محمد بلال اعظم
لائبریرین
استعارے کا بھید
معید رشیدی
استعارہ کیا ہے اورادبی اظہار کے لیے کیوں ضروری ہے؟اس سوال سے قبل یہ پوچھنا چاہیے کہ زبان کیا ہے، اور یہ ہماری اساسی ضرورت کیوں ہے؟اس کا معاشرتی تفاعل کیا ہے؟کیا زبان محض اصوات کا نام ہے؟اگر نہیں تو کیوں؟لفظ اور معنی میں کیا رشتہ ہے؟لسانی نظام کی تشکیل ،ترتیب اور ارتقا سے پہلے ترسیل کے مختلف عوامل کیا تھے؟جذبات کیا ہیں؟احساسات کیا ہیں؟ادراکِ معنی کے پیمانے کیا ہیں؟ادراک، تصوراورتخیل میں فرق کیاہے؟معنی کے منابع تک رسائی ممکن ہے یا نہیں؟معنی آفرینی اور معنی خیزی۔۔۔ چہ معنی دارد؟
مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
بات تو محض ایک استعارے کی تھی۔ اتنے سوالات کیوں کر پیدا ہوگئے؟اس کا مطلب استعارہ کوئی معمولی شے نہیں۔ اچھا،زندگی کیا ہے؟زندگی کے بارے میں شاعروں کے بہت سے اشعار اور فلسفیوں کے اقوال ہیں۔ بڑے بڑے مفکرین اس کا سراغ لگانے میں رہ گئے۔ نہ جا نے کتنے ذہین ترین دماغ توازن کھو بیٹھے۔ کوئی چھور نہیں ملا۔ جواب تو ایک جملے میں ہے :
زندگی کیا ہے؟
زندگی ایک استعارہ ہے۔
روشنی کیا ہے؟تاریکی کیا ہے؟سچ کیا ہے؟جھوٹ کیا ہے؟آگ،ہوا،پانی،مٹی۔۔۔یہ سب استعارے ہیں۔ ’’ابتدا میں لفظ تھا،اور لفظ ہی خدا ہے۔ ‘‘یعنی’ لفظ‘ بھی استعارہ ہے۔ [۔۔۔’’شاید لفظ ناستک نہیں ہوتے۔۔۔ہاں شاید۔۔۔لیکن بھیڑیے،اس کی پوترتا کو نوچ کر کیسے خوش ہوتے ہیں۔۔۔۔ ‘‘ (1)]تو کیا استعارے سے نجات ممکن نہیں۔ کچھ لوگوں کا تو دعویٰ ہے کہ استعارے کی موت ہو چکی ہے۔ بیانیہ کی واپسی ہو گئی ہے۔ تجریدی شاعری اور کہانیوں کا زمانہ اب ختم ہوا۔ وہ ساٹھ اور اس کے بعدکی دہائی تھی۔ یہ اَسی (80ء)کے بعد کا ادب ہے۔ اول تو یہ میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ تجرید سے اتنی چڑ کیوں ؟علامت سے خوف کیسا ؟استعارے کا نام سنتے ہی جی بیٹھنے کیوں لگتا ہے؟استعارہ کوئی بھوت یا سایۂ مکروہ تو نہیں؟میں تو اس بات پر حیران ہوں کہ بیانیہ گُم کب ہوا تھا،اور استعارے کی موت ہوچکی ہے، تو ہم زندہ کیوں ہیں۔۔۔؟میں اس دن سے خوف زدہ ہوں،جب انسان سے اس کی سوچنے کی صلاحیت بھی چھین لی جائے گی۔ کسی جماعت کا فکری نظام وائرس زدہ ہوجائے گا۔ کسی فرد کی قوتِ فکر ہائی جیک کرلی جائے گی۔ اگر ایسا ہوا تو استعارہ ہمیشہ کے لیے موت کی آغوش میں خاموش ہوجائے گا۔ استعارے کی موت اس دنیا کا بدترین سانحہ ہوگا۔
نطشے [Friedrich Nietzsche]نے خدا کی موت کا اعلان کیا تھا۔ موت نہ کبھی پوچھ کر آتی ہے اورنہ اس کی آمدکااشتہار دیاجاتاہے۔ مجھے لگتا ہے کہ خدا کی موت ،استعارے کی موت ہے۔ نطشے کی نفی نے استعارے کو حیات بخشی۔ اس نے استعارے کی روح کو پالیا تھا،کہ اس کی حیات اور استعارے میں فرق ہی نہ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاگل ہو گیااور زندگی کے آخری گیارہ سال[1889-1900]اس نے عالم جنون میں گزارے۔ وہ استعارے کی تاب نہ لا سکا۔ اس کی موت ہو گئی:
اِس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری
تنہا پسِ زنداں،کبھی رسوا سرِ بازار
استعارہ تو رسوائی کا سامان ہے۔ پھر بازارِ سخن میں اس کی قیمت گراں کیوں ہے؟کیا ہم استعارے کے بغیر نہیں جی سکتے؟صنعتی انقلاب تو کب کا آچکا۔ یہ اکیسویں صدی ہے۔ کہتے ہیں ،یہ سائنس اور ٹکنا لوجی کا دور ہے۔ معروضیت کازمانہ ہے۔ سوچنے کا نہیں،کرگزرنے کا عہد ہے۔۔۔’’دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا‘‘۔۔۔۔ اس دوڑ بھاگ میں کوئی پیچھے مڑ کر کیوں دیکھے؟چاندپرکمندیں ڈالی جاچکی ہیں۔ اس نسل کو اس پر آشیانہ بناناہے۔ سائنس کی رسائی نے اس کے رومانی چہرے سے نقاب ہٹادیا ہے۔ توکیا چاند اب روٹی کا استعارہ نہیں بن سکتا؟اسے محبوب کی صورت سے تعبیر نہیں کرسکتے؟ بچپن میں ہم نے سنا تھا کہ وہاں کوئی بڑھیا رہتی ہے۔ کیا اس کا سراغ نہیں مل سکتا؟کیا چندا ماماکارومان گُم ہوگیا؟عید کا چاند اب اونچے ٹیلوں سے نہیں،جہاز اور دور بین کی مدد سے دیکھ لیا جاتا ہے۔ کیا اب بادلوں میں گھوڑے کی رتھ نظر نہیں آتی؟کیا وہاں شیراورہاتھی چھپ کر نہیں رہتے؟ہاں یہ سچ ہے، ستارے اب مقدر کا فیصلہ نہیں کرتے!۔ ہم فطرت سے جتنے قریب ہوتے جارہے ہیں،اس کا حسن ماند پڑتا جارہا ہے۔ نئی صدی کے ساتھ ہم ایک نئے عہد میں داخل ہو چکے ہیں ۔ اب نئی قدروں کا سامنا ہے۔ اس عہد میں خارجی حقیقت،قبولیت کا نیا باب رقم کررہی ہے۔ پھر بھی حقیقت اور مجاز میں سیکڑوں پردے حائل ہیں۔ کیوں۔۔۔؟آج کے مادی ماحول میں تخیل کی پرورش اور تہذیب نہایت مشکل ہے۔ تاجرانہ ذہن نے ادب کو بھی خرید و فروخت کا ذریعہ بنالیا ہے۔ یہ دنیا ایٹم بم میں، آدمی کے اندر چھپے ہوئے حیوان کی سفاکی دیکھ چکی ہے۔ چہروں کے سیلاب میں ایک چہرے پر کئی چہرے پڑے ہیں۔ تجارتی یلغار نے ذہنِ انسانی کو مشین بننے پر مجبور کردیا ہے۔ مشین استعارہ خلق نہیں کرسکتی۔ مشین کمانڈ دینے پر مصرعے اُگل سکتی ہے،شعر نہیں کہہ سکتی۔ آدمی جذبے کا اسیر ہے۔ اسے جب ٹھیس لگتی ہے تو وہ اپنے اندر اترتا ہے۔ اس کے اندر کی دنیا آباد ہوتی ہے۔ اس کی سوچ اسے گہرائی میں لے جاتی ہے۔ وہ خود کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہے۔ اس عمل میں اسے تجرید کی فصیلیں/ سرحدیں پار کرنی ہیں۔ یہ استعاروں کی دنیا ہے۔ انتظار حسین نے شاید اسی موقعے کے لیے کہا تھا۔۔۔’’ہمارے اندر ایک تاریک براعظم سانس لے رہا ہے۔ ‘‘ ( ۲ )
ہر خیال Abstractہوتا ہے۔ ادراک یقین میں بدلتا ہے۔ یقین اور خیال میں تصادم نہیں ہوتا۔ آدمی کو تخیلات سے مفر نہیں۔ زبان تخیل کے احضار اور اظہارکا آلۂ کار ہے۔ خیال نہ صرف عطیۂ فطرت،بلکہ عجیب ترین شے ہے، جو خارجی اورداخلی دنیا میں رابطہ پیدا کرتاہے۔ ہر خیال کسی نہ کسی فاعل کا محتاج ہے۔ منطقی بیان اور خیال میں بعدالمشرقین ہے۔ منطق کو استعارے سے کوئی علاقہ نہیں۔ استعارہ تراشنا خیال کا مقدر ہے :
مگر گرفت میں آتا نہیں بدن اس کا
خیال ڈھونڈتا رہتا ہے استعارہ کوئی
[عرفان صدیقی ]
استعارے کی مہیمارومانی کیف سے معمور ہے۔ یہ وہ شے ہے جوزندگی کونئے معنی عطاکرتی ہے۔ خیال نامیاتی حقیقت ہے۔ اس کے مختلف تلازمے ہیں۔ احساس خیال کا روپ دھارتاہے۔ ہرخیال بذاتِ خود غیر مادی ہے۔ اس لیے کہ اسے ہم نہ دیکھ سکتے ہیں،نہ سن سکتے ہیں،نہ چکھ سکتے ہیں،نہ سونگھ سکتے ہیں اور نہ ہی چھو سکتے ہیں۔ خیال آزاد ہوتا ہے۔ شاعری لفظوں سے نہیں،بلکہ تخیل،احساس اور جذبے سے بنتی ہے۔ افلاطون ان تینوں چیزوں پرعقل اور منطق کو ترجیح دیتا ہے۔ اس نے اپنی مثالی’جمہوریہ‘ سے اسی لیے شاعروں کونکال باہر کیا تھاکہ وہ جذبے کے اسیر ہیں اور اسی کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ اس نے شاعرپرفلسفی کو اسی لیے ترجیح دی کہ وہ شاعری کو فلسفے سے کم تر سمجھتا ہے۔ اسی بنیادپراس نے کلیہ تراشاکہ شاعری اورفلسفے میں ازلی مخاصمت ہے۔ فلسفے کی بنیاد عقل پر ہے،جوانسانی ذہن کی اعلیٰ ترین صفت ہے،جبکہ شاعری جذبات کی تصویر ہے۔ افلاطون کے بقول،جذبہ انسان کو صالح بنانے کے بجائے اس کے ذہن کو بھڑکاتاہے۔ اس لیے یہ عقل کے لیے مضرہے۔ شاعری جذبات کی پرورش کرتی ہے،حالاں کہ اس کا کام ان پر قابوپانا اور،روک لگاناتھا۔ یعنی جذبے کو حکمراں ہونے کے بجائے محکوم ہونا چاہیے۔ شاعری احساس کو تقویت بخشتی ہے اور ادراک کو معطل کرتی ہے۔ ذی عقل، غوروفکر کرتا ہے، جذبات میں بہہ نہیں جاتا۔ الہامی کیفیت یا وجدان پر شاعر کا قبضہ نہیں ہوتا۔ اس لیے اس کی رہبری قبول کرنا حماقت ہے۔ ’’شاعر کبھی پیغمبر بن جاتا ہے،کبھی پاگل، اوراس کی شخصیت ان کے درمیان معلق رہتی ہے۔ ‘‘(۳)افلاطون یہ بھی کہتا ہے کہ شاعر نقال ہے ۔ وہ نقل کی نقل اتارتا ہے۔ گویااستعارہ بھی ایک نوع کی نقل ہوا،کیوں کہ یہ شاعری کا ناگزیر حصہ ہے۔ افلاطون Ideas کو سچائی سے تعبیر کرتا ہے۔ یعنی ہر Idea[عین/جوہر]وہ بنیادی/حقیقی اورلافانی ساخت ہے،جس کی تمام چیزیں نقل ہیں،اورنقل کبھی اصل کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اس کے مطابق دنیا میں جتنی چیزیں موجود ہیں،وہ مادی ہیں اورمادے کی حیثیت ثانوی ہے۔ Ideasزمان و مکان سے ماورا،اورغیرفانی ہیں۔ یہ سچے علم ہیں جن کی بنیاد صداقت پر ہے ،اورصداقت اس روح سے ہم رشتہ ہے،جولافانی ہے۔ ریاست مادی اور فانی خیالات سے نہیں چلائی جا سکتی۔ افلاطون کے مطابق دنیا میں ایک ہی قبیل کی کئی اشیاپائی جاتی ہیں۔ ان سب میں تھوڑابہت فرق ہے۔ اِس سے اُس نے نتیجہ اخذ کیا کہ ہرقبیل کی کوئی ایک شے توایسی ہونی چاہیے، جوبہترین اورکامل ہو،یعنی اس سے برتراس قسم کی کوئی چیز نہ ہوسکتی ہو۔ اس کے مطابق یہ آئیڈیل یا مثالی چیز/نوع عالمِ اعیان/مثال میں موجود ہے۔ یعنی’’عالمِ مثال میں ایک مثالی انسان، ایک مثالی گھوڑا، ایک مثالی کرسی[علیٰ ہذالقیاس]موجود ہے۔ دنیا میں موجود کوئی انسان، گھوڑا یا کرسی، اپنی ’مثال ‘ سے بہتر نہیں۔ تمام اشیا اپنی اپنی مثال کی ادھوری نقول ہیں۔ ‘‘(4)مثالی صورتیں خدا کی تخلیق کردہ ہیں۔ اس طریقۂ استدلال کی منطق بظاہر تو بہت توانا ہے،لیکن بباطن اسے منطقی حقیقت سے دور کا بھی علاقہ نہیں۔ افلاطون نے اپنی آسانی کے لیے یہ مفروضہ قائم کرلیا کہ دنیا میں جتنی اشیا ہیں ان کی ایک مثالی صورت خدا کی تشکیل کردہ ہے،اوریقیناًمثالی صورت ایک ہی ممکن ہے۔ وہ پلنگ/چارپائی کی مثال دیتا ہے۔ کلیم الدین احمد کے بقول آپ پلنگ کی جگہ گائے کا تصور کر لیجیے۔ اس لیے کہ مصور محض چارپائی کی تصویر نہیں بناتا۔ کلیم الدین احمد نے گائے اور پھول کی مثال کے ذریعے نہ صرف افلاطون کے نظریے کی تردید کی، بلکہ اس پہلو سے بھی آگاہ کیا کہ نظریۂ اعیان کے مفروضے کے تحت فلسفیوں کے خیالات بدلتے رہے ہیں۔ چوں کہ گائیں کئی طرح کی ہوتی ہیں۔ سفید، سیاہ، بھوری، چتکبری، موٹی، دبلی، سینگ دار،بے سینگ وغیرہ۔ بھینس اور بیل بھی اسی قبیل میں ہیں۔ اگر خدامحض ایک مثالی گائے بنانے پرقادر ہے تواتنی گائیں کہاں سے واردہوئیں۔ یعنی یہ گائیں بھی خداکی بنائی ہوئی ہیں۔ اس کا مطلب’’بڑھئی کی طرح خدا بھی نقال ہے،جس نے اپنی مثالی شکل کی اتنی مختلف شکلیں بنائیں،اور خدا نے یہ گائیں نہیں بنائیں تو پھرکس نے؟مصورنے تونہیں بنائی ہیں۔ کیا خداکے علاوہ کوئی اور بھی خلاق ہے؟کیا خدا کا کوئی نائب ہے جو اس کی مثالی شکلیں بناتا ہے[؟]پھول کو لے لیجیے۔۔۔اگر دنیا کے پھولوں کی فہرست مرتب کی جائے تو ایک موٹی کتاب تیار ہوجائے گی۔ بقول افلاطون خدا نے ایک اور صرف ایک مثالی پھول بنایا ہوگا۔ پھریہ ہزاروں قسم کے پھول کہاں سے آگئے[؟]یہ نقالی کس نے کی[؟]‘‘(۵)افلاطون فلسفی ہے۔ اسی لیے وہ شاعری پر فلسفے کی بزرگی تسلیم کرتا ہے۔ وہ تعقل پرست ہے۔ وہ شاعری اور حقیقت میں کسی تعلق کو قبول نہیں کرتا۔ اس کے خیال میں شاعری حقیقت کی نقالی نہیں،بلکہ نقل در نقل ہے۔ یہاں دو مستقل موضوعات سامنے آتے ہیں :
183 شاعری۔۔۔وجدان یا حقیقت
183 شعری نقل کی نوعیت
لنک
معید رشیدی
استعارہ کیا ہے اورادبی اظہار کے لیے کیوں ضروری ہے؟اس سوال سے قبل یہ پوچھنا چاہیے کہ زبان کیا ہے، اور یہ ہماری اساسی ضرورت کیوں ہے؟اس کا معاشرتی تفاعل کیا ہے؟کیا زبان محض اصوات کا نام ہے؟اگر نہیں تو کیوں؟لفظ اور معنی میں کیا رشتہ ہے؟لسانی نظام کی تشکیل ،ترتیب اور ارتقا سے پہلے ترسیل کے مختلف عوامل کیا تھے؟جذبات کیا ہیں؟احساسات کیا ہیں؟ادراکِ معنی کے پیمانے کیا ہیں؟ادراک، تصوراورتخیل میں فرق کیاہے؟معنی کے منابع تک رسائی ممکن ہے یا نہیں؟معنی آفرینی اور معنی خیزی۔۔۔ چہ معنی دارد؟
مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
بات تو محض ایک استعارے کی تھی۔ اتنے سوالات کیوں کر پیدا ہوگئے؟اس کا مطلب استعارہ کوئی معمولی شے نہیں۔ اچھا،زندگی کیا ہے؟زندگی کے بارے میں شاعروں کے بہت سے اشعار اور فلسفیوں کے اقوال ہیں۔ بڑے بڑے مفکرین اس کا سراغ لگانے میں رہ گئے۔ نہ جا نے کتنے ذہین ترین دماغ توازن کھو بیٹھے۔ کوئی چھور نہیں ملا۔ جواب تو ایک جملے میں ہے :
زندگی کیا ہے؟
زندگی ایک استعارہ ہے۔
روشنی کیا ہے؟تاریکی کیا ہے؟سچ کیا ہے؟جھوٹ کیا ہے؟آگ،ہوا،پانی،مٹی۔۔۔یہ سب استعارے ہیں۔ ’’ابتدا میں لفظ تھا،اور لفظ ہی خدا ہے۔ ‘‘یعنی’ لفظ‘ بھی استعارہ ہے۔ [۔۔۔’’شاید لفظ ناستک نہیں ہوتے۔۔۔ہاں شاید۔۔۔لیکن بھیڑیے،اس کی پوترتا کو نوچ کر کیسے خوش ہوتے ہیں۔۔۔۔ ‘‘ (1)]تو کیا استعارے سے نجات ممکن نہیں۔ کچھ لوگوں کا تو دعویٰ ہے کہ استعارے کی موت ہو چکی ہے۔ بیانیہ کی واپسی ہو گئی ہے۔ تجریدی شاعری اور کہانیوں کا زمانہ اب ختم ہوا۔ وہ ساٹھ اور اس کے بعدکی دہائی تھی۔ یہ اَسی (80ء)کے بعد کا ادب ہے۔ اول تو یہ میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ تجرید سے اتنی چڑ کیوں ؟علامت سے خوف کیسا ؟استعارے کا نام سنتے ہی جی بیٹھنے کیوں لگتا ہے؟استعارہ کوئی بھوت یا سایۂ مکروہ تو نہیں؟میں تو اس بات پر حیران ہوں کہ بیانیہ گُم کب ہوا تھا،اور استعارے کی موت ہوچکی ہے، تو ہم زندہ کیوں ہیں۔۔۔؟میں اس دن سے خوف زدہ ہوں،جب انسان سے اس کی سوچنے کی صلاحیت بھی چھین لی جائے گی۔ کسی جماعت کا فکری نظام وائرس زدہ ہوجائے گا۔ کسی فرد کی قوتِ فکر ہائی جیک کرلی جائے گی۔ اگر ایسا ہوا تو استعارہ ہمیشہ کے لیے موت کی آغوش میں خاموش ہوجائے گا۔ استعارے کی موت اس دنیا کا بدترین سانحہ ہوگا۔
نطشے [Friedrich Nietzsche]نے خدا کی موت کا اعلان کیا تھا۔ موت نہ کبھی پوچھ کر آتی ہے اورنہ اس کی آمدکااشتہار دیاجاتاہے۔ مجھے لگتا ہے کہ خدا کی موت ،استعارے کی موت ہے۔ نطشے کی نفی نے استعارے کو حیات بخشی۔ اس نے استعارے کی روح کو پالیا تھا،کہ اس کی حیات اور استعارے میں فرق ہی نہ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاگل ہو گیااور زندگی کے آخری گیارہ سال[1889-1900]اس نے عالم جنون میں گزارے۔ وہ استعارے کی تاب نہ لا سکا۔ اس کی موت ہو گئی:
اِس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری
تنہا پسِ زنداں،کبھی رسوا سرِ بازار
استعارہ تو رسوائی کا سامان ہے۔ پھر بازارِ سخن میں اس کی قیمت گراں کیوں ہے؟کیا ہم استعارے کے بغیر نہیں جی سکتے؟صنعتی انقلاب تو کب کا آچکا۔ یہ اکیسویں صدی ہے۔ کہتے ہیں ،یہ سائنس اور ٹکنا لوجی کا دور ہے۔ معروضیت کازمانہ ہے۔ سوچنے کا نہیں،کرگزرنے کا عہد ہے۔۔۔’’دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا‘‘۔۔۔۔ اس دوڑ بھاگ میں کوئی پیچھے مڑ کر کیوں دیکھے؟چاندپرکمندیں ڈالی جاچکی ہیں۔ اس نسل کو اس پر آشیانہ بناناہے۔ سائنس کی رسائی نے اس کے رومانی چہرے سے نقاب ہٹادیا ہے۔ توکیا چاند اب روٹی کا استعارہ نہیں بن سکتا؟اسے محبوب کی صورت سے تعبیر نہیں کرسکتے؟ بچپن میں ہم نے سنا تھا کہ وہاں کوئی بڑھیا رہتی ہے۔ کیا اس کا سراغ نہیں مل سکتا؟کیا چندا ماماکارومان گُم ہوگیا؟عید کا چاند اب اونچے ٹیلوں سے نہیں،جہاز اور دور بین کی مدد سے دیکھ لیا جاتا ہے۔ کیا اب بادلوں میں گھوڑے کی رتھ نظر نہیں آتی؟کیا وہاں شیراورہاتھی چھپ کر نہیں رہتے؟ہاں یہ سچ ہے، ستارے اب مقدر کا فیصلہ نہیں کرتے!۔ ہم فطرت سے جتنے قریب ہوتے جارہے ہیں،اس کا حسن ماند پڑتا جارہا ہے۔ نئی صدی کے ساتھ ہم ایک نئے عہد میں داخل ہو چکے ہیں ۔ اب نئی قدروں کا سامنا ہے۔ اس عہد میں خارجی حقیقت،قبولیت کا نیا باب رقم کررہی ہے۔ پھر بھی حقیقت اور مجاز میں سیکڑوں پردے حائل ہیں۔ کیوں۔۔۔؟آج کے مادی ماحول میں تخیل کی پرورش اور تہذیب نہایت مشکل ہے۔ تاجرانہ ذہن نے ادب کو بھی خرید و فروخت کا ذریعہ بنالیا ہے۔ یہ دنیا ایٹم بم میں، آدمی کے اندر چھپے ہوئے حیوان کی سفاکی دیکھ چکی ہے۔ چہروں کے سیلاب میں ایک چہرے پر کئی چہرے پڑے ہیں۔ تجارتی یلغار نے ذہنِ انسانی کو مشین بننے پر مجبور کردیا ہے۔ مشین استعارہ خلق نہیں کرسکتی۔ مشین کمانڈ دینے پر مصرعے اُگل سکتی ہے،شعر نہیں کہہ سکتی۔ آدمی جذبے کا اسیر ہے۔ اسے جب ٹھیس لگتی ہے تو وہ اپنے اندر اترتا ہے۔ اس کے اندر کی دنیا آباد ہوتی ہے۔ اس کی سوچ اسے گہرائی میں لے جاتی ہے۔ وہ خود کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہے۔ اس عمل میں اسے تجرید کی فصیلیں/ سرحدیں پار کرنی ہیں۔ یہ استعاروں کی دنیا ہے۔ انتظار حسین نے شاید اسی موقعے کے لیے کہا تھا۔۔۔’’ہمارے اندر ایک تاریک براعظم سانس لے رہا ہے۔ ‘‘ ( ۲ )
ہر خیال Abstractہوتا ہے۔ ادراک یقین میں بدلتا ہے۔ یقین اور خیال میں تصادم نہیں ہوتا۔ آدمی کو تخیلات سے مفر نہیں۔ زبان تخیل کے احضار اور اظہارکا آلۂ کار ہے۔ خیال نہ صرف عطیۂ فطرت،بلکہ عجیب ترین شے ہے، جو خارجی اورداخلی دنیا میں رابطہ پیدا کرتاہے۔ ہر خیال کسی نہ کسی فاعل کا محتاج ہے۔ منطقی بیان اور خیال میں بعدالمشرقین ہے۔ منطق کو استعارے سے کوئی علاقہ نہیں۔ استعارہ تراشنا خیال کا مقدر ہے :
مگر گرفت میں آتا نہیں بدن اس کا
خیال ڈھونڈتا رہتا ہے استعارہ کوئی
[عرفان صدیقی ]
استعارے کی مہیمارومانی کیف سے معمور ہے۔ یہ وہ شے ہے جوزندگی کونئے معنی عطاکرتی ہے۔ خیال نامیاتی حقیقت ہے۔ اس کے مختلف تلازمے ہیں۔ احساس خیال کا روپ دھارتاہے۔ ہرخیال بذاتِ خود غیر مادی ہے۔ اس لیے کہ اسے ہم نہ دیکھ سکتے ہیں،نہ سن سکتے ہیں،نہ چکھ سکتے ہیں،نہ سونگھ سکتے ہیں اور نہ ہی چھو سکتے ہیں۔ خیال آزاد ہوتا ہے۔ شاعری لفظوں سے نہیں،بلکہ تخیل،احساس اور جذبے سے بنتی ہے۔ افلاطون ان تینوں چیزوں پرعقل اور منطق کو ترجیح دیتا ہے۔ اس نے اپنی مثالی’جمہوریہ‘ سے اسی لیے شاعروں کونکال باہر کیا تھاکہ وہ جذبے کے اسیر ہیں اور اسی کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ اس نے شاعرپرفلسفی کو اسی لیے ترجیح دی کہ وہ شاعری کو فلسفے سے کم تر سمجھتا ہے۔ اسی بنیادپراس نے کلیہ تراشاکہ شاعری اورفلسفے میں ازلی مخاصمت ہے۔ فلسفے کی بنیاد عقل پر ہے،جوانسانی ذہن کی اعلیٰ ترین صفت ہے،جبکہ شاعری جذبات کی تصویر ہے۔ افلاطون کے بقول،جذبہ انسان کو صالح بنانے کے بجائے اس کے ذہن کو بھڑکاتاہے۔ اس لیے یہ عقل کے لیے مضرہے۔ شاعری جذبات کی پرورش کرتی ہے،حالاں کہ اس کا کام ان پر قابوپانا اور،روک لگاناتھا۔ یعنی جذبے کو حکمراں ہونے کے بجائے محکوم ہونا چاہیے۔ شاعری احساس کو تقویت بخشتی ہے اور ادراک کو معطل کرتی ہے۔ ذی عقل، غوروفکر کرتا ہے، جذبات میں بہہ نہیں جاتا۔ الہامی کیفیت یا وجدان پر شاعر کا قبضہ نہیں ہوتا۔ اس لیے اس کی رہبری قبول کرنا حماقت ہے۔ ’’شاعر کبھی پیغمبر بن جاتا ہے،کبھی پاگل، اوراس کی شخصیت ان کے درمیان معلق رہتی ہے۔ ‘‘(۳)افلاطون یہ بھی کہتا ہے کہ شاعر نقال ہے ۔ وہ نقل کی نقل اتارتا ہے۔ گویااستعارہ بھی ایک نوع کی نقل ہوا،کیوں کہ یہ شاعری کا ناگزیر حصہ ہے۔ افلاطون Ideas کو سچائی سے تعبیر کرتا ہے۔ یعنی ہر Idea[عین/جوہر]وہ بنیادی/حقیقی اورلافانی ساخت ہے،جس کی تمام چیزیں نقل ہیں،اورنقل کبھی اصل کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اس کے مطابق دنیا میں جتنی چیزیں موجود ہیں،وہ مادی ہیں اورمادے کی حیثیت ثانوی ہے۔ Ideasزمان و مکان سے ماورا،اورغیرفانی ہیں۔ یہ سچے علم ہیں جن کی بنیاد صداقت پر ہے ،اورصداقت اس روح سے ہم رشتہ ہے،جولافانی ہے۔ ریاست مادی اور فانی خیالات سے نہیں چلائی جا سکتی۔ افلاطون کے مطابق دنیا میں ایک ہی قبیل کی کئی اشیاپائی جاتی ہیں۔ ان سب میں تھوڑابہت فرق ہے۔ اِس سے اُس نے نتیجہ اخذ کیا کہ ہرقبیل کی کوئی ایک شے توایسی ہونی چاہیے، جوبہترین اورکامل ہو،یعنی اس سے برتراس قسم کی کوئی چیز نہ ہوسکتی ہو۔ اس کے مطابق یہ آئیڈیل یا مثالی چیز/نوع عالمِ اعیان/مثال میں موجود ہے۔ یعنی’’عالمِ مثال میں ایک مثالی انسان، ایک مثالی گھوڑا، ایک مثالی کرسی[علیٰ ہذالقیاس]موجود ہے۔ دنیا میں موجود کوئی انسان، گھوڑا یا کرسی، اپنی ’مثال ‘ سے بہتر نہیں۔ تمام اشیا اپنی اپنی مثال کی ادھوری نقول ہیں۔ ‘‘(4)مثالی صورتیں خدا کی تخلیق کردہ ہیں۔ اس طریقۂ استدلال کی منطق بظاہر تو بہت توانا ہے،لیکن بباطن اسے منطقی حقیقت سے دور کا بھی علاقہ نہیں۔ افلاطون نے اپنی آسانی کے لیے یہ مفروضہ قائم کرلیا کہ دنیا میں جتنی اشیا ہیں ان کی ایک مثالی صورت خدا کی تشکیل کردہ ہے،اوریقیناًمثالی صورت ایک ہی ممکن ہے۔ وہ پلنگ/چارپائی کی مثال دیتا ہے۔ کلیم الدین احمد کے بقول آپ پلنگ کی جگہ گائے کا تصور کر لیجیے۔ اس لیے کہ مصور محض چارپائی کی تصویر نہیں بناتا۔ کلیم الدین احمد نے گائے اور پھول کی مثال کے ذریعے نہ صرف افلاطون کے نظریے کی تردید کی، بلکہ اس پہلو سے بھی آگاہ کیا کہ نظریۂ اعیان کے مفروضے کے تحت فلسفیوں کے خیالات بدلتے رہے ہیں۔ چوں کہ گائیں کئی طرح کی ہوتی ہیں۔ سفید، سیاہ، بھوری، چتکبری، موٹی، دبلی، سینگ دار،بے سینگ وغیرہ۔ بھینس اور بیل بھی اسی قبیل میں ہیں۔ اگر خدامحض ایک مثالی گائے بنانے پرقادر ہے تواتنی گائیں کہاں سے واردہوئیں۔ یعنی یہ گائیں بھی خداکی بنائی ہوئی ہیں۔ اس کا مطلب’’بڑھئی کی طرح خدا بھی نقال ہے،جس نے اپنی مثالی شکل کی اتنی مختلف شکلیں بنائیں،اور خدا نے یہ گائیں نہیں بنائیں تو پھرکس نے؟مصورنے تونہیں بنائی ہیں۔ کیا خداکے علاوہ کوئی اور بھی خلاق ہے؟کیا خدا کا کوئی نائب ہے جو اس کی مثالی شکلیں بناتا ہے[؟]پھول کو لے لیجیے۔۔۔اگر دنیا کے پھولوں کی فہرست مرتب کی جائے تو ایک موٹی کتاب تیار ہوجائے گی۔ بقول افلاطون خدا نے ایک اور صرف ایک مثالی پھول بنایا ہوگا۔ پھریہ ہزاروں قسم کے پھول کہاں سے آگئے[؟]یہ نقالی کس نے کی[؟]‘‘(۵)افلاطون فلسفی ہے۔ اسی لیے وہ شاعری پر فلسفے کی بزرگی تسلیم کرتا ہے۔ وہ تعقل پرست ہے۔ وہ شاعری اور حقیقت میں کسی تعلق کو قبول نہیں کرتا۔ اس کے خیال میں شاعری حقیقت کی نقالی نہیں،بلکہ نقل در نقل ہے۔ یہاں دو مستقل موضوعات سامنے آتے ہیں :
183 شاعری۔۔۔وجدان یا حقیقت
183 شعری نقل کی نوعیت
لنک