ربط
دراصل حزبِ اقتداراور حزبِ اختلاف کی سیاست اسلام کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی۔کیونکہ آپ حزبِ اقتدار میں ہیں تو آپ کو صحیح اور غلط کی تمیز کے بغیر حکومت کا ساتھ دینا ہے، ورنہ اختلاف کا کوئی نہ کوئی پہلو تلاش کرنا ہے۔ اصولی طور پر پوری اسمبلی یا پارلیمنٹ کو ''حزبِ احتساب‘‘ کا کردار ادا کرنا چاہئے کہ اگر حاکمِ وقت کے اقدامات ، حکمتِ عملی اور فیصلے درست سَمت میں ہیں تو سب پران کی حمایت لازم ہے اور اگر وہ غلط سَمت میں جارہا ہے، تو سب پر اس کے غلط فیصلوں کی مخالفت کرنا اور اسے راستی پر لانا لازم ہے۔ رسول اللہ ﷺ تو ''معصوم عنِ الخطاء‘‘ تھے ، آپ پر تو وحیِ ربّانی نازل ہوتی تھی، اس لئے ہر صورت میں آپ کی اطاعت لازم تھی، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''آپ کے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے، جب تک کہ اپنے باہمی تنازعات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر آپ کے فیصلے پر اپنے دلوں میں (بھی) کوئی گھٹن محسوس نہ کریں اور( آپ کے کئے ہوئے ہر فیصلے کو) خوش دلی سے تسلیم کریں ،(النساء:65)‘‘۔ لیکن آپ کے بعد کوئی معصوم نہیں ہے، اب ہر حاکم کے ہر فیصلے کو قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا، اُسے چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ ہر صحیح فیصلے کی حمایت کی جائے گی اور حاکم غلطی پر ہے تو اسے راستی پرلایا جائے گا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور تم میں سے جو صاحبانِ امر ہیں ان کی اطاعت کرو، پس اگر کسی معاملے (کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے ) میں تم میں اختلاف ہوجائے ، تو (آخری فیصلے کے لئے) اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو، اگر اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہی (رَوِش) بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا ہے،(النساء:59)‘‘۔
امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا اندازِ حکمرانی اس کی عمدہ مثال ہے ، ایک بار آپ نے اپنے خطبہ میں متنبہ کیا کہ لوگوں نے مہر زیادہ مقرر کرنے شروع کردئیے ہیں، اس پر ایک خاتون کھڑی ہوئی اور کہا :امیرا لمومنین اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:''اور اگر تم ان میں سے ایک کو(یعنی اپنی بیوی کو مہر میں) ڈھیروں مال دے چکے ہو، تو اس مال میں سے کچھ بھی واپس نہ لو،(النساء:20)‘‘۔یعنی قرآن میں تو ''قِنطار‘‘ کا کلمہ آیا ہے اور آپ مہر کی رقم کی تحدید کرنا چاہتے ہیں ۔ اس پر حضرت عمر فاروق نے کہا:''عورت نے درست کہااور عمر سے غلطی ہوگئی‘‘، چنانچہ انہوں نے اپنی رائے سے رجوع کرلیا،(سنن کبریٰ للبیہقی،جلد7،ص:233)‘‘۔ اسی طرح ان کے عہدِ خلافت میں ایک شخص طواف کے دوران کچلا گیا اور اس کی موت واقع ہوگئی ۔ اُس کا معاملہ امیر المومنین کے سامنے پیش ہوا۔ انہوں نے کہا کہ یہ پتا چلانا مشکل ہے کہ کس کے پاؤں تلے کچلنے سے اس کی موت واقع ہوئی ، اس لئے اس کی دیت کسی پر بھی عائد نہیں کی جاسکتی ، اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:''امیر المومنین !مومن کا خون رائگاں نہیں جاتا، اس کی دیت بیت المال سے اداکی جائے‘‘۔ حضرت عمر فاروق ؓنے اپنے فیصلے سے رجوع کیا اور کہا:''اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا‘‘۔ ایک موقع پر حضرت عمر ؓنے خطبے کے دوران کہا کہ اگر میں غلط روش اختیار کروں تو تم کیا کرو گے ۔ اس پر ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا: ''میری یہ تلوار آپ کو سیدھا کردے گی‘‘ ۔ اس پر حضرت عمر ؓنے اللہ کا شکر ادا کیاکہ جب تک انہیں روکنے اور ٹوکنے والے موجود ہیں، امت کے معاملات درست سَمت پر چلتے رہیں گے۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اسلامی امارت وخلافت کے لئے زریں اصول اپنے اولین خطبۂ خلافت میں ارشادفرمایا:''جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے جادۂ مستقیم پر چلتا رہوں، تم پر میری اطاعت لازم ہے اور اگر (بفرضِ محال )میں اس سے انحراف کروں تو تم پر میری اطاعت لازم نہیں ہے‘‘۔
دراصل حزبِ اقتداراور حزبِ اختلاف کی سیاست اسلام کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی۔کیونکہ آپ حزبِ اقتدار میں ہیں تو آپ کو صحیح اور غلط کی تمیز کے بغیر حکومت کا ساتھ دینا ہے، ورنہ اختلاف کا کوئی نہ کوئی پہلو تلاش کرنا ہے۔ اصولی طور پر پوری اسمبلی یا پارلیمنٹ کو ''حزبِ احتساب‘‘ کا کردار ادا کرنا چاہئے کہ اگر حاکمِ وقت کے اقدامات ، حکمتِ عملی اور فیصلے درست سَمت میں ہیں تو سب پران کی حمایت لازم ہے اور اگر وہ غلط سَمت میں جارہا ہے، تو سب پر اس کے غلط فیصلوں کی مخالفت کرنا اور اسے راستی پر لانا لازم ہے۔ رسول اللہ ﷺ تو ''معصوم عنِ الخطاء‘‘ تھے ، آپ پر تو وحیِ ربّانی نازل ہوتی تھی، اس لئے ہر صورت میں آپ کی اطاعت لازم تھی، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''آپ کے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے، جب تک کہ اپنے باہمی تنازعات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر آپ کے فیصلے پر اپنے دلوں میں (بھی) کوئی گھٹن محسوس نہ کریں اور( آپ کے کئے ہوئے ہر فیصلے کو) خوش دلی سے تسلیم کریں ،(النساء:65)‘‘۔ لیکن آپ کے بعد کوئی معصوم نہیں ہے، اب ہر حاکم کے ہر فیصلے کو قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا، اُسے چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ ہر صحیح فیصلے کی حمایت کی جائے گی اور حاکم غلطی پر ہے تو اسے راستی پرلایا جائے گا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور تم میں سے جو صاحبانِ امر ہیں ان کی اطاعت کرو، پس اگر کسی معاملے (کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے ) میں تم میں اختلاف ہوجائے ، تو (آخری فیصلے کے لئے) اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو، اگر اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہی (رَوِش) بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا ہے،(النساء:59)‘‘۔
امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا اندازِ حکمرانی اس کی عمدہ مثال ہے ، ایک بار آپ نے اپنے خطبہ میں متنبہ کیا کہ لوگوں نے مہر زیادہ مقرر کرنے شروع کردئیے ہیں، اس پر ایک خاتون کھڑی ہوئی اور کہا :امیرا لمومنین اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:''اور اگر تم ان میں سے ایک کو(یعنی اپنی بیوی کو مہر میں) ڈھیروں مال دے چکے ہو، تو اس مال میں سے کچھ بھی واپس نہ لو،(النساء:20)‘‘۔یعنی قرآن میں تو ''قِنطار‘‘ کا کلمہ آیا ہے اور آپ مہر کی رقم کی تحدید کرنا چاہتے ہیں ۔ اس پر حضرت عمر فاروق نے کہا:''عورت نے درست کہااور عمر سے غلطی ہوگئی‘‘، چنانچہ انہوں نے اپنی رائے سے رجوع کرلیا،(سنن کبریٰ للبیہقی،جلد7،ص:233)‘‘۔ اسی طرح ان کے عہدِ خلافت میں ایک شخص طواف کے دوران کچلا گیا اور اس کی موت واقع ہوگئی ۔ اُس کا معاملہ امیر المومنین کے سامنے پیش ہوا۔ انہوں نے کہا کہ یہ پتا چلانا مشکل ہے کہ کس کے پاؤں تلے کچلنے سے اس کی موت واقع ہوئی ، اس لئے اس کی دیت کسی پر بھی عائد نہیں کی جاسکتی ، اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:''امیر المومنین !مومن کا خون رائگاں نہیں جاتا، اس کی دیت بیت المال سے اداکی جائے‘‘۔ حضرت عمر فاروق ؓنے اپنے فیصلے سے رجوع کیا اور کہا:''اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا‘‘۔ ایک موقع پر حضرت عمر ؓنے خطبے کے دوران کہا کہ اگر میں غلط روش اختیار کروں تو تم کیا کرو گے ۔ اس پر ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا: ''میری یہ تلوار آپ کو سیدھا کردے گی‘‘ ۔ اس پر حضرت عمر ؓنے اللہ کا شکر ادا کیاکہ جب تک انہیں روکنے اور ٹوکنے والے موجود ہیں، امت کے معاملات درست سَمت پر چلتے رہیں گے۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اسلامی امارت وخلافت کے لئے زریں اصول اپنے اولین خطبۂ خلافت میں ارشادفرمایا:''جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے جادۂ مستقیم پر چلتا رہوں، تم پر میری اطاعت لازم ہے اور اگر (بفرضِ محال )میں اس سے انحراف کروں تو تم پر میری اطاعت لازم نہیں ہے‘‘۔