القداح کے عقائد: اس نے اپنی تحریک کو اسماعیلی فرقے کے ساتویں امام اسمعیل سے منسوب کیا اس لیے اس تحریک کا نام اسمعیلی تحریک ہوا۔ مگر اس تحریک کو مختلف زمانوں میں مختلف ناموں سے یاد کیا گیا ہے مثلا سبعی، باطنی، تعلیمی ، فاطمی، قرمطی اور حشیشی لیکن مورخوں نے اس کو تحریک ملاحدہ کے لقب سے یادکیا ہے ۔
القداح کے عقائد حسب ذیل ہیں :
أ. اس مذہب میں سات کا عدد بہت مقدس ہے اور اس کے بعد بارہ کا عدد مثلا سبعہ سیارہ اور دو از دہ بروج ۔ ہفتے کے سات دن اور سال کے بارہ مہینے ۔
ب. اصول ہفت گانہ : خدا ، عقل کلی ، نفس کلی، انسان، مادہ ،زمان، مکان
ج. سات صاحب شریعت نبی یا رسول : آدم، نوح ، ابراہیم، موسی ، عیسی، آں حضرت صلعم اور محمد التام {کامل} ابن اسمعیل ابن جعفر۔
د. ہر رسول کے ساتھ جس کا لقب ناطق ہے ایک معاون بھی ہے جس کا لقب صامت ہے ۔ تفصیل اس کی یہ ہے ۔ آدم کے ساتھ شیث ۔ نوح کے ساتھ سام۔ ابراہیم کے ساتھ اسمعیل۔ موسی کے ساتھ ہارون۔ عیسی کے ساتھ پطرس۔ آں حضرت صلعم کے ساتھ علی اور محمد بن اسمعیل کے ساتھ القداح ۔
ه. القداح نے اپنے عقائد کی تبلیغ کے لیے مبلغین تیار کیے ان کا لقب داعی تھا ۔ دعاۃ کا طریق کاریہ تھا کہ وہ جس شہر میں جاتے وہاں کوئی پیشہ مثلا تجارت یا طبابت اختیار کر لیتے ۔ سب سے پہلے وہ اپنے لوگوں کے دلوں میں اپنے متقی ، مقدس اور متورع ہونے کا نقش جماتے تھے ۔ جب لوگ ان کی بزرگی کے قائل ہو جاتے تھے تو وہ ان کے قلوب میں فلسفیانہ سوالات کے ذریعے سے شکوک و وساوس اور اضطراب پیدا کرتے تھے مثلا:
1. خدا نے یہ دنیا چھ دن میں کیوں پیدا کی جب کہ وہ ایک ساعت میں پیدا کر سکتا تھا؟
2. صراط مستقیم کا حقیقی مفہوم کیا ہے؟
3. عذاب دوزخ کی حقیقت کیا ہے ؟ دوزخیوں کی کھال کس طرح بدلی جائے گی؟
4. رمئ جمار کی حقیقت کیا ہے ؟
5. دوزخ کے دروازے سات کیوں ہیں ؟ جنت کے دروازے آٹھ کیوں ہیں؟
6. آسمان سات کیوں ہیں؟ سورۃ فاتحۃ کی آیات سات کیوں ہیں ؟
7. کراما کاتبین ہمیں نظر کیوں نہیں آتے؟
8. حاملین عرش آٹھ کیوں ہیں؟ {القرآن ۱۷-۶۹}
9. ابلیس کی کیا حقیقت ہے؟
10. یاجوج و ماجوج اور ہاروت و ماروت سے کیا مراد ہے ؟
11. تمام حیوانات میں انسان ہی دو ٹانگوں پر کیوں کھڑے ہو کر چلتا ہے ؟
12. ہاتھوں میں دس انگلیاں کیوں ہیں؟
13. چار انگلیوں میں تین تین پورے کیوں ہیں ؟ انگوٹھے میں صرف دو کیوں ہیں؟
14. صرف چہرے میں سات مخارج کیوں ہیں ؟ آٹھ یا نو کیوں نہیں؟ جبکہ باقی جسم میں صرف دو ہیں؟
یہ سوالات تبلیغ کی ابتدا میں کیے جاتے تھے ۔ جب سننے والا مضطرب ہو جاتا تھا تو اس کے دماغ میں فلسفیانہ قسم کے شکوک و شبہات پیدا کیے جاتے تھے ۔ اور جب وہ مبہوت ہو جاتا تھا تو داعی اس سے کہتا تھا کہ تمہارے علماء کے پاس ان سوالات کا کوئی جواب نہیں ہے ۔ لیکن اگر تم میرا مذہب اختیار کر لو تو میں تمہیں اسلام کی حقیقت سے آگاہ کر دوں گا۔ اس کی شرط یہ ہے کہ تم اپنی دولت یا کمائی میں سے ہماری تحریک کی مالی مدد کے لیے ایک رقم معین کر دو اور وعدہ کرو کہ جو تعلیم ہم تمہیں دیں گے تم اسے مخفی رکھو گے۔ اگر سامع اس شرط پر راضی ہو گیا تو اسے اس خفیہ جماعت کے پہلے درجے میں داخل کر لیا جاتا تھا۔ القداح نے ۹ درجے مقرر کیے تھے آخری درجے میں پہنچ کر طالب حق کو اسلام سے بیگانہ کر دیا جاتا تھا۔ مقریزی اور نویری لکھتے ہیں کہ آخری درجے تک پہنچنے کے بعد طالب کے لیے اباحت مطلقہ کا دروازہ کھل جاتا تھا اور عقائد کے لحاظ سے وہ شخص فلسفہء مشائین کا پیرو بن جاتا تھا۔ {دیکھو: تاریخ خلافت بنی فاطمہ مولفہ اولئیری ص ۲۸،۲۹} براون لکھتا ہے {جلد اول ص ۴۱۵}کہ آخری درجے پر پہنچ کر مرید مذہب سے بیگانہ ہو جاتا تھا اور فلسفی بن جاتا تھا ۔ بقول نویری وہ مانوی یا مجوسی یا فسلفیانہ عقائد اختیار کر لیتا تھا بلکہ اس کا مذہب مختلف عقائد و افکار کا مجموعہ بن جاتا تھا ۔
القداح اور قرمط دونوں نے اپنے متبعین کو جنہیں دعاۃ کا منصب دیا یہ نصیحت تھی کہ جس شخص کو تبلیغ کرو پہلے اس کے عقائد سے واقفیت حاصل کرو ۔ پھر اپنے آپ کو اس کا ہم خیال ظاہر کرو تا کہ وہ تم سے بدظن نہ ہو جائے ۔ جب وہ تم پر اعتماد کرے تو اس کے عقائد کو آہستہ آہستہ متزلزل کرنا شروع کرو۔ اس لیے ان دعاۃ نے ہر جگہ اسی حربے کو استعمال کیا اور کامیابی حاصل کی ۔ [دیکھو:اولئیری کی تاریخ خلافت بنی فاطمہ س ۳۰، ۳۱]
چوتھی بحث:
جس زمانے میں قرامطہ نے اپنی تبلیغی سرگرمیاں شروع کیں مسلمانوں میں تصف کا آغاز ہو چکا تھا اور مختلف سلسلے قائم ہو چکے تھے ۔ قرامطہ نے صوفیوں کے حلقوں میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو صوفی ظاہر کیا ۔ یعنی تصوف کے لباس میں صوفیوں کو گمراہ کرنا شروع کیا اور اسلامی تصوف میں غیر اسلامی عقائد کی آمیزش کر کے ایران میں اس غیر اسلامی تصوف کی بنیاد رکھ دی ۔ جو رفتہ رفتہ تمام مسلمانوں میں شائع ہو گیا اور اسلامی تصوف کے ساتھ اس طرح مخلوط ہو گیا کہ اسلامی اور غیر اسلامی تصوف میں امتیاز کرنا عوام کے لیے ناممکن ہو گیا۔ کیوں کہ جاہل عوام ہر زمانے میں اور ہر ملک میں دین اسلام کی حقیقت سے بیگانہ رہے ہیں۔ یعنی غیراللہ کو دستگیر ، مشکل کشا اور حاجت روا مانتے رہے ہیں اور آج بھی مانتے ہیں ۔ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ ایران کے اکثر باشندوں نے اسلام کو صدق دل سے قبول نہیں کیا تھا ۔ قرامطہ نے جو غیر اسلامی عقائد – جن کی وضاحت قبل ازیں کی جا چکی ہے – تصوف کے لبادے میں ایرانیوں کے سامنے پیش کیے مثلا حلول ، اتحاد، تجسیم، تناسخ، وغیرہ وہ سب ایسے تھے جو قبل اسلام ایران کے مختلف طبقوں میں مروج تھے اس لیے ان لوگوں نے ان عقائد کو بخوشی قبول کر لیا۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مضمون سے چند اقتباسات ہدیہء ناظرین کر دئیے جائیں جو ایک غیر مسلم اے ای کرمسکی نے تصوف کے ارتقاء پر لکھا تھا اور جسے حال ہی میں اسلامک کوارٹر لی کے مدیر نے مجلہء مذکور کی جلد ششم برائے سال ۱۹۶۱ء میں درج کیا ہے :
" صوفی جماعت کے افراد اپنے آپ کو سنت کا سچا محافظ کہتے تھے لیکن ایران میں یہ لقب ان لوگوں نے بھی اختیار کر لیا تھا جن کے عقائد اسلام سے اس قدر بعید تھے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو جہنمی قرار دے دیتے ۔ "۔۔۔
"یہ بات قابل غور ہے کہ جب ۸۶۴ء میں عبداللہ بن میمون القداح نے اسمعیلی فرقے کی اصلاح کی اور ان کو منظم کیا تو اس جماعت کے پوشیدہ طریق پر تبلیغ کرنے والوں کو یہ نصیحت کی کہ جب وہ مسلمانوں سے ملیں تو اپنے آپ کو صوفی ظاہر کریں تا کہ کسی کو ان پر شبہ کرنے کا موقع نہ مل سکے ۔ حقیقت حال یہ ہے کہ ان جدید اسماعیلیوں نے ایران اور دوسرے ملکوں میں تصوف کو عوام میں بڑی حد تک مقبول بنا دیا لیکن اس خدمت کے معاوضے کے میں " انہوں نے تصوف میں ایسے غیر اسلامی رجحانات اور عقائد داخل کر دئیے جن کا اظہار چوتھی صدی ہجری سے شروع ہو گیا تھا۔"
یہی مصنف اس رسالے کے صف ۸۷ کے حاشیے میں لکھتا ہے :
" اسمعیلی دعاۃ نے جو پندرھویں صدی عیسوی کے آغاز میں ہندوستان آئے صوفیوں کا طریقہ اختیار کیا اور ہندووں سے کہا کہ حضرت علی رض وشنو کے دسویں اوتار تھے ۔ چنانچہ پیر صدرالدین نے اسی حکمت عملی سے کام لے کر بہت سے ہندووں کو اپنے مذہب کا پیرو بنایا۔ "
بخوف طوالت نہ تو میں قرامطہ کی یہ تاریخ اس کتاب میں درج کر سکتا ہوں اور نہ اس فتنہ وفساد کی تفصیل بیان کر سکتا ہون جو اس فرقے کے مبلغین نےدنیائے اسلام میں پھیلایا ۔ میرا مطلب اس داستان سے صرف اس قدر ہے کہ میں ناظرین کو یہ بتادوں کہ مسلمانوں میں غیراسلامی تصوف جسے اسلام سے کوئی علاقہ نہیں ہے کس طرح شائع ہوا اور میں سمجھتا ہوں کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ ایضاح مقصد کے لیے بالکل کافی ہے ۔ اس فرقے کے افراد نے تصوف کے پردے میں اپنے عقائد کی جس طرح تبلیغ کی اور جس حکمت عملی سے کام لے کر اس کو سراسر غیر اسلامی بنا دیا اس کی مثالیں بیکتاشی سلسلے اور نوربخشی سلسلے کے صوفیوں کے عقائد سے بخوبی مل سکتی ہیں۔
بیکتاشی فرقہ
صوفیوں کے اس فرقے کی تاریخ ڈاکٹر جے کے برج نے اپنی کتاب "درویشوں کا بیکتاشی سلسلہ " میں مفصل طور پر لکھی ہے بخوف طوالت صرف چند اقتباسات پر اکتفا کرتا ہوں :
"اس سلسلے کا بانی حاجی بیکتاش ولی تھا جو ۶۸۰ ھ / ۱۲۸۱م میں خراسان {اسمعیلی دعاۃ کے مرکز} سے اناطولیا آیا تھا اس نے ۷۳۸ھ /۱۳۳۷م میں وفات پائی ۔ ترکوں میں اس سلسلے کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی ہے ۔ اس سلسلے کے عقائد حسب ذیل ہیں ۔
۱- اللہ حقیقت واحدہ ہے ۔
۲- محمد اور علی دونوں اللہ کے مظاہر خاص ہیں ۔
۳- اللہ ، محمد اور علی تینوں میں عینیت کا علاقہ ہے ۔
۴-محمد اور علی حقیقت میں ایک ہیں یا ایک شخص کے دو نام ہیں ۔
ان چار عقیدوں سے اس بات کا اندازہ بخوبی ہو سکتا ہے کہ اس سلسلے کے صوفیوں کو اسلام سے کتنا تعلق تھا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں اس سلسلے کے صوفیوں کے جو عقائد ہیں اس کا اندازہ خطبۃ البیان سے ہو سکتا ہے جو اس سلسلے میں بہت معتبر کتاب ہے اس میں لکھا ہے کہ حضرت علی رض فرماتے ہیں :
1) – میرے پاس مفاتیح الغیب ہیں جن کو محمد {صلی اللہ علیہ وسلم } کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ نیز عزرائیل{ملک الموت} میرا تابع فرمان ہے ۔
2) – میں لوح محفوظ ہوں ، میں حجۃ اللہ ہوں، میں حجۃ الانبیاء ہوں۔
3) میں قسیم النار والجنۃ ہوں ، میں اللہ کا دل ہوں ، میں نوح اول ہوں۔
4) میں ذوالقرنین ہوں ، میں عالم کا ماکان وما یکون ہوں۔ میں منشئ السحاب ہوں ۔ میں مطرّ الانہار ہوں۔ میں قیوم السماء ہوں ۔
یہ کتاب ۱۹۳۷ء میں لندن سے شائع ہوئی ہے ۔ مزید معلومات کے لیے ناظرین بطور خود اس کتاب کا مطالعہ فرما لیں ۔