میرا خیال تھا کہ کوئی نا کوئی میرے بنیادی سے سوال کا جواب بتا دے گا۔ لیکن لگتا ہے کہ یہ جانے بغیر کہ سود کیا ہے ۔ مختلف فلسفے پیش کیے جارہے ہیں۔ صرف اس لئے کہ کسی سے سن لیا ہے کہ "سود" حرام ہے۔
کل صبح تک انتظار کرتا ہوں پھر "سود" پر قرآن حکیم سے حوالے پیش کرتا ہوں کہ اس کے پیچھے نظریہ کیا ہے؟
تجارتی سود ( کمرشل انٹرسٹ )
بعض دین بیزار لوگ جب شریعت میں سودکی اس قدر شدید حرمت اور مذمت پاتے ہیں تو عموماً درج ذیل اعتراضات کے ذریعے سود کے بارے میں شبہات پیدا کرتے ہیں:
(1) اسلام نے زیادہ شرح سود کو حرام کیا ہے جس میں قرض لینے والے پر ظلم ہوتاہے، جبکہ مناسب شرح سود (Interest) کو جائز قرار دیا ہے۔
یہ شبہ تو وہ لوگ پیدا کرتے ہیںجن کے ذہن پر مغرب کی اندھی تقلید کا بھوت سوار ہے۔ چونکہ وہ سود کے بارے میں اہل مغرب کا طرزِ عمل یہی دیکھتے ہیں، اس لئے اسلام سے بھی اس کو ثابت کرنا چاہتے ہیں ، جبکہ اسلام میںزیادہ اور کم شرح سود کے حرام ہونے میں کوئی فرق نہیں۔ اس شبہ کی وضاحت تفصیل سے پیچھے گزر چکی ہے( دیکھیں ص۴۴)
(2) بعض لوگ کہتے ہیں کہ عرب میں تجارتی سود کاوجود نہ تھا، صرف ذاتی حاجات کے لئے قرضے لئے جاتے تھے، اس لئے شریعت میں بھی انہیں ہی حرام کیا گیا ہے اسی طرح موجودہ بنکنگ کا نظام وغیرہ بھی جدید دور کی پیداوار ہے، اسلام میں بنکوں سے لئے جانے والے قرضوں کی حرمت کا کیسے ذکر ہوسکتا ہے؟
(3) قرآن کریم میں صرف ذاتی حاجات کیلئے حاصل کئے جانیوالے قرضے پر سود کی حرمت موجود ہے
اُصولی طور پر یہ اعتراضات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ سب میں قدرِ مشترک یہی ہے کہ کسی بہانے سے سود کی بعض صورتوں کو حلال کر لیا جائے اور اپنے ضمیر کے علاوہ دوسرے سادہ لوح مسلمانوں کو بھی دھوکہ دے کر سودی لین دین کو رواج دے دیا جائے۔
(1) کیا قرآنِ کریم میں تجارتی سود کا تذکرہ موجود نہیں؟
قرآن کریم میں سورۂ بقرہ (جہاں تفصیل سے سود کے بارے میں آیات موجود ہیں) میں صدقات کی آیات کے فوراً بعد سود کی حرمت اور مذمت والی آیات لائی گئی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن کریم صدقات کے بعد سود کی حرمت ذکر کرکے قرض لینے والے کی ضرورت کو صدقات سے پورا کرنے کی ترغیب دے رہا ہے۔ شبہ یہ پیدا کیا جاتا ہے کہ سود کے بالمقابل صدقات کی ترویج کا مطلب یہ ہے کہ صرف وہی سود حرام ہے جو ذاتی حاجات کے لئے لیا جائے کیونکہ صدقات فقراء کیذاتی ضروریات کی تکمیل کے لئے ہی دیئے جاتے ہیں۔
یہ اِستدلال درست نہیں کیونکہ قرآن کریم میں ایک طرف ﴿يَمحَقُ اللَّهُ الرِّبوٰاوَيُربِى الصَّدَق۔ٰتِ﴾( اللہ سود کو مٹاتا اور صدقات کی پرورش کرتاہے) میں سود کے خاتمہ کے لئے صرفی قرضوں کا حل صدقات تجویز کیا گیاہے تو دوسری طرف ﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ البَيعَ وَحَرَّمَ الرِّبوٰا﴾ ( اللہ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام) کے ذریعے ربا کو تجارتی معاہدوں کے بالمقابل بھی پیش کیا گیا ہے
یہی وجہ ہے کہ سورۂ بقرہ میں آیات ِسود سے پہلے اگر صدقات کی ترغیب موجو دہے تو آیاتِ سود کے فوراً بعد تجارتی قرضوں کے تفصیلی اَحکام پر مبنی ایک پورا رکوع بھی موجود ہے ۔ جو﴿ي۔ٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا تَدايَنتُم بِدَينٍ﴾ (اے مسلمانو! جب تم تجارتی قرضے دینے لگو تو اسے لکھ لیا کرو) سے شروع ہو کر ان آیات پر ختم ہو تا ہے کہ ﴿وَإِن تُبدوا ما فى أَنفُسِكُم أَو تُخفوهُ يُحاسِبكُم بِهِ اللَّهُ﴾ ''جو تم اپنے اندر چھپاتے ہو یا اسے ظاہر کرتے ہو، اللہ سب کا خوب حساب لینے والا ہے''
اس آخری آیت کے ذریعے اللہ تعالیٰ سود خوروں کو یہ تنبیہ فرما رہے ہیں کہ ''سود خوری کے لئے حیلے، بہانے تلاش نہ کرو، تمہیں علم ہونا چاہئے کہ اللہ دلوں کے بھید خوب جانتا ہے وہ روزِ قیامت ظاہری طرزِ عمل کے ساتھ ساتھ دلوں کے بھید اور پوشیدہ اغراض کا بھی خوب حساب لے گا۔ اس لئے خلوصِ دل کے ساتھ سود سے اجتناب کرو''
چنانچہ آیاتِ سود کے متصل رکوع میں تجارت کے اَحکام موجود ہیں۔ اس کے لئے یہ نکات پیش نظر رہنا چاہئیں:
(i) قرض اور دَین کالفظ عموماً مترادف سمجھا جاتاہے جبکہ عربی زبان میں ان دونوں میں فرق ہے ۔ قرض اس اُدھار پر بولا جاتا ہے جو ذاتی ؍ صرفی مقاصد کے لئے لیا جائے۔ جبکہ دَین کا لفظ ذاتی اور تجارتی ہر دو قسم کے قرضوں پر بولا جاتاہے۔ اس لحاظ سے قرض اور دین میں عام و خاص کی نسبت ہے۔ قرض خاص ہے اور دین عام (مترادفات القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی، ص۱۲۸)
دَین کا درست ترجمہ ذمہ داری یا انگریزی میں Liability (ادائیگی کی ذمہ داری ) ہوگاجس میں کاروباری قرضے بھی شامل ہوتے ہیں۔
(ii) حضرت ابن عباسؓ ﴿إِذا تَدايَنتُم بِدَينٍ إِلىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى...
٢٨٢﴾... سورة البقرة" کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ''یہ آیت خصوصی طور پر بیع سَلَمکے بارے میں اتری ہے (طبری:ج۳، ص۱۱۶)
قرآنِ کریم اللہ جل شانہ کا کلام ہے اور اس میں ایک ایک لفظ بڑی معنویت کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء نے قرآنِ کریم کے اندازِ بیان ، محاورہ اور الفاظ کے باریک تر انتخاب سے بھی استدلال کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا اس آیت میںقرض کی بجائے دین کا لفظ استعمال کرنابڑی معنویت رکھتا ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ اس رکوع کو صرفی قرضوں تک محدود کرنا قطعاً غیر درست ہے۔ بلکہ اس میںتجارتی و صرفی ہر دو قسم کے قرضوں کا بیان اور اَحکام موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابن عباسؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ نے اس کو بیع سَلَم کے بارے میں مخصوص کیاہے اور ہمیں علم ہے کہ عربی زبان میں بیعتجارتی لین دین کو ہی کہا جاتا ہے۔
(iii) سورۂ بقرہ کی اسی آیت ۱۸۲ میں اَمانت کے اَحکام کا تذکرہ بھی موجود ہے اور کچھ شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے اَمانت سے تجارت کرنے کا ثبوت صحابہ کرامؓ کے طرزِ عمل سے ملتا ہے، اِس سے بھی معلوم ہوا کہ اس آیت کے احکامِ تجارت کو بھی شامل ہیں۔ حضرت زبیر ؓبن عوام کا طرزِ عمل اس حدیث میں موجود ہے:
''حضرت زبیر بن عوامؓ کے پاس لوگ بڑی بڑی رقمیں امانت کے لئے رکھا کرتے تھے۔ مگر وہ کہتے کہ میں اَمانت نہیں بلکہ قرض لیتا ہوں جس سے میں تجارت کروں گا۔ چنانچہ ان کی شہادت کے بعد جب ان کے بیٹے نے حساب کیا تو یہ تجارتی قرضے (اَمانتیں) ۲۲ لاکھ درہم تھے جو ان کی جائیداد سے ادا کئے گئے۔'' (بخاري: کتاب الجهاد،باب برکة الغازي في ماله)
قرآن کریم میں تجارتی سود کی حرمت کے مزید دلائل یہ ہیں:
(1) سورۃ البقرہ کی آیت ۲۷۹ میں اللہ تعالیٰ سود خوروں سے اعلانِ جنگ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
﴿وَإِن تُبتُم فَلَكُم رُءوسُ أَموٰلِكُم﴾
''اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے لئے صرف تمہارے رأس المال (سرمایہ؍اصل مال) حلال ہیں''
جیسا کہ ہم ذکر کرچکے ہیں کہ قرآنِ کریم میںالفاظ کا انتخاب بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ چنانچہ آیت کریمہ میں اصل مال کے لئے جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ حقیقی یاذاتی مال کے بجائے رأس المال (Capital Investment) کالفظ ہے اورہم جانتے ہیں کہ رأس المال تجارت کی اصطلاح ہے۔ تجارت میں شامل کئے جانے والے اصل مال کو جس کے ذریعے مزید منافع کمانا مقصود ہوتا ہے ، رأس المال کہا جاتا ہے۔
(2) سورئہ روم کی آیت نمبر ۳۹ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَما ءاتَيتُم مِن رِبًا لِيَربُوَافى أَموٰلِ النّاسِ فَلا يَربوا عِندَ اللَّهِ...
٣٩﴾... سورة الروم
''اور جو سودی قرض تم اس لئے دیتے ہو کہ دوسرے کے مال میں پروان چڑھے تو وہ اللہ کے ہاں پروان نہیں چڑھتا''
اس آیت کے الفاظ پر ذ را غور کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ یہ تجارتی قرضوں کو بھی شامل ہے کیونکہ ذاتی مقاصد کے لئے حاصل کئے جانے والے قرض کا مقصد حاجت پوری کرنا ہوتا ہے، مال میں اضافہ کرنا نہیں۔ اگر سود صرف صرفی قرضے تک محدود ہوتا تو اس طرح کے الفاظ ہونے چاہئے تھے کہ ''جو قرض تم لوگوں کی حاجات پوری کرنے کے لئے دیتے ہو یا جو قرض اس لئے دیتے ہو تاکہ تمہارے مال میں اضافہ ہو'' جبکہ یہاں یہ الفاظ ہیں کہ اس ادھارسے دوسرے (منفعت بخش کاروبار کریں اور) اپنے مالوں میں اضافہ کریں... اللہ تعالیٰ تجارتی مقاصد کے لئے دیئے جانے والے قرضوں کے بارے میں بھی فرماتے ہیں کہ اللہ کے ہاں مال میں اس طرح اضافہ نہیں ہوتا ۔اس کاایک مطلب تو یہ ہے کہ یہ اضافہ حاصل کرنا حرام ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ امر واقعہ یہ ہے کہ سود مال میں اضافہ نہیں کرتا جس کی وضاحت آگے آرہی ہے۔
(3) ﴿ي۔ٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَروا ما بَقِىَ مِنَ الرِّبوٰا...
٢٧٨﴾... سورة البقرة
''اے ایمان والو! اللہ سے ڈر جائو اور جو سود باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو''
مشہور مفسر قرآن حافظ ابن جریرؒ فرماتے ہیں کہ یہ آیت تجارتی سود کے بارے میں نازل ہوئی (تفسیر طبری: ج۳، ص۱۰۷) مزید تفصیل آگے ملاحظہ کریں ۔
تجارتی سود شامل ہونے کے دیگر دلائل
(1) ربا کی تعریف علمائے امت کے ہاں الزیادة في الدین سے کی جاتی ہے نہ کہ الزیادة في القرض سے۔ا س سے معلوم ہوا کہ دَین (یعنی صرفی و تجارتی قرضے ہر دو) میں مشروط اضافے کو رِبا کہا جاتا ہے۔
(2) ﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ البَيعَ وَحَرَّمَ الرِّبوٰا﴾ اور ﴿وَذَروا ما بَقِىَ مِنَ الرِّبوٰا﴾ وغیرہ کے قرآنی الفاظ میں ربا کے لفظ پر اَل موجود ہے۔ اور عربی قواعدکی رو سے یہ اَل استغراق کا ہے جوتمام اقسام کو اپنے تحت شامل کرنے کا معنی دیتا ہے۔
یعنی الربوا عام ہے اور اصولِ فقہ میں عَام اسے کہا جاتاہے جو ''ان تمام افراد و اقسام پر صادق آئے جو اس کے مفہوم میں شامل ہوسکتے ہوں'' ...عَام کو پہچاننے کے صیغوں میں اَل استغراقی بھی داخل ہے۔ (اصولِ سرخسی: ج۱،ص۱۵۱)
غرض عربی قواعد کی رو سے الربوا کا لفظ ہر قسم کے سود کو شامل ہے چاہے وہ تجارتی ہو یا صرفی، مرکب ہو یا مفرد۔
ظہورِ اسلام کے وقت عرب میں تجارت
علماء نے اس موضوع پر بڑی تفصیل سے عہد ِنبوی میں تجارت کے وجود پر تفصیلات جمع کی ہیں۔ ذیل میں ان کے چیدہ چیدہ نکات درج کئے جاتے ہیں :
جزیرئہ عرب کرئہ ارضی کے مختلف آباد علاقوں کے وسط میں واقع ہے۔ چنانچہ مشرق و مغرب یعنی ہندوستان اور اس کے اردگرد کے ممالک کی مصر، سوڈان، الجزائر، تیونس (براعظم افریقہ) اور بلادِ شام سے تجارت جزیرئہ عرب کے راستے ہی ہوتی تھی۔ اسی طرح شمال سے جنوب یعنی یمن، جنوبی افریقہ کی عراق، ایران اور بلادِ یورپ سے تجارت بھی جزیرئہ عرب کے واسطے سے ہوتی۔ عرب کی سرزمین پہاڑوں، ناقابل کاشت میدانی علاقوں او ربے آب و گیاہ صحرائوں پر مشتمل ہے اور زراعت کو عرب میں معزز پیشہ بھی خیال نہیں کیا جاتا لہٰذا اہل عرب کی گزر بسر ان تجارتی قافلوں میں اپنا قابل فروخت سامان شامل کرکے ہوتی تھی۔ یا قافلوں کو لوٹ مار کر اپنا دانہ پانی پورا کیا جاتا۔ بعض لوگ انہی قافلوں کو بحفاظت گزارنے کے عوض ٹیکس بھی وصول کرتے۔ گویا جزیرئہ عرب مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں بین ُالاقوامی منڈی بنا ہوا تھا جس میں شہر مکہ کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ قرآن کریم کی سورئہ قریش میں انہی تجارتی قافلوں کا ذکرموجود ہے :
﴿لِإيل۔ٰفِ قُرَيشٍ
١ إۦل۔ٰفِهِم رِحلَةَ الشِّتاءِ وَالصَّيفِ
٢ فَليَعبُدوا رَبَّ ه۔ٰذَا البَيتِ
٣ الَّذى أَطعَمَهُم مِن جوعٍ وَءامَنَهُم مِن خَوفٍ
٤ ﴾... سورة قريش ''اس واسطے کہ مانوس رکھا قریش کو، مانوس رکھنا سردی اور گرمی کے سفر میں، انہیں چاہئے کہ اس گھر کے رب کی بندگی کریں جو بھوک میں ان کے کھانے کا بندوبست کرتا اور انہیں خوف سے امن میں رکھتاہے۔''
٭ یاد رہنا چاہئے کہ جنگ ِبدر کا پیش خیمہ بھی ابوسفیان کی سرکردگی میں آنے والا قافلہ ہی بنا تھا جس میں سامان سے لدے ہوئے دو ہزار اونٹ شامل تھے۔
٭ ابوسفیان تجارتی قافلے کے سربراہ کے طور پر ہی شام گیا تھا جب اُس سے ہرقلؔنے سوال وجواب کئے
٭ کئی مؤرخین نے اندازہ لگایا ہے کہ یہ درآمد و برآمد کی تجارت ۵۰ لاکھ دینار یعنی ۴ ؍اَرب روپے سالانہ تک پہنچتی تھی۔
٭ انہی تجارتی قافلوں سے سامان کی خریداری کے لئے قریش میں چار بڑے میلے بھی مشہور ہیں جن میں عکاظ کے میلے کی مناسبت سے بعض واقعات احادیث میں موجود ہیں۔
٭ احادیث میں تجارت کی بیسیوں ایسی اقسام کا تذکرہ ملتا ہے جن میں سے بیشتر آج بھی رائج ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عرب میں تجارتی کاروبار نہایت عروج پر تھا۔
٭ صحابہ کرامؓ میں متعدد لکھ پتی تاجر بھی تھے۔ حضرت عثمانؓ اور دوسرے صحابہ کے اپنے تجارتی سامان کو اللہ کی راہ میں دینے کے واقعات مشہور ہیں۔
ان حالات میں یہ فرض کر لینا کہ عہد ِنبوی میں تجارت نہایت پرخطر تھی لہٰذا برائے نام رہ گئی، ایک بے معنی مفروضہ ہے جس کی مخالفت تاریخ سے بھی ہوتی ہے اور قرآن سے بھی۔ ہم انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے مضمون "Banks"کے اس اقتباس پر اپنی بات ختم کرتے ہیں جس کو مولانا مودودیؒ نے اپنی کتاب سُود میں درج کیا ہے:
''جزیرۃ العرب کے آس پاس ملکوں (عراق، مصر، شام، یونان اور روم) میں تجارتی، صنعتی اور ریاستی اَغراض کے لئے دیئے گئے قرضوں پر سود لیا جاتا اور دیا جاتا تھا۔ ان ممالک کے ساتھ عربوں کے تجارتی تعلقات تھے تو یہ کیسے فرض کر لیا گیا کہ عرب تجارتی سود سے باخبر ہی نہیں تھے؟''
صحابہ کرامؓ میں تجارتی قرضے ... اَحادیث کی روشنی میں
(1) حضرت عمر ؓ کے بیٹے عبداللہ ؓاور عبیداللہ ؓایک لشکر میں شام ہو کرعراق گئے۔ واپسی پر بصرہ کے امیر ابوموسیٰ اشعریؓسے ملنے گئے تو انہوں نے کہا کہ ''میرے پاس بیت المال کا کچھ حصہ ہے جسے میں امیرالمؤمنین کو بھیجنا چاہتا ہوں۔تم وہ مال مجھ سے قرض لے کر عراق سے اس کا سامان خرید لواور مدینہ پہنچ کر منافع پر بیچ دینا،اور اصل رقم امیر المومنین کو ادا کرکے منافع خود رکھ لو''حضرت عمرؓ کے بیٹوں نے کہا: ٹھیک ہے، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ (موطأ امام مالک، باب ماجاء فی القراض)
(2) ہندؓ بنت عتبہ نے حضرت عمرؓ سے بیت المال سے ۴ ہزار درہم کا قرض (تجارت کے لئے) مانگا جو انہوں نے دے دیا۔ ہند ؓبنت عتبہ کو کاروبار میں خسارہ ہوگیا لیکن انہوں نے بیت المال کو پورا قرضہ اداکردیا۔ (تاریخ طبری: ۲۹؍۵)
(3) حضرت زبیر بن عوامؓ کے پاس لوگ بڑی بڑی رقمیں امانت کے لئے رکھا کرتے تھے۔ مگر وہ کہتے کہ میں اَمانت نہیں بلکہ قرض لیتا ہوں۔ جس سے میں تجارت کروں گا۔ چنانچہ ان کی شہادت کے بعد جب ان کے بیٹے نے حساب کیا تو یہ تجارتی قرضے (اَمانتیں) ۲۲ لاکھ درہم تھے جو ان کی جائیداد سے ادا کئے گئے۔ (بخاری: کتاب الجهاد،باب برکة الغازي في ماله)
حرمت ِسود سے قبل سودی تجارتی قرضے
(1) حضرت ابن جریر آیت ﴿وَذَروا ما بَقِىَ مِنَ الرِّبوٰا﴾ کا شانِ نزول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''دورِ جاہلیت میں بنو عمرو اور بنو مغیرہ کے درمیان سودی قرضوں کا لین دین تھا۔ جب اسلام آیا اور سود حرام ہوا تو بنو مغیرہ کے ذمے بنو عمرو کا بہت سا مال واجب الادا تھا۔ جس کو بنو مغیرہ نے سود کی حرمت نازل ہونے کے بعد ادا کرنے سے انکار کردیا۔ اس پر بنو عمرو نے عتاب بن اُسیدؓ (امیرمکہ) کے پاس اپنا دعویٰ دائر کردیا۔ حضرت عتاب ؓنے نبی اکرمﷺ سے اس سود کے بارے میں پوچھاتو اللہ نے یہ آیت اتار دی۔ ''اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے، اس کو چھوڑ دو، اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو'' رسولِ اکرمﷺ نے یہ آیت لکھ کر عتابؓ (امیرمکہ) کو بھجوائی اور ساتھ یہ ہدایت کی کہ اگر بنو عمرو سود چھوڑنے پر راضی نہ ہوں تو ان کو جنگ کا الٹی میٹم دے دو'' (تفسیر ابن جریر طبری: ج۳، ص۱۰۷)
ابن جریر نے عکرمہؒ سے یہ بھی روایت کیا ہے کہ
''بنوعمرو کے جو اَفراد بنو مغیرہ کو قرض دیا اور لیا کرتے تھے، ان میں [تین بھائی] مسعود ثقفی عبدیالیل، حبیب [بن عمرو بن عمیر]اورربیعہ وغیرہ شامل ہیں'' (ابن جریر طبری: ج۳، ص۱۰۷)
ان حضرات کا طائف کے سرداروں میں شمار ہوتا تھا او ریہ محتاج اور بھوکے ننگے نہیں بلکہ مالدار لوگ تھے۔ واضح سی بات ہے کہ ان کے یہ قرضے ذاتی اغراض و اِحتیاج کی تکمیل کے لئے نہیں، تجارتی مقاصد کے لئے تھے۔ چنانچہ اسی آیت کی تفسیر میں ابن جریر فرماتے ہیں:«کان ربا یتبا يعون به في الجاهلیة» ''یہ وہ سود تھا جو جاہلیت میں لوگ تجارتی مقصد کے لئے لیتے تھے''
(2) صاحب ِتفسیر خازن مذکورہ بالا آیت (سورۃ البقرہ۲:۲۸۷) کے تحت تجارتی سود کے بعض مزید واقعات درج کرتے ہیں:
''حضرت عباسؓ اور حضرت خالدؓبن ولید زمانہ جاہلیت میں باہمی شراکت سے سودی کاروبار کیا کرتے تھے۔ وہ طائف کے قبیلہ بنو عمیر کو کاروباری مقاصد کے لئے سود دیتے تھے۔ اس آیت کے نازل ہونے پر انہوں نے اپنا کافی زیادہ سود (جو بنوعمیر کے ذمے تھا) چھوڑ دیا۔ یہ وہی سود تھا جس کا تذکرہ نبی کریمﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں ان الفاظ سے کیا:
''جاہلیت کے تمام سود باطل کر دیئے گئے ہیں اور میں سب سے پہلے اپنے خاندان یعنی عباس بن عبدالمطلب کا سود باطل کرتا ہوں'' (مسلم :کتاب الحج، باب حجۃ النبیؐ)
سورۃ البقرہ کی یہ آیت ﴿وَذَروا ما بَقِىَ مِنَ الرِّبوٰا﴾ نبی اکرمﷺ کی وفات سے صرف چار ماہ پیشتر نازل ہوئی۔ اسی لحاظ سے حجۃ الوداع اور اس آیت کا زمانہ نزول قریب قریب ہے۔
کاروباری سود کا یہی واقعہ ابن جریر ؒاپنی تفسیر میں سدی ؒکے حوالے سے یوں روایت کرتے ہیں:
''حضرت عباس بن عبدالمطلب اور بنو مغیرہ کا ایک شخص (حضرت خالد ؓبن ولیدبن مغیرہ ) آپس میں کاروباری شریک تھے۔ انہوں نے بنو عمرو( طائف )کو تجارتی قرضے دیئے۔ جب اسلام کا دور آیا تو ان کا بہت سال مال سود میں واجب الادا تھا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ﴿وَذَروا ما بَقِىَ مِنَ الرِّبوٰا﴾ (تفسیر ابن جریر: ج۳، ص۱۰۷)
مذکورہ بالا واقعات کے علاوہ دیگر بیسیوں ایسے شواہد موجود ہیں جو یہ مفروضہ بالکل غلط ثابت کردیتے ہیں کہ عہد ِنبوی میں تجارتی قرضوں کا کوئی تصور نہ تھا اور صرف ذاتی (صرفی) مقاصد کے لئے (مہاجنی) قرضے لئے جاتے تھے۔ اس زمانہ کی تجارت اور ہمسایہ ممالک میں تجارتی قرضوں وغیرہ کی تفصیلات کے لئے دیکھئے مولانا مودودیؒ کی کتاب سود (ص ۲۰۰ تا ۲۱۵، مطبوعہ ۱۹۹۷ء) اور مولانا عبدالرحمن کیلانی کی تصنیف: تجارت کے اَحکام و مسائل ،باب۵: سود)
سود کے جواز کے لئے مختلف بہانے
سود کو جائز قرار دینے کے لئے مختلف بہانے یوںتراشے جاتے ہیں:
(1) باہمی رضا مندی سے سود لینا جائز ہونا چاہئے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں: ﴿ي۔ٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَأكُلوا أَموٰلَكُم بَينَكُم بِالب۔ٰطِلِ إِلّا أَن تَكونَ تِج۔ٰرَةً عَن تَراضٍ مِنكُم...
٢٩ ﴾... سورة النساء ''اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقے سے نہ کھائو مگر یہ کہ باہمی رضا مندی سے تجارت کے ذریعے''
(2) سود کے حرام ہونے کی علت ظلم ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں: ﴿وَإِن تُبتُم فَلَكُم رُءوسُ أَموٰلِكُم لا تَظلِمونَ وَلا تُظلَمونَ
٢٧٩﴾... سورة البقرة ''اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے لئے صرف تمہارے اصل مال لینا حلال ہیں، نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے '' ...چنانچہ اگر سود میں ظلم کا عنصر نہ پایا جائے تو سود حلال ہونا چاہئے۔
(3) جس سود میں ظلم کا عنصر نہ ہواوروہ باہمی رضا مندی سے ہو، اس کے ساتھ منفعت بخش مقاصد (مثلاً تجارت) کے لئے ہو تواس سود کو تو بالا ولیٰ جائز ہونا چاہئے۔ کیونکہ تجارت کا مقصد بھی منافع حاصل کرنا ہی ہوتا ہے اور اسلام میں اس کی تعریف کی گئی اور خوب ترغیب دی گئی ہے۔ اسی طرح ذاتی مقصد کے لئے حاصل کردہ قرض پر سود تو حرام ہے لیکن تجارتی مقصد کے لئے سود کی حرمت سمجھ سے بالا تر ہے۔
ان اعتراضات کے شافی جوابات کے لئے ضرورت تو اس بات کی ہے کہ تفصیل سے ہر ہر نکتہ کو عقل و نقل کی کسوٹی پر رکھ کر پرکھا جائے اور غلط استدلال کی قلعی کھولی جائے۔ لیکن چونکہ ان موضوعات پر مستقل مباحث الگ سے موجود ہیں جن میں سے بعض محدث کے حالیہ شمارے میں بھی شامل ہیں لہٰذا حسب ِضرورت ان کی طرف اشارہ کرنے کے ساتھ بالاختصار ان کا جائزہ لینے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ ذیل میں ہم بعض عنوانات کے تحت ان کی وضاحت پیش کرتے ہیں:
(2) کیا باہمی رضا مندی سے سود لینا جائز ہے؟
(1) اس بحث میں پڑنے سے پہلے ہم اس استدلال کا جائزہ لیتے ہیں جو قرآنِ کی آیت سے لیا گیا ہے:
''اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقے سے نہ کھائو۔ مگر یہ کہ تمہارے درمیان باہمی رضا مندی سے تجارت ہو'' (النساء:۲۹)
اس آیت سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ اگر سود باہمی رضا مندی سے ہو تو اس وقت سود لینا جائز ہے۔ کیونکہ اس آیت میں باطل طریقوں میں باہمی رضا مندی کے الفاظ سے حلال طریقوں کو مستثنیٰ کیا جارہا ہے۔
(i) اس آیت کے الفاظ پر ہی معمولی غور کرنے سے اس استدلال کا بودا پن معلوم ہوجاتا ہے۔ اس آیت میں سود کے اَحکام کا تذکرہ ہی نہیں بلکہ تجارت اور معاہدے کی شرائط ذکر ہو رہی ہیں او روہ یہ کہ تجارتی معاملہ میں باہمی رضا مندی شرط ہے﴿إِلّا أَن تَكونَ تِج۔ٰرَةً عَن تَراضٍ مِنكُم﴾ مگر یہ کہ وہ تجارت ہو تمہاری باہمی رضامندی سے۔ ہم پیچھے یہ بحث کر آئے ہیں کہ تجارت اور سود دونوں میں واضح طور پر فرق ہے اور ﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ البَيعَ وَحَرَّمَ الرِّبوٰا﴾''اللہ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا ہے'' دونوں میں عمل کے لحاظ سے اگر اتنے واضح فرق نہیں تو نتائج کے اعتبار سے زمین آسمان کا فرق ہے (دیکھئے ص ) یہی وجہ ہے کہ شریعت میں سود کی شدید ترین مذمت آئی ہے تو تجارت کی واضح ترغیبات موجود ہیں۔ اس لئے ﴿إِلّا أَن تَكونَ تِج۔ٰرَةً﴾ کے الفاظ کو نظر انداز کرنا نری من مانی اور قرآن کے منہ میں اپنی بات ڈالنے کے مترادف ہے۔
(ii) قرآن وحدیثسے مسائل اَخذکرنے کا مسلمہ اُصول یہ ہے کہ ایک موضوع پر میسر آنے والے تمام اَحکام کو یکجا کرکے ان سے مشترکہ اَحکام نکالے جائیں۔ کسی مقام پر موجود کسی ایک لفظ کو سیاق و سباق سے جدا کرکے اپنے مطلب میں استعمال کر لینا اِلحاد و زندقہ کا طور طریقہ تو ہوسکتا ہے، اسلام کا نہیں۔ قرآنِ کریم اور احادیث میں جو متعددبار سود کی واضح ترین حرمت اور مذمت آئی ہے حتیٰ کہ قرآن میں اسے اللہ سے جنگ کے مترادف قرار دیا گیا ہے تو باہمی رضا مندی سے سود کو حلال کرنے والوں کی نگاہوں سے یہ آیات اور احادیث کیوں اوجھل ہیں۔ جو انہیں اس آیت کی اِتباع کا اس قدر شوق چرایا ہے۔ یہ تو صریحاً اس آیت کے مصداق ہے :
﴿أَفَتُؤمِنونَ بِبَعضِ الكِت۔ٰبِ وَتَكفُرونَ بِبَعضٍ ۚ فَما جَزاءُ مَن يَفعَلُ ذٰلِكَ مِنكُم إِلّا خِزىٌ فِى الحَيوٰةِ الدُّنيا ۖ وَيَومَ القِي۔ٰمَةِ يُرَدّونَ إِلىٰ أَشَدِّ العَذابِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغ۔ٰفِلٍ عَمّا تَعمَلونَ
٨٥ ﴾... سورة البقرة ''کیا تم شریعت کاکچھ حصہ لے لیتے ہو اور کچھ کو چھوڑ دیتے ہو، ایسا کرنے والوں کی اس کے سوا کیا جزا ہے کہ دنیا میں انہیں رسوائی ہو اور آخرت میں برے عذاب کے سپرد کیا جائے۔جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے قطعا ً غافل نہیں''
(2) شریعت کا مطلب ہی ''بنائی ہوئی چیز'' کے ہیں۔ یعنی یہ زندگی گزارنے کا ایسا طریقہ ؍ راستہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کے ذریعے اپنی مخلوق کے لئے جس طرزِ حیات کو ان کی زندگی بہتر گزارنے کے لئے مناسب اور موزوں سمجھا ہے، وہ اس نے ہم پرناز ل کی اورہم مسلمان (فرمانبردار) ہونے کے ناطے اس کو قبول کرچکے ہیں اور اب اس طریقے کے پابند ہیں۔ اللہ کا عظیم احسان ہے کہ اس نے فلاح کے راستے کا تعین انسانوں پر نہیں چھوڑا بلکہ اس کا تعین اپنی حکمت ِبالغہ سے خود فرما دیا۔اس طریقے میں کسی تبدیلی کے مجاز نہ ہم خود ہیں، نہ ہی نبی کریمﷺ کی ذاتِ بابرکات تھی۔ قرآنِ کریم میں ہے:
﴿وَلَو تَقَوَّلَ عَلَينا بَعضَ الأَقاويلِ
٤٤ لَأَخَذنا مِنهُ بِاليَمينِ
٤٥ ثُمَّ لَقَطَعنا مِنهُ الوَتينَ
٤٦ فَما مِنكُم مِن أَحَدٍ عَنهُ ح۔ٰجِزينَ
٤٧﴾... سورة الحاقة
''اے نبی! اگر آپ بھی کوئی بات اپنی طرف سے گھڑ کر ہم سے منسوب کریں گے تو ہم آپ کو اپنے داہنے ہاتھ سے پکڑ لیں گے اور آپ کی شہ رگ کاٹ ڈالیں گے، اور تم میں سے کوئی ہمیں اس (سزا دینے) سے روک نہیں سکتا''
نبی کریمﷺ کا فریضہ صرف تبلیغ و رسالت ہے خواہ وہ وحی جلی کی صورت میں ہو یا خفی (حدیث وسنت )کی صورت میں: ﴿وَما مُحَمَّدٌ إِلّا رَسولٌ﴾ ''محمدﷺ تو صرف پہنچانے والے ہیں'' چنانچہ اگر نبی اکرمﷺ کی ذات پر شارِع کا لفظ کبھی بولا جاتا ہے تو وہ مجازی معنی میں ہے، حقیقی میں نہیں کہ آپ شریعت کو پہنچانے والے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک امر کو اللہ تعالیٰ کے حرام قرار دینے کے بعد مسلمان باہمی رضا مندی سے حلال کرسکتے ہیں۔ بعض ایسے مسلمان جو سود کی اَندھی وکالت کرتے ہوئے باہمی رضا مندی سے سود کھانے کے جواز کا فتویٰ دینا چاہتے ہیں، ہم ان سے پوچھتے ہیںکہ کیا خیال ہے باہمی رضا مندی سے زنا کے بھی حلال ہوجانے کے بارے میں یا شراب اور قتل کے جائزہونے کے بارے میں ؟...کیا کوئی مسلمان یہ تسلیم کرسکتا ہے کہ اسلام کے اَحکام اس گنجائش کے متحمل ہیں۔ اس لئے ذرا کھلی آنکھوں کے ساتھ بصیرت سے اپنے دعویٰ کی زد میں آنے والے دیگر اَحکام کو بھی ایک نظر دیکھ لینا ضروری ہے۔
(3) مندرجہ بالا دلائل تو لفظی اور شرعی نوعیت کے تھے۔ لیکن ذرا واقعاتی طور پر اس کا جائزہ لیں کہ آیا کوئی شخص خوشدلی سے سود دینے پر راضی ہوسکتا ہے۔ زیادہ گہرے غوروفکر کی ضرورت نہیں، اگر ایک شخص کو ایک لاکھ روپے قرض درکار ہے اور اس کو سود بلکہ کم شرح سود کے ساتھ ساتھ دوسری جگہ سے بغیر کسی شرط کے بلا سود بھی ایک لاکھ مل سکتے ہوں تو کون ایسا شخص ہے جو بغیر کسی وجہ کے سود ادا کرنا پسند کرے۔
یہ تو یوں ہی ایک فریب اور ڈھکوسلا ہے کہ قرضدار اپنی رضا مندی سے سود ادا کرتے ہیں۔ اگر انہیں بلا سود قرض دستیاب ہوسکے تو وہ کبھی سود پر قرض حاصل نہ کریں۔ یہ تو ان کی مجبوری کو رضا مندی سے تعبیر کرنے کا محض ایک فریب ہے۔ اسلام ہی وہ خدمت ِانسانی کا جذبہ، باہمی ایثارو محبت اور خلوص کے وہ جذبات پیدا کرتا ہے جو ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی ضرورت نہ صرف قرض بلکہ قرضِ حسنہ (جس میں ادائیگی کی مدت کا بھی تعین نہ ہو) کی صورت میں پوری کرتا ہے کیونکہ مسلمان کا تصورِ فلاح اپنے رب کی اطاعت اور حصولِ درجات سے جڑا ہوتا ہے اور وہ اُخروی مقاصد کے تحت ایسا کرتا ہے۔ (مزید تفصیل کے لئے صفحہ۲۲۰)
بہت کم صورتوں میں ایسا ہوتا ہے کہ سودی معاہدہ فریقین کی رضا مندی سے ہو لیکن ایسا اکثر اس سے بڑے شر کے حصول کے لئے اور ہوس پرستانہ مقاصد کے تحت ہوتا ہے۔ جس طرح بنکوں میں بچتیں جمع کرانے والے لالچ اور ہوسِ زر میں سودی اکائونٹ کھول لیتے ہیں اور بنک اس لئے سود ادا کرنے پر راضی ہوجاتا ہے کہ وہ اس رقم سے اس سے زیادہ شرحِ سود وصول کرے گا۔ بالفرض اگر رضامندی سے سودی معاہدہ ہوبھی جائے تو اس سے نفس مسئلہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ سود کی حرمت کی بنیاد شریعت کے اَحکام ہیں نہ کہ باہمی رضامندی جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے
(3) کیا سود کی حرمت کی علت' ظلم' ہے؟
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ي۔ٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَروا ما بَقِىَ مِنَ الرِّبوٰاإِن كُنتُم مُؤمِنينَ
٢٧٨ فَإِن لَم تَفعَلوا فَأذَنوا بِحَربٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسولِهِ ۖ وَإِن تُبتُم فَلَكُم رُءوسُ أَموٰلِكُم لا تَظلِمونَ وَلا تُظلَمونَ
٢٧٩﴾... سورة البقرة
''اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو۔ اگر واقعی تم مؤمن ہو تو جو سود باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے اور اگر سود سے توبہ کر لو تو تم اپنے اصل سرمایہ کے حق دار ہو، نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے''
اِن آیات میں سود کی حرمت اور مذمت کرتے ہوئے ، سود چھوڑنے کا طریقہ بیان کیا گیا اور آخر میں نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے، کے الفاظ سے سود کی حکمت بیان کی گئی ہے۔ بعض حضرات یہ بات کہتے ہیں کہ سود کی حرمت کی بنیادی وجہ ظلم کا ہونا ہے۔ چونکہ قرض لینے والا محتاج اور فقیر ہوتا ہے اور اپنی ضرورت کی تکمیل کے لئے قرض کا تقاضا کرتا ہے لہٰذا قرض دینے والا اس کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اس پر ظلم کرتا ہے۔ سود در سود (سود مرکب) کی شکل میں یہ ظلم شدید ترہوتا جاتا ہے۔ بالفرض اگر کسی صورت میں قرض لینے پر ظلم کا اِ رتکاب نہ ہوتا ہو اور سود سے منفعت بخش کاروبار کرنا چاہے تو سود لینا جائز ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے بھی اپنے فیصلہ مقدمہ سود کے پیرا ۴۲ میں سود کی حرمت کی علت ظلم کو قرار دیا ہے۔
والد ِگرامی حافظ عبدالرحمن مدنی نے اپنے عدالتی بیان میں اس نکتہ کی خوب وضاحت کی ہے۔ یہ عدالتی بیان محدث میں بھی شائع ہو رہا ہے۔ جس کے صفحات ۷۸ تا ۸۱ خصوصیت سے قابل توجہ ہیں۔
علت اور حکمت اُصولِ فقہ کی اصطلاح میں دو مختلف چیزیں ہیں۔ علت تو اس بنیاد کو کہا جاتا ہے جس پر کوئی شرعی حکم موقوف ہوتا ہے۔ اگر وہ علت باقی نہ رہے تو وہ شرعی حکم بھی ساقط ہوجاتا ہے۔ جبکہ حکمت سے مراد و ہ مصلحت ہے جس کو شارع اس حکم کی تشریع کے ذریعے پورا کرنا چاہتاہے، یہ مصلحتیں متعدد بھی ہوسکتی ہیں ۔ یاد رہے کہ شرعی حکم کسی حکمت کے وجود یا عدمِ وجود پر موقوف نہیں ہوتا۔ بسااوقات کسی حکمت کے ساقط ہونے پر شریعت بعض دیگر ذرائع سے اس مقصد ؍ حکمت کو حاصل کر لیتی ہے لہٰذا اس حکمت کے ختم ہونے پر شرعی حکم کو ساقط نہیں کیا جاسکتا...واضح رہے کہ علت کی تلاش ایک مشکل او رپیچیدہ اَمر ہے کہ شارع نے کسی شرعی حکم کو کیوں لاگو کیا ہے۔ علت کے لئے متعدد شرطیں بھی ضروری ہیں جو اُصولِ فقہ کی کتب میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ظلم سود کی حرمت کی حکمت ہے یا علت؟ سود کے مفاسد کا بنظر غائر جائزہ لیں تو ظلم کو اس کی علت قرار دینا درست نظر نہیں آتا۔ ہماری رائے میں ظلم کا وجود سود کی حرمت کی ایک اہم حکمت ہے ،کیونکہ سود کی حرمت صرف اس کی بنا پر نہیں ہے۔ بعض ایسی صورتیں بھی ہوسکتی ہیں جہاں بظاہر ظلم نہ ہورہا ہو لیکن سود حرام ہو۔
(4) منفعت بخش مقاصد کے لئے سود کی حرمت؟
یہ گذشتہ اعتراض کا ہی ایجابی پہلو ہے... جیسا کہ ذکر ہوا ہے کہ سود کی حرمت صرف ظلم کے وجو دپر ہی موقوف نہیں، علماء نے سود کے بے شمار مفاسد گنوائے ہیں ۔بعض اس کو تکنیکی وجوہ کی بنا پر حرام سمجھتے ہیں اور بعض علماء اس کے اَخلاقی اورمعاشرتی مفاسد کو اس کی حرمت کی وجہ بتاتے ہیں۔ مولانا عبدالرحمن کیلانی ؒلکھتے ہیں : (تجارت اور لین دین کے احکام :ص ۷۸)
''سود اسلامی تعلیمات کا نقیض اور اس سے براہِ راست متصادم ہے ۔اس کا حملہ بالخصوص اسلام کے معاشرتی اور معاشی نظام پرہوتا ہے ۔اسلام ہمیںایک دوسرے کا بھائی بن کر رہنے کی تلقین کرتا ہے۔وہ آپس میں مروّت ،ہمدردی ،ایک دوسرے پر رحم اور ایثار کا سبق سکھلاتا ہے ۔ اللہ نے مسلمانوں پر آپس کے بھائی چارے کو اپنا خاص اِحسان قرار دیا (آل عمران :۱۰۳)اور یہی چیز رسولِ اکرم ﷺکی زندگی بھر کی تربیت کا ماحاصل تھا جبکہ سود انسان میں ان سے بالکل متضاد صفات یعنی بخل،حرص ،لالچ،مفاد پرستی اور شقاوتِ قلبی پیدا کرتا ہے جو اسلامی تعلیمات کی عین ضد ہے ...اسلام کے معاشی نظام کا ما حاصل یہ ہے کہ دولت گردش میں رہے اور اس گردش کا بہائو امیر سے غریب کی طرف ہو ،اسلام نے نظامِ زکوۃ و صدقات کو اس لئے فرض کیا ہے ،قانونِ میراث اور حقوقِ باہمی اسی کی تائید کرتے ہیں جبکہ سودی معاشرہ میں دولت کا بہائو ہمیشہ غریب سے امیر کی طرف ہوتا ہے ۔اس لحاظ سے بھی سود اسلام کے معاشی نظام کی عین ضد ہے''
ان سب باتوں سے اتفاق کے ساتھ ساتھ ہم ان پر یہ اضافہ کرنا چاہتے ہیں کہ دراصل سود منفعت بخش ہوتا ہی نہیں۔ کیونکہ اوّل تو سود کے ذریعے تخلیق مال (تخلیق منافع) ہوتا ہی نہیں بلکہ یہ صرف ناروا تقسیم مال (اغتصابِ مال) کا ایک ہتھکنڈا ہے ۔سود میں 'انسانی محنت ' کا وہ بنیادی عنصر ہی موجود نہیں جس سے منافع تخلیق ہوتا ہے ۔ یہ صرف نقد کے ذریعے دوسرے کی کمائی کو غصب کرنے کا ایک بہانہ ہے ۔
دوسرے ،سود میں اگر ذاتی سطح پر ظلم ، اَذیت اور ضرر موجود نہ بھی ہو تو قومی معاشرتی سطح پر سود کے ذریعے آخر کار ان کاوجود ضرور پایا جاتاہے۔ معاشرتی سطح پر اذیت اور ظلم انفرادی اور شخصی اذیت سے کہیںزیادہ تباہ کن اور دور رَس ہوتا ہے ۔ہمارے معاشرے میں بھی رونما ہونے والی قومی اور معاشرتی مشکلات کے پیچھے سود کا ظالمانہ عنصرضرور کار فرما ہے ۔چونکہ سود ہر حال میں مقروض کو ادا کرنا ہوتا ہے، اس لیے شرحِ سود سے زیادہ نفع کمانے کے لیے مقروض کو ہر جائز او رناجائز حربہ استعمال کرناضرور ی ہو جاتا ہے جس کے لیے وہ کاروبار میں ذخیرہ اندوزی، بلیک مارکیٹنگ اور ناجائز وحرام ذرائع استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا ۔نفع کو شرحِ سود سے بلند تررکھنے کے لیے کارکنوں کی اُجرت کم سے کم تر رکھ کر او روقت سے زیادہ کام لیکر ان کا استحصال کیا جاتا ہے ،اور ان تمام ناروا ہتھکنڈوں سے ناجائزمنافع کما کر قرض دینے والے کو صرف اس لیے ادا کر دیا جاتا ہے کیونکہ اس نے سود پر پیسے دئیے تھے ۔جب کہ اس اضافے کی تحصیل میں اس نے نہ کوئی محنت صرف کی ، نہ کسی قسم کے رِسک سے دوچار ہوا او رنہ کاروباری مشکلات اور تقاضوں میں اس نے کوئی حصہ ڈالا۔صرف اپنے پیسے کی بنیاد پر مال میں اضافہ وصول کرنا اس کا استحقاق ٹھہرا ۔ دوسری طرف مظلوم یا خون پسینے کی محنت سے معمولی اُجرت حاصل کرنے والا طبقہ جب اس طرح اپنی محنت کا حقیقی معاوضہ وصول نہیں کرپا تا ، اور اپنی محنت کے بل بوتے پر دوسرے کو عیش وعشرت کرتا اورگلچھر ے اڑاتا دیکھتا ہے تو مایوسی ، بیچارگی اور افسردگی کا شکار ہو کر ناروا طریقوں سے اور اپنے زورِ بازو سے اپنا حصہ خودوصول کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے ۔جب مزدروں کا حق غصب ہوتا ہے تو ردّ عمل کے طور پر وہ معاشرہ کی ہر چیز اور فرد سے بددل ہو کر انتقام کی ٹھان لیتے ہیں ۔ ان رویوں او رقانون شکنیوں کا معاشرہ پر جو اثر پڑتا ہے اس کی تصویر آج ہم کھلی آنکھوں اپنے معاشرے میں بھی دیکھ رہے ہیں۔اختصار کی غرض سے اشارہ کرنے پر ہی اکتفا کیاجاتا ہے ( تفصیل کیلئے ص ۲۰۷) اس کے بعد کیا یہ دعویٰ کرنا درست دکھائی دیتا ہے کہ منفعت بخش مقاصد کے لیے سود جائز ہونا چاہیے۔
سود کو اللہ نے حرام کیا ہے اور اس کی شدید ترین مذمت کرتے ہوئے اس کو اپنے سے جنگ کے مترادف قرار دیا، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ سود شرمحض ہے ۔ سود کی بناپر ہونے والے کسی معاہدے یا معاملے میں خیر کا وجود محال ہے ،اگر سود میں ایسی کوئی گنجائش ہوتی تو اس کی وضاحت شریعت ِمطہر ہ میں ضرور کردی جاتی ۔ قرآنِ کریم اور فرامین نبویہ ؐ میں نہ صرف سود کو مطلقاًحرام کیا گیابلکہ اس پر گواہی دینے والے اور اس کو لکھنے والے سب کو گناہ میں برابر کا شریک قراردیا گیاہے ۔شریعت میں ہر قسم کا سود حرام ہے چاہے وہ صرفی ہو یا تجارتی ،نیک مقاصد کیلیے یا ناروا مقاصد کے لیے ۔ سود ہر لحاظ سے حرام ہے اور اسلام کا بنیاد ی تقاضا بھی یہی ہے کہ ہر طرح کے سود سے کلی نفرت اور مکمل اجتناب کیا جائے اور سود کو ختم کرنے کی ہر ممکن سعی کی جائے ۔