محمد اظہر نذیر
محفلین
اُس کی گلی سے گزرنا پڑا
مرنا نہیں تھا، پہ مرنا پڑا
گُل سب ہوا پھر چرا لے گئی
خوشبو کا تاوان، بھرنا پڑا
ہجراں میں اُس کے پئے ہی گئے
کرنا پڑا، یہ بھی کرنا پڑا
مجنوں بنے پھر رہے تھے کہیں
اُس نے کہا تو سنورنا پڑا
ڈوبے تھے آنکھوں میں اُسکی مگر
گرنے لگے، توابھرنا پڑا
اعلان اپنی ہی رسوائیوں کا
چاہا نہیں ، پھر بھی کرنا پڑا
مرضی خدا نے بھی پوچھی نہیں
اظہر ہمیں بس اُترنا پڑا