عزیزم متعدد تبدیلیوں کی تو آپ نے قطار لگا دی۔ زیادہ تر متبادل پسند آئے، جون سے رکھے جائیں، یہ تم پر ہی چھوڑنا بہتر ہے۔
قوانین تو بہت زیادہ نہیں غزل کے، بس زبردستی کی آزادی لینے کی کوشش نہ کی جائے تو بہتر ہے کہ کچھ اس قسم کے تجربے محض تجربے کے طور پر ہی قبول کیے جا سکتے ہیں۔ جو اصول ہیں وہ زیادہ تر اشعار کی روانی پر منحصر ہیں۔ تنافر ہو یا حروف کے اسقاط کا معاملہ، روانی پر واضح طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
محترم!
تنافرِ لفظی تو سمجھ میں آگیا مگر اسقاط کو کیسے پہچانیں گے؟ ایک دو مثالوں سے سمجھائیں تو مہربانی ہوگی۔اپنی غزل یعنی وہی کاوش جو کئی دنوں سے اِصلاح کے مرحلوں میں ہے، اُن بہت سے متبادل مصرعوں سے منتخب کر کے finalize کررہا ہوں ،جو آپ ملاحظہ فرماچکے ہیں،اب اِسے ایک نظر اور دیکھ لیں ، اگر اس سعی کو قابلِ قبول ہونے کا حکم فرمائیں گے تومیں اِسے اپنی بیاض میں شامل کردوں گا ۔ اُمید ہے ضرور نظرِ کرم فرمائیں گے،شکریہ۔
دل ہے متاعِ عیب خریدار ہی نہیں
ہے مصر تو ضرور وہ بازار ہی نہیں
یہ آنکھ صرف آنکھ تھی پر اب ہے چشمِ تر
تو جانتا ہے اور اِسے آزار ہی نہیں
الفاظ روحِ معنی سے یکسر ہوئے تہی
یہ دکھ ہے وہ کہ قابلِ اظہار ہی نہیں
’’ حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں‘‘
محفل میں تیری آج مجھے بار ہی نہیں۔۔۔۔۔یا۔۔۔۔محفل میں تیری آہ! مجھے بار ہی نہیں
’’جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن‘‘
اِس کار و بارِ شوق میں اِتوار ہی نہیں
نکلا بھنور سے بچ کے تو ساحل لگا بھنور
سرگشتگی میں عقل کی یلغار ہی نہیں
آدم کا اک مقام ذرا یہ بھی دیکھیے
کرلے جو عزم پھر کوئی دیوار ہی نہیں
اپنے شکیل وہ ہیں جو ہیں مشکلوں میں ساتھ
اور پھر عوض سے ان کو سروکار ہی نہیں