استاد اور طالب علم

استاد ایک ایسی شخصیت ہے جو ایک بچے کو دنیا کے بارے میں پرکھنا سکھاتی ہے۔اسے استاد یہ بتا تا ہے کہ وہ کون ہے ، وہ کہاں سے آیا ہے ، اسے کہاں جانا ہے ، اس کا اس دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے ، اس کا اصلی مالک کون ہے ، وہ کس کا غلام ہے ، اسے کس کی عزت کرنی ہے اور کس کی نہیں ، استاد بچہ کی شخصیت نکھارنے میں اسے سنوارنے میں اسے بنانے میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہے ، لیکن آج کے دور میں بچے کی درسگاہ ماں کی گود کم اور محلے کی گلی کے بچوں کے ساتھ زیادہ ہے۔لوگ کہتے ہیں یہ بچے خراب ہیں ، سوال بنتا ہے انہیں خراب کون کرتا ہے۔بچا جب پیدا ہوتا ہے تو وہ ہر کام کے لیئے مجبور ہوتا ہے۔اس کی تربیت اس کی پیدائش کے بعد شروع ہوتی ہے۔
آج کے اس دور میں بچے کی پہلی درسگاہ وہ ماں کی گود ہے جس میں بچہ آرام محسوس کرتا ہے ، وہ ماں نہیں جو بچے کو چھوڑ کر بازاروں میں شاپنگ کو زیادہ ترجیح دیتی ہے ، وہ ماں نہیں جو بچے کو چھوڑ کر آفس میں کام کرنے کو زیادہ اہم سمجھتی ہے ، وہ ماں نہیں جو بچے کو چھوڑ کر اپنے خاوند سے لڑائی کر کے اسے چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔بلکہ وہ ماں جو ہر اذیت برداشت کرتی ہے ، وہ ماں جو بچوں کو برداشت کرنا سکھاتی ہے ، وہ ماں جو بچوں کو صحیح غلط کی پہچان کرواتی ہے۔یہی ماں بچے کی پہلے استاد ہوتی ہے۔
جب بچا اسکول جانے کے قابل ہوجاتا ہے تو اسے اسکول میں داخل کر وا دیا جاتا ہے۔اس کے بعد ساری تہذیب بچہ اسکول اور ماحول سے ہی سیکھتا ہے ، آج کا ماحول بھی ایسا ہے اگر کوئی اچھی بات بھی کر رہے ہیں تو اس میں بھی جملہ کے شروع اور اختتام پر گالی۔
اسکولوں کے استاد بچوں کو یہ کہتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں جب بچہ استاد یا استانی کے سوال کا جواب سخت لہجے میں دے دے۔بچہ بے شک غلط طریقے سے کام کر رہا ہے لیکن استاد کا فرض ہے وہ اسے سمجھائے بلکہ استاد کہتے ہیں تم اپنے ماں باپ کے سامنے بھی اسی طرح بات کرتے ہوگے کیوں کہ استاد والدین کی جگہ ہوتا ہے۔استاد واقعی والدین کی جگہ ہوتا ہے لیکن وہ بچوں کو بھی تو والدین کی طرح ہی سمجھائے۔
استاد کے ساتھ ساتھ شاگرد کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ استاد کی عزت کرے۔اس سے صحیح الفاظ میں بات کرے۔لیکن جب بچہ میٹرک تک جاتا ہے تو وہ آوارہ لڑکوں کو جمع کرکے انہیں اپنے دوست بنا کر استادوں کو بھی ڈرانے لگ جاتا ہے۔استاد کا فرض بنتا ہے کہ جب کبھی کوئی ایسا معاملہ ہو تو وہ اسکول انتظامیہ سے اس معاملے کو حل کروانے کو کہیے نہ کہ یہ کہے کہ دیکھ لوں گا آجانا باہر۔
شاگرد کے ساتھ ساتھ استاد کی بھی برداشت کی حد کمزور ہوتی جاتہی ہے بلکہ یہ کہیں کہ انسان میں ہی برداشت کی طاقت ختم ہوگئی ہے۔یہ واقعہ ایک اسکول کا ہے اس واقعہ کے مطابق ” ایک بچہ استاد کلاس میں داخل ہوتا ہے تو اسے ماموں آگئے کہ کر پکار دیتا ہے ، کیوں کہ تقریباً مکمل اسکول میں وہ اسی نام سے مشھور ہوگئے تھے لیکن وہ اس طالب علم کو کھڑا کر کے بے انتہا مار کر پھر پوری کلاس کی جانب مخاطب ہو کر کہتے ہیں ، وہ استاد جو باتیں کہتے ہیں ان سے کہیں لگتا ہی نہیں کہ وہ استاد ہے ، استاد گالیاں دے کر پھر کہتے ہیں کہ ایسی حرکتیں ناجائز اولاد کرتی ہیں “ اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں ناجائز کا لفظ استعمال کرنا استاد کا کام ہے کیا صرف ماموں کہ کر پکار دینے والے ناجائز ہوتے ہیں ؟۔ یہ مثال تو صرف ایک اسکول کے ایک استاد کی ہے میں نے کئی ایسی مثالیں بھی سنیں ہےجو بیان کرنے کے قابل نہیں۔
اس تحریر کا مقصد یہ نہیں کہ استاد تمام ہی ایسے ہوتے ہیں ، نہیں برگز نہیں بہت استاد ابھی بھی موجود ہیں جو پڑھانے کا گر جانتے ہیں۔اس تحریر کا مقصد ہے کہ ایسے استادوں کو ادارے ہٹائیں جومعلم کے پیشے کو غلط انداز سے استعمال کر رہے ہیں۔اور ان کی جگہ ایسے استاد رکھے جائیں جو بچے کی صحیح انداز میں تربیت کر سکیں۔
طالب علم کو کیا کرنا چاہیئے ؟

  • سب طالب علموں کو استادوں کا احترام کرنا چاہیئے
  • جو استاد صحیح نہ پڑھاتا ہو اس کی شکایت انتظامیہ کو دیں نہ کہ خود جج بنیں
  • استاد جو کہے اسے مکمل خاموشی اور غور سے سنیں
  • استاد کو طاقتوں سے نہ ڈرائیں
  • اپنے سوالات وقفہ سوالات کے دوران کریں
  • کلاسوں میں استاد کی غیر موجود گی میں اسکول کو سر پر نہ اٹھائیں
استاد کو کیا کرنا چاہیئے ؟

  • استاد کو معلم بن کر پڑھانا چاہیئے
  • مار پیٹ سے پرھیز کرنی چاہیئے
  • طالب علموں سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آنا چاہیئے
  • جو اسباق پڑھانا ہو اس کی تیاری پہلے کر کے آئیں
  • طالب علم پر اپنا غصہ نہ نکالیں
  • طالب علم کو صحیح اور غلط کا فرق بتائیں
  • شاگرد کو جھوٹ اور سچ کی تمیز سکھائیں
 

میر انیس

لائبریرین
ماشاللہ بہت اچھا اور مکمل مضمون ہے۔ آج کل مختلف چینلز پر شاگردوں پر بے انتہا تشدد اور زیادتی کی خبریں بہت آرہی ہیں میرے خیال میں اس کی وجہ مناسب تربیت یا ٹریننگ کا نا ہونا ہے میں نے جاپان میں دیکھا ہے کہ وہاں ہر سطح پر ایک مستقل ٹریننگ کا پروگرام رکھا جاتا ہے ہر شعبہ میں ایسے ماہر چننے جاتے ہیں جنکا کام ہی مہینے میں ایک بار ضرور نئے تقاضوں کے مطابق اساتذہ اور مختلف شعبوں سے وابستہ افراد کی ٹریننگ کرائی جاتی ہے پر ہمارے ہاں انڈیا اور پاکستان میں اب تک وہی پرانے طور طریقے اس لئے استعمال کئے جاتے ہیں کیونکہ انکی کوئی تربیت نہیں کرتا اگر انہوں نے کہیں کوئی ٹریننگ کی بھی ہوتی ہے تو اسکو اپڈیٹ نہیں کیا جاتا بلکہ وہ اپنی پوری سروس اسی ایک ٹریننگ اور ذاتی تجربہ پر گذار دیتا ہے۔
تدوین کا بٹن نظر نہ آنے پر نئے سرے سے دوبارہ لکھنا پڑا
 
ماشاللہ بہت اچھا اور مکمل مضمون ہے۔ آج کل مختلف چینلز پر شاگردوں پر بے انتہا تشدد اور زیادتی کی خبریں بہت آرہی ہیں میرے خیال میں اس کی وجہ مناسب تربیت یا ٹریننگ کا نا ہونا ہے میں نے جاپان میں دیکھا ہے کہ وہاں ہر سطح پر ایک مستقل ٹریننگ کا پروگرام رکھا جاتا ہے ہر شعبہ میں ایسے ماہر چننے جاتے ہیں جنکا کام ہی مہینے میں ایک بار ضرور نئے تقاضوں کے مطابق اساتذہ اور مختلف شعبوں سے وابستہ افراد کی ٹریننگ کرائی جاتی ہے پر ہمارے ہاں انڈیا اور پاکستان میں اب تک وہی پرانے طور طریقے اس لئے استعمال کئے جاتے ہیں کیونکہ انکی کوئی تربیت نہیں کرتا اگر انہوں نے کہیں کوئی ٹریننگ کی بھی ہوتی ہے تو اسکو اپڈیٹ نہیں کیا جاتا بلکہ وہ اپنی پوری سروس اسی ایک ٹریننگ اور ذاتی تجربہ پر گذار دیتا ہے۔
تدوین کا بٹن نظر نہ آنے پر نئے سرے سے دوبارہ لکھنا پڑا
شکریہ
 

شمشاد

لائبریرین
انیس بھائی ہمارے ہاں بھی اساتذہ کے لیے ہر سال کورسز کرائے جاتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ اساتذہ اپنی چھٹیوں میں یہ کورسز نہیں کرتے، کہ ان کو اپنی چھٹیاں عزیز ہوتی ہیں۔ غالباً یہ ریفریشر کورس کہلاتے ہیں۔ اور آج کے طلباء، ان کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔ مزید مصیبت موبائیل فون نے پوری کر دی ہے۔
 
Top