انتہا
محفلین
اسلاف کی پیروی
مولانا وحیدالدین خان
دل کی جس قدر بیماریاں ہیں، ان میں سب سے زیادہ مہلک آج کل مسلمانوں میں ایک بات بہت زیادہ کہی جاتی ہے ، وہ یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ اسلاف کی پیروی کرو۔ یہ بات بظاہر درست معلوم ہوتی ہے لیکن عملی اعتبار سے دیکھیے تو اس میں پوری امت کے لیے کوئی واضح رہنمائی پائی نہیں جاتی۔ پیروی کا لفظ ایک واحد نقطہ اتحاد (point of unity) چاہتا ہے ، لیکن ''اسلاف کی پیروی'' کے لفظ میں کوئی واحد نقطہ اتحاد موجود نہیں۔
حدیث کی ایک پیشین گوئی موجودہ زمانے میں واقعہ بن چکی ہے، وہ یہ ہے کہ امت مختلف گروہوں میں بٹ گئی ہے۔ مثلا سلفی گروہ ، بریلوی گروہ ، شیعہ گروہ ، اسی طرح ندوی گروہ ، دیوبندی گروہ وغیرہ۔ ان میں سے ہر گروہ کے اپنے اکابر ہیں۔ ہر ایک کے اکابر اس کے لیے اپنے اسلاف کا درجہ رکھتے ہیں مثلا اہل حدیث کے اکابر امام ابن تیمیہؒ اور امام ابن قیمؒ ہیں ، احناف کے اکابر امام ابو حنیفہؒ اور امام ابویوسفؒ ہیں۔ اسی طرح دیوبندیوں کے اکابر مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور مولانا حسین احمد مدنیؒ ہیں اور ندویں کے اکابر مولانا سید سلیمان ندویؒ اور مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ ہیں ۔
ایسی حالت میں اگر یہ کہا جائے کہ ''اسلاف کی پیروی کرو'' تو اس اصول کو جاننے کے باوجود اس کا مفہوم ایک نہیں ہو گا ، بلکہ کئی ہو جائے گا، ہر اک اپنے اکابر سلف کو الگ الگ اپنا مقتدا سمجھے گا۔ اس طرح امت بدستور مختلف گروہوں میں بٹی رہے گی، جیسا کہ وہ اس وقت بٹی ہوئی ہے۔
اس کے بجائے اگر لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ رسولؐ اور اصحاب رسول کی پیروی کرو تو لوگوں کو واحد نقطہ پیروی مل جائے گا ، کیونکہ اس معاملے میں امت کے مختلف گروہوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ ایک ہی رسول ہر ایک کے لیے رسول ہے اور ایک ہی جماعت صحابہ ہر ایک کے لیے جماعت صحابہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایسا کہنے کی صورت میں ہر ایک کو مشترکہ طور پر ایک ہی نقطہ پیروی مل جائے گا، اور وہ ہے رسول اور اصحاب رسول کی پیروی۔ یہی طر یقہ قرآن اور سنت کے مطابق ہے اور اس طریقے کے ذریعے امت کے اندر صحیح ذہن او راتحاد پیدا ہو سکتا ہے۔