بلال
محفلین
کچھ عرصہ پہلے ایک سرکاری اعلان ہوا بلکہ حکم ہوا۔ سن کر بڑا عجیب لگا۔ بہت کچھ کہنے کو دل کیا مگر اندر ہی اندر جلتے رہے اور اپنے نظام پر سوچتے رہے۔ اسی سوچ میں سوچا کہ حکومت تو جیسی ہے سو ہے لیکن ہم کیسے ہیں؟ انہیں سوچوں میں گم تھا کہ پاکستانی معاشرے میں پیدا ہونے والے معصوم بچے کا نام رکھنے کے طریقہ کار کی طرف سوچ چلی گئی کیونکہ حکومت کا اعلان بھی نام رکھنے یا نام کی تبدیلی کے متعلق تھا۔
عموماً ہمارے معاشرے میں جہاں بے جا خاندانی روایات اور چند بلاوجہ اثر انداز ہونے والے لوگ موجود ہوں وہاں جب کسی کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو ڈھیر ساری خوشیوں کے ساتھ ساتھ ایک جنگ نما ماحول بھی شروع ہو جاتا ہے جو کہ بچے کا نام رکھنے کی اتھارٹی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اگر والدین کسی مجبوری کے بغیر یہ اتھارٹی کسی کو دے دیں تو علیحدہ بات ہے۔ خیر عموماً اس جنگ کے حریف پھوپھی اور خالہ ہوتیں ہیں۔ آخر جو جنگ جیتتی ہے وہی بچے کا نام رکھتی ہے۔ بیچارے والدین اپنے بچے کا نام رکھنے تک کی تمنا دل میں دبائے سلگتے رہتے ہیں یا کچھ عرصہ بعد نام تبدیل کر دیتے ہیں یا پھر اسے رب کی رضا سمجھ کر صبر کر لیتے ہیں۔ حالانکہ اس معاملے میں بھی وہی ہونا چاہئے جو دنیا کا قانون ہے یعنی جب کوئی انسان کوئی چیز یا قانون بناتا ہے یا ایجاد کرتا ہے تو وہی اُس کا نام رکھتا ہے یا وہ چیز یا قانون اُسی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔بعض چیزوں کے نام کسی کی یاد میں یا اعزاز میں رکھے جاتے ہیں۔ اسی طرح جب کوئی چیز جو حکومت بنائے وہی اُس کا نام بھی رکھتی ہے۔ اس کی مثالیں ہمیں روزمرہ زندگی میں عام طور پر ملتی ہیں جیسے نیوٹن نے سائنس کے کچھ قوانین بنائے تھے تو آج بھی اُن قوانین کو نیوٹن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اسی طرح جنہوں نے پاکستان بنایا انہوں نے ہی اس سرزمین کا نام رکھا تھا۔
اس عجیب کہانی سے آپ کا دل تو اُکتا رہا ہوگا لیکن تھوڑا سا انتظار کریں کیونکہ یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ ہمارے معاشرے میں اتنی خرابی پیدا ہوگئی ہے کہ ہم کوئی کام خود سے کرتے تونہیں لیکن اپنی بات دوسروں پر ٹھونستے ضرور ہیں۔ جیسے بچے کا نام اُس کے رشتہ دار ٹھونستے ہیں اسی طرح ہماری حکومت خود سے کچھ کرنے کی بجائے عوام کی محنت یا گذشتہ حکومت کے اچھے کاموں پر اپنا نام ٹھونستی ہے بلکہ حکومت تو اس سے بھی ایک قدم آگے نکل گئی ہے۔ وہ تو پہلے سے بنی ہوئی چیزوں اور اُن کے رکھے ہوئے ناموں کو تبدیل کر کے اپنی مرضی کے نئے نام ٹھونس رہی ہے۔ نوا ب شاہ کا نام تبدیل کر کے بینظیر بھٹو شہید رکھ دیا ہے۔ سیدنواب شاہ کی روح کے ساتھ عجیب مذاق کیا گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ سید نواب شاہ کی طرح زرداری صاحب خود سے ساڑھے چھ سو ایکڑ زمین غریبوں کو شہر بسانے کے لئے دیتے پھر اُس شہر کا جو چاہے نام رکھتے۔ چاہے بینظیر بھٹو شہید رکھتے یا زرداری ٹا ؤن رکھتے ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوتا بلکہ خوشی ہوتی۔ ایک اور نام ٹھونس دیا گیا ہے۔ اسلام آباد انٹر نیشنل ایئر پورٹ کا نام بینظیر بھٹو شہید کر دیا گیا ہے۔ ویسے کیا ہی اچھا ہوتا کہ ایک نئا ایئر پورٹ بنایا جاتا پھر اُس کا نام بینظیر بھٹو شہید رکھا جاتا۔ ویسے جب بلاول پیدا ہوئے تھے کیا ہی اچھا ہوتا عوام تب پھوپھی اور خالہ کی طرح میدان میں کود پڑتی اور بلاول کا نام عوام رکھتی۔ ویسے ابھی بھی کوئی مضائقہ نہیں جیسے ملکی املاک کا نام حکومت تبدیل کر رہی ہے ایسے ہی عوام اب پھوپھی اور خالہ کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ لیکن ایسا کرنے سے عوام کا جو حال ہو گا وہ تو سب جانتے ہیں۔
میں تو کہتا ہوں صدر صاحب صاحبِ حیثیت آدمی ہیں۔ محترمہ بھی مالدار خاتون تھیں اوپر سے کافی انشورنس بھی ملی ہے تولگتے ہاتھوں شہر شہر سکول، کالج، یونیورسٹی اور ہسپتال بنائیں۔ پھر سب کا نام اپنے یا بینظیر بھٹو شہید کے نام سے رکھیں۔ ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو گا بلکہ ہم اور ہماری آنے والی نسلیں صدر صاحب اور اُن کے خاندان کے لئے سلامتی کی دعائیں کریں گی۔ ہم اتنی دعائیں کریں گے کہ صدر صاحب کی حکومت کو کبھی زوال نہیں آئے گا۔ صدر صاحب کو دعائیں دینے کا وقت آنے سے پہلے ہماری ایک التجا ہے خدا کے لئے عوام کی بنائیں ہوئی چیزوں اور پہلے سے رکھے ہوئے ناموں کو تبدیل کر کے اپنے نام نہ ٹھونسے۔ عوام اور سید نواب شاہ جیسے لوگوں کی روحوں کے ساتھ مذاق نہ کریں۔
سنا ہے اس میدان میں وفاقی حکومت ہی نہیں بلکہ اب تو صوبہ سرحد کی حکومت بھی اتر چکی ہے اور پشاور ایئر پورٹ کا نام بھی تبدیلی کے مراحل میں ہے۔ نئانام باچا خان(غفار خان) کے نام پر رکھا جا رہا ہے۔
اگر ایسے ہی نام تبدیل ہوتے رہے اور ہر اقتدار میں آنے والے نام ہی تبدیل کرتے رہے تو لگتا ہے ایک وقت ایسا آئے گا جب مزارِ قائد اور علامہ اقبال کے مقبرے تک کا نام اپنے آبا ؤاجداد کے نام سے تبدیل کر دیا جائے گا بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام آبا ؤاجدادی جمہوریہ اقتدارستان ہو جائے گا۔
عموماً ہمارے معاشرے میں جہاں بے جا خاندانی روایات اور چند بلاوجہ اثر انداز ہونے والے لوگ موجود ہوں وہاں جب کسی کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو ڈھیر ساری خوشیوں کے ساتھ ساتھ ایک جنگ نما ماحول بھی شروع ہو جاتا ہے جو کہ بچے کا نام رکھنے کی اتھارٹی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اگر والدین کسی مجبوری کے بغیر یہ اتھارٹی کسی کو دے دیں تو علیحدہ بات ہے۔ خیر عموماً اس جنگ کے حریف پھوپھی اور خالہ ہوتیں ہیں۔ آخر جو جنگ جیتتی ہے وہی بچے کا نام رکھتی ہے۔ بیچارے والدین اپنے بچے کا نام رکھنے تک کی تمنا دل میں دبائے سلگتے رہتے ہیں یا کچھ عرصہ بعد نام تبدیل کر دیتے ہیں یا پھر اسے رب کی رضا سمجھ کر صبر کر لیتے ہیں۔ حالانکہ اس معاملے میں بھی وہی ہونا چاہئے جو دنیا کا قانون ہے یعنی جب کوئی انسان کوئی چیز یا قانون بناتا ہے یا ایجاد کرتا ہے تو وہی اُس کا نام رکھتا ہے یا وہ چیز یا قانون اُسی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔بعض چیزوں کے نام کسی کی یاد میں یا اعزاز میں رکھے جاتے ہیں۔ اسی طرح جب کوئی چیز جو حکومت بنائے وہی اُس کا نام بھی رکھتی ہے۔ اس کی مثالیں ہمیں روزمرہ زندگی میں عام طور پر ملتی ہیں جیسے نیوٹن نے سائنس کے کچھ قوانین بنائے تھے تو آج بھی اُن قوانین کو نیوٹن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اسی طرح جنہوں نے پاکستان بنایا انہوں نے ہی اس سرزمین کا نام رکھا تھا۔
اس عجیب کہانی سے آپ کا دل تو اُکتا رہا ہوگا لیکن تھوڑا سا انتظار کریں کیونکہ یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ ہمارے معاشرے میں اتنی خرابی پیدا ہوگئی ہے کہ ہم کوئی کام خود سے کرتے تونہیں لیکن اپنی بات دوسروں پر ٹھونستے ضرور ہیں۔ جیسے بچے کا نام اُس کے رشتہ دار ٹھونستے ہیں اسی طرح ہماری حکومت خود سے کچھ کرنے کی بجائے عوام کی محنت یا گذشتہ حکومت کے اچھے کاموں پر اپنا نام ٹھونستی ہے بلکہ حکومت تو اس سے بھی ایک قدم آگے نکل گئی ہے۔ وہ تو پہلے سے بنی ہوئی چیزوں اور اُن کے رکھے ہوئے ناموں کو تبدیل کر کے اپنی مرضی کے نئے نام ٹھونس رہی ہے۔ نوا ب شاہ کا نام تبدیل کر کے بینظیر بھٹو شہید رکھ دیا ہے۔ سیدنواب شاہ کی روح کے ساتھ عجیب مذاق کیا گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ سید نواب شاہ کی طرح زرداری صاحب خود سے ساڑھے چھ سو ایکڑ زمین غریبوں کو شہر بسانے کے لئے دیتے پھر اُس شہر کا جو چاہے نام رکھتے۔ چاہے بینظیر بھٹو شہید رکھتے یا زرداری ٹا ؤن رکھتے ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوتا بلکہ خوشی ہوتی۔ ایک اور نام ٹھونس دیا گیا ہے۔ اسلام آباد انٹر نیشنل ایئر پورٹ کا نام بینظیر بھٹو شہید کر دیا گیا ہے۔ ویسے کیا ہی اچھا ہوتا کہ ایک نئا ایئر پورٹ بنایا جاتا پھر اُس کا نام بینظیر بھٹو شہید رکھا جاتا۔ ویسے جب بلاول پیدا ہوئے تھے کیا ہی اچھا ہوتا عوام تب پھوپھی اور خالہ کی طرح میدان میں کود پڑتی اور بلاول کا نام عوام رکھتی۔ ویسے ابھی بھی کوئی مضائقہ نہیں جیسے ملکی املاک کا نام حکومت تبدیل کر رہی ہے ایسے ہی عوام اب پھوپھی اور خالہ کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ لیکن ایسا کرنے سے عوام کا جو حال ہو گا وہ تو سب جانتے ہیں۔
میں تو کہتا ہوں صدر صاحب صاحبِ حیثیت آدمی ہیں۔ محترمہ بھی مالدار خاتون تھیں اوپر سے کافی انشورنس بھی ملی ہے تولگتے ہاتھوں شہر شہر سکول، کالج، یونیورسٹی اور ہسپتال بنائیں۔ پھر سب کا نام اپنے یا بینظیر بھٹو شہید کے نام سے رکھیں۔ ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو گا بلکہ ہم اور ہماری آنے والی نسلیں صدر صاحب اور اُن کے خاندان کے لئے سلامتی کی دعائیں کریں گی۔ ہم اتنی دعائیں کریں گے کہ صدر صاحب کی حکومت کو کبھی زوال نہیں آئے گا۔ صدر صاحب کو دعائیں دینے کا وقت آنے سے پہلے ہماری ایک التجا ہے خدا کے لئے عوام کی بنائیں ہوئی چیزوں اور پہلے سے رکھے ہوئے ناموں کو تبدیل کر کے اپنے نام نہ ٹھونسے۔ عوام اور سید نواب شاہ جیسے لوگوں کی روحوں کے ساتھ مذاق نہ کریں۔
سنا ہے اس میدان میں وفاقی حکومت ہی نہیں بلکہ اب تو صوبہ سرحد کی حکومت بھی اتر چکی ہے اور پشاور ایئر پورٹ کا نام بھی تبدیلی کے مراحل میں ہے۔ نئانام باچا خان(غفار خان) کے نام پر رکھا جا رہا ہے۔
اگر ایسے ہی نام تبدیل ہوتے رہے اور ہر اقتدار میں آنے والے نام ہی تبدیل کرتے رہے تو لگتا ہے ایک وقت ایسا آئے گا جب مزارِ قائد اور علامہ اقبال کے مقبرے تک کا نام اپنے آبا ؤاجداد کے نام سے تبدیل کر دیا جائے گا بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام آبا ؤاجدادی جمہوریہ اقتدارستان ہو جائے گا۔