اسلامی معاشرت میں دوسرے افراد کے ساتھ خیر خواہی کی اہمیت

dehelvi

محفلین

اسلام میں معاشرت کی بلندی کا معیار یہ ہے کہ خیر خواہی میں اپنے نفس اور اپنے بھائی کے درمیان سرمو فرق باقی نہ رکھا جائے۔
وعن انس عن النبی صلی الله علیہ وسلم انہ قال: والذی نفسی بیدہ لا یومن عبد حتی یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ۔​
(متفق علیہ، مشکٰوة ص 422، وعن ابن عساکر بلفظ لم یبلغ عبد حقیقة الایمان۔ کما فی المشکٰوة۔)
ترجمہ: حضرت انس رضی الله عنہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایمان کی حقیقت کو نہیں پاسکتا جب تک کہ اُس میں یہ صفت پیدا نہ ہوجائے کہ جو بات وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے وہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے بھی پسند نہ کرنے لگے۔
تشریح: اصل بات یہ ہے کہ ایمان کا درخت امانت کی زمیں میں لگتا ہے اور یہ قاعدہ ہے کہ زمین جتنی بہتر ہو درخت اتنا ہی سرسبز وشاداب ہوتا ہے، اسی طرح یہ صفت جتنی اس کے قلب میں موجود ہوگی اتنا ہی اس کا ایمان کامل ہوگا۔ اسلام کی نظر میں دل کے کسی گوشے میں اپنے اور اپنے بھائی کے درمیان فرق کرنا اُخوت اور امانت دونوں کے خلاف ہے اس لئے ہم کو چاہیے کہ حتی الوسع اس کی کوشش کریں کہ یہ صفت ہم میں پیدا ہو تا کہ حقیقت ایمان تک رسائی ہوجائے۔
اب آپ اس حدیث کی کسوٹی پر اپنے ایمان کو پرکھئے اور یہ فیصلہ خود کرلیجئے کہ آپ کے ایمان میں کتنا کھوٹ ہے اور اگر خدا نہ کردہ قلبی جذبات یہاں تک تجاوز کرگئے ہوں کہ اگر اپنے مسلمان بھائی کو کوئی خیر نصیب ہوجا تو دل کو اس پر ناگواری ہونے لگے تو اس کو تو کفر کا ایک شعبہ سمجھنا چاہیے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
ما یود الذین کفروا من اہل الکتٰب ولا المشرکین ان ینزل علیکم من خیر من ربکم۔ (دل نہیں چاہتا ان لوگوں کا جو کافر ہیں، اہل کتاب میں اور نہ مشرکوں میں اس بات کو کہ اترے تم پر کوئی نیک بات تمہارے رب کی طرف سے۔ (پارہ۱ رکوع ۱۳)
اس حدیث سے یہ بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام میں صفت امانت کی کتنی اہمیت ہے اور دوسری جہت سے اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اسلامی معاشرت کتنی بلند معاشرت ہے اگر آج صرف یہی ایک شعبہ ہماری معاشرت میں داخل ہوجائے تو ہمارے تمام نزاعات ایک ہی آن میں ختم ہوجائیں اور عالم کی نظروں میں ہمارا مقام کچھ دوسرا ہی نظر آئے۔ حدیث مذکورہ بالا گو بہت مختصر ہے مگر جتنی مختصر ہے اتنی اہم بھی ہے، اس کو بار بار پڑھنا چاہیے اور عمل کے لئے تا بحد امکان قدم اُٹھانا چاہیے۔
حق تعالیٰ نے جب عالم کو پیدا فرمایا تھا تو بارِ امانت اُٹھانے کے لئے سب سے پہلے اپنی مخلوقات میں سے سب سے مضبوط مخلوق کو خطاب فرمایا، یعنی زمین وآسمان وپہاڑ۔ لیکن صرف یہ دیکھ کر کہ یہ امانت کیا ہے اور اس کی وسعت اور اہمیت کیا اور اس میں کیسی کیسی باریکیاں ہیں اس کے اُٹھانے سے سب نے انکار کیا اور سہم کر رہ گئے، اور انسان کے مقدر میں کیونکہ خلافت کا تاج لکھا ہوا تھا، اس لئے اس نے بے دھڑک اقرار کرلیا۔ اسی طرح آیت انا عرضنا الامانة علی السمٰوٰت والارض الخ (ہم نے دکھلائی امانت آسمانوں کو اور زمین کو) (پارہ ۲۲ رکوع۶) میں اشارہ ہے، اس کی تفصیل کے لئے بھی ایک رسالہ درکار ہے۔​
(اقتباس از جواہر الحکم، تالیف مولانا بدر عالم میرٹھی مرحوم، صفحہ 98، 99)​
 
Top