اُس کی گلی سے گزرنا پڑا
مرنا نہیں تھا، پہ مرنا پڑا
//تکنیکی طور پر درست، لیکن دوسرا مصرع میں ’پہ‘ کا استعمال اچھا نہیں لگتا
مرنا نہ تھا، پھر بھی مرنا پڑا
بہتر ہے
جی درست جناب
گُل جب سے ناراض ہونے لگے
خوشبو کا تاوان، بھرنا پڑا
//درست
ہجراں میں اُس کے پئے ہی گئے
کرنا پڑا، یہ بھی کرنا پڑا
//’پئے ہی گئے‘کچھ عجیب سا بیانیہ ہے
اس کی جدائی میں پیتے گئے
کرنا پڑا، یہ بھی کرنا پڑا
جی درست جناب
مجنوں بنے پھر رہے تھے کہیں
اُس نے کہا تو سنورنا پڑا
//درست
نگاہوں میں اُسکی گرے اس طرح
سوچا تھا ڈوبیں، ابھرنا پڑا
//شعر کا مفہوم؟ ابھرنا کیوں پڑا؟
نظریں سمندر تھیں ، ڈوبے مگر
دشمن کو دیکھا، ابھرنا پڑا
اعلان رسوائیوں کا مری
چاہا نہیں ، پھر بھی کرنا پڑا
//کس نے مجبور کیا تھا؟
یوں دیکھیے گا جناب
اعلان رسوائیوں کا مری
چاہا جو اُس نے تو کرنا پڑا
مرضی خدا پوچھتا بھی تو کیوں
اظہر ہمیں بس اُترنا پڑا
//کچھ زمین کا حوالہ ہو جاتا تو بات واضح ہو جاتی کہ آدم کی تلمیح ہے۔ لیکن کچھ اصلاح سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔ خود بھی غور کرو اگر کچھ آدم کا حوالہ دیا جا سکے۔
آدم کی مرضی نہیں تھی مگرٴ
اظہر اُنہیں بس اُترنا پڑا
گویا اب صورتحال کچھ یوں ہو گی
اُس کی گلی سے گزرنا پڑا
مرنا نہ تھا، پھر بھی مرنا پڑا
گُل جب سے ناراض ہونے لگے
خوشبو کا تاوان، بھرنا پڑا
اُس کی جداٴی میں پیتے گئے
کرنا پڑا، یہ بھی کرنا پڑا
مجنوں بنے پھر رہے تھے کہیں
اُس نے کہا تو سنورنا پڑا
نظریں سمندر تھیں ، ڈوبے مگر
دشمن کو دیکھا، ابھرنا پڑا
اعلان رسوائیوں کا مری
چاہا جو اُس نے تو کرنا پڑا
آدم کی مرضی نہیں تھی مگرٴ
اظہر اُنہیں بس اُترنا پڑا