خرم شہزاد خرم
لائبریرین
استاد
میں اس قابل تو نہیں ہوں کہ استاد جیسی عزیم ہستی کے بارے میں کچھ لکھ سکوں۔ لیکن جب سے خود استادی کے منصب پر فائز ہوا ہوں تب سے استاد کی قدر دل میں اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ہم نے توکبھی استاد کی عزت ہی نہیں کی جس طرح عزت کرنے کا حق تھا۔سوال یہ ہے کہ استاد کہتے کس کو ہیں۔ ہر وہ انسان میرا استاد ہے جس سے میں نے ایک بات بھی سیکھی۔ یہ بات تو سچ ہے جب ہم کسی سے کچھ سیکھتے ہیں تو ہم مانے یا نا مانے وہ ہمارا استاد ہی ہوتا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ بچوں کو پڑھایا کیسے جائے۔ میں اس قابل تو نہیں ہوں کہ کسی کو پڑھا سکوں اور نا ہی میری اتنی تعلیم ہے نا کوئی ڈگری ہے اور نا ڈپلومہ۔ لیکن پتہ نہیں کیوں جب سے استادی کے منصب پر برجمان ہوا ہوں تب سے دل کرتا ہے میں بچوں کو پڑھاؤں اور اس طرح پڑھاؤں کہ ان کو میری بات سمجھ آ جائے اور وہ مجھ سے سیکھیں، لیکن کیا سیکھیں ، میرے پاس سیکھانے کو تو کچھ ہے ہی نہیں ۔ خیر کہتے ہیں زندگی اور حالات سب سے بڑے استاد ہوتے ہیں۔
میں نے ایک ٹیچر سے پوچھا “استاد کون ہوتا ہے”
جواب ملا “جو علم سیکھائے”
میں نے کہا ” علم تو کتابوں میں بھی بہت ہے پھر استاد کی کیا ضرورت”
تو جواب ملا” کتاب بھی تو کوئی استاد ہی لکھے گا”
میں نے پھر پوچھ لیا “اچھا ٹیچنگ کا کیا مطلب ہے”
جواب ملا “ڈلیوری آف تھاٹ”
میں نا سمجھنے والے انداز میں بولا” میں کچھ سمجھا نہیں”
تو بولے” اپنے خیالات دوسروں تک پہنچانا”
میں نے کہا “پہنچانا یا منتقل کرنا”
تو کہنے لگے” ایک ہی بات ہے”
پھر میں نے کہا ” اگر اگلا بندہ ہمارے خیالات نا سمجھے تو پھر”
“تو پھر ہم سمجھانا جانتے ہیں”
باتیں تو بہت ہوئی لیکن میرے خیال میں یہی باتیں اہم تھی جو میں نے آپ کے سامنے رکھ دیں۔ برکیف ان باتوں سے بھی بہت کچھ سیکھا۔ لیکن میں اب اس فکر میں ہوں کہ بچوں کو کیسے پڑھایا جائے ، کون سی ایسی بات ہو جس کی وجہ سے بچے مجھے اچھا استاد سمجھے۔ابھی میں اس شعبہ میں باقاعدہ نہیں آیا تھا کہ میرے پاس ایک بچہ ٹیوشن کے لیے آ گیا۔جی ہاں آپ کی طرح اور بہت سے لوگوں کو بھی حیرانگی ہوئی تھی۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ بچہ عمر میں بڑا تھا لیکن چھوٹی کلاس میں تھا لیکن اس کے والد چاہتے تھے کہ اس کو بڑی کلاس میں رکھا جائے ۔ پھر اس کو آٹھوی کلاس میں رکھا گیا۔ لیکن وہ اپنا نام نا تو اردو میں لکھ سکتا تھا اور نا ہی انگریزی میں۔ اور تو اور اس کو الف ب کے ساتھ اے بی بھی نہیں آتی تھی۔ میں نے اس کو ٹیوشن کے لیے رکھ لیا۔ کہنے لگا سر فیس کتنی لیں گے میں نے کہا کوئی فیس نہیں لوں گا۔ بس تم محنت کرو۔ بچے میں پڑھنے کا شوق بھی تھا وہ میرے پاس صرف ایک ماہ پڑھنے کے لیے آیا۔ اس کے بعد وہ پیپر کی وجہ سے نہیں آیا اور اب نئی کلاس کا چکر بھی تھا جس سے میں نے اس کو منع کر دیا تھا۔ خیر ایک ماہ میں میں نے اس پر جو محنت کی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنا نام انگریزی اردو دونوں میں لکھ سکتا تھا۔ اپنے بارے میں مختصر سا تعارف ، اپنے ابو، بھائی اور بہنوں کے نام، اپنے سکول اور محلے کا نام ، اپنے دوست کا نام اور اس کے علاوہ دیکھ کر آسان چیزیں پڑھنا شروع ہو گیا تھا۔ مجھے بہت خوشی ہوئی ۔ لیکن وہ بتائے بغیر غائب ہو گیا۔ میرے پاس اس کا کوئی رابطہ نمبر نہیں تھا۔ پھر ایک دن آیا ۔شکل رونے والی بنی ہوئی ، میرے پاس آ کر خاموش ہو گیا۔ میں نے پوچھا اکرم بیٹا کیا چکر ہے کیوں نہیں آ رہے ہو۔ کہنے لگا “سر میرا بڑا بھائی کہتا ہے پڑھ کر کیا کرو گے تم بس سکول سے آ کر میرے ساتھ کام کیا کرو، لیکن سر مجھے پڑھنے کا شوق ہے میں پڑھ کر فوج میں جانا چاہتا ہوں” میں نے کہا پھر اب کیا کرو گے” تو کہنے لگا ” میں نے کیا کرنا ہے جو بڑا بھائی کہے گا وہی کروں گا” میں نے کہا ٹھیک ہے اگر بھائی سے بات کرنے کی ہمت نہیں ہے تو پھر جاؤ درزیوں کا کام کرو۔ وہ چلا گیا۔
اگلے دن پھر بستہ لے کر میرے پاس آ گیا اس دن بہت خوش لگ رہا تھا۔ میں نے پوچھا خیر ہے کہاں آ گے ہو۔ تو خوشی خوشی کہنے لگا” میں نے بھائی کو بتایا ہے کہ مجھے پڑھنے کا شوق ہے، میں فوج میں جانا چاہتا ہوں میں یہ کام نہیں کرنا چاہتا ، تو بھائی نے پڑھنے کی اجازت دے دی۔
اس دن مجھے بہت خوشی ہوئی کہ میں کامیابی سے پڑھا رہا ہوں۔ اگلے دن اس نے مجھے اپنے بارے میں تفصیل سے بتایا ۔ کہنے لگا” سر آج میں آپ کو کچھ بتانا چاہتا ہوں”
میں نے کہا جی ضرور بتاؤ
کہنے لگا” سر میرے گھر والوں نے مجھے مدرسے ڈالا تھا قرآن پاک حفظ کرنے کے لیے ، لیکن مجھے ٹھیک سے یاد نہیں ہوتا تھا، کافی مشکل تھا۔لیکن میں نے پھر بھی بہت کوشش کی، اس وجہ سے میں سکول نہیں جا سکا ۔لیکن جب مجھے سکول میں ڈالا گیا اس وقت مجھے کچھ نہیں آتا تھا۔ آپ کو پتہ ہے مجھے پُورا ایک سال ہو گیا ہے سکولوں میں۔
میں نے کہا ” کیا مطلب سکولوں میں؟
کہنے لگا ” مجھے پہلے ایک سکول میں داخل کروایا، چار ماہ تک پڑھایا ۔ لیکن مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی اور جب پیپر ہوئےمیں فیل ہو گیا اور پھر سکول سے نکال دیا اسی طرح اب تیسرا سکول ہے۔
میں نے کہا ” وہ کیسے پڑھاتے تھے جو تمہیں سمجھ نہیں آتی تھی”
کہنے لگا سر جی مجھے تو کچھ نہیں آتا تھا۔ کلاس میں 30 یا 40 سٹوڈنٹ ہوتے تھے، مس سبق دیتی تھی، دوسرے دن سنتی تھی جس کو یاد نہیں ہوتا تھا وہ کلاس سے باہر کھڑا ہوتا تھا۔ اورمیں جتنا عرصہ سکول رہا باہر ہی کھڑا ہوتا تھا۔ مجھے کسی نے اس طرح پڑھایا ہی نہیں جس طرح آپ پڑھا رہے ہیں
بچے کی یہ بات ختم ہوئی تو میں بہت فکر مند ہوا کہ ہم لوگ بچوں کو کیسے پڑھا رہے ہیں۔ اس سب کے بعد میرے ذہن میں وہی ٹیچر آ گے۔ میں نے جن سے پوچھا تھا ٹیچنگ کیا ہے تو انھوں نے کہا تھا “ڈلیوری آف تھاٹ”
لیکن جتنا عرصہ مجھے ہوا ہے میں نے اندازہ لگایا ہے کہ بچوں کو بچوں کے ذہن کے مطابق پڑھایا جائے تو وہ بہت اچھی طرح سمجھ لیتے ہیں ۔ اب ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم بچے کی قابلیت نہیں دیکھتے اور اس پر بوجھ ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم خود کو استاد کہلوانہ تو چاہتے ہیں لیکن ہم استاد ہوتے نہیں ہیں۔ ہم کہتے ہیں آج کل کے بچے استادوں کی عزت نہیں کرتے۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج کل کے استاد بچوں کی ایسی تربیت ہی نہیں کر سکتے کہ وہ دوسروں کی عزت کریں۔ ہم وہی کاٹے گے جو ہم نے بھونا ہے جس بچے کو ہم خود تربیت دے رہے ہیں اور پھر ہم اسی بچے کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ بڑا بدتمیز بچہ ہے تو اصل میں ہم بچے کی بے عزتی نہیں کر رہے ہوتے، بچے کی خامی نہیں بتا رہے ہوتے، اصل میں ہم اپنی بے عزتی کر رہے ہوتے ہیں اور اپنی خامی بتا رہے ہوتے ہیں۔ اتنے عرصے میں میں یہ سمجھا ہوں کہ اگر آپ استاد ہیں یا خود کو استاد کے مقام پر لانا چاہتے ہیں تو ایسے طالب علم پیدا کریں جو علم حاصل کریں، ایسا علم جو عمل سے ظاہر ہو۔ نا کہ آپ رٹی رٹائی باتیں اس کو رٹا لیں ۔ اگر استاد تنخواہ لیتا ہے تو اس کو حلال کرے ورنہ استادی چھوڑ دے
میں نے ایک ٹیچر سے پوچھا “استاد کون ہوتا ہے”
جواب ملا “جو علم سیکھائے”
میں نے کہا ” علم تو کتابوں میں بھی بہت ہے پھر استاد کی کیا ضرورت”
تو جواب ملا” کتاب بھی تو کوئی استاد ہی لکھے گا”
میں نے پھر پوچھ لیا “اچھا ٹیچنگ کا کیا مطلب ہے”
جواب ملا “ڈلیوری آف تھاٹ”
میں نا سمجھنے والے انداز میں بولا” میں کچھ سمجھا نہیں”
تو بولے” اپنے خیالات دوسروں تک پہنچانا”
میں نے کہا “پہنچانا یا منتقل کرنا”
تو کہنے لگے” ایک ہی بات ہے”
پھر میں نے کہا ” اگر اگلا بندہ ہمارے خیالات نا سمجھے تو پھر”
“تو پھر ہم سمجھانا جانتے ہیں”
باتیں تو بہت ہوئی لیکن میرے خیال میں یہی باتیں اہم تھی جو میں نے آپ کے سامنے رکھ دیں۔ برکیف ان باتوں سے بھی بہت کچھ سیکھا۔ لیکن میں اب اس فکر میں ہوں کہ بچوں کو کیسے پڑھایا جائے ، کون سی ایسی بات ہو جس کی وجہ سے بچے مجھے اچھا استاد سمجھے۔ابھی میں اس شعبہ میں باقاعدہ نہیں آیا تھا کہ میرے پاس ایک بچہ ٹیوشن کے لیے آ گیا۔جی ہاں آپ کی طرح اور بہت سے لوگوں کو بھی حیرانگی ہوئی تھی۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ بچہ عمر میں بڑا تھا لیکن چھوٹی کلاس میں تھا لیکن اس کے والد چاہتے تھے کہ اس کو بڑی کلاس میں رکھا جائے ۔ پھر اس کو آٹھوی کلاس میں رکھا گیا۔ لیکن وہ اپنا نام نا تو اردو میں لکھ سکتا تھا اور نا ہی انگریزی میں۔ اور تو اور اس کو الف ب کے ساتھ اے بی بھی نہیں آتی تھی۔ میں نے اس کو ٹیوشن کے لیے رکھ لیا۔ کہنے لگا سر فیس کتنی لیں گے میں نے کہا کوئی فیس نہیں لوں گا۔ بس تم محنت کرو۔ بچے میں پڑھنے کا شوق بھی تھا وہ میرے پاس صرف ایک ماہ پڑھنے کے لیے آیا۔ اس کے بعد وہ پیپر کی وجہ سے نہیں آیا اور اب نئی کلاس کا چکر بھی تھا جس سے میں نے اس کو منع کر دیا تھا۔ خیر ایک ماہ میں میں نے اس پر جو محنت کی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنا نام انگریزی اردو دونوں میں لکھ سکتا تھا۔ اپنے بارے میں مختصر سا تعارف ، اپنے ابو، بھائی اور بہنوں کے نام، اپنے سکول اور محلے کا نام ، اپنے دوست کا نام اور اس کے علاوہ دیکھ کر آسان چیزیں پڑھنا شروع ہو گیا تھا۔ مجھے بہت خوشی ہوئی ۔ لیکن وہ بتائے بغیر غائب ہو گیا۔ میرے پاس اس کا کوئی رابطہ نمبر نہیں تھا۔ پھر ایک دن آیا ۔شکل رونے والی بنی ہوئی ، میرے پاس آ کر خاموش ہو گیا۔ میں نے پوچھا اکرم بیٹا کیا چکر ہے کیوں نہیں آ رہے ہو۔ کہنے لگا “سر میرا بڑا بھائی کہتا ہے پڑھ کر کیا کرو گے تم بس سکول سے آ کر میرے ساتھ کام کیا کرو، لیکن سر مجھے پڑھنے کا شوق ہے میں پڑھ کر فوج میں جانا چاہتا ہوں” میں نے کہا پھر اب کیا کرو گے” تو کہنے لگا ” میں نے کیا کرنا ہے جو بڑا بھائی کہے گا وہی کروں گا” میں نے کہا ٹھیک ہے اگر بھائی سے بات کرنے کی ہمت نہیں ہے تو پھر جاؤ درزیوں کا کام کرو۔ وہ چلا گیا۔
اس دن مجھے بہت خوشی ہوئی کہ میں کامیابی سے پڑھا رہا ہوں۔ اگلے دن اس نے مجھے اپنے بارے میں تفصیل سے بتایا ۔ کہنے لگا” سر آج میں آپ کو کچھ بتانا چاہتا ہوں”
میں نے کہا جی ضرور بتاؤ
کہنے لگا” سر میرے گھر والوں نے مجھے مدرسے ڈالا تھا قرآن پاک حفظ کرنے کے لیے ، لیکن مجھے ٹھیک سے یاد نہیں ہوتا تھا، کافی مشکل تھا۔لیکن میں نے پھر بھی بہت کوشش کی، اس وجہ سے میں سکول نہیں جا سکا ۔لیکن جب مجھے سکول میں ڈالا گیا اس وقت مجھے کچھ نہیں آتا تھا۔ آپ کو پتہ ہے مجھے پُورا ایک سال ہو گیا ہے سکولوں میں۔
میں نے کہا ” کیا مطلب سکولوں میں؟
کہنے لگا ” مجھے پہلے ایک سکول میں داخل کروایا، چار ماہ تک پڑھایا ۔ لیکن مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی اور جب پیپر ہوئےمیں فیل ہو گیا اور پھر سکول سے نکال دیا اسی طرح اب تیسرا سکول ہے۔
میں نے کہا ” وہ کیسے پڑھاتے تھے جو تمہیں سمجھ نہیں آتی تھی”
کہنے لگا سر جی مجھے تو کچھ نہیں آتا تھا۔ کلاس میں 30 یا 40 سٹوڈنٹ ہوتے تھے، مس سبق دیتی تھی، دوسرے دن سنتی تھی جس کو یاد نہیں ہوتا تھا وہ کلاس سے باہر کھڑا ہوتا تھا۔ اورمیں جتنا عرصہ سکول رہا باہر ہی کھڑا ہوتا تھا۔ مجھے کسی نے اس طرح پڑھایا ہی نہیں جس طرح آپ پڑھا رہے ہیں
بچے کی یہ بات ختم ہوئی تو میں بہت فکر مند ہوا کہ ہم لوگ بچوں کو کیسے پڑھا رہے ہیں۔ اس سب کے بعد میرے ذہن میں وہی ٹیچر آ گے۔ میں نے جن سے پوچھا تھا ٹیچنگ کیا ہے تو انھوں نے کہا تھا “ڈلیوری آف تھاٹ”
لیکن جتنا عرصہ مجھے ہوا ہے میں نے اندازہ لگایا ہے کہ بچوں کو بچوں کے ذہن کے مطابق پڑھایا جائے تو وہ بہت اچھی طرح سمجھ لیتے ہیں ۔ اب ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم بچے کی قابلیت نہیں دیکھتے اور اس پر بوجھ ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم خود کو استاد کہلوانہ تو چاہتے ہیں لیکن ہم استاد ہوتے نہیں ہیں۔ ہم کہتے ہیں آج کل کے بچے استادوں کی عزت نہیں کرتے۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج کل کے استاد بچوں کی ایسی تربیت ہی نہیں کر سکتے کہ وہ دوسروں کی عزت کریں۔ ہم وہی کاٹے گے جو ہم نے بھونا ہے جس بچے کو ہم خود تربیت دے رہے ہیں اور پھر ہم اسی بچے کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ بڑا بدتمیز بچہ ہے تو اصل میں ہم بچے کی بے عزتی نہیں کر رہے ہوتے، بچے کی خامی نہیں بتا رہے ہوتے، اصل میں ہم اپنی بے عزتی کر رہے ہوتے ہیں اور اپنی خامی بتا رہے ہوتے ہیں۔ اتنے عرصے میں میں یہ سمجھا ہوں کہ اگر آپ استاد ہیں یا خود کو استاد کے مقام پر لانا چاہتے ہیں تو ایسے طالب علم پیدا کریں جو علم حاصل کریں، ایسا علم جو عمل سے ظاہر ہو۔ نا کہ آپ رٹی رٹائی باتیں اس کو رٹا لیں ۔ اگر استاد تنخواہ لیتا ہے تو اس کو حلال کرے ورنہ استادی چھوڑ دے