟‘‘ ہنستے ہوئے اس نے کہا۔
’’کیوں اپنی چمڑی کے دشمن بنے ہو۔‘‘ ہم دونوں ہنس پڑے۔ میں نے کہا ’’پہلے تم کہتے تھے، ڈاکا زنی کے بغیر میں مر جائوں گا، اب کیوں کر زندہ ہو؟‘‘
اس کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ پھیل گئی۔ کہا ’’ارے بے وقوف! کیا سندھی صرف کلھاڑی اور بندوق سے لُوٹے جا سکتے ہیں۔‘‘
اس نے نیچے بچھی ہوئی چٹائی کا ایک حصہ اوپر اٹھا کر گڑھے میں پڑے ہوئے زیورات اور پیسوں کا ڈھیر دکھایا اور بولا ’’کسی دن آ کے یہ سب لے جانا۔‘‘
میں نے ترچھی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ’’بہت مال جمع کر لیا ہے۔‘‘
اس نے کہا ’’سندھ میں کرامتوں والے پیر بن جائو یا رہزن، ڈاکو دونوں دھندے ایک جیسے ہیں۔ دونوں میں ایک جیسی کمائی ہے۔‘‘
’’کفر بک رہے ہو تم۔‘‘
’’میں پیر ہوں، یاد رکھ!‘‘ اس نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’ڈاکو کے لیے قانون ہے، لیکن خود ساختہ کرامتوں والے پیر کے لیے کوئی قانون نہیں۔‘‘
’’تجھ سے بحث کرنا شیطان سے بحث کے برابر ہے۔‘‘
’’یہ جملہ سننے کے لیے کان ترس رہے تھے، رحمان! پرانے دن یاد آ گئے۔
’’چلو گے؟‘‘
’’نہیں، ابھی اور بھی مال جمع کرنا ہے۔‘‘
’’پکڑے نہ جائو۔‘‘
’’ماہر ہو گیا ہوں۔ اس ڈاکے کا نہ خوف ہے، نہ خطرہ، سیدھے سادے اور معصوم لوگ ساری جمع پونجی نذرانے کے طور پر دینے آ جاتے ہیں۔‘‘
باہر لوگوں میں بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ باہر سے آوازیں اندر آ رہی تھیں۔ میں اٹھ کھڑا ہوا۔ میں نے اس سے پوچھا ’’یہیں رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے کیا؟‘‘
’’ہاں، جب تک راز، راز رہے گا، میں پیر بنا رہوں گا۔ نہیں تو تم سے آملوں گا۔‘‘
’’میں انتظار کروں گا، سائیں اللہ بخش مست۔‘‘ وہ ہنس پڑا، کہا ’’سندھ میں پاگلوں کو پیر اور دیوانوں کو پہنچا ہوا کہتے ہیں۔‘‘
’’اچھا عارف! چلتا ہوں، خوش ہوں کہ تجھے ڈھونڈ لیا۔‘‘
’’ٹھہر جائو۔‘‘ وہ میرے سامنے کھڑا ہو گیا اور بولا ’’میرا کام خراب کر دیا ہے تم نے، اس لیے اب میری ساکھ برقرار رکھنے کے لیے تم سب کے سامنے میرے پیروں پر ہاتھ رکھ کے ایک طرف چلے جانا۔‘‘
ہم ایک دوسرے کے گلے لگ کر وداع ہوئے، میں نے کہا ’’تم تو موٹے ہو گئے ہو۔‘‘
’’دیسی گھی اور خوب صورت جوانیوں کی مہربانی ہے۔‘‘
عارف ماچھی کوٹھی کا دروازہ کھول کر باہر آ کھڑا ہوا۔ لوگوں کی زبانیں تالوئوں سے لگ گئیں۔ میں باہر آیا۔ عارف کے قدموں میں بیٹھ کر اس کے پیروں پر ہاتھ رکھے تو لوگوں کا اعتقاد مزید پختہ ہو گیا۔ آواز اٹھی ’’واہ وا، اللہ بخش مست! تُو نے عبدالرحمن جیسے ڈاکو کو جھکا لیا۔‘‘
میں اٹھ کھڑا ہوا، گردن جھکائے آگے نکل گیا۔ کسی نے کہا ’’سائیں کی کرامت تو کوئی کوٹھی میں دیکھے۔‘‘
فصیل سے ہوتے ہوئے میں نے اروڑ کے تباہ شدہ قلعے کا رخ کیا۔ سورج ڈوب چکا تھا۔ کھنڈروں اور پہاڑوں پر اندھیرے کی کالی چادر چھا گئی تھی۔