سید شہزاد ناصر
محفلین
اسرائیل مشرق وسطیٰ کی ایک صیہونی ریاست ہے جو سرزمین فلسطین پر قبضہ کرکے بنائی گئی۔ پاکستان سمیت دنیا کے کئی مسلم ممالک اسرائیل کو ایک ملک تسلیم نہیں کرتے۔
تاریخ
آسٹروی یہودی تھیوڈور ہرستل یا تیفادار ہرستل سیاسی صیہونیت کا بانی ہے ۔ وہ بڈاپسٹ میں پیدا ہوا اور ویانا میں تعلیم پائی۔ اس کا اصلی نام بن یامین بتایا جاتا ہے ۔ اس نے جرمن زبان میں ایک کتاب ” ڈر جوڈن شٹاٹ” یعنی یہودی ریاست لکھی جس کا انگریزی ترجمہ اپریل 1896 میں ہوا۔ اس ریاست کے قیام کے لئے ارجنٹائن یا مشرق وسطی کا علاقہ تجویز کیا گیا تھا۔ برطانوی حکومت نے ارجنٹائن میں یہودی ریاست قائم کرنے کی سخت مخالفت کی اور اسے فلسطین میں قائم کرنے پر زور دیا۔ لارڈ بیلفور نے 1905ء میں جب وہ برطانیہ کا وزیرِ اعظم بنا تو برطانیہ میں یہودیوں کا داخلہ روکنے کے لئے ایک قانون منظور کرایا اور اُس کے بعد برطانیہ نے مندرجہ ذیل ڈکلیئریشن منظور کی:
ترجمہ: حکومتِ برطانیہ اِس کی حمائت کرتی ہے کہ فلسطین میں یہودیوں کا وطن بنایا جائے۔
اس کے بعد باسل، سوئٹزرلینڈ میں صیہونی کانگریس کا اِجلاس ہوا جس میں فلسطین میں خالص صیہونی ریاست بنانے کی منظوری دی گئی اور ساتھ ہی بین الاقوامی صیہونی تنظیم بنائی گئی تاکہ وہ صیہونی ریاست کا قیام یقینی بنائے۔ اس ریاست کا جو نقشہ بنایا گیا اس میں دریائے نیل سے لے کر دریائے فرات تک کا سارا علاقہ شامل دِکھایا گیا یعنی مصر کا دریائے نیل سے مشرق کا علاقہ بشمول پورٹ سعید ۔ مکمل فلسطین ۔ اردن اور لبنان، شام اور عراق کا دو تہائی علاقہ اور سعودی عرب کا ایک چوتھائی علاقہ۔
فلسطین میں یہودی ریاست بنانے کے لئے وہاں بڑی تعداد میں یہودی داخل کرنا مندرجہ بالا پروگرام کا اہم حصہ تھا اور اس کے لئے مسلمانوں کو فلسطین سے باہر دھکیلنا بھی ضروری قرار پایا ۔ 1895ء میں تھیوڈور ہرستل نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا:
ترجمہ: ہم فلسطین کے غریب عوام کو فلسطین سے باہر ملازمت دِلانے کا چکمہ دینے کی کوشش کریں گے اور ساتھ ہی اُن کو فلسطین میں ملازمت نہیں کرنے دیں گے۔
باقی صیہونیوں نے راست اقدام کا منصوبہ بناتے ہوئے مندرجہ ذیل فیصلہ کیا:
ترجمہ: جونہی ہماری تعداد فلسطین میں زیادہ ہو گی ہم زمینوں پر قبضہ کر لیں گے ۔ ہم طاقتور ہو جائیں گے پھر ہم دریائے اُردن کے بائیں طرف کے علاقہ کی خبر لیں گے اور فلسطینیوں کو وہاں سے بھی نکال دیں گے ۔ وہ جائیں عرب مُلکوں کو۔
نظریہ یہ تھا کہ جب اس طرخ کافی یہودی آباد ہو جائیں گے تو اس وقت برطانیہ فلسطین میں حکومت یہودیوں کے حوالے کر دے گا ۔ مگر ہوا یہ کہ شروع میں کچھ فلسطینی عربوں نے اپنی زمین یہودیوں کے ہاتھ فروخت کی مگر باقی لوگوں نے ایسا نہ کیا جس کے نتیجہ میں باون سال گذرنے کے بعد 1948ء میں فلسطین کی صرف 6 فیصد زمین یہودیوں کی ملکیت تھی ۔ یہودیوں نے 1886ء سے ہی یورپ سے نقل مکانی کر کے فلسطین پہنچنا شروع کر دیا تھا جس سے 1897ء میں فلسطین میں یہودیوں کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کر گئی تھی ۔ اُس وقت فلسطین میں مسلمان عربوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد تھی۔ 1903ء تک یورپ اور روس سے ہزاروں یہودی فلسطین پہنچ گئے اور ان کی تعداد 25000 کے لگ بھگ ہوگئی ۔ 1914 تک مزید چالیس ہزار کے قریب یہودی یورپ اور روس سے فلسطین پہنچے ۔
خفیہ معاہدہ
لارڈ بیلفور نے 1905ء میں جب وہ برطانیہ کا وزیرِ اعظم تھا تو اِس خیال سے کہ کہیں روس میں قتلِ عام کی وجہ سے یہودی برطانیہ کا رُخ نہ کر لیں ۔ برطانیہ میں یہودیوں کا داخلہ روکنے کے لئے ایک قانون منظور کرایا اور پھر کمال عیّاری سے متذکّرہ بالا ڈیکلیریشن منظور کرائی ۔ مصر میں برطانیہ کے ہائی کمشنر ہنری میک موہن نے 1916ء میں وعدہ کیا کہ عربوں کے وہ علاقے جو سلطنت عثمانیہ میں شامل تھے آزاد کردیئے جائیں گے مگر برطانیہ نے عیّاری برتتے ہوئے ایک خفیہ معاہدہ “سائیکس پِیکاٹ” کیا جس کی رو سے برطانیہ اور فرانس نے عربوں کے علاقہ کو اپنے مشترکہ اِنتظام کے تحت تقسیم کر لیا۔
چنانچہ مصر سے بدعہدی کرتے ہوئے انگریزوں نے پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر 1918ء میں فلسطین پر قبضہ کر لیا ۔ جمعیت الاقوام (لیگ آف نیشنز) نے 25 اپریل 1920 کو فلسطین پر انگریزوں کے قبضہ کو جائز قرار دے دیا ۔ برطانیہ نے مزید عیّاری یہ کی کہ 1917ء میں برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر بیلفور نے برطانیہ کی طرف سے لارڈ راتھ شِلڈ نامی صیہونی لیڈر کو ایک خط لکھا جس میں فلسطین میں یہودی ریاست بنانے کی یقین دہانی کرائی
بندر بانٹ
فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کا مقصد ایک صیہونی اڈا بنانا تھا جو وہاں سے فلسطینیوں کے انخلاء اور ان کی جائیدادوں پر قبضے کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا تھا ۔ چنانچہ جوں جوں یورپ سے یہودی آتے گئے توں توں فلسطینیوں کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا جاتا رہا ۔ برطانیہ نے دوسری جنگ عظیم سے ہوش سنبھلنے کے بعد 1947ء میں فلسطین کا معاملہ اقوام متحدہ کے حوالے کر دیا ۔ اس وقت تک فلسطین میں یہودیوں کی تعداد ایک تہائی ہو چکی تھی لیکن وہ فلسطین کی صرف 6 فیصد زمین کے مالک تھے ۔ اقوام متحدہ نے ایک کمیٹی بنائی جس نے سفارش کی کہ فلسطین کےساڑھے 56 فیصد علاقہ پر صرف 6 فیصد کے مالک یہودیوں کی ریاست اسرائیل بنا دی جائے اور ساڑھے 43 فیصد علاقہ میں سے بیت المقدس کو بین الاقوامی بنا کر باقی تقریبا 40 فیصد فلسطین کو 94 فیصد فلسطین کے مالک مسلمانوں کے پاس رہنے دیا جائے ۔ 29 نومبر 1947 کو جنرل اسمبلی نے 13 کے مقابلہ میں 33 ووٹوں سے اس کی منظوری دے دی۔ 10 ممبر غیر حاضر رہے ۔ فلسطینیوں نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا اور صیہونیوں نے فلسطینی مسلمانوں پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیئے ۔
صیہونی دہشت گردی
صيہونيوں نے بیت المقدس میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل اڑا دیا جس میں 91 آدمی مارے گئے اور بہت سے زخمی ہوئے ۔ ان میں برطانوی فوجی ۔ فلسطینی مسلمان ۔ عیسائی اور چند یہودی شامل تھے ۔ یہ دنیا میں پہلی بارودی دہشت گردی تھی ۔ برطانوی حکومت پہلے ہی مزید یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کے امریکی دباؤ سے پریشان تھی برطانوی فوجیوں کی ہلاکت کی وجہ سے برطانیہ کے اندر حکومت پر فلسطین سے فوجیں نکالنے کا دباؤ پڑنے لگا ۔ چنانچہ برطانیہ نے اعلان کر دیا کہ وہ فلسطین میں اپنی حکومت 15 مئی 1948 کو ختم کر دے گا ۔ صیہونیوں نے جن کے لیڈر معروف دہشت گرد تھے فلسطینیوں پر حملے اور ان کا قتل تو پہلے ہی شروع کر دیا تھا لیکن 1948ء میں اچانک فلسطین کے مسلمانوں پر بڑے پیمانہ پر عسکری کمانڈو حملے کر کے یہودیوں نے بیت المقدّس کے مغربی حصہ اور کچھ دوسرے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور یہ سلسلہ جاری رہا ۔ امریکہ صیہونیوں کی پشت پناہ پر تھا اور ان کو مالی اور فوجی امداد مہیا کر رہا تھا ۔
صیہونی ریاست کے قیام کا اعلان
اس طرح روس یورپ اور بالخصوص امریکہ کی مدد سے یہودیوں 14 مئی 1948 کو 4 بجے بعد دوپہر اپنی دو ہزار سال پرانی آرزو ”یہودی ریاست اسرائیل” کا اعلان کر دیا اور مسلم عربوں کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کر کے اِسرائیلی ریاست بنالی ۔ یہ دراصل صیہونی ریاست تھی کیونکہ کئی یہودی مذہبی پیشواؤں نے اس کی مخالفت کی ۔ اگلے دن برطانیہ کے بقیہ فوجی بھی اپنی چھاؤنیاں صیہونیوں کے حوالے کر کے چلے گئے ۔ اس کے بعد مار دھاڑ روز کا معمول بن گیا ۔ صیہونی مسلح دستے مسلمان عربوں کی املاک پر قبضہ کرتے چلے گئے کیونکہ وہ دہشت گرد تنظیموں کے تربیت یافتہ کمانڈو تھے اور انہيں امریکہ اور برطانیہ کی امداد بھی حاصل تھی ۔ یہودیوں کی دہشت گرد تنظیموں کے نام بدلتے رہے کیونکہ وہ یورپ میں بھی دہشت گردی کرتی رہیں اور دہشت گرد قرار دی جاتی رہیں ۔ مشہور نام یہ ہیں ۔ ہاگانہ، اوردے ونگیٹ، ارگون، لیہی، لیکوڈ، ہیروت، مالیدت۔
چند مشہور دہشت گرد لیڈروں کے نام یہ ہیں: موشے دیان جو 1953 سے 1957ء تک اسرائیل کی مسلح افواج کا چیف آف سٹاف رہا ۔ مناخم بیگن جو 1977 میں اسرائیل کا وزیراعظم بنا ۔ یتزہاک شمیر جو 1983 میں وزیراعظم بنا ۔ ایریئل شیرون جو سابقہ وزیراعظم ہے ۔ موشے دیان کو دہشت گرد ہونے کے باوجود برطانوی فوج میں کسی خاص کام کے لئے کچھ عرصہ کے لئے بھرتی کیا گیا تھا ۔ وہ برطانوی فوج کی ملازمت چھوڑ کر پھر صیہونی دہشت گرد تنظیم میں شامل ہوا اور اس کا کمانڈر بن گیا ۔ عربوں کی املاک پر قبضہ کرنے کے لئے جو حملے کئے جاتے رہے ان کا کمانڈر موشے دیان ہی تھا ۔ ان دہشت گرد تنظیموں نے نہ صرف وہ علاقے زبردستی قبضہ میں لئے جو اقوام متحدہ یہودیوں کو دینا چاہتی تھی بلکہ ان علاقوں پر بھی قبضہ کیا جو اقوام متحدہ کے مطابق فلسطینیوں کے تھے ۔ قبضہ کے دوران جو فلسطینی مسلمان نظر آتا اسے قتل کر دیا جاتا ۔ مناخم بیگن اس دہشت گرد گروہ کا سربراہ تھا جس نے بیت المقدّس میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل اڑایا تھا۔ صابرہ اور شتیلا کو گھیرے میں لے کر وہاں مقیم 4 ہزار نہتے فلسطینی مہاجرین کو قتل کرنے کا حکم دینے والا ایریئل شیرون ہی تھا جو اُن دنوں اسرائیل کا وزیر دفاع تھا ۔
صيہونی توسيعی پروگرام پر عملدرآمد
اسرائیل نے 1955ء میں غزہ اور اردن کی شہری آبادیوں پر چھاپہ مار حملے شروع کر دیئے ۔ جس سے فلسطینی مسلمان تو مرتے رہے مگر اسرائیل کو خاص فائدہ نہ ہوا ۔ 1956ء میں برطانیہ ۔ فرانس اور اسرائیل نے مصر پر بھرپور حملہ کر دیا جس میں مصر کے ہوائی اڈوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔ ان مشترکہ فوجوں نے سینا، غزہ اور مصر کی شمالی بندرگاہ پورٹ سعید پر قبضہ کر کے نہر سوئز کا کنٹرول سنبھال لیا جو حملے کی بنیادی وجہ تھی ۔ روس کی دھمکی پر اقوام متحدہ بیچ میں آ گئی اور جنگ بندی کے بعد سارا علاقہ خالی کرنا پڑا ۔
اسرائیل نے امریکہ اور دوسرے پالنہاروں کی پشت پناہی سے 5 جون 1967 کو مصر، اردن اور شام پر حملہ کر دیا اور غزہ، جزیرہ نما سینا، مشرقی بیت المقدّس، گولان کی پہاڑیوں اور دریائے اُردن کے مغربی علاقہ پر قبضہ کر لیا ۔ اس جنگ میں امریکہ کی مدد سے مصر ۔ اردن اور شام کے راڈار منجمد کر دیئے گئے اور اسرائیلی ہوائی جہازوں نے مصر کے ہوائی جہازوں کو زمین پر ہی تباہ کر دیا ۔ اقوام متحدہ نے ایک قرار داد 242 کے ذریعے اسرائیل کو تمام مفتوحہ علاقہ خالی کرنے کو کہا جس پر آج تک عمل نہیں کیا گیا ۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کے مطابق مزید پانچ لاکھ فلسطینیوں کو اپنے ملک فلسطین سے مصر ۔ شام ۔ لبنان اور اُردن کی طرف دھکیل دیا گیا ۔
جنگ یوم کپور 1973ء
مصری فوج کے ایک طبقہ پر 1967ء کی شکست نے گہرا اثر چھوڑا تھا ۔ انور سادات کے صدر بنتے ہی انہو ں نے اپنا صحرائے سینا کا علاقہ اسرائیل سے واپس لینے کی تجاویز دینا شروع کر دیں ۔ اس وقت تک اسرائیل نے بلڈوزروں کی مدد سے نہر سوئز کے کنارے کنارے 20 میٹر اونچی ریت کی دیوار بنادی تھی ۔ مصری فوج دریائے نیل کے کنارے ایک ریت کی دیوار بنا کر اسے عبور کرنے کی مشقیں کرنے لگی ۔ ان کو بہت مایوسی ہوئی کیونکہ ہر قسم کے بم اور میزائل ریت کی دیوار میں شگاف ڈالنے میں ناکام رہے ۔ ہوتا یوں تھا کہ میزائل ریت کے اندر پھٹتا مگر دیوار کو خاص نقصان نہ ہوتا ۔
عام مشاہدہ کی بات ہے کہ ریت کا ڈھیر لگایا جائے تو ریت سرک کر زمین کے ساتھ زیادہ سے زیادہ 40 درجے کا زاویہ بناتی ہے ۔ اس طرح ریت کی 2 میٹراونچی دیوار کے لئے بنیاد یا قاعدہ ساڑھے پانچ میٹر چوڑا بنتا ہے جبکہ اوپر سے چوڑائی صفر ہو ۔ اگر 20 میٹر اونچی ریت کی دیوار بنائی جائے جس کی اوپر چوڑائی صرف 5 میٹر رکھی جائے تو زمین پر اس کی چوڑائی 60 میٹر یا 197 فٹ ہو گی ۔ اتنی چوڑی دیوار کو توڑنا ناممکن سمجھ کر ہی اسرائیل نے یہ دیوار بنائی ہو گی۔ ریت کو اگر کسی جگہ سے بھی ہٹائیں تو اس کے اوپر اور داہنے بائیں والی ریت اس کی جگہ لے لیتی ہے ۔
مصری فوج کا ایک میجر جو کہ مکینکل انجنیئر تھا ریت کی دیوار گرانے کے ناکام تجربے دیکھتا رہا تھا۔ ایک دن ڈویژن کمانڈر نے اس معاملہ پر غور کے لئے تمام افسران کا اجلاس طلب کیا ۔ اس میجر نے تجویز دی کہ ریت کی دیوار آتشیں اسلحہ کی بجائے پانی سے گرائی جا سکتی ہے مگر کمانڈر نے اس میجر کی حوصلہ افزائی نہ کی ۔ وہ میجر دُھن کا پکّا تھا اُس نے کہیں سے ایک پانی پھینکنے والا پمپ لے کر ایک کشتی پر نصب کیا اور ریت کی ایک چھوٹی سی دیوار بنا کر دریا نیل کا پانی اس پمپ سے نوزل کی مدد سے ریت کی دیوار پر ایک ہی جگہ پھینکتا رہا ۔ تھوڑی دیر میں ریت کی دیوار میں شگاف بن گیا ۔ اُس نے اپنے کمانڈر کو بتایا مگر کمانڈر نے پھر بھی حوصلہ افزائی نہ کی ۔
کچھ عرصہ بعد صدر انور سادات اس علاقہ کے دورہ پر آیا تو اس میجر نے اس کے سامنے تجربہ کرنا چاہا مگر کمانڈر نے ٹال دیا۔ بعد میں کسی طرح اس میجر کی انور سادات سے ملاقات ہو گئی اور میجر نے اس سے اپنے تجربہ کا ذکر کیا ۔ انور سادات نے میجر سے کہا کہ خفیہ طور پر تجربہ کرتا رہے اور پھر حساب لگا کر بتائے کہ 20 میٹر اونچی دیوار میں شگاف ڈالنا ممکن بھی ہے یا نہیں۔ میجر دلیر ہو گیا اور ملک میں سب سے بڑا پمپ حاصل کر کے ریت کی بڑی دیوار بنا کر تجربہ کیا جو کامیاب رہا ۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اس سے بڑے پمپ چاہئے تھے جو صرف خاص طور پر آرڈر دے کر یورپ کی کسی بڑی کمپنی سے بنوائے جا سکتے تھے اور راز فاش ہونے کا خطرہ بھی تھا۔ بہر کیف کسی طرح بہت بڑے پمپ بنوا کر درآمد کر لئے گئے ۔ پھر مضبوط کشتیاں بنائی گئیں 6 کشتیوں پر چھ چھ پمپ نصب کئے گئے ۔
جب مذاکراتی اور سیاسی ذرائع سے اسرائیل پر کوئی اثر نہ ہوا تو مصر اور شام نے 1973ء میں رمضان کے مہینے میں اسرائیل پر حملہ کر دیا۔ گولوں کی بارش کے دوران یہ کشتیاں نہر سوئز میں اتار دی گئیں اور 20 میٹر اونچی دیوار کے تین مقامات کا رُخ کر کے پمپ چلا دیئے ۔ 6 کشتیوں کے پمپ باری باری چلائے گئے اور چند گھنٹوں میں بیس میٹر اونچی دیوار میں تین جگہوں پر کافی چوڑے شگاف بن گئے ۔ پُل بنا کر مصری فوج ہلکے ٹینکوں سمیت صحرائے سینا میں داخل ہو گئی اور ریت کی دیوار کے دوسری طرف موجود ساری اسرائیلی فوج کا صفایا کر دیا ۔
یہ حملہ جنگ یوم کپور، جنگ رمضان یا جنگ اکتوبر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مصری فوج نہر سوئز کے کنارے اسرائیل کی بنائی ہوئی بیس میٹر اونچی ریت کی دیوار میں شگاف ڈال کر سینا میں داخل ہو گئی اور دیوار کے پار موجود اسرائیلی فوج کا صفایا کر دیا ۔ مصر نے اسرائیلی فضائیہ کے دو سو کے قریب ہوائی جہاز سام مزائیلوں سے مار گرائے ۔ اسرائیل کے گھر گھر میں رونا پڑ چکا تھا ۔ ان کے 6 ہزار فوجی اور 200 پائلٹ ہلاک ہو چکے تھے اور مصری فوج صحرائے سینا عبور کر کے اسرائیل کی سرحد کے قریب پہنچ گئی تھی ۔ اگر امریکہ پس پردہ اسرائیل کی بھر پور امداد نہ کرتا تو فلسطین کامسئلہ حل ہو چکا تھا۔ امریکہ بظاہر جنگ میں حصہ نہیں لے رہا تھا مگر اس کا طیارہ بردار بحری جہاز سینا کے شمالی سمندر میں ہر طرح سے لیس موجود تھا اس کے راڈاروں اور ہوائی جہازوں نے اسرائیل کے دفاع کے علاوہ مصر میں پورٹ سعید کے پاس ہزاروں اسرائیلی کمانڈو اتارنے میں بھی رہنمائی اور مدد کی ۔ اسرائیلی کمانڈوز نے پورٹ سعید کا محاصرہ کر لیا جو کئی دن جاری رہا ۔ وہاں مصری فوج موجود نہ تھی کیونکہ اسے جغرافیائی لحاظ سے کوئی خطرہ نہ تھا ۔ اپنے دور حکومت میں جمال عبدالناصر نے ہر جوان کے لئے 3 سال کی ملٹری ٹریننگ لازمی کی تھی جو اس وقت کام آئی ۔ پورٹ سعید کے شہریوں نے اسرائیلی کمانڈوز کا بے جگری سے مقابلہ کیا اور انہیں شہر میں داخل نہ ہونے دیا ۔ سعودی عرب کے بادشاہ فیصل نے تیل کا ہتھار موثّر طور پر استعمال کیا ۔ پھر امریکہ، روس اور اقوام متحدہ نے زور ڈال کر جنگ بندی کرا دی ۔
دہشت گرد حکمران
1953ء میں ہی ایک بدنام زمانہ دہشت گرد موشے دیان چیف آف سٹاف اسرائیل آرمڈ فورسز بن گیا تھا مگر صیہونی دہشت گرد تنظیمیں (ارگون ۔ لیہی ۔ ہیروت ۔ لیکوڈ وغیرہ) اسرائیل میں 1977ء تک حکومت میں نہ آسکیں اس کے باوجود فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و تشدّد ہوتا رہا ۔ 1977ء میں ارگون کے لیڈر مناخم بیگن نے وزیراعظم بنتے ہی غزہ اور باقی علاقے میں جن پر 1967ء میں قبضہ کیا گیا تھا زمینی حقائق کو بدلنے کے لئے تیزی سے یہودی بستیاں بسانی شروع کر دیں تا کہ کوئی ان سے علاقہ خالی نہ کرا سکے ۔ ان صیہونی تنظیموں کا پروگرام ایک بہت بڑی صیہونی ریاست بنانے کا ہے جس کا ذکر ہوچکا ہے۔ یہ نقشہ تھیوڈور ہرستل جس نے صیہونی ریاست کی تجویز 1896ء میں پیش کی تھی نے ہی تجویز کیا تھا اور یہی نقشہ 1947ء میں دوبارہ ربی فشمّن نے پیش کیا تھا ۔
اسرائیل نے 1982ء میں لبنان پر بہت بڑا حملہ کر کے اس کے بہت سے علاقہ پر قبضہ کر لیا ۔ اسرائیلی فوج نے فلسطینی مہاجرین کے دو کیمپوں صابرا اور شتیلا کو گھیرے میں لے کر اپنے مسلحہ حواریوں فلینجسٹس کی مدد سے وہاں مقیم چار ہزار نہتے فلسطینی مہاجرین کو قتل کروا دیا جن میں عورتیں بچے اور بوڑھے شامل تھے ۔ یہ کاروائی ایریئل شیرون کے حکم پر کی گئی تھی جو اُن دنوں اسرائیل کا وزیر دفاع تھا ۔
يہودی رياست کا حق
حضرت اسحاق علیہ السّلام مسجد الاقصٰی میں عبادت کرتے رہے مگر حج کے لئے وہ مکّہ مکرّمہ میں خانہ کعبہ ہی جاتے تھے ۔ ان کے پوتے حضرت یوسف علیہ السّلام جب مصر کے بادشاہ بنے تو انہوں نے اپنے خاندان کے 31 اشخاص کو جن میں ان کے والد حضرت یعقوب علیہ السّلام اور سارے بھائی بھی شامل تھے مصر بلا لیا تھا ۔ بنی اسرائیل کے یہودی پہلے ہی دولت و ثروت کی خاطر فلسطین چھوڑ کر مصر میں آباد ہو گئے تھے اور مصریوں کے غلام ہونا قبول کر چکے تھے ۔ حضرت یعقوب علیہ السّلام نے جاتے ہوئے مسجد الاقصٰی فلسطینی باشندوں کے سپرد کر دی تھی جو کہ نیک لوگ تھے مگر بنی اسرائیل میں سے نہیں تھے ۔
حضرت یوسف علیہ السّلام کے 300 سال بعد حضرت موسیٰ علیہ السّلام مصر میں پیدا ہوئے ۔ جس سرزمین پر یہودی اپنی میراث ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اسے انہوں نے اپنی مرضی سے حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے 400 سال پیشتر خیر باد کہہ کر مصر میں دولت کی خاطر غلام بننا قبول کیا تھا۔
حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے 40 سال بعد تک بنی اسرائیل صحرائے سینائی میں بھٹکتے رہے یہاں تک کہ ان کی اگلی نسل آ گئی لیکن اگر یہودیوں کی بات مان لی جائے تو بھی یہ حکومت اس وقت مکمل طور پر ختم ہو گئی تھی جب آج سے 2591 سال قبل بابل والوں نے اس پر قبضہ کر کے بمع عبادت گاہ سب کچھ مسمار کر دیا تھا اور بنی اسرائیل کو وہاں سے نکال کر اپنا غلام بنا لیا تھا ۔ بابل عراق کے شمالی علاقہ میں تھا اور ہے۔
اسرائیل کے تمام لیڈروں کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت کھُل کر سامنے آ جاتی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی فلسطین تو کیا سرزمینِ عرب سے بھی تعلق نہیں رکھتا ۔ تھیوڈور ہرستل بڈاپسٹ ہنگری کا تھا ۔ بن گوریاں پولانسک پولینڈ کا ۔ گولڈا میئر کِیو یوکرَین کی ۔ مناخم بیگِن بریسٹ لِٹواسک روس کا ۔ یِتسہاک شمِیر رُوزینوف پولینڈ کا ۔ خائم وائسمَین جو اسرائیل کا پہلا صدر بنا وہ موٹول پولینڈ کا تھا ۔
ثابت یہی ہوتا ہے کہ نہ تو اسرائیل کے لیڈروں کا فلسطین سے کوئی تعلق تھا یا ہے اور نہ فلسطین یا اس کا کوئی حصہ کبھی بھی یہودیوں کی مملکت تھا ۔ ریاست اسرائیل کا وجود جور و جبر کا مرہون منت ہے ۔ اگر یہ اصول مان لیا جائے کہ چونکہ 1005 قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام کی حکومت شروع ہونے سے وہاں بابل والوں کے قبضہ تک 400 سال یہودی فلسطین کے علاقہ میں رہے [یعنی آج سے 2610 سے 3010 سال پہلے تک] تو اس کی بنیاد پر یہودیوں کی ریاست وہاں ہونا چاہیئے تو پھر ہسپانیہ ۔ مشرقی یورپ ۔ مغربی چین ۔ مغربی روس اور ہندوستان پر 800 سال یا اس سے زیادہ عرصہ مسلمانوں کی حکومت رہی ہے چنانچہ یہ سارے ملک مسلمانوں کے حوالے کر دیئے جائیں ۔ اِسی طرح اور کئی ملکوں کا تنازع کھڑا ہو جائے گا ۔ کوئی عجب نہيں کہ کل کو بھارت کے ہندو کہیں کہ موجودہ پاکستان کے کافی علاقہ پر تو ہمارے موریہ خاندان چندر گپت اور اشوک کمار (322 سے 183 قبل مسیح) نے 129 سال حکومت کی تھی اور اسے واپس لینے کے لئے بھارت پاکستان پر حملہ کردے اور امریکہ وغیرہ اسرائیل کے متذکّرہ اصول پر بھارت کا ساتھ دیں ۔ اِسی طرح مسلمانوں کا بھی حق بنتا ہے کہ سارے مِل کر جنوبی اور مشرقی یورپ پر حملہ کردیں کہ یہاں کِسی زمانہ میں مسلمانوں کی حکومت تھی ۔ قدیم امریکی موجودہ سفید فام امریکیوں کو جو کہ دراصل انگریز ۔ جرمن ۔ ہسپانوی وغیرہ ہیں امریکہ سے نکل جانے کا کہیں ۔ آسٹریلیا کے اصل باشندوں کی خاطر سفید فام آسٹریلویوں کو نکل جانے کا حکم دیا جائے ۔ اگر یہ سب کچھ نہیں ہو سکتا تو پھر اِسرائیل بنانا کِس طرح جائز ہے ؟
حکیم الامت علامہ اقبال نے اسی لئے فرمایا تھا:
تاریخ
آسٹروی یہودی تھیوڈور ہرستل یا تیفادار ہرستل سیاسی صیہونیت کا بانی ہے ۔ وہ بڈاپسٹ میں پیدا ہوا اور ویانا میں تعلیم پائی۔ اس کا اصلی نام بن یامین بتایا جاتا ہے ۔ اس نے جرمن زبان میں ایک کتاب ” ڈر جوڈن شٹاٹ” یعنی یہودی ریاست لکھی جس کا انگریزی ترجمہ اپریل 1896 میں ہوا۔ اس ریاست کے قیام کے لئے ارجنٹائن یا مشرق وسطی کا علاقہ تجویز کیا گیا تھا۔ برطانوی حکومت نے ارجنٹائن میں یہودی ریاست قائم کرنے کی سخت مخالفت کی اور اسے فلسطین میں قائم کرنے پر زور دیا۔ لارڈ بیلفور نے 1905ء میں جب وہ برطانیہ کا وزیرِ اعظم بنا تو برطانیہ میں یہودیوں کا داخلہ روکنے کے لئے ایک قانون منظور کرایا اور اُس کے بعد برطانیہ نے مندرجہ ذیل ڈکلیئریشن منظور کی:
ترجمہ: حکومتِ برطانیہ اِس کی حمائت کرتی ہے کہ فلسطین میں یہودیوں کا وطن بنایا جائے۔
اس کے بعد باسل، سوئٹزرلینڈ میں صیہونی کانگریس کا اِجلاس ہوا جس میں فلسطین میں خالص صیہونی ریاست بنانے کی منظوری دی گئی اور ساتھ ہی بین الاقوامی صیہونی تنظیم بنائی گئی تاکہ وہ صیہونی ریاست کا قیام یقینی بنائے۔ اس ریاست کا جو نقشہ بنایا گیا اس میں دریائے نیل سے لے کر دریائے فرات تک کا سارا علاقہ شامل دِکھایا گیا یعنی مصر کا دریائے نیل سے مشرق کا علاقہ بشمول پورٹ سعید ۔ مکمل فلسطین ۔ اردن اور لبنان، شام اور عراق کا دو تہائی علاقہ اور سعودی عرب کا ایک چوتھائی علاقہ۔
فلسطین میں یہودی ریاست بنانے کے لئے وہاں بڑی تعداد میں یہودی داخل کرنا مندرجہ بالا پروگرام کا اہم حصہ تھا اور اس کے لئے مسلمانوں کو فلسطین سے باہر دھکیلنا بھی ضروری قرار پایا ۔ 1895ء میں تھیوڈور ہرستل نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا:
ترجمہ: ہم فلسطین کے غریب عوام کو فلسطین سے باہر ملازمت دِلانے کا چکمہ دینے کی کوشش کریں گے اور ساتھ ہی اُن کو فلسطین میں ملازمت نہیں کرنے دیں گے۔
باقی صیہونیوں نے راست اقدام کا منصوبہ بناتے ہوئے مندرجہ ذیل فیصلہ کیا:
ترجمہ: جونہی ہماری تعداد فلسطین میں زیادہ ہو گی ہم زمینوں پر قبضہ کر لیں گے ۔ ہم طاقتور ہو جائیں گے پھر ہم دریائے اُردن کے بائیں طرف کے علاقہ کی خبر لیں گے اور فلسطینیوں کو وہاں سے بھی نکال دیں گے ۔ وہ جائیں عرب مُلکوں کو۔
نظریہ یہ تھا کہ جب اس طرخ کافی یہودی آباد ہو جائیں گے تو اس وقت برطانیہ فلسطین میں حکومت یہودیوں کے حوالے کر دے گا ۔ مگر ہوا یہ کہ شروع میں کچھ فلسطینی عربوں نے اپنی زمین یہودیوں کے ہاتھ فروخت کی مگر باقی لوگوں نے ایسا نہ کیا جس کے نتیجہ میں باون سال گذرنے کے بعد 1948ء میں فلسطین کی صرف 6 فیصد زمین یہودیوں کی ملکیت تھی ۔ یہودیوں نے 1886ء سے ہی یورپ سے نقل مکانی کر کے فلسطین پہنچنا شروع کر دیا تھا جس سے 1897ء میں فلسطین میں یہودیوں کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کر گئی تھی ۔ اُس وقت فلسطین میں مسلمان عربوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد تھی۔ 1903ء تک یورپ اور روس سے ہزاروں یہودی فلسطین پہنچ گئے اور ان کی تعداد 25000 کے لگ بھگ ہوگئی ۔ 1914 تک مزید چالیس ہزار کے قریب یہودی یورپ اور روس سے فلسطین پہنچے ۔
خفیہ معاہدہ
لارڈ بیلفور نے 1905ء میں جب وہ برطانیہ کا وزیرِ اعظم تھا تو اِس خیال سے کہ کہیں روس میں قتلِ عام کی وجہ سے یہودی برطانیہ کا رُخ نہ کر لیں ۔ برطانیہ میں یہودیوں کا داخلہ روکنے کے لئے ایک قانون منظور کرایا اور پھر کمال عیّاری سے متذکّرہ بالا ڈیکلیریشن منظور کرائی ۔ مصر میں برطانیہ کے ہائی کمشنر ہنری میک موہن نے 1916ء میں وعدہ کیا کہ عربوں کے وہ علاقے جو سلطنت عثمانیہ میں شامل تھے آزاد کردیئے جائیں گے مگر برطانیہ نے عیّاری برتتے ہوئے ایک خفیہ معاہدہ “سائیکس پِیکاٹ” کیا جس کی رو سے برطانیہ اور فرانس نے عربوں کے علاقہ کو اپنے مشترکہ اِنتظام کے تحت تقسیم کر لیا۔
چنانچہ مصر سے بدعہدی کرتے ہوئے انگریزوں نے پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر 1918ء میں فلسطین پر قبضہ کر لیا ۔ جمعیت الاقوام (لیگ آف نیشنز) نے 25 اپریل 1920 کو فلسطین پر انگریزوں کے قبضہ کو جائز قرار دے دیا ۔ برطانیہ نے مزید عیّاری یہ کی کہ 1917ء میں برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر بیلفور نے برطانیہ کی طرف سے لارڈ راتھ شِلڈ نامی صیہونی لیڈر کو ایک خط لکھا جس میں فلسطین میں یہودی ریاست بنانے کی یقین دہانی کرائی
بندر بانٹ
فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کا مقصد ایک صیہونی اڈا بنانا تھا جو وہاں سے فلسطینیوں کے انخلاء اور ان کی جائیدادوں پر قبضے کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا تھا ۔ چنانچہ جوں جوں یورپ سے یہودی آتے گئے توں توں فلسطینیوں کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا جاتا رہا ۔ برطانیہ نے دوسری جنگ عظیم سے ہوش سنبھلنے کے بعد 1947ء میں فلسطین کا معاملہ اقوام متحدہ کے حوالے کر دیا ۔ اس وقت تک فلسطین میں یہودیوں کی تعداد ایک تہائی ہو چکی تھی لیکن وہ فلسطین کی صرف 6 فیصد زمین کے مالک تھے ۔ اقوام متحدہ نے ایک کمیٹی بنائی جس نے سفارش کی کہ فلسطین کےساڑھے 56 فیصد علاقہ پر صرف 6 فیصد کے مالک یہودیوں کی ریاست اسرائیل بنا دی جائے اور ساڑھے 43 فیصد علاقہ میں سے بیت المقدس کو بین الاقوامی بنا کر باقی تقریبا 40 فیصد فلسطین کو 94 فیصد فلسطین کے مالک مسلمانوں کے پاس رہنے دیا جائے ۔ 29 نومبر 1947 کو جنرل اسمبلی نے 13 کے مقابلہ میں 33 ووٹوں سے اس کی منظوری دے دی۔ 10 ممبر غیر حاضر رہے ۔ فلسطینیوں نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا اور صیہونیوں نے فلسطینی مسلمانوں پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیئے ۔
صیہونی دہشت گردی
صيہونيوں نے بیت المقدس میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل اڑا دیا جس میں 91 آدمی مارے گئے اور بہت سے زخمی ہوئے ۔ ان میں برطانوی فوجی ۔ فلسطینی مسلمان ۔ عیسائی اور چند یہودی شامل تھے ۔ یہ دنیا میں پہلی بارودی دہشت گردی تھی ۔ برطانوی حکومت پہلے ہی مزید یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کے امریکی دباؤ سے پریشان تھی برطانوی فوجیوں کی ہلاکت کی وجہ سے برطانیہ کے اندر حکومت پر فلسطین سے فوجیں نکالنے کا دباؤ پڑنے لگا ۔ چنانچہ برطانیہ نے اعلان کر دیا کہ وہ فلسطین میں اپنی حکومت 15 مئی 1948 کو ختم کر دے گا ۔ صیہونیوں نے جن کے لیڈر معروف دہشت گرد تھے فلسطینیوں پر حملے اور ان کا قتل تو پہلے ہی شروع کر دیا تھا لیکن 1948ء میں اچانک فلسطین کے مسلمانوں پر بڑے پیمانہ پر عسکری کمانڈو حملے کر کے یہودیوں نے بیت المقدّس کے مغربی حصہ اور کچھ دوسرے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور یہ سلسلہ جاری رہا ۔ امریکہ صیہونیوں کی پشت پناہ پر تھا اور ان کو مالی اور فوجی امداد مہیا کر رہا تھا ۔
صیہونی ریاست کے قیام کا اعلان
اس طرح روس یورپ اور بالخصوص امریکہ کی مدد سے یہودیوں 14 مئی 1948 کو 4 بجے بعد دوپہر اپنی دو ہزار سال پرانی آرزو ”یہودی ریاست اسرائیل” کا اعلان کر دیا اور مسلم عربوں کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کر کے اِسرائیلی ریاست بنالی ۔ یہ دراصل صیہونی ریاست تھی کیونکہ کئی یہودی مذہبی پیشواؤں نے اس کی مخالفت کی ۔ اگلے دن برطانیہ کے بقیہ فوجی بھی اپنی چھاؤنیاں صیہونیوں کے حوالے کر کے چلے گئے ۔ اس کے بعد مار دھاڑ روز کا معمول بن گیا ۔ صیہونی مسلح دستے مسلمان عربوں کی املاک پر قبضہ کرتے چلے گئے کیونکہ وہ دہشت گرد تنظیموں کے تربیت یافتہ کمانڈو تھے اور انہيں امریکہ اور برطانیہ کی امداد بھی حاصل تھی ۔ یہودیوں کی دہشت گرد تنظیموں کے نام بدلتے رہے کیونکہ وہ یورپ میں بھی دہشت گردی کرتی رہیں اور دہشت گرد قرار دی جاتی رہیں ۔ مشہور نام یہ ہیں ۔ ہاگانہ، اوردے ونگیٹ، ارگون، لیہی، لیکوڈ، ہیروت، مالیدت۔
چند مشہور دہشت گرد لیڈروں کے نام یہ ہیں: موشے دیان جو 1953 سے 1957ء تک اسرائیل کی مسلح افواج کا چیف آف سٹاف رہا ۔ مناخم بیگن جو 1977 میں اسرائیل کا وزیراعظم بنا ۔ یتزہاک شمیر جو 1983 میں وزیراعظم بنا ۔ ایریئل شیرون جو سابقہ وزیراعظم ہے ۔ موشے دیان کو دہشت گرد ہونے کے باوجود برطانوی فوج میں کسی خاص کام کے لئے کچھ عرصہ کے لئے بھرتی کیا گیا تھا ۔ وہ برطانوی فوج کی ملازمت چھوڑ کر پھر صیہونی دہشت گرد تنظیم میں شامل ہوا اور اس کا کمانڈر بن گیا ۔ عربوں کی املاک پر قبضہ کرنے کے لئے جو حملے کئے جاتے رہے ان کا کمانڈر موشے دیان ہی تھا ۔ ان دہشت گرد تنظیموں نے نہ صرف وہ علاقے زبردستی قبضہ میں لئے جو اقوام متحدہ یہودیوں کو دینا چاہتی تھی بلکہ ان علاقوں پر بھی قبضہ کیا جو اقوام متحدہ کے مطابق فلسطینیوں کے تھے ۔ قبضہ کے دوران جو فلسطینی مسلمان نظر آتا اسے قتل کر دیا جاتا ۔ مناخم بیگن اس دہشت گرد گروہ کا سربراہ تھا جس نے بیت المقدّس میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل اڑایا تھا۔ صابرہ اور شتیلا کو گھیرے میں لے کر وہاں مقیم 4 ہزار نہتے فلسطینی مہاجرین کو قتل کرنے کا حکم دینے والا ایریئل شیرون ہی تھا جو اُن دنوں اسرائیل کا وزیر دفاع تھا ۔
صيہونی توسيعی پروگرام پر عملدرآمد
اسرائیل نے 1955ء میں غزہ اور اردن کی شہری آبادیوں پر چھاپہ مار حملے شروع کر دیئے ۔ جس سے فلسطینی مسلمان تو مرتے رہے مگر اسرائیل کو خاص فائدہ نہ ہوا ۔ 1956ء میں برطانیہ ۔ فرانس اور اسرائیل نے مصر پر بھرپور حملہ کر دیا جس میں مصر کے ہوائی اڈوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔ ان مشترکہ فوجوں نے سینا، غزہ اور مصر کی شمالی بندرگاہ پورٹ سعید پر قبضہ کر کے نہر سوئز کا کنٹرول سنبھال لیا جو حملے کی بنیادی وجہ تھی ۔ روس کی دھمکی پر اقوام متحدہ بیچ میں آ گئی اور جنگ بندی کے بعد سارا علاقہ خالی کرنا پڑا ۔
اسرائیل نے امریکہ اور دوسرے پالنہاروں کی پشت پناہی سے 5 جون 1967 کو مصر، اردن اور شام پر حملہ کر دیا اور غزہ، جزیرہ نما سینا، مشرقی بیت المقدّس، گولان کی پہاڑیوں اور دریائے اُردن کے مغربی علاقہ پر قبضہ کر لیا ۔ اس جنگ میں امریکہ کی مدد سے مصر ۔ اردن اور شام کے راڈار منجمد کر دیئے گئے اور اسرائیلی ہوائی جہازوں نے مصر کے ہوائی جہازوں کو زمین پر ہی تباہ کر دیا ۔ اقوام متحدہ نے ایک قرار داد 242 کے ذریعے اسرائیل کو تمام مفتوحہ علاقہ خالی کرنے کو کہا جس پر آج تک عمل نہیں کیا گیا ۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کے مطابق مزید پانچ لاکھ فلسطینیوں کو اپنے ملک فلسطین سے مصر ۔ شام ۔ لبنان اور اُردن کی طرف دھکیل دیا گیا ۔
جنگ یوم کپور 1973ء
مصری فوج کے ایک طبقہ پر 1967ء کی شکست نے گہرا اثر چھوڑا تھا ۔ انور سادات کے صدر بنتے ہی انہو ں نے اپنا صحرائے سینا کا علاقہ اسرائیل سے واپس لینے کی تجاویز دینا شروع کر دیں ۔ اس وقت تک اسرائیل نے بلڈوزروں کی مدد سے نہر سوئز کے کنارے کنارے 20 میٹر اونچی ریت کی دیوار بنادی تھی ۔ مصری فوج دریائے نیل کے کنارے ایک ریت کی دیوار بنا کر اسے عبور کرنے کی مشقیں کرنے لگی ۔ ان کو بہت مایوسی ہوئی کیونکہ ہر قسم کے بم اور میزائل ریت کی دیوار میں شگاف ڈالنے میں ناکام رہے ۔ ہوتا یوں تھا کہ میزائل ریت کے اندر پھٹتا مگر دیوار کو خاص نقصان نہ ہوتا ۔
عام مشاہدہ کی بات ہے کہ ریت کا ڈھیر لگایا جائے تو ریت سرک کر زمین کے ساتھ زیادہ سے زیادہ 40 درجے کا زاویہ بناتی ہے ۔ اس طرح ریت کی 2 میٹراونچی دیوار کے لئے بنیاد یا قاعدہ ساڑھے پانچ میٹر چوڑا بنتا ہے جبکہ اوپر سے چوڑائی صفر ہو ۔ اگر 20 میٹر اونچی ریت کی دیوار بنائی جائے جس کی اوپر چوڑائی صرف 5 میٹر رکھی جائے تو زمین پر اس کی چوڑائی 60 میٹر یا 197 فٹ ہو گی ۔ اتنی چوڑی دیوار کو توڑنا ناممکن سمجھ کر ہی اسرائیل نے یہ دیوار بنائی ہو گی۔ ریت کو اگر کسی جگہ سے بھی ہٹائیں تو اس کے اوپر اور داہنے بائیں والی ریت اس کی جگہ لے لیتی ہے ۔
مصری فوج کا ایک میجر جو کہ مکینکل انجنیئر تھا ریت کی دیوار گرانے کے ناکام تجربے دیکھتا رہا تھا۔ ایک دن ڈویژن کمانڈر نے اس معاملہ پر غور کے لئے تمام افسران کا اجلاس طلب کیا ۔ اس میجر نے تجویز دی کہ ریت کی دیوار آتشیں اسلحہ کی بجائے پانی سے گرائی جا سکتی ہے مگر کمانڈر نے اس میجر کی حوصلہ افزائی نہ کی ۔ وہ میجر دُھن کا پکّا تھا اُس نے کہیں سے ایک پانی پھینکنے والا پمپ لے کر ایک کشتی پر نصب کیا اور ریت کی ایک چھوٹی سی دیوار بنا کر دریا نیل کا پانی اس پمپ سے نوزل کی مدد سے ریت کی دیوار پر ایک ہی جگہ پھینکتا رہا ۔ تھوڑی دیر میں ریت کی دیوار میں شگاف بن گیا ۔ اُس نے اپنے کمانڈر کو بتایا مگر کمانڈر نے پھر بھی حوصلہ افزائی نہ کی ۔
کچھ عرصہ بعد صدر انور سادات اس علاقہ کے دورہ پر آیا تو اس میجر نے اس کے سامنے تجربہ کرنا چاہا مگر کمانڈر نے ٹال دیا۔ بعد میں کسی طرح اس میجر کی انور سادات سے ملاقات ہو گئی اور میجر نے اس سے اپنے تجربہ کا ذکر کیا ۔ انور سادات نے میجر سے کہا کہ خفیہ طور پر تجربہ کرتا رہے اور پھر حساب لگا کر بتائے کہ 20 میٹر اونچی دیوار میں شگاف ڈالنا ممکن بھی ہے یا نہیں۔ میجر دلیر ہو گیا اور ملک میں سب سے بڑا پمپ حاصل کر کے ریت کی بڑی دیوار بنا کر تجربہ کیا جو کامیاب رہا ۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اس سے بڑے پمپ چاہئے تھے جو صرف خاص طور پر آرڈر دے کر یورپ کی کسی بڑی کمپنی سے بنوائے جا سکتے تھے اور راز فاش ہونے کا خطرہ بھی تھا۔ بہر کیف کسی طرح بہت بڑے پمپ بنوا کر درآمد کر لئے گئے ۔ پھر مضبوط کشتیاں بنائی گئیں 6 کشتیوں پر چھ چھ پمپ نصب کئے گئے ۔
جب مذاکراتی اور سیاسی ذرائع سے اسرائیل پر کوئی اثر نہ ہوا تو مصر اور شام نے 1973ء میں رمضان کے مہینے میں اسرائیل پر حملہ کر دیا۔ گولوں کی بارش کے دوران یہ کشتیاں نہر سوئز میں اتار دی گئیں اور 20 میٹر اونچی دیوار کے تین مقامات کا رُخ کر کے پمپ چلا دیئے ۔ 6 کشتیوں کے پمپ باری باری چلائے گئے اور چند گھنٹوں میں بیس میٹر اونچی دیوار میں تین جگہوں پر کافی چوڑے شگاف بن گئے ۔ پُل بنا کر مصری فوج ہلکے ٹینکوں سمیت صحرائے سینا میں داخل ہو گئی اور ریت کی دیوار کے دوسری طرف موجود ساری اسرائیلی فوج کا صفایا کر دیا ۔
یہ حملہ جنگ یوم کپور، جنگ رمضان یا جنگ اکتوبر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مصری فوج نہر سوئز کے کنارے اسرائیل کی بنائی ہوئی بیس میٹر اونچی ریت کی دیوار میں شگاف ڈال کر سینا میں داخل ہو گئی اور دیوار کے پار موجود اسرائیلی فوج کا صفایا کر دیا ۔ مصر نے اسرائیلی فضائیہ کے دو سو کے قریب ہوائی جہاز سام مزائیلوں سے مار گرائے ۔ اسرائیل کے گھر گھر میں رونا پڑ چکا تھا ۔ ان کے 6 ہزار فوجی اور 200 پائلٹ ہلاک ہو چکے تھے اور مصری فوج صحرائے سینا عبور کر کے اسرائیل کی سرحد کے قریب پہنچ گئی تھی ۔ اگر امریکہ پس پردہ اسرائیل کی بھر پور امداد نہ کرتا تو فلسطین کامسئلہ حل ہو چکا تھا۔ امریکہ بظاہر جنگ میں حصہ نہیں لے رہا تھا مگر اس کا طیارہ بردار بحری جہاز سینا کے شمالی سمندر میں ہر طرح سے لیس موجود تھا اس کے راڈاروں اور ہوائی جہازوں نے اسرائیل کے دفاع کے علاوہ مصر میں پورٹ سعید کے پاس ہزاروں اسرائیلی کمانڈو اتارنے میں بھی رہنمائی اور مدد کی ۔ اسرائیلی کمانڈوز نے پورٹ سعید کا محاصرہ کر لیا جو کئی دن جاری رہا ۔ وہاں مصری فوج موجود نہ تھی کیونکہ اسے جغرافیائی لحاظ سے کوئی خطرہ نہ تھا ۔ اپنے دور حکومت میں جمال عبدالناصر نے ہر جوان کے لئے 3 سال کی ملٹری ٹریننگ لازمی کی تھی جو اس وقت کام آئی ۔ پورٹ سعید کے شہریوں نے اسرائیلی کمانڈوز کا بے جگری سے مقابلہ کیا اور انہیں شہر میں داخل نہ ہونے دیا ۔ سعودی عرب کے بادشاہ فیصل نے تیل کا ہتھار موثّر طور پر استعمال کیا ۔ پھر امریکہ، روس اور اقوام متحدہ نے زور ڈال کر جنگ بندی کرا دی ۔
دہشت گرد حکمران
1953ء میں ہی ایک بدنام زمانہ دہشت گرد موشے دیان چیف آف سٹاف اسرائیل آرمڈ فورسز بن گیا تھا مگر صیہونی دہشت گرد تنظیمیں (ارگون ۔ لیہی ۔ ہیروت ۔ لیکوڈ وغیرہ) اسرائیل میں 1977ء تک حکومت میں نہ آسکیں اس کے باوجود فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و تشدّد ہوتا رہا ۔ 1977ء میں ارگون کے لیڈر مناخم بیگن نے وزیراعظم بنتے ہی غزہ اور باقی علاقے میں جن پر 1967ء میں قبضہ کیا گیا تھا زمینی حقائق کو بدلنے کے لئے تیزی سے یہودی بستیاں بسانی شروع کر دیں تا کہ کوئی ان سے علاقہ خالی نہ کرا سکے ۔ ان صیہونی تنظیموں کا پروگرام ایک بہت بڑی صیہونی ریاست بنانے کا ہے جس کا ذکر ہوچکا ہے۔ یہ نقشہ تھیوڈور ہرستل جس نے صیہونی ریاست کی تجویز 1896ء میں پیش کی تھی نے ہی تجویز کیا تھا اور یہی نقشہ 1947ء میں دوبارہ ربی فشمّن نے پیش کیا تھا ۔
اسرائیل نے 1982ء میں لبنان پر بہت بڑا حملہ کر کے اس کے بہت سے علاقہ پر قبضہ کر لیا ۔ اسرائیلی فوج نے فلسطینی مہاجرین کے دو کیمپوں صابرا اور شتیلا کو گھیرے میں لے کر اپنے مسلحہ حواریوں فلینجسٹس کی مدد سے وہاں مقیم چار ہزار نہتے فلسطینی مہاجرین کو قتل کروا دیا جن میں عورتیں بچے اور بوڑھے شامل تھے ۔ یہ کاروائی ایریئل شیرون کے حکم پر کی گئی تھی جو اُن دنوں اسرائیل کا وزیر دفاع تھا ۔
يہودی رياست کا حق
حضرت اسحاق علیہ السّلام مسجد الاقصٰی میں عبادت کرتے رہے مگر حج کے لئے وہ مکّہ مکرّمہ میں خانہ کعبہ ہی جاتے تھے ۔ ان کے پوتے حضرت یوسف علیہ السّلام جب مصر کے بادشاہ بنے تو انہوں نے اپنے خاندان کے 31 اشخاص کو جن میں ان کے والد حضرت یعقوب علیہ السّلام اور سارے بھائی بھی شامل تھے مصر بلا لیا تھا ۔ بنی اسرائیل کے یہودی پہلے ہی دولت و ثروت کی خاطر فلسطین چھوڑ کر مصر میں آباد ہو گئے تھے اور مصریوں کے غلام ہونا قبول کر چکے تھے ۔ حضرت یعقوب علیہ السّلام نے جاتے ہوئے مسجد الاقصٰی فلسطینی باشندوں کے سپرد کر دی تھی جو کہ نیک لوگ تھے مگر بنی اسرائیل میں سے نہیں تھے ۔
حضرت یوسف علیہ السّلام کے 300 سال بعد حضرت موسیٰ علیہ السّلام مصر میں پیدا ہوئے ۔ جس سرزمین پر یہودی اپنی میراث ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اسے انہوں نے اپنی مرضی سے حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے 400 سال پیشتر خیر باد کہہ کر مصر میں دولت کی خاطر غلام بننا قبول کیا تھا۔
حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے 40 سال بعد تک بنی اسرائیل صحرائے سینائی میں بھٹکتے رہے یہاں تک کہ ان کی اگلی نسل آ گئی لیکن اگر یہودیوں کی بات مان لی جائے تو بھی یہ حکومت اس وقت مکمل طور پر ختم ہو گئی تھی جب آج سے 2591 سال قبل بابل والوں نے اس پر قبضہ کر کے بمع عبادت گاہ سب کچھ مسمار کر دیا تھا اور بنی اسرائیل کو وہاں سے نکال کر اپنا غلام بنا لیا تھا ۔ بابل عراق کے شمالی علاقہ میں تھا اور ہے۔
اسرائیل کے تمام لیڈروں کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت کھُل کر سامنے آ جاتی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی فلسطین تو کیا سرزمینِ عرب سے بھی تعلق نہیں رکھتا ۔ تھیوڈور ہرستل بڈاپسٹ ہنگری کا تھا ۔ بن گوریاں پولانسک پولینڈ کا ۔ گولڈا میئر کِیو یوکرَین کی ۔ مناخم بیگِن بریسٹ لِٹواسک روس کا ۔ یِتسہاک شمِیر رُوزینوف پولینڈ کا ۔ خائم وائسمَین جو اسرائیل کا پہلا صدر بنا وہ موٹول پولینڈ کا تھا ۔
ثابت یہی ہوتا ہے کہ نہ تو اسرائیل کے لیڈروں کا فلسطین سے کوئی تعلق تھا یا ہے اور نہ فلسطین یا اس کا کوئی حصہ کبھی بھی یہودیوں کی مملکت تھا ۔ ریاست اسرائیل کا وجود جور و جبر کا مرہون منت ہے ۔ اگر یہ اصول مان لیا جائے کہ چونکہ 1005 قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام کی حکومت شروع ہونے سے وہاں بابل والوں کے قبضہ تک 400 سال یہودی فلسطین کے علاقہ میں رہے [یعنی آج سے 2610 سے 3010 سال پہلے تک] تو اس کی بنیاد پر یہودیوں کی ریاست وہاں ہونا چاہیئے تو پھر ہسپانیہ ۔ مشرقی یورپ ۔ مغربی چین ۔ مغربی روس اور ہندوستان پر 800 سال یا اس سے زیادہ عرصہ مسلمانوں کی حکومت رہی ہے چنانچہ یہ سارے ملک مسلمانوں کے حوالے کر دیئے جائیں ۔ اِسی طرح اور کئی ملکوں کا تنازع کھڑا ہو جائے گا ۔ کوئی عجب نہيں کہ کل کو بھارت کے ہندو کہیں کہ موجودہ پاکستان کے کافی علاقہ پر تو ہمارے موریہ خاندان چندر گپت اور اشوک کمار (322 سے 183 قبل مسیح) نے 129 سال حکومت کی تھی اور اسے واپس لینے کے لئے بھارت پاکستان پر حملہ کردے اور امریکہ وغیرہ اسرائیل کے متذکّرہ اصول پر بھارت کا ساتھ دیں ۔ اِسی طرح مسلمانوں کا بھی حق بنتا ہے کہ سارے مِل کر جنوبی اور مشرقی یورپ پر حملہ کردیں کہ یہاں کِسی زمانہ میں مسلمانوں کی حکومت تھی ۔ قدیم امریکی موجودہ سفید فام امریکیوں کو جو کہ دراصل انگریز ۔ جرمن ۔ ہسپانوی وغیرہ ہیں امریکہ سے نکل جانے کا کہیں ۔ آسٹریلیا کے اصل باشندوں کی خاطر سفید فام آسٹریلویوں کو نکل جانے کا حکم دیا جائے ۔ اگر یہ سب کچھ نہیں ہو سکتا تو پھر اِسرائیل بنانا کِس طرح جائز ہے ؟
حکیم الامت علامہ اقبال نے اسی لئے فرمایا تھا:
ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پہ حق نہیں کیوں اہل عرب کا
ربط