اسلامی بینکار ی کے فروغ پرمفتی تقی عثمانی کو ایوارڈ دینے کا اعلان

جب بات آتی ہے "سود کھانے " کی سب کی توپوں کے رخ بہت ہی مائیکرو سکوپک قسم کے کاروبار کی طرف مڑ جاتے ہیں۔ جو عموماً دو افراد یا اداروں کے درمیان محدود ہوتا ہے۔ جبکہ ایسا کوئی بھی کنٹریکٹ دو کے درمیان کے درمیان ہو ہے جو کہ دیوانی قانون یا تعزیراتی قانون کے تحت نہیں آتا ہے بلکہ معاہداتی قوانین کے تحت آتا ہے۔ لہذا اصول سازی صرف اس قسم کی کرنے کی ضروت ہے جس میں منافع کی شرح پر حد لگائی جائے ناکہ منافع کو حرام قرار دیا جائے۔

سود یا ربا کے معانے پیش کرتے ہوئے عموماً درج ذیل نکات پیش کئے جاتے ہیں۔ جو کہ کسی قسم کی بھی منطق پر پورے نہیں اترتے۔ عام طور پر قرآنی آیات ایک جگہ لکھ دی جاتی ہیں اور اپنا غیر منطقی نکہ نظر پیش کردیا جاتا ہے۔

یہ دیکھنے سے پہلے کہ سود ہے کیا یعنی ربا یا اضافہ یا بڑھوتری ہے کیا؟ ہم کچھ بیانات دیکھتے ہیں

ذرا ان نکات کو اور ان کے جوابات کو دیکھئے۔ :
1۔ سود وہ ہے جو بہت زیادہ ہو۔
صاحب سود سود ہے زیادہ یا کم ۔۔ تھوڑا سا خراب یا بہت سا خراب ۔۔ ، خراب تو خراب ہوا۔
2۔ سود وہ ہے جس کے لئے آپ نے کام نہیں کیا۔
جی؟ مثال دیکھئے ، میں نے بیج، کھیتی اور پانی کے لئے ایک لاکھ دیا، عارف نے پانچ لاکھ کی زمین دی اور سارا کام ہاریوں نے کیا ۔ ہم تو سفری تفریح کرتے رہے ، اب یہ کھیتی حرام ہے ؟ یا میرے ایک لاکھ کا منافع بھی عارف کھا جائے؟ ۔۔ جی؟
3۔ بنک میں دولت رکھنا اور اس کا منافع حرام ہے؟
ارے بنک نے ہی تو مثال نمبر 2 کے لئے قرضہ دیا تھا ۔۔ اب بنک کو منافع لینا حرام اور بنک کا منافع تقسیم کرنا حرام
4۔ فکسڈ منافع لینا حرام ہے
نکتہ نمبر 1 کا جواب دیکھیں ۔ تھوڑا زیادہ، فکسڈ، یا ویری ایبل۔ خراب تو خراب ہوا ۔

یہ اور ایسے ہی تمام نکات اصحاب پیش کرتے رہتے ہیں اس لئے کہ ان کے ذہن میں یہ نہیں سماتا کہ مسئلہ ہے کیا ، بناء کسی کا نام لئے یہ کہوں گا یہ ان اصحاب نے صرف اور صرف منافع کی ایک قسم کو سود کا نام دینے کی ناکام کوشش کی ہے جو کسی بھی منطق پر پوری نہیں اترتی۔

اب دیکھئے ایک اور سوال، میرا سوال۔
کیا ایسا ممکن ہے کہ بناء ٹیکس دئے اسکول بن جائے، سڑکیں بن جائیں ، رفاہ عامہ کے کام ہو جائیں اور صاحب امن و امان ہو جائے اور دفاع کا شعبہ ہو جائے، مالیاتی نظام تشکیل پا جائے۔ اور صاحب ان تمام شعبوں کے سرکردہ اور کارندوں کی تنخواہ بھی ادا ہو جائے، ان تمام مدوں میں ہونے والے اخراجات بھی پورے ہوجائیں؟ ایسا بناء ٹیکس دئے کیسے ممکن ہے؟ پھر جب بھی صدقات ، زکواۃ اور اسی قسم کے تمام نظریات کی بات آتی ہے تو اس بات پر تو سب کے سب متفق ہیں کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے۔ لیکن اس کو ادا کیجئے تو صرف اور صرف "ملاء ٹولے " کو ۔ یہاں بھی ایسی ہی بیان بازی کی گئی ہے اور معاملے کو بہت ہی الجھا دیا گیا ۔

تو آئیے دیکھتے ہیں کہ سود کیا ہے ۔آصف اثر صاحب نے ربا یا سود کی تعریف بالکل درست پیش کی ہے۔ اثر صاحب سلام


سود کیا ہے؟
سود کے لئے سب سے پہلے مال غنیمت کو سمجھنا ضروری ہے۔ تاکہ جنگ سے حاصل شدہ مال غنیمت یا مال انفال کو مباحثہ سے الگ کیا جاسکے۔ سورۃ الانفال یعنی سورۃ مال غنیمت پڑھئے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ مال غنیمت جس کے لئے اللہ تعالی ---- انفال --- لفظ استعمال کرتے ہیں ۔۔ وہ بالکل بھی "غنیمت " نہیں ہے۔ اس لئے کہ انفال سارے کا سارا اللہ تعالی کا حق ہے۔ جبکہ غنیمت یا اضافہ میں سے پانواں حصہ اللہ تعالی کا حق ہے ۔۔ دیکھئے --- سورۃ الانفال آیت نمبر 1۔

8:1 يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ قُلِ الْأَنفَالُ لِلّهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُواْ اللّهَ وَأَصْلِحُواْ ذَاتَ بَيْنِكُمْ وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
تجھ سے غنیمت کا حکم پوچھتے ہیں کہہ دے غنیمت کا مال الله اور رسول کا ہے سو الله سے ڈرو اور آپس میں صلح کرو اور الله اور اس کے رسول کا حکم مانو اگر ایمان دار ہو

اس آیت سے اور اس پوری سورۃ سے یہ واضح ہے کہ جنگ میں ہاتھ آیا ہوا مال ، اللہ تعالی کے الفاظ میں انفال ہے ۔۔۔ اس کے لئے غنیمت کا لفظ استعمال کرنا بالکل درست نہیں ۔ جی! اب جب ہم نے لفظ انفال اور لفظ غنیمت کو الک الگ کردیا ۔۔ تو ہم جنگ کے مال غنیمت کو کسی باقاعدہ آمدنی ، باقاعدہ منافع کا ذریعہ نہیں سمجھ سکتے ۔ اس کے لئے ہمیں کہیں اور دیکھنا ہوگا۔

اللہ تعالی نے غنیمت، جس کے معانی ہیں بڑھوتری، اضافہ، نفع، منافع کے لئے بہت ہی واضح حکم دیا ہے کہ آپ غنیمت کے ساتھ کیا کریں۔ یہاں ایک بات اور بھی نوٹ کریں کہ انفال سارے کا سارا - 8:1 اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے ۔ آج کی تاریخ میں یہ حق آپ کس کو ادا کریں گے؟ جنگ میں انفال ہاتھ آیا اور یہ اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے چلیں اس کو میدان میں کھڑے ہو کر اچھالتے ہیں کہ رب تجھے جتنا جاہئے تو رکھ لے؟ یقینا؟ ایسا نہیں ۔ یہ مال اللہ اور اس کے رسول کا ہے یعنی حکومت وقت کے کنٹرول میں حقداروں کو پہنچ جائے۔

اب ہم دیکھتے ہیں سود ہے کیا؟ کیا سود کا تصور آپ کی رقم میں اضافے کے بغیر ممکن ہے ؟؟؟ نہیں ۔۔ تو گویا جب بھی بڑھوتری ، اضافہ یا نفع ہوگا ، کیا وہ سب سود ہوگا؟ سب چیخنے چلانے لگتے ہیں کہ نہیں نہیں نہیں جس اضافہ جس نفع میں آپ نے کام نہیں کیا تو وہ سود ہے۔ اچھا ۔۔۔ اور یہ سود حرام بھی ہے۔ چلئے وڈیرے کے کھیت میں ، ہاری نے بیج ڈالا اور وڈیرے نے کام ہی نہیں کیا تو یہ کھیتی حرام ہے؟ یقیناَ نہیں ۔۔ تو یہ والی سود کی تعریف بھی بے کار ہے۔ تو پھر سود ہے کیا؟؟

سورۃ انفال میں ہی آیت نمبر 41 دیکھئے ۔۔ یہ آیت انفال کے بارے میں نہیں ہے بلکہ غنیمت کے بارے میں ہے ۔۔۔ یہاں اللہ تعالی نے ایک کنٹراسٹ میں سمجھایا ہے کہ غنیمت کیا ہے اور انفال کیا ہے؟ دیکھئے

8:41 وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُمْ بِاللّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اور جان لو کہ جو کچھ بڑھوتری (نفع، منافع) کسی بھی شے سے ہو تو اس کا پانچواں حصہ خاص اللہ اور رسول کا ہے ، یہ ہے قرابت داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے اگر تم ایمان لائے ہو اللہ پر اور اس پر جو ہم نے اپنے بندے پر فیصلہ کے دن اتارا جس دن دونوںجمع ہوئے تھے اور اللہ سب کچھ کرسکتا ہے،

سورۃ انفال کی آیت نمبر 1 میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ---- انفال --- سارے کا سارا اللہ اور رسول کا حق ہے ۔۔ جب کہ "غنیمت" یعنی بڑھوتری یعنی اضافہ یعنی منافع یعنی نفع، اس کا پانچواں حصہ یعنی 20 فی صد اللہ تعالی اور اس کے رسول کا حق ہے۔ غنیمت یعنی نفع، منافع، بڑھوٹری اضافہ اور --- جنگ میں ہاتھ آئے مال انفال --- میں فرق واضح ہے۔ کہ ایک (انفال) سارے کا سارا اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے اور دوسرے ( غنیمت ) میں سے 20 فی صد اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے۔ جو شخص بھی اضافہ کا یہ 20 فیصد اللہ اور رسول کا حق مرکزی حکومت کو ادا نہیں کرتا اللہ اور اس کے رسول کا حق کھانے والا یعنی سود خور ہے۔ تو سود وہ نہیں کہ جو آپ نے بناء کام کئے کمایا ہو۔۔ ربا یا سود وہ 20 فی صد ہے جو آپ نے منافع میں سے اللہ اور رسول یعنی مرکزی حکومت کو ادا نہیں کیا۔ یقینی طور پر اگر یہ ربا یا سود مرکزی حکومت کو نہیں ادا کیا گیا تو زکواۃ یا ٹیکس ادا نہیں ہوا یعنی لوگ باگ غنیمت کا بیسواں حصہ یا ربا کھا گئے ۔ اب سوچیں کہ یہ ربا کھانے ولاے ساری قوم کے مجرم ہوئے یا نہیں ؟

سود کیا ہے؟
کسی بھی اضافہ یا بڑھوتری (غنیمت) پر مرکزی حکومت کو 20 فیصد رباء ادا کیا جائے ۔۔جس نے اضافہ کا 20 فی صد ادا نہیں کیا وہ سود خور ہے۔ بنک کا منافع سود نہیں ہے بلکہ اس منافع کا 20 فی صد نا ادا کرنا سود خوری ہے۔

اگر آپ نے بنک میں 10 ہزار روپے رکھے اور کسی بھی وقت آپ کو 100 روپے کا منافع ملا تو یہ سو روپے سود نہیں ہیں ۔ آپ نے اس 100 روپے کا 20 فی صد مرکزی حکومت کو ادا کرنا ہے۔ اگر آپ یہ 20 روپے کھا گئے تو یہ ہوئی سود خوری۔

آپ نے کھیت لگایا ، کھیتی، ہاری، پانی، بیج ، سارے خرچوں کے بعد ایک لاکھ کا اضافہ، منافع یعنی بڑھوتری یعنی غنیمت حاصل ہوا تو 20 ہزار ، اللہ اور رسول یعنی مرکزی حکومت کا حق ہے۔ جو یہ بیس ہزار کھا گیا وہ سود خور ہے۔

بنیادی طور پر کسی بھی شے سے ہونے والے اضافے، بڑھوتری، منافع، نفع، کا بیس فی صد اللہ اور اس کے رسول مرکزی حکومت کا حق ہے ۔۔ یہ ان آیات سے صاف ظاہر ہے۔ یہ مال مرکزی حکومت اللہ اور اس کے رسول کے نام پر لے کر قرابت داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں پر خرچ کرے گی اور ان 7 ڈیپارٹمنٹ پر خرچ ہوگا جس کا حکم ہم کو سورۃ توبہ میں ملتا ہے۔

9:50 إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
یقیناً صدقات مفلسوں اور محتاجوں اوراس کا کام کرنے والوں کا حق ہے اورجن کی دلجوئی کرنی ہے اور غلاموں کی گردن چھوڑانے میں اور قرض داروں کے قرض میں اور الله کی راہ میں اورمسافر کو یہ الله کی طرف سے مقرر کیاہوا ہے اور الله جاننے والا حکمت والا ہے

یہ جمع کیا ہوا مال جن لوگوں پر مرکزی حکومت خرچ کرے گی اس میں یہ گروپ بھی شامل ہیں۔
یہی نیکی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیرو بلکہ نیکی تو یہ ہے جو الله اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اورفرشتوں اور کتابوں او رنبیوں پر اور ا سکی محبت میں رشتہ دارو ں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں اور سوال کرنے والوں کو اور گردنوں کے چھڑانے میں مال دے اور نماز پڑھے اور زکوةٰ دے اور جو اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے ہیں جب وہ عہد کر لیں اورتنگدستی میں اور بیماری میں اور لڑائی کےوقت صبر کرنے والے ہیں یہی سچے لوگ ہیں اوریہی پرہیزگار ہیں

سورۃ توبہ کی ایت 50 اور سورۃ انفال کی آیت نمبر 41 سے آٹھ عدد شعبے سامنے آتے ہیں ۔ اس میں سے "دلجوئی یا علم سکھانا " بھی ایک شعبہ ہے۔ "ملاء ٹولے" نے 20 فی صد کا آٹھواں حصہ یعنی ڈھائی فیصد کو اپنا حق قرار دے دیا اور زکوٰۃ کی مقدار بڑے مزے سے ڈھائی فی صد قرار دے دی۔ کیا یہ سارا "ملاء ٹولہ" قرآن حکیم سے ڈھائی فی صد زکواۃ ثابت کرسکتا ہے؟ اب اگر زکواۃ ڈھائی فی صد ہے اور یہ بھی یا ملاء ٹولے کو ادا کی جائے یا پھر چپکے چاپ غریبوں کو دے دی جائے تو پھر حکومت تو چل چکی۔

مسئلہ سارا یہ ہے کہ کسی قسم کے میکرو سکوپک مالیاتی نظام کو ملاء ٹولہ دیکھنے سے قاصر ہے۔ اس لئے یہ لوگ تکے مارتے رہتے ہیں۔ ۔۔ جو لوگ 1400 سو سال میں یہ نا مسجھ پائے کہ منافع میں سے سود کون سا حصہ ہے اور اتنے سارے مسلم ممالک کو اپنے نقصان دینے والے نظریات کی مدد سے پاگل کیا ہوا ہے ۔ ان سے میں یہ توقع نہیں رکھتا کہ وہ کسی بھی قسم کے منافع کے نظام کی تعمیر کرسکتے ہیں۔

مغلیہ دور میں یہ ملاء ٹولہ اپنے عروج پر تھا ۔ لیکن کسی بھی قسم کا مالیاتی نظام دینے میں مکمل طور پر فیل ہو گیا۔

ضرورت ہے کہ مذہب کو سیاست سے دور رکھا جائے اور اللہ کے حکم کے مطابق مومنو کے فیصلے باہمی مشورے یعنی سینیٹ یا قومی اسمبلی میں طے کئے جائیں ناکہ ملاء ٹولے کے بیانات پر یقین کیا جائے۔ ان افراد کو علمی کتب کی تصنیف اور اشاعت تک محدود رکھا جانا چاہئیے نا کہ ان کو پالیسی بنانے والا قرار دیا جائے۔

آخر میں عرض یہ ہے کہ اعتراضات کرتے ہوئے انفرادی احترام کو ملحوظ رکھئے۔ میں ملاء ٹولے کو ایک سیاسی پارٹی سمجھتا ہوں نا کہ ایک علمی پارٹی ، ایسی پارٹی جو مال کی ہوس میں کسی بھی دوسری پارٹی سے کم نہیں۔ اس جواب میں کسی بھی فرد کی ذاتی بے عزتی مقصود نہیں ہے۔ اگر کسی جملے سے ایس بات جھلکتی ہے تو میں پیشگی معذرت خواہ ہوں۔ اگر کوئی صاحب اس میں ایسا نقص پائیں تو مجھے لکھئے میں خوشی سے اس کو درست کردوں گا۔

والسلام
 
آخری تدوین:
مفتی تقی ّثمانی صاحب کی خدمت میں احتراماً عرض ہے کہ ان کا پیش کیا ہوا ربا فری بینکنگ کا بیان کا نا بینکنگ سے کوئی تعلق ہے اور نا ہی ربا سے ۔ ربا ، اضافہ کا وہ حصہ ہے جو حکومت کا حق ہے رباء ہے ۔ جبکہ اضافہ ، بڑھوتری یا منافع مالیاتی نظام ہی نہیں معاشی نظام کی بنیاد ہے۔ کسی بھی قسم کی انویسٹمنٹ بناء منافع کے کی ہی نہیں جاسکتی ہے۔ یہ انسانی منطق اور ضرورت کے خلاف ہے کہ ایک شخص قرضہ دے اور اس قرضے سے ہونے والے منافع سے کوئی حصہ وصول نا کرے ۔

بہتر یہ ہے کہ ربا کو بینکنگ سے اور منافع سے الگ رکھا جائے۔

اگر چار لاکھ کی زمین میں ایک لاکھ کا بیج ، کام اور پانی لگا کر 20 لاکھ کا منافع ہو تو کیا ایک لاکھ قرضہ دینے والا کیا اپنے ایک لاکھ کا ہی حق دار ہے؟
 

x boy

محفلین
کس طرح سود کو حلال کیا جارہا ہے
مجھے پتا ہے بنک کیا کرتی ہے، انسان کے جسم میں چڈی تک نہیں چھوڑتی۔
 

آصف اثر

معطل
ضرورت ہے کہ مذہب کو سیاست سے دور رکھا جائے اور اللہ کے حکم کے مطابق مومنو کے فیصلے باہمی مشورے یعنی سینیٹ یا قومی اسمبلی میں طے کئے جائیں ناکہ ملاء ٹولے کے بیانات پر یقین کیا جائے۔ ان افراد کو علمی کتب کی تصنیف اور اشاعت تک محدود رکھا جانا چاہئیے نا کہ ان کو پالیسی بنانے والا قرار دیا جائے۔

آخر میں عرض یہ ہے کہ اعتراضات کرتے ہوئے انفرادی احترام کو ملحوظ رکھئے۔ میں ملاء ٹولے کو ایک سیاسی پارٹی سمجھتا ہوں نا کہ ایک علمی پارٹی ، ایسی پارٹی جو مال کی ہوس میں کسی بھی دوسری پارٹی سے کم نہیں۔ اس جواب میں کسی بھی فرد کی ذاتی بے عزتی مقصود نہیں ہے۔ اگر کسی جملے سے ایس بات جھلکتی ہے تو میں پیشگی معذرت خواہ ہوں۔ اگر کوئی صاحب اس میں ایسا نقص پائیں تو مجھے لکھئے میں خوشی سے اس کو درست کردوں گا۔

مجھے نہیں پتا تھا کہ آپ تعمیر نہیں فتنہ انگیزی میں دلچسپی لیتے ہیں۔وہی خاص اندازِ تخاطب۔ آپ جیسے یہاں اور بھی موجود ہیں۔
آپ کا جو دل چاہے کیا کیجیے۔اور ”ملا“ کی تعریف بھی ذرا کردیجیے۔
باقی کسی سنجیدہ موقع پر۔
والسلام۔
 

arifkarim

معطل
لہذا اصول سازی صرف اس قسم کی کرنے کی ضروت ہے جس میں منافع کی شرح پر حد لگائی جائے ناکہ منافع کو حرام قرار دیا جائے۔
منافع کی شرح پر حدبندی کیسے ہوگی؟ اسبارہ میں اسلام کیا کہتا ہے؟ کیونکہ معیشت و کاروبار میں نفع و نقصان ہر قسم کی قیود و بندشوں سے آزاد ہے۔ جب نقصان پر پابندی ممکن نہیں ہے تو منافع پر حد کیسے لگے گی؟
 

آصف اثر

معطل
منافع کی شرح پر حدبندی کیسے ہوگی؟ اسبارہ میں اسلام کیا کہتا ہے؟ کیونکہ معیشت و کاروبار میں نفع و نقصان ہر قسم کی قیود و بندشوں سے آزاد ہے۔ جب نقصان پر پابندی ممکن نہیں ہے تو منافع پر حد کیسے لگے گی؟
جواب دینا چاہتا ہوں لیکن چوں کہ آپ نے فاروق صاحب سے سوال کیا ہے لہٰذا مناسب نہیں سمجھتا ۔ اور چوں کہ سرور صاحب کا مطمع نظر بات سمجھنا یا سمجھانا نہیں بلکہ بس ”مولوی ، مولوی “ کی رِٹ لگانا ہے لہذا میں نے جناب کے درجہ بالا بحث پر مزید بات کرنا گوارانہ کیا۔ وگرنہ دل کرتا ہے کہ جز بجز جواب دیا جائے۔مگر ایسے لوگوں سے گفتگو کرنا بے فائدہ رہتی ہے۔ میں بھی اگر ”مولوی ، سیکولر، فلاں فلاں“ کی رِ ٹ لگانا شروع کردوں تو یہ مناسب کسی طور نہیں۔ اس لیے میں یہاں سے اب رخصتی چاہتا ہوں ۔ ہاں اگر کسی اور جگہ اس طرح کے سوال کسی سنجیدہ طبیعت بھائی کریں تو پھر ان شاء اللہ جواب ضرور دیا جائے گا۔
 
منافع کی شرح پر حدبندی کیسے ہوگی؟ اسبارہ میں اسلام کیا کہتا ہے؟ کیونکہ معیشت و کاروبار میں نفع و نقصان ہر قسم کی قیود و بندشوں سے آزاد ہے۔ جب نقصان پر پابندی ممکن نہیں ہے تو منافع پر حد کیسے لگے گی؟

قرآن اس بارے میں کوئی حد نہیں لگاتا ہے ۔ باہمی سودے اور معاہدہ کے لئے قرآن حکیم کی آیات موجود ہیں۔ لیکن آپ کا نکتہ اہم ہے۔ کہ ایسی کوئی حد کس طرح لگائی جائے گی ؟ اس کے لئے ہم باہمی مشورے سے فیصلہ کرسکتے ہیں کہ یہ حد کیا ہوگی ۔ جس کی اجازت اللہ تعالی سورۃ شوریٰ ، آیت نمبر 38 میں فراہم کرتے ہیں۔

42:38 اور جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں

بنیادی طور پر ہر معاملے میں باہمی مشورہ جیسا کہ کسی قومی اسمبلی میں کیا جاتا ہے ، خالصتاً ایک اسلامی حکم ہے ۔ جبکہ ملاء ٹولے (ایک ملاء نہیں ) کی کوشش ہے کہ قانون سازی مشورے سے نا کی جائے بلکہ قانون سازی کا سارا حق مفتی کے ہاتھ آئے۔ مفتی یعنی فتوی دینے والا یعنی قانون بنانے والا۔ یہ حق اس فرد واحد کو کس نے دیا ۔ میرے لئے ایک معمہ ہے۔

والسلام
 
آصف اثر صاحب۔ "ملاء ٹولہ" ، مسلم لیگ، پی پی پی یا کسی بھی دوسری جماعت کی طرح ، ایسے گروپس کے لئے استعامل کرتا ہوں جو صرف اور صرف پیسے کے لئے کوشاں ہیں۔ میں بہت سنجیدہ شخص ہوں۔ آپ جب چاہے جواب دیجئے۔ جہاں فرق ہوگا باہمی مشورے سے فیصلہ کرلیں گے ۔ میں فرد واحد کی اجارہ داری کا قائیل نہیں ہوں اور اس کا اطلاق مجھ پر بھی ہوتا ہے کہ آپ کی بات کو مناسب توجہ دی جائے۔
 
کس طرح سود کو حلال کیا جارہا ہے
مجھے پتا ہے بنک کیا کرتی ہے، انسان کے جسم میں چڈی تک نہیں چھوڑتی۔

بھائی بنک سے حاصل شدہ منافع سود نہیں ہے ۔ اس منافع کا پانچواں حصہ اللہ اور رسول کا حق ہے، جو کہ زکواۃ کی صورت میں حکومت وقت کو ادا کیا جانا چاہئے۔ آپ کو سود خوروں کی مثال دیتا ہوں ، کسی بھی مدرسے کے چندے ، فیس وغیرہ اس مدرسے کی آمدنی ہوتی ہے ۔ یہ لوگ زکواۃ (ٹیکس) اور صدقات (اضافی عطیات) اپنا حق سمجھتےہیں اور خود کو حکومت قرار دیتے ہیں ۔ لہذا یہ اپنی آمدنی یعنی "غنیمت" کا پانچواں حصہ حکومت کو ادا نہیں کرتے۔ اس طرح سارے مدرسے "سود کھانے " والے قرار پاتے ہیں۔ ان تمام مدرسوں کی آمدنی کے گوشوارے چیک کرکے ان پر ٹیکس وصول کرنا ضروری ہے ۔

اگر لوگ اپنی آمدنی پر ٹیکس نہیں دیں گے تو وہ ملک کے ہر فرد کے مجرم ہیں ۔ کہ نا تو سڑکیں بن سکیں گے اور نا ہی کوئی دوسرا ترقیاتی کام ہوسکے گا۔

والسلام
 
Top