ابن جمال
محفلین
کیٹیا ایڈلر
بی بی سی نیوز، یروشلم
ہمارا کام یہ تھا کہ ہم برسرِ پیکار فوجیوں کا حوصلہ بڑھائیں: رابی کوفمین
اسرائیلی فوج تبدیل ہو رہی ہے۔ ایک وقت تھا کہ اسے اپنے سیکولر ہونے پر ناز تھا، لیکن اب اس کے دستوں میں ایسے فوجیوں کا اضافہ ہو رہا ہے جو اسرائیل کی جنگوں کو ’جہاد‘ سمجھتے ہیں۔
فوج میں شمولیت اختیار کرنے والے رابی اب زیادہ طاقتور ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ فوجی تربیت کے ساتھ ساتھ مذہبی علم سے لیس ہیں اور فوج میں متعارف کرائے جانے والے نئے قواعد و ضوابط کے تحت اب وہ فوجی اعلیٰ طبقے کا حصہ ہیں۔
وہ فوج کے آفیسر سکول سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں اور فوج کے کمانڈروں کے ساتھ قریبی رابطے میں رہ کے کام کرتے ہیں۔ ان کا ایک کام یہ بھی ہے کہ وہ اگلے مورچوں پر بھی فوجیوں کا مورال بلند رکھیں۔
اسرائیل میں اس بات پر ایک تنازع کھڑا ہو گیا ہے کہ فوج میں شامل ہو کر لڑنے کا جذبہ یہودی مذہبی عالموں سے آنا چاہیے یا اسرائیلی ریاست اور اس کی حفاظت سے۔
یہودی رابیوں کی اسرائیلی فوج میں موجودگی اسی سال غزہ پر اسرائیلی حملے کے وقت نمایاں طور پر محسوس کی گئی تھی۔ ان کی کچھ کارروائیوں کی وجہ سے فوج پر ان سے سیاسی و مذہبی اثرات کے بارے میں تکلیف دہ سوالات بھی اٹھائے گئے تھے۔
گل ایناو نامی ایک غیر مذہبی سپاہی کا کہنا ہے کہ چھاؤنی میں، بیروکوں میں اور اگلے مورچوں پر مکمل طور پر مذہبی ماحول ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جیسے ہی سپاہی دستخط کر کے بندوق حاصل کرتے ہیں انہیں کتاب المناجات کی ایک جلد بھی دی جاتی ہے۔
مجھے ایسا لگا جیسے یہ کوئی مذہبی جنگ ہو، کوئی صلیبی جنگ۔ اس سے مجھے تکلیف پہنچی۔ مذہب اور فوجی کو مکمل طور پر علیحدہ علیحدہ ہونا چاہیے
گل ایناو
انہوں نے مجھے بتایا کہ جیسے ہی ان کی کمپنی غزہ میں پش قدمی کر رہی تھی تو اس کے ایک طرف سویلین رابی تھا جبکہ دوسری طرف فوجی رابی نے پوزیشن سنبھالی ہوئی تھی۔
’مجھے ایسا لگا جیسے یہ کوئی مذہبی جنگ ہو، کوئی صلیبی جنگ۔ اس سے مجھے تکلیف پہنچی۔ مذہب اور فوجی کو مکمل طور پر علیحدہ علیحدہ ہونا چاہیے۔‘
لیکن لیفٹینٹ شموئیل کوفمین کی طرح کے فوجی رابی اس تبدیلی کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ جنگوں میں رابیوں کو محاذ جنگ سے دور رہنا پڑتا تھا۔ لیکن غزہ کے معرکے میں انہیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ سپاہیوں کے ساتھ رہیں۔
’ہمارا کام یہ تھا کہ ہم برسرِ پیکار فوجیوں کا حوصلہ بڑھائیں۔‘
رابی کوفمین کے مطابق ان کے یونٹ کے غزہ میں داخل ہونے سے پہلے ان کے کمانڈر نے ان سے کہا تھا کہ مینڈھے کے سنیگ کو بجایا جائے ’جیسے جوشوا نے اسرائیل کی سرزمین پر قبضے کے وقت بجایا تھا۔ اس سے جنگ میں مذہبی رنگ غالب آ جاتا ہے۔‘
غزہ کی جنگ کے دوران یہودی رابیوں نے سینکڑوں کی تعداد میں مذہبی پمفلٹ تقسیم کیے تھے۔ جب یہ بات منظر عام پر آئی تو اس پر اسرائیل میں ایک تنازع کھڑا ہو گیا۔ کچھ پمفلٹوں میں اسرائیلی سپاہیوں کو ’روشنی کے بیٹے‘ جبکہ فلسطینیوں کو ’اندھیرے کی اولاد‘ کہا گیا تھا۔
کچھ اشتہاروں میں فلسطینیوں کا خطے کے ان غیر مہذب باشندوں سے مقابلہ کیا گیا تھا جو یہودیوں کے بدترین دشمن تھے۔
اگرچہ اسرائیلی فوج نے ان پمفلٹوں سے دوری اختیار کر لی ہے لیکن ان پر اسرائیلی فوج کی سرکاری مہر لگی ہوئی ہے۔ اسرائیلی فوجی قیادت اب بھی اس بات پر مصر ہے کہ رابی فوج کی اخلاقیات کا احترام کرتے ہیں اور وہ اپنے نجی عقائد کو ایک طرف رکھتے ہیں۔ قوم پرست مذہبی رابیوں کی فوج میں شامل ہونے کی نئی لہر کے بارے میں بھی ان کا یہی خیال ہے۔
اشتہاروں میں فلسطینیوں کا خطے کے ان غیر مہذب باشندوں سے مقابلہ کیا گیا تھا جو یہودیوں کے بدترین دشمن تھے
میں نے غرب اردن میں ہیبرون کے قریب قائم ایک قدامت پرست یہودی مدرسے کا دورہ کیا۔ یہ ان مدرسوں میں سے ایک ہے جو اپنے طالبعلموں کی اس بات پر حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ عہد نامہ قدیم کو محاذ جنگ پر لے کر جائیں۔
کہا جاتا ہے کہ اس مدرسے کے تمام طلباء فوج میں شمولیت اختیار کرنے کا انتخاب کرتے ہیں لیکن سرکاری اعداد و شمار سے اس بات کا بھی عندیہ ملتا ہے کہ انتہا پسند مذہبی جذبات نہ رکھنے والے طلباء فوج سے دور رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
مدرسے کے ایک انیس سالہ طالبعلم نے مجھے بتایا کہ ان کی طرح کے مذہبی سپاہی فوجی کو بہتر طور طریقے اختیار کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ ان کا مذہبی فریضہ ہے کہ اسرائیلی شہریوں اور یہودی ریاست کی حفاظت کریں۔ ان کے لیے یہ اللہ کا حکم ہے۔
یہ مدرسہ مقبوضہ غربِ اردن میں ایک یہودی بستی میں بنایا گیا ہے۔ اگر صدر اوباما اپنی بات منوانے میں کامیاب ہو گئے تو اسرائیل کو زیادہ تر یہودی بستیاں خالی کرنا ہوں گی۔
بین الاقوامی قانون کے مطابق یہ یہودی بستیاں غیر قانونی ہیں اور مجوزہ فلسطینی ریاست کا حصہ ہیں۔
گل ایناو کا کہنا ہے کہ کئی سپاہی ان یہودی بستیوں کو خالی کرنے سے انکار کر دیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہودی بستیوں کے موضوع پر اسرائیلی فوج بری طرح تقسیم ہو جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر فوجی افسر ان دنوں انہیں یہودی بستیوں کے رہنے والے ہیں۔
’اگر کوئی ایسا موقع آیا کہ اسرائیل کی حکومت کی طرف سے ملنے والے سیاسی احکامات اور رابیوں اور یہودی بستیوں کے آباد کاروں سے ملنے والے پیغام میں تضاد ہوا تو قدامات پسند مذہبی فوجی رابیوں کے حکم کو مانیں گے۔
اسرائیل کی فوجی قیادت اس سے سخت اختلاف کرتی ہے۔
بریگیڈیئر جنرل ایلی شرمیسٹر اسرائیلی فوج کے چیف ایجوکیشن آفیسر ہیں۔ وہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ماضی میں کچھ غلطیاں ہوئی ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ اب رابیوں کے معاملے میں صحیح توازن کو حاصل کر لیا گیا ہے۔
ان کا اصرار ہے کہ عام فوجیوں پر صرف اسرائیلی فوجی کمانڈروں کا حکم چلتا ہے۔ ’اسرائیلی فوج کا ضابطہِ اخلاق بہت واضح ہے۔ ہم فوجیوں کی کارکردگی کا اسی ضابطہ اخلاق کی بنیاد پر جائزہ لیتے ہیں۔ کوئی بھی دوسرا ضابطہ اخلاق متعارف نہیں کرا سکتا اور یقینی طور پر کوئی مذہبی ضابطہ تو اس کی جگہ لے ہی نہیں سکتا۔
لیکن بریگیڈیئر جنرل شرمیسٹر کے پیشرو اس صورت حال کو فوج کے اندر ایک واضح اور تشویش ناک تبدیلی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ریزرو جنرل نہیمیا ڈیگن کے مطابق جو کچھ اسرائیلی فوج میں ہو رہا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے جتنا زیادہ تر اسرائیلی سمجھتے ہیں۔ ’فوجیوں کے طور پر ہم اپنے ذاتی خیالات ایک طرف رکھتے تھے تاکہ ہم وہ کچھ کر سکیں جو ہم نے کرنا ہے۔ لیکن اب ایسا نہیں رہا۔‘
بی بی سی نیوز، یروشلم
ہمارا کام یہ تھا کہ ہم برسرِ پیکار فوجیوں کا حوصلہ بڑھائیں: رابی کوفمین
اسرائیلی فوج تبدیل ہو رہی ہے۔ ایک وقت تھا کہ اسے اپنے سیکولر ہونے پر ناز تھا، لیکن اب اس کے دستوں میں ایسے فوجیوں کا اضافہ ہو رہا ہے جو اسرائیل کی جنگوں کو ’جہاد‘ سمجھتے ہیں۔
فوج میں شمولیت اختیار کرنے والے رابی اب زیادہ طاقتور ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ فوجی تربیت کے ساتھ ساتھ مذہبی علم سے لیس ہیں اور فوج میں متعارف کرائے جانے والے نئے قواعد و ضوابط کے تحت اب وہ فوجی اعلیٰ طبقے کا حصہ ہیں۔
وہ فوج کے آفیسر سکول سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں اور فوج کے کمانڈروں کے ساتھ قریبی رابطے میں رہ کے کام کرتے ہیں۔ ان کا ایک کام یہ بھی ہے کہ وہ اگلے مورچوں پر بھی فوجیوں کا مورال بلند رکھیں۔
اسرائیل میں اس بات پر ایک تنازع کھڑا ہو گیا ہے کہ فوج میں شامل ہو کر لڑنے کا جذبہ یہودی مذہبی عالموں سے آنا چاہیے یا اسرائیلی ریاست اور اس کی حفاظت سے۔
یہودی رابیوں کی اسرائیلی فوج میں موجودگی اسی سال غزہ پر اسرائیلی حملے کے وقت نمایاں طور پر محسوس کی گئی تھی۔ ان کی کچھ کارروائیوں کی وجہ سے فوج پر ان سے سیاسی و مذہبی اثرات کے بارے میں تکلیف دہ سوالات بھی اٹھائے گئے تھے۔
گل ایناو نامی ایک غیر مذہبی سپاہی کا کہنا ہے کہ چھاؤنی میں، بیروکوں میں اور اگلے مورچوں پر مکمل طور پر مذہبی ماحول ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جیسے ہی سپاہی دستخط کر کے بندوق حاصل کرتے ہیں انہیں کتاب المناجات کی ایک جلد بھی دی جاتی ہے۔
مجھے ایسا لگا جیسے یہ کوئی مذہبی جنگ ہو، کوئی صلیبی جنگ۔ اس سے مجھے تکلیف پہنچی۔ مذہب اور فوجی کو مکمل طور پر علیحدہ علیحدہ ہونا چاہیے
گل ایناو
انہوں نے مجھے بتایا کہ جیسے ہی ان کی کمپنی غزہ میں پش قدمی کر رہی تھی تو اس کے ایک طرف سویلین رابی تھا جبکہ دوسری طرف فوجی رابی نے پوزیشن سنبھالی ہوئی تھی۔
’مجھے ایسا لگا جیسے یہ کوئی مذہبی جنگ ہو، کوئی صلیبی جنگ۔ اس سے مجھے تکلیف پہنچی۔ مذہب اور فوجی کو مکمل طور پر علیحدہ علیحدہ ہونا چاہیے۔‘
لیکن لیفٹینٹ شموئیل کوفمین کی طرح کے فوجی رابی اس تبدیلی کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ جنگوں میں رابیوں کو محاذ جنگ سے دور رہنا پڑتا تھا۔ لیکن غزہ کے معرکے میں انہیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ سپاہیوں کے ساتھ رہیں۔
’ہمارا کام یہ تھا کہ ہم برسرِ پیکار فوجیوں کا حوصلہ بڑھائیں۔‘
رابی کوفمین کے مطابق ان کے یونٹ کے غزہ میں داخل ہونے سے پہلے ان کے کمانڈر نے ان سے کہا تھا کہ مینڈھے کے سنیگ کو بجایا جائے ’جیسے جوشوا نے اسرائیل کی سرزمین پر قبضے کے وقت بجایا تھا۔ اس سے جنگ میں مذہبی رنگ غالب آ جاتا ہے۔‘
غزہ کی جنگ کے دوران یہودی رابیوں نے سینکڑوں کی تعداد میں مذہبی پمفلٹ تقسیم کیے تھے۔ جب یہ بات منظر عام پر آئی تو اس پر اسرائیل میں ایک تنازع کھڑا ہو گیا۔ کچھ پمفلٹوں میں اسرائیلی سپاہیوں کو ’روشنی کے بیٹے‘ جبکہ فلسطینیوں کو ’اندھیرے کی اولاد‘ کہا گیا تھا۔
کچھ اشتہاروں میں فلسطینیوں کا خطے کے ان غیر مہذب باشندوں سے مقابلہ کیا گیا تھا جو یہودیوں کے بدترین دشمن تھے۔
اگرچہ اسرائیلی فوج نے ان پمفلٹوں سے دوری اختیار کر لی ہے لیکن ان پر اسرائیلی فوج کی سرکاری مہر لگی ہوئی ہے۔ اسرائیلی فوجی قیادت اب بھی اس بات پر مصر ہے کہ رابی فوج کی اخلاقیات کا احترام کرتے ہیں اور وہ اپنے نجی عقائد کو ایک طرف رکھتے ہیں۔ قوم پرست مذہبی رابیوں کی فوج میں شامل ہونے کی نئی لہر کے بارے میں بھی ان کا یہی خیال ہے۔
اشتہاروں میں فلسطینیوں کا خطے کے ان غیر مہذب باشندوں سے مقابلہ کیا گیا تھا جو یہودیوں کے بدترین دشمن تھے
میں نے غرب اردن میں ہیبرون کے قریب قائم ایک قدامت پرست یہودی مدرسے کا دورہ کیا۔ یہ ان مدرسوں میں سے ایک ہے جو اپنے طالبعلموں کی اس بات پر حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ عہد نامہ قدیم کو محاذ جنگ پر لے کر جائیں۔
کہا جاتا ہے کہ اس مدرسے کے تمام طلباء فوج میں شمولیت اختیار کرنے کا انتخاب کرتے ہیں لیکن سرکاری اعداد و شمار سے اس بات کا بھی عندیہ ملتا ہے کہ انتہا پسند مذہبی جذبات نہ رکھنے والے طلباء فوج سے دور رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
مدرسے کے ایک انیس سالہ طالبعلم نے مجھے بتایا کہ ان کی طرح کے مذہبی سپاہی فوجی کو بہتر طور طریقے اختیار کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ ان کا مذہبی فریضہ ہے کہ اسرائیلی شہریوں اور یہودی ریاست کی حفاظت کریں۔ ان کے لیے یہ اللہ کا حکم ہے۔
یہ مدرسہ مقبوضہ غربِ اردن میں ایک یہودی بستی میں بنایا گیا ہے۔ اگر صدر اوباما اپنی بات منوانے میں کامیاب ہو گئے تو اسرائیل کو زیادہ تر یہودی بستیاں خالی کرنا ہوں گی۔
بین الاقوامی قانون کے مطابق یہ یہودی بستیاں غیر قانونی ہیں اور مجوزہ فلسطینی ریاست کا حصہ ہیں۔
گل ایناو کا کہنا ہے کہ کئی سپاہی ان یہودی بستیوں کو خالی کرنے سے انکار کر دیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہودی بستیوں کے موضوع پر اسرائیلی فوج بری طرح تقسیم ہو جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر فوجی افسر ان دنوں انہیں یہودی بستیوں کے رہنے والے ہیں۔
’اگر کوئی ایسا موقع آیا کہ اسرائیل کی حکومت کی طرف سے ملنے والے سیاسی احکامات اور رابیوں اور یہودی بستیوں کے آباد کاروں سے ملنے والے پیغام میں تضاد ہوا تو قدامات پسند مذہبی فوجی رابیوں کے حکم کو مانیں گے۔
اسرائیل کی فوجی قیادت اس سے سخت اختلاف کرتی ہے۔
بریگیڈیئر جنرل ایلی شرمیسٹر اسرائیلی فوج کے چیف ایجوکیشن آفیسر ہیں۔ وہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ماضی میں کچھ غلطیاں ہوئی ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ اب رابیوں کے معاملے میں صحیح توازن کو حاصل کر لیا گیا ہے۔
ان کا اصرار ہے کہ عام فوجیوں پر صرف اسرائیلی فوجی کمانڈروں کا حکم چلتا ہے۔ ’اسرائیلی فوج کا ضابطہِ اخلاق بہت واضح ہے۔ ہم فوجیوں کی کارکردگی کا اسی ضابطہ اخلاق کی بنیاد پر جائزہ لیتے ہیں۔ کوئی بھی دوسرا ضابطہ اخلاق متعارف نہیں کرا سکتا اور یقینی طور پر کوئی مذہبی ضابطہ تو اس کی جگہ لے ہی نہیں سکتا۔
لیکن بریگیڈیئر جنرل شرمیسٹر کے پیشرو اس صورت حال کو فوج کے اندر ایک واضح اور تشویش ناک تبدیلی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ریزرو جنرل نہیمیا ڈیگن کے مطابق جو کچھ اسرائیلی فوج میں ہو رہا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے جتنا زیادہ تر اسرائیلی سمجھتے ہیں۔ ’فوجیوں کے طور پر ہم اپنے ذاتی خیالات ایک طرف رکھتے تھے تاکہ ہم وہ کچھ کر سکیں جو ہم نے کرنا ہے۔ لیکن اب ایسا نہیں رہا۔‘