حسینی
محفلین
اسرائیل تمہارا دشمن ہے نہ کہ ایران
تحرير: عباس حسینی
"القدس العربی " عربی اخبار ہے جو کہ لندن سے چھپتا ہے اور نسبتا معتدل اخبار شمار ہوتا ہے۔ بسام البدارین اس اخبار کے اردن میں دفتر کے اداری مدیر ہیں۔ کچھ دن پہلے انہوں نے مذکورہ بالا عنوان کے تحت ایک کالم لکھا۔واقعہ بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ وہ لوگ رمضان میں کسی افطار پارٹی میں مدعو تھے جہاں کسی صحافی نے سلفی شیخ سے ایک مشکل سوال پوچھا۔ یا شیخ اگر آپ کے ہاتھ میں دو میزائل ہوں اور آپ کو عمان سے ان کو فائر کرنا ہو تو کس طرف فائر کریں گے؟؟ اسرائیل کی طرف یا قم کی طرف؟
سلفی شیخ نے مبہم سا جواب دیتے ہوئے کہا کہ "قم میں بہت سی برائیاں ہیں جن کا مقابلہ کرنا چاہیے لیکن میں اسرائیل سے اپنی دشمنی کی تاردخ کو بھی نہیں بھولوں گا۔"
یہ دشمن کی سازش ہے کہ وہ ہم مسلمانوں کو آپس کے اختلافات میں الجھا کر اصل دشمن اور ہدف کو بچانا چاہتے ہیں۔عرب دنیا کو اور خاص کر خلیجی ممالک کو امریکہ نے ایرانی ایٹم بم سے اتنا ڈرادیاہے کہ اب ان ممالک کو اسرائیل سے زیادہ ایران خطرہ لگنے لگا ہے۔حالانکہ ایران کے سپریم لیڈر بارہا کہ چکے ہیں کہ ہمارے نزدیک ایٹم بم کا بنانا او ر اس کا استعمال شرعا حرام ہے کیونکہ اس میں سارے بے گناہ لوگ مر جاتے ہیں۔ امریکہ براہ راست آکر کبھی بھی ایران کا مقابلہ نہیں کر سکتا ، لہذا اس کی خواہش یہ ہےکہ ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلمانوں کو ہی استعمال کیا جائے اور چونکہ ایران شیعہ اسلامی اسٹیٹ ہے لہذا سنی ممالک کو اس کے مدمقابل کھڑا کردیا جائے۔
یہاں پر ہمیں تمام تر جذبات اور تعصبات سے پاک ہو کر سوچنا چاہیےکہ واقعا ایران عربوں کا دشمن ہے یا اسرائیل ؟ ایرانی انقلاب سے پہلے ایران اسرائیل کا بہترین دوست تھا ، تہران میں اسرائیلی سفارت خانہ کام کرتا تھااور اسرائیلی جھنڈا لہراتا تھا۔ایران کے تمام ہمسایہ ممالک بشمول خلیجی ممالک ایران کا احترام کرتے تھے۔ تین جزیروں کا بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ایران سب سے زیادہ تیل برآمد کر سکتا تھا۔ ایران مغرب سے سب سے زیادہ اسلحہ خریدتا تھا۔ ایران کی گلیاں مغربی پروڈکس سے کھچاکھچ بھری تھیں۔ نہ امریکہ کو ایران سے کوئی مسئلہ تھا اور نہ عرب ممالک کو۔
لیکن اسلامی انقلاب کے بعد امریکہ عرب دنیا کو ایران کے خلاف استعمال کرنا شروع کرتا ہے تاکہ نئی جنگ صفین کا آغاز ہو۔ چاہے وہ صدام حسین کے ذریعے نوزائیدہ اسلامی مملکت پر مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ ہو یاخلیجی ممالک کو ڈرا دھمکا کر ایران کو دشمن باور کرانا۔ ادھر ایران ہے کہ عرب دنیا کی حمایت اور مدد کی قیمت اب بھی چکا رہا ہے۔ مسئلہ فلسطین کو ہی اٹھائیے۔ قبلہ اول ، القدس، انبیاء کی سرزمین ہونے کے علاوہ مظلومین کا بھی مسئلہ ہے اور تمام مسلمانوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ لیکن اس حوالے سے آپ ایران اور عرب دنیا کے کردار اکا ذرا مقایسہ کریں۔
حضرت امام خمینی اسرائیل کو قلب عالم اسلام کا خنجر اور سرطانی غدود سمجھتے ہوئےفلسطین کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ رمضان کا آخری جمعہ یوم القدس قرار دیا جاتا ہےاورآج بھی یوم القدس پر ان کے فرمان پر لبیک کہتے ہوئے دنیا کے سینکڑوں شہروں میں اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کے حق میں جلوس نکلتے ہیں۔مرگ بر امریکہ اور مرگ بر اسرائیل کے نعرے لگتے ہیں۔ امام خمینی کے اس فرمان نے القدس کے مسئلہ کو نئی حیات بخش دی۔
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے فورا بعد اسرائیل کے سفارت خانے کو فلسطینیوں کے حوالے کیا جاتا ہے اور اس پر فلسطینی پرچم لہرایا جاتاہے۔ جبکہ آج کے بعض نام نہاد انقلابات کے بعد اب بھی اسرائیلی سفارت خانے نہ صرف سالم ہیں بلکہ تعلقات اور مستحکم ہو گئے ہیں۔ پیار کی پینگیں بڑھانے کے حوالے سے خفیہ خطوط سامنے آتے ہیں۔ اور بر مقابل اسلامی مقاومتی تنظیموں پرعرصہ حیات تنگ کیا جاتا ہے ، ان کی خفیہ سرنگیں تباہ کر دی جاتی ہیں۔ ادھر ایران واحد ملک ہے جو فلسطین کی مقاومتی تنطیموں کو کھلے عام اسلحہ اور مالی امداد فراہم کرتا ہے ورنہ عرب دنیا میں سوائے شام کو کوئی اور ملک اس "جرم" کو اپنے سر اٹھانے پر تیار نہیں ہوتا،چونکہ ان کو معلوم ہے اس جرم کی سزا ان کے" آقا "امریکہ اور اسرائیل نے یقینا دینی ہے۔ اگر ملک عبد اللہ یا اردوغان میں تھوڑی سی بھی جرات ہے تو حماس یا جہاد اسلامی کو کچھ اسلحہ فراہم کر کے دیکھ لیں ۔ دیکھیے حشر کیا ہوتاہے۔
سوال یہ ہے کہ ایران یہ ساری "حماقت " کرتا کیوں ہے؟ ایرانی فرس اور فلسطینی عرب ہیں۔ یہ لوگ شیعہ اور وہ لوگ سنی ہیں۔ کیوں ایران اپنے لیے دنیا بھر کی دشمنی اور اقتصادی پابندیاں خریدتا ہے؟ کیا ایران کی مصلحت اس میں نہیں تھی کہ یہود اور امریکہ ومغربی ممالک سے تحالف کر لیتا؟ ان سب کے باوجود ایران کہتاہے کہ اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے حرف غلط کی طرح مٹ جانا چاہیے۔ ایران ہولوکاسٹ کا مذاق اڑاتا ہے۔ایران قائل ہے اسرائیل سرطانی غدود ہے اور اسکا فورا کاٹنا ضروری ہےورنہ یہ پورے جسم میں سرایت کر جائے گا۔ ایران کہتا ہے کہ اسرائیل عراق ایران اور عراق کویت جنگ کے پیچھے تھا۔ اسرائیل عراق کی ، سوڈان کی، لبنان کی،شام کی اور اب مصر کی تباہی کے پیچھے ہے۔اسرائیل غاصب ہے۔ اور غاصب کے خلاف جہاد ہم سب کا فرض ہے۔
تحرير: عباس حسینی
"القدس العربی " عربی اخبار ہے جو کہ لندن سے چھپتا ہے اور نسبتا معتدل اخبار شمار ہوتا ہے۔ بسام البدارین اس اخبار کے اردن میں دفتر کے اداری مدیر ہیں۔ کچھ دن پہلے انہوں نے مذکورہ بالا عنوان کے تحت ایک کالم لکھا۔واقعہ بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ وہ لوگ رمضان میں کسی افطار پارٹی میں مدعو تھے جہاں کسی صحافی نے سلفی شیخ سے ایک مشکل سوال پوچھا۔ یا شیخ اگر آپ کے ہاتھ میں دو میزائل ہوں اور آپ کو عمان سے ان کو فائر کرنا ہو تو کس طرف فائر کریں گے؟؟ اسرائیل کی طرف یا قم کی طرف؟
سلفی شیخ نے مبہم سا جواب دیتے ہوئے کہا کہ "قم میں بہت سی برائیاں ہیں جن کا مقابلہ کرنا چاہیے لیکن میں اسرائیل سے اپنی دشمنی کی تاردخ کو بھی نہیں بھولوں گا۔"
یہ دشمن کی سازش ہے کہ وہ ہم مسلمانوں کو آپس کے اختلافات میں الجھا کر اصل دشمن اور ہدف کو بچانا چاہتے ہیں۔عرب دنیا کو اور خاص کر خلیجی ممالک کو امریکہ نے ایرانی ایٹم بم سے اتنا ڈرادیاہے کہ اب ان ممالک کو اسرائیل سے زیادہ ایران خطرہ لگنے لگا ہے۔حالانکہ ایران کے سپریم لیڈر بارہا کہ چکے ہیں کہ ہمارے نزدیک ایٹم بم کا بنانا او ر اس کا استعمال شرعا حرام ہے کیونکہ اس میں سارے بے گناہ لوگ مر جاتے ہیں۔ امریکہ براہ راست آکر کبھی بھی ایران کا مقابلہ نہیں کر سکتا ، لہذا اس کی خواہش یہ ہےکہ ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلمانوں کو ہی استعمال کیا جائے اور چونکہ ایران شیعہ اسلامی اسٹیٹ ہے لہذا سنی ممالک کو اس کے مدمقابل کھڑا کردیا جائے۔
یہاں پر ہمیں تمام تر جذبات اور تعصبات سے پاک ہو کر سوچنا چاہیےکہ واقعا ایران عربوں کا دشمن ہے یا اسرائیل ؟ ایرانی انقلاب سے پہلے ایران اسرائیل کا بہترین دوست تھا ، تہران میں اسرائیلی سفارت خانہ کام کرتا تھااور اسرائیلی جھنڈا لہراتا تھا۔ایران کے تمام ہمسایہ ممالک بشمول خلیجی ممالک ایران کا احترام کرتے تھے۔ تین جزیروں کا بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ایران سب سے زیادہ تیل برآمد کر سکتا تھا۔ ایران مغرب سے سب سے زیادہ اسلحہ خریدتا تھا۔ ایران کی گلیاں مغربی پروڈکس سے کھچاکھچ بھری تھیں۔ نہ امریکہ کو ایران سے کوئی مسئلہ تھا اور نہ عرب ممالک کو۔
لیکن اسلامی انقلاب کے بعد امریکہ عرب دنیا کو ایران کے خلاف استعمال کرنا شروع کرتا ہے تاکہ نئی جنگ صفین کا آغاز ہو۔ چاہے وہ صدام حسین کے ذریعے نوزائیدہ اسلامی مملکت پر مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ ہو یاخلیجی ممالک کو ڈرا دھمکا کر ایران کو دشمن باور کرانا۔ ادھر ایران ہے کہ عرب دنیا کی حمایت اور مدد کی قیمت اب بھی چکا رہا ہے۔ مسئلہ فلسطین کو ہی اٹھائیے۔ قبلہ اول ، القدس، انبیاء کی سرزمین ہونے کے علاوہ مظلومین کا بھی مسئلہ ہے اور تمام مسلمانوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ لیکن اس حوالے سے آپ ایران اور عرب دنیا کے کردار اکا ذرا مقایسہ کریں۔
حضرت امام خمینی اسرائیل کو قلب عالم اسلام کا خنجر اور سرطانی غدود سمجھتے ہوئےفلسطین کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ رمضان کا آخری جمعہ یوم القدس قرار دیا جاتا ہےاورآج بھی یوم القدس پر ان کے فرمان پر لبیک کہتے ہوئے دنیا کے سینکڑوں شہروں میں اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کے حق میں جلوس نکلتے ہیں۔مرگ بر امریکہ اور مرگ بر اسرائیل کے نعرے لگتے ہیں۔ امام خمینی کے اس فرمان نے القدس کے مسئلہ کو نئی حیات بخش دی۔
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے فورا بعد اسرائیل کے سفارت خانے کو فلسطینیوں کے حوالے کیا جاتا ہے اور اس پر فلسطینی پرچم لہرایا جاتاہے۔ جبکہ آج کے بعض نام نہاد انقلابات کے بعد اب بھی اسرائیلی سفارت خانے نہ صرف سالم ہیں بلکہ تعلقات اور مستحکم ہو گئے ہیں۔ پیار کی پینگیں بڑھانے کے حوالے سے خفیہ خطوط سامنے آتے ہیں۔ اور بر مقابل اسلامی مقاومتی تنظیموں پرعرصہ حیات تنگ کیا جاتا ہے ، ان کی خفیہ سرنگیں تباہ کر دی جاتی ہیں۔ ادھر ایران واحد ملک ہے جو فلسطین کی مقاومتی تنطیموں کو کھلے عام اسلحہ اور مالی امداد فراہم کرتا ہے ورنہ عرب دنیا میں سوائے شام کو کوئی اور ملک اس "جرم" کو اپنے سر اٹھانے پر تیار نہیں ہوتا،چونکہ ان کو معلوم ہے اس جرم کی سزا ان کے" آقا "امریکہ اور اسرائیل نے یقینا دینی ہے۔ اگر ملک عبد اللہ یا اردوغان میں تھوڑی سی بھی جرات ہے تو حماس یا جہاد اسلامی کو کچھ اسلحہ فراہم کر کے دیکھ لیں ۔ دیکھیے حشر کیا ہوتاہے۔
سوال یہ ہے کہ ایران یہ ساری "حماقت " کرتا کیوں ہے؟ ایرانی فرس اور فلسطینی عرب ہیں۔ یہ لوگ شیعہ اور وہ لوگ سنی ہیں۔ کیوں ایران اپنے لیے دنیا بھر کی دشمنی اور اقتصادی پابندیاں خریدتا ہے؟ کیا ایران کی مصلحت اس میں نہیں تھی کہ یہود اور امریکہ ومغربی ممالک سے تحالف کر لیتا؟ ان سب کے باوجود ایران کہتاہے کہ اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے حرف غلط کی طرح مٹ جانا چاہیے۔ ایران ہولوکاسٹ کا مذاق اڑاتا ہے۔ایران قائل ہے اسرائیل سرطانی غدود ہے اور اسکا فورا کاٹنا ضروری ہےورنہ یہ پورے جسم میں سرایت کر جائے گا۔ ایران کہتا ہے کہ اسرائیل عراق ایران اور عراق کویت جنگ کے پیچھے تھا۔ اسرائیل عراق کی ، سوڈان کی، لبنان کی،شام کی اور اب مصر کی تباہی کے پیچھے ہے۔اسرائیل غاصب ہے۔ اور غاصب کے خلاف جہاد ہم سب کا فرض ہے۔