فارقلیط رحمانی
لائبریرین
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
باب الالف
اِبتدائے حقیقی : کسی چیز کے شروع میں ایسی شے لانا جو تمام چیزوں پر مقدم ہو ، اسے ابتدائے حقیقی کہتے ہیں۔
اِبتدائے عُرفی : کسی چیز کو مقصود سے مقدم رکھنا ابتدائے عُرفی ہے۔
اِبتدائے اِضافی : کسی چیز کے شروع میں ایسی شے لانا جودیگر اشیاء پر مقدم ہو خواہ کسی سے مؤخر ہو یا نہ ہو۔
اِبدال : (صرف) تخفیف کے لیے ایک حرف کو دوسرے حرف کی جگہ رکھنا یا ایک حرف کو دوسرے حرف سے بدلنا اِبدال ہے۔
اَبدال : (تصوف) اَولیائے کرام کے اس گروہ کو کہتے ہیں جس کے سپرد باطنی طور پر ایک مخصوص خطہ کا انتظام رہتا ہے۔ دُنیا کبھی ان سے خالی نہیں ہوتی۔ اگر اُن میں سے کوئی ایک دُنیا سے اُٹھتا ہے تو دوسرا اُس کے قائم مقام ہوتا ہے۔(فائدہ) اُن کی تعداد چالیس ہوتی ہے۔
اَبرار : متقین کی اُس جماعت کو کہتے ہیں جو شریعتِ مصطفیٰ کی پابندی اور عبادتِ ظاہری اختیار کرتی ہے۔
اَبنیہ : حروفِ اصلیہ اور حرکات و سکنات کے اعتبار سے کلمہ کی ساخت کو کہتے ہیں۔
اتّصاف : ایک شے کا دوسری شے کے ساتھ اس طرح متّصف ہونا کہ شئ اوّل صفت اور شئ ثانی موصوف بن جائے۔
اتّصافِ انضمامی : وہ اتصاف ہے کہ ظرفِ اتصاف میں موصوف و صفت دونوں کا وجود ہو۔ خواہ ظرف اِتصاف ذہن ہویا خارج۔ پھر اگر خارج میں موصوف و صفت کا اقتران ہو تو اتصاف انضمامی خارجی ہے جیسے جسم کے ساتھ سوادوبیاض کا اتصاف، ورنہ اتصافِ انضمامی ذہنی ہے جیسے صورتِ علمیہ کے ساتھ حالتِ ادراکیہ کا اتصاف۔
اتّصافِ انتزاعی : وہ اتصاف ہے کہ ظرفِ اتصاف میں صرف موصوف کا وجود اس طرح ہو کہ اس سے صفت کا انتزاع درست ہو پھر اگر منشائے اِنتزاع خارج میں موجود ہو تو اتصاف خارجی ہے جیسے آسمان کا فوقیت کے ساتھ اتصاف، اور اگر ذہن میں ہو تو اتصافِ ذہنی ہے جیسے انسان کا کلیت کے ساتھ اتصاف۔
اتّصال : پہنچ جانا، مل جانا، کسی کام کا مسلسل ہونا۔
اتّصال تربیع : ایسے چار مصرعوں کے مجموعے کو کہتے ہیں جس کے ہر مصرع کے آخر میں وہی کلمہ رکھا جائے جو دوسرے مصرع کا ابتدائی کلمہ ہے ۔ جیسے اعلیٰ حضرت فاصلِ بریلوی کے ان اشعار میں اتصال تربیع ہے۔
جات بالا تر ز و ہم جاۂا جاۂا خود ہست بہر پاۂا
پاۂا چہ بود کہ سرہا با زیر پات پات ہم کہ چوں فروں آی زجات
اِجارہ : اُجرت کے عوض کسی کو کسی شے کے منافع کا مالک بنا دینا اِجارہ ہے۔
اِجتماعِ ساکنین علیٰ حدہٖ : پہلا ساکن حرف مدّہ یا یائے تصغیر ہواور ثانی مدغم ہو جیسے لفظ دابہّ، خویصہّ
اِجتماعِ ساکنین علیٰ غیر حدہٖ : کسی لفظ میں ایسے دو ساکن کا جمع ہونا کہ ااوّل حرف مدّہ یاثانی مدغم نہ ہو۔
اجتہاد : فقیہ کا احکامِ شرعیہ نکالنے میں نن پوری قوت صرف کرنا اجتہاد ہے۔
اجزائے حقیقیہ : ان اجزاء کو کہتے ہیں جو کل پر مقدم ہوں اور کل اپنے وجود میں اُن کا محتاج ہو۔
اجزائے خارجیہ : ان اجزاء حقیقیہ کو کہتے ہیں کہ ایک جز کا حمل دوسرے پر اور نہ کل پر ہو سکے جیسے گھر کے لیے دیوار وچھت اجزائے خارجیہ ہیں۔
اجزائے ذ ہنیہ : ان اجزاء حقیقیہ کو کہتے ہیں کہ ایک جز کا حمل دوسرے پر اور کل پربھی ہو سکے جیسے انسان کے لیے حیوانِ ناطق اجزائے ذہنیہ ہیں۔
اِجماع : رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمّت کے اہلِ حلّ و عقد کا کسی امردینی پراتفاق کرنااجماع ہے۔
اِجماع : ( بلفظِ د یگر) اُمّتِ محمدیہ کے مجتہدین صالحین کا ایک زمانہ میں کسی حکم پر اتفاق کر لینا اجماع ہے۔
اِجماع مرکب : مجتہدین کا اپنے مابین علت میں اختلاف کے با وجود کسی حکم پر اتفاق کرنا اجماعِ مرکب ہے ۔جیسے کسی شخص نے قے کی اور اپنی عورت کو بھی چھواتو دونوں اِمام (یعنی اِمامِ اعظم اور ااِمامِ شافعی) کے نزدیک بالااجماع طہارت ٹوٹ گئی۔ لیکن علّت میں اختلاف ہے۔ اِمامِ شافعی کے نزدیک علت عورت کو چھونا ہے اور امامِ اعظم کے نزدیک علت قے ہے۔
اِحتکار : غلّے کو اپنے شہر یا قریب سے خرید کر اس خیال سے روکنا کہ گرانی کے وقت بیچیں گے اور اس کا فی الوقت نہ بیچنا لوگوں کو مضر ہو احتکار کہلاتا ہے۔(فتاویٰ رضویہ)
اِحساس : کسی چیز کا تصورِ حس سے ظاہر ہونا احساس ہے جیسے گرمی، سردی کا تصور۔
اِحساس : (بلفظِ دیگر)حواس میں سے کسی ایک کے ذریعے کسی چیز کا ادراک کرنا احساس ہے اگر ادراک حواسِ ظاہرہ سے ہو تو مشاہدہ اورحواسِ باطنہ سے ہو تو اُسے وِِجد ان کہتے ہیں۔
اِخلاص : انسان کا اپنے ہر عمل ،قول، حرکات وسکنات، عباداتِ ظاہریہ و باطنیہ کے کرنے کے دوران صرف اور صرف اﷲ کی رضا کا قصد کرنا،ذرّہ برابر بھی دُنیا اور لوگوں کی تعریف کا خیال نہ کرنا۔
اِخلال : (معانی)کلام میں اِتنا مختصر لفظ اِستعمال کرنا جو اصل مراد پر دلالت کرنے سے قاصر ہواِ خلال کہلاتا ہے۔
باب الالف
اِبتدائے حقیقی : کسی چیز کے شروع میں ایسی شے لانا جو تمام چیزوں پر مقدم ہو ، اسے ابتدائے حقیقی کہتے ہیں۔
اِبتدائے عُرفی : کسی چیز کو مقصود سے مقدم رکھنا ابتدائے عُرفی ہے۔
اِبتدائے اِضافی : کسی چیز کے شروع میں ایسی شے لانا جودیگر اشیاء پر مقدم ہو خواہ کسی سے مؤخر ہو یا نہ ہو۔
اِبدال : (صرف) تخفیف کے لیے ایک حرف کو دوسرے حرف کی جگہ رکھنا یا ایک حرف کو دوسرے حرف سے بدلنا اِبدال ہے۔
اَبدال : (تصوف) اَولیائے کرام کے اس گروہ کو کہتے ہیں جس کے سپرد باطنی طور پر ایک مخصوص خطہ کا انتظام رہتا ہے۔ دُنیا کبھی ان سے خالی نہیں ہوتی۔ اگر اُن میں سے کوئی ایک دُنیا سے اُٹھتا ہے تو دوسرا اُس کے قائم مقام ہوتا ہے۔(فائدہ) اُن کی تعداد چالیس ہوتی ہے۔
اَبرار : متقین کی اُس جماعت کو کہتے ہیں جو شریعتِ مصطفیٰ کی پابندی اور عبادتِ ظاہری اختیار کرتی ہے۔
اَبنیہ : حروفِ اصلیہ اور حرکات و سکنات کے اعتبار سے کلمہ کی ساخت کو کہتے ہیں۔
اتّصاف : ایک شے کا دوسری شے کے ساتھ اس طرح متّصف ہونا کہ شئ اوّل صفت اور شئ ثانی موصوف بن جائے۔
اتّصافِ انضمامی : وہ اتصاف ہے کہ ظرفِ اتصاف میں موصوف و صفت دونوں کا وجود ہو۔ خواہ ظرف اِتصاف ذہن ہویا خارج۔ پھر اگر خارج میں موصوف و صفت کا اقتران ہو تو اتصاف انضمامی خارجی ہے جیسے جسم کے ساتھ سوادوبیاض کا اتصاف، ورنہ اتصافِ انضمامی ذہنی ہے جیسے صورتِ علمیہ کے ساتھ حالتِ ادراکیہ کا اتصاف۔
اتّصافِ انتزاعی : وہ اتصاف ہے کہ ظرفِ اتصاف میں صرف موصوف کا وجود اس طرح ہو کہ اس سے صفت کا انتزاع درست ہو پھر اگر منشائے اِنتزاع خارج میں موجود ہو تو اتصاف خارجی ہے جیسے آسمان کا فوقیت کے ساتھ اتصاف، اور اگر ذہن میں ہو تو اتصافِ ذہنی ہے جیسے انسان کا کلیت کے ساتھ اتصاف۔
اتّصال : پہنچ جانا، مل جانا، کسی کام کا مسلسل ہونا۔
اتّصال تربیع : ایسے چار مصرعوں کے مجموعے کو کہتے ہیں جس کے ہر مصرع کے آخر میں وہی کلمہ رکھا جائے جو دوسرے مصرع کا ابتدائی کلمہ ہے ۔ جیسے اعلیٰ حضرت فاصلِ بریلوی کے ان اشعار میں اتصال تربیع ہے۔
جات بالا تر ز و ہم جاۂا جاۂا خود ہست بہر پاۂا
پاۂا چہ بود کہ سرہا با زیر پات پات ہم کہ چوں فروں آی زجات
اِجارہ : اُجرت کے عوض کسی کو کسی شے کے منافع کا مالک بنا دینا اِجارہ ہے۔
اِجتماعِ ساکنین علیٰ حدہٖ : پہلا ساکن حرف مدّہ یا یائے تصغیر ہواور ثانی مدغم ہو جیسے لفظ دابہّ، خویصہّ
اِجتماعِ ساکنین علیٰ غیر حدہٖ : کسی لفظ میں ایسے دو ساکن کا جمع ہونا کہ ااوّل حرف مدّہ یاثانی مدغم نہ ہو۔
اجتہاد : فقیہ کا احکامِ شرعیہ نکالنے میں نن پوری قوت صرف کرنا اجتہاد ہے۔
اجزائے حقیقیہ : ان اجزاء کو کہتے ہیں جو کل پر مقدم ہوں اور کل اپنے وجود میں اُن کا محتاج ہو۔
اجزائے خارجیہ : ان اجزاء حقیقیہ کو کہتے ہیں کہ ایک جز کا حمل دوسرے پر اور نہ کل پر ہو سکے جیسے گھر کے لیے دیوار وچھت اجزائے خارجیہ ہیں۔
اجزائے ذ ہنیہ : ان اجزاء حقیقیہ کو کہتے ہیں کہ ایک جز کا حمل دوسرے پر اور کل پربھی ہو سکے جیسے انسان کے لیے حیوانِ ناطق اجزائے ذہنیہ ہیں۔
اِجماع : رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمّت کے اہلِ حلّ و عقد کا کسی امردینی پراتفاق کرنااجماع ہے۔
اِجماع : ( بلفظِ د یگر) اُمّتِ محمدیہ کے مجتہدین صالحین کا ایک زمانہ میں کسی حکم پر اتفاق کر لینا اجماع ہے۔
اِجماع مرکب : مجتہدین کا اپنے مابین علت میں اختلاف کے با وجود کسی حکم پر اتفاق کرنا اجماعِ مرکب ہے ۔جیسے کسی شخص نے قے کی اور اپنی عورت کو بھی چھواتو دونوں اِمام (یعنی اِمامِ اعظم اور ااِمامِ شافعی) کے نزدیک بالااجماع طہارت ٹوٹ گئی۔ لیکن علّت میں اختلاف ہے۔ اِمامِ شافعی کے نزدیک علت عورت کو چھونا ہے اور امامِ اعظم کے نزدیک علت قے ہے۔
اِحتکار : غلّے کو اپنے شہر یا قریب سے خرید کر اس خیال سے روکنا کہ گرانی کے وقت بیچیں گے اور اس کا فی الوقت نہ بیچنا لوگوں کو مضر ہو احتکار کہلاتا ہے۔(فتاویٰ رضویہ)
اِحساس : کسی چیز کا تصورِ حس سے ظاہر ہونا احساس ہے جیسے گرمی، سردی کا تصور۔
اِحساس : (بلفظِ دیگر)حواس میں سے کسی ایک کے ذریعے کسی چیز کا ادراک کرنا احساس ہے اگر ادراک حواسِ ظاہرہ سے ہو تو مشاہدہ اورحواسِ باطنہ سے ہو تو اُسے وِِجد ان کہتے ہیں۔
اِخلاص : انسان کا اپنے ہر عمل ،قول، حرکات وسکنات، عباداتِ ظاہریہ و باطنیہ کے کرنے کے دوران صرف اور صرف اﷲ کی رضا کا قصد کرنا،ذرّہ برابر بھی دُنیا اور لوگوں کی تعریف کا خیال نہ کرنا۔
اِخلال : (معانی)کلام میں اِتنا مختصر لفظ اِستعمال کرنا جو اصل مراد پر دلالت کرنے سے قاصر ہواِ خلال کہلاتا ہے۔