اسلامی نظریہ اور ثقافت

نایاب

لائبریرین
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر کسی غیر مسلم کے ساتھ عملِ خیر رکھتے تھے تو وہ مسلمان بھی ہوجاتا تھا لیکن آج کل میں نے کبھی کسی "مسلمان" کو نہیں دیکھا جو ان کو ساتھ کھانا کھلائے اور وہ اس عمل کی تاب نہ لاتے ہوئے مسلمان ہو جائیں
اب جب بندہ ہندوؤں کے ساتھ کھانا کھائیگا تو عقیدہ بھی ان والا ہی آئیگا
میرے محترم بھائی
بہت عجیب بات کی آپ نے ۔
اگر کوئی ہندو کے ساتھ کھانے سے ہندو ہو سکتا ہے
تو مسلمان کے ساتھ کھانے سے مسلمان کیوں نہیں ہو سکتا ۔ ؟
آج اک پوسٹ لگی ہے محفل اردو پر
کل کا نائٹ کلب کا مالک آج کا موذن مکہ ۔۔۔
آپ سے اس پوسٹ کی بنظر غائر مطالعہ کی التجا ہے ۔
بلا شک اللہ جسے چاہے جب چاہے ہدایت سے نواز دے ۔
 

عدیل منا

محفلین
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر کسی غیر مسلم کے ساتھ عملِ خیر رکھتے تھے تو وہ مسلمان بھی ہوجاتا تھا لیکن آج کل میں نے کبھی کسی "مسلمان" کو نہیں دیکھا جو ان کو ساتھ کھانا کھلائے اور وہ اس عمل کی تاب نہ لاتے ہوئے مسلمان ہو جائیں
یہاں پر میرے ایک دوست ہیں جن کی دکان پر ایک ہندو ملازم ہے۔ میں نے دوست سے کہا کہ آپ نے کبھی اس کو اسلام کی دعوت دی تو وہ کہنے لگے کہ اگر میں نے اس کو اسلام کی دعوت دی تو پہلے تو وہ اپنے اور میرے مذہب میں فرق تلاش کرے گا۔ جو یہ لوگ کر رہے ہیں ہم بھی وہی کر رہے ہیں۔ تو اس کا پہلا سوال یہ ہوگا کہ اگر تم اپنے جیسا مسلمان کرنا چاہتے ہو تو وہ میں پہلے سے ہوں۔
ہمیں پہلے خود کو بدلنا ہے پھر دیکھیں اگر کوئی تاب نہ لائے تو۔
 
یہ بات شاید آپ نے مذاق میں کہی ہے مگر میں اس کا جواب سنجیدگی سے دے رہا ہوں۔
ياأيها الذين آمنوا لا تتخذوا اليهود والنصارى أولياء بعضهم أولياء بعض۔(آخر تک) (المائدۃ۔51)
اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو، یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست مت بناؤ۔ یہ آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا دوست بناتا ہے تو پھر اس کا شمار بھی انہی میں ہے ۔ یقیناََ اللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کردیتا ہے۔
یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب اسلام اور کفر کے درمیان کشمکش کا فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ مسلمانوں میں جو لوگ منافق تھے وہ اسلامی جماعت میں رہتے ہوئے یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ بھی ربط رکھنا چاہتے تھے تاکہ یہ کشمکش اسلام کی شکست پر ختم ہوتو ان کیلئے کوئی نہ کوئی جائے پناہ محفوظ رہے۔ اس آیت کو آج کے دور کے تناظر میں دیکھا جائے تو ماحول کا اثر انسان پر ضرور پڑتا ہے۔
میں نے مذاق میں ہی کہی تھی
 
تَرٰى كَثِیْرًا مِّنْهُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ اَنْفُسُهُمْ اَنْ سَخِطَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ وَ فِی الْعَذَابِ هُمْ خٰلِدُوْنَ۝۸۰​
ان میں تم بہت کو دیکھو گے کہ کافروں سے دوستی کرتے ہیں کیا ہی بری چیز اپنے لئے خود آگے بھیجی یہ کہ اللہ کا ان پر غضب ہوا اور وہ عذاب میں ہمیشہ رہیں گے​
[AYAH]6:80[/AYAH]
 

سید ذیشان

محفلین
اب جب بندہ ہندوؤں کے ساتھ کھانا کھائیگا تو عقیدہ بھی ان والا ہی آئیگا
عقیدہ کھانے کے ذریعے منتقل ہوتا ہے کیا؟ عقیدہ نہ ہوا کوئی اچھوت مرض ہوگیا۔ اگر آپ کو اپنے عقیدے پر اتنا ہی پختہ یقین ہے تو آپ کا عقیدہ تو ہندو میں منتقل ہونا چاہیے نہ کہ اس کے برعکس۔ آخرکار سائنس کا ایک اصول ہے کہ چیزیں زیادہ مقدار سے کم مقدار کی طرف منتقل ہوتی ہیں۔ :)

مذاق برطرف۔ ایک بات کہتا چلوں کہ امام علی نے زندگی کے بیشتر حصے میں یہودیوں کے باغات میں محنت مزدوری کی اور وہی ان کی معاش کا ذریعہ ہوتا تھا۔
 

سید ذیشان

محفلین
تَرٰى كَثِیْرًا مِّنْهُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ اَنْفُسُهُمْ اَنْ سَخِطَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ وَ فِی الْعَذَابِ هُمْ خٰلِدُوْنَ۝۸۰​
ان میں تم بہت کو دیکھو گے کہ کافروں سے دوستی کرتے ہیں کیا ہی بری چیز اپنے لئے خود آگے بھیجی یہ کہ اللہ کا ان پر غضب ہوا اور وہ عذاب میں ہمیشہ رہیں گے​
[AYAH]6:80[/AYAH]
خدا کے لئے آیتوں کو اس طرح اپنے مقاصد کے لئے نہ استعمال کریں۔ ہر آیت کی اپنی شان نزول ہوتی ہے، اور ہر آیت کا اطلاق ہر ماحول پر نہیں ہوتا۔

مثال کے طور پر اس آیت کو دیکھیں:
سورہ التوبہ
5. فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُواْ لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِن تَابُواْ وَأَقَامُواْ الصَّلاَةَ وَآتَوُاْ الزَّكَاةَ فَخَلُّواْ سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌO
5. پھر جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو تم (حسب اعلان جن) مشرکوں (نے اَز سر نو جنگ شروع کر دی ہے، دوران جنگ ان) کو جہاں کہیں بھی پاؤ قتل کر دو اور اُنہیں گرفتار کر لو اور انہیں قید کر دو اور (انہیں پکڑنے اور گھیرنے کے لیے) ہر گھات کی جگہ ان کی تاک میں بیٹھو، پس اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo




تو کیا ہم سب اب کافروں کی تاک میں بیٹھ کر ان کو قتل کرنا شروع کر دیں؟
 
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ
اے ایمان والو! مشرکین تو سراپا نجاست ہیں
O ye who believe! Truly the Pagans are unclean
(9:28)
 
خدا کے لئے آیتوں کو اس طرح اپنے مقاصد کے لئے نہ استعمال کریں۔ ہر آیت کی اپنی شان نزول ہوتی ہے، اور ہر آیت کا اطلاق ہر ماحول پر نہیں ہوتا۔

مثال کے طور پر اس آیت کو دیکھیں:
سورہ التوبہ
5. فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُواْ لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِن تَابُواْ وَأَقَامُواْ الصَّلاَةَ وَآتَوُاْ الزَّكَاةَ فَخَلُّواْ سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌO
5. پھر جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو تم (حسب اعلان جن) مشرکوں (نے اَز سر نو جنگ شروع کر دی ہے، دوران جنگ ان) کو جہاں کہیں بھی پاؤ قتل کر دو اور اُنہیں گرفتار کر لو اور انہیں قید کر دو اور (انہیں پکڑنے اور گھیرنے کے لیے) ہر گھات کی جگہ ان کی تاک میں بیٹھو، پس اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo




تو کیا ہم سب اب کافروں کی تاک میں بیٹھ کر ان کو قتل کرنا شروع کر دیں؟

حضرت صاحب نہایت عاجزی سے عرض ہے کہ میں نے یہ آیت تفسیر دیکھ کر لکھی تھی اور تفسیر اس لیے نہیں لکھی کہ یہاں ہر مسلک کا بندہ ہے کچھ لوگوں کو پسند نہیں آئیگی۔
اس آیت کی تفسیر میں کچھ یوں لکھا ہوا ہے
"مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ کُفّار سے دوستی و موالات حرام اور اللّٰہ تعالٰی کے غضب کا سبب ہے ۔"(خزائن العرفان)
اور بھائی صاحب میں اپنے عقیدے کے مطابق چلوں گا آپ لوگوں کی بات ماننا میرے لیے فرض نہیں۔
 

سید ذیشان

محفلین
حضرت صاحب نہایت عاجزی سے عرض ہے کہ میں نے یہ آیت تفسیر دیکھ کر لکھی تھی اور تفسیر اس لیے نہیں لکھی کہ یہاں ہر مسلک کا بندہ ہے کچھ لوگوں کو پسند نہیں آئیگی۔
اس آیت کی تفسیر میں کچھ یوں لکھا ہوا ہے
"مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ کُفّار سے دوستی و موالات حرام اور اللّٰہ تعالٰی کے غضب کا سبب ہے ۔"(خزائن العرفان)
اور بھائی صاحب میں اپنے عقیدے کے مطابق چلوں گا آپ لوگوں کی بات ماننا میرے لیے فرض نہیں۔

القاعدہ والے بھی مفتیوں سے فتوے لے کر بیگناہوں کا قتل کرتے ہیں۔
بحرحال میں نے جو کہنا تھا وہ میں کہہ چکا پچھلی پوٹس میں۔ اگر آپ لوگ نفرتوں میں رہ کر خوش ہیں تو بھلا میں کیوں اپنا دل جلاوں۔
 
القاعدہ والے بھی مفتیوں سے فتوے لے کر بیگناہوں کا قتل کرتے ہیں۔
بحرحال میں نے جو کہنا تھا وہ میں کہہ چکا پچھلی پوٹس میں۔ اگر آپ لوگ نفرتوں میں رہ کر خوش ہیں تو بھلا میں کیوں اپنا دل جلاوں۔
آپ کی مرضی آپ مانیں یا نہ مانیں۔
اور ویسے بھی آپ لوگوں کی تو مجبوری ہے۔
 
جب قرآن پاک میں مشرکوں کو نجس کہا گیا ہے ، تو اس کے بارے میں کیاکہیں گے؟ کیا یہ بھی نفرت کی وجہ سے ہے؟۔۔سیدھی سی بات ہے کہ اسکا تعلق فرد کی ظاہری و باطنی طہارت سے ہے، اس فرد سے نفرت یا محبت کی وجہ سے نہیں ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ایک اندازِ نظر یہ بھی ہے ، نظریات کے اختلاف پر کھانے ساتھ کھانے سے انکار کرنا

ڈاکٹر عبدالسلام مسلمانوں کو کیا سمجھتے تھے؟
اس سلسلہ میں معروف صحافی و کالم نویس جناب تنویر قیصر شاہد نے ایک دلچسپ مگر فکر انگیز واقعہ اپنی ذاتی ملاقات میں راقم کو بتایا۔ یہ واقعہ انہی کی زبانی سنئے اور قادیانی اخلاق پر غور کیجیے:
’’ایک دفعہ لندن میں قیام کے دوران بی بی سی لندن کی طرف سے میں اپنے ایک دوست کے ساتھ بطور معاون، ڈاکٹر عبدالسلام کے گھر ان کا تفصیلی انٹرویو کرنے گیا۔ میرے دوست نے ڈاکٹر سام کا خاصا طویل انٹرویو کیا اور ڈاکٹر صاحب نے بھی بڑی تفصیل کے ساتھ جوابات دیئے۔ انٹرویو کے دوران میں بالکل خاموش، پوری دلچسپی کے ساتھ سوال و جواب سنتا رہا۔ دوران انٹرویو انہوں نے ملازم کو کھانا دسترخوان پر لگانے کا حکم دیا۔
انٹرویو کے تقریباً آخر میں عبدالسلام مجھ سے مخاطب ہوئے اور کہاں کہ آپ معاون کے طور پر تشریف لائے ہیں مگر آپ نے کوئی سوال نہیں کیا۔ میری خواہش ہے کہ آپ بھی کوئی سوال کریں۔
ان کے اصرار پر میں نے بڑی عاجزی سے کہا کہ چونکہ میرا دوست آپ سے بڑاجامع انٹرویو کر رہا ہے اور میں اس میں کوئی تشنگی محسوس نہیں کر رہا، ویسے بھی میں، آپ کی شخصیت اور آپ کے کام کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ میں نے آپ کے متعلق خاصا پڑھا بھی ہے۔ جھنگ سے لے کر اٹلی تک آپ کی تمام سرگرمیاں میری نظرں سے گزرتی رہی ہیں لیکن پھر بھی ایک خاص مصلحت کے تحت میں اس سلسلہ میں کوئی سوال کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔
اس پر ڈاکٹر عبدالسلام فخریہ انداز میں مسکرائے اور ایک مرتبہ اپنے علمی گھمنڈ اور غرور سے مجھے ’’مفتوح‘‘ سمجھتے ہوئے ’’فاتح‘‘ کے انداز میں ’’حملہ آور‘‘ ہوتے ہوئے کہا کہ
’’نہیں… آپ ضرور سوال کریں، مجھے بہت خوشی ہو گی۔‘‘
بالآخر ڈاکٹر صاحب کے پرزور اصرار پر میں نے انہیں کہا کہ آپ وعدہ فرمائیں کہ آپ کسی تفصیل میں گئے بغیر میرے سوال کا دوٹوک الفاظ ’’ہاں‘‘ یا ’’نہیں‘‘ میں جواب دیں گے۔
ڈاکٹر صاحب نے وعدہ فرمایا کہ ’’ٹھیک! بالکل ایسا ہی ہو گا؟‘‘
میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ چونکہ آپ کا تعلق قادیانی جماعت سے ہے، جو نہ صرف حضور نبی کریم کی بحیثیت آخری نبی منکر ہے، بلکہ حضور نبی کریم کے بعد آپ لوگ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی اور رسول مانتے ہیں۔ جبکہ مسلمان مرزا قادیانی کی نبوت کا انکار کرتے ہیں۔
آپ بتائیں کہ مدعی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی نہ ماننے پر آپ مسلمانوں کو کیا سمجھتے ہیں؟
اس پر ڈاکٹر عبدالسلام بغیر کسی توقف کے بولے کہ
’’میں ہر اس شخص کو کافر سمجھتا ہوں جو مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی نہیں مانتا۔‘‘
ڈاکٹر عبدالسلام کے اس جواب میں، میں نے انہیں کہا کہ مجھے مزید کوئی سوال نہیں کرنا۔ اس موقع پر انہوں نے اخلاق سے گری ہوئی ایک عجیب حرکت کی کہ اپنے ملازم کو بلا کر دستر خوان سے کھانا اٹھوا دیا۔ پھر ڈاکٹر صاحب کو غصے میں دیکھ کر ہم دونوں دوست ان سے اجازت لے کر رخصت ہوئے۔
 
گندگی سے ہر سلیم الطبع انسان کراہیت محسوس کرتا ہے، چاہے وہ گندگی کسی دوست میں پائی جائے یا غیر میں، کسی مسلمان میں پائی جائے یا غیر مسلم میں
 

سید ذیشان

محفلین
جب قرآن پاک میں مشرکوں کو نجس کہا گیا ہے ، تو اس کے بارے میں کیاکہیں گے؟ کیا یہ بھی نفرت کی وجہ سے ہے؟۔۔سیدھی سی بات ہے کہ اسکا تعلق فرد کی ظاہری و باطنی طہارت سے ہے، اس فرد سے نفرت یا محبت کی وجہ سے نہیں ہے۔
یہ نجاست ritual purity ہے، جیسا کہ بے وضو ہونا۔ یا حالت جنابت میں ہونا۔ اس میں آپ مسجد میں نہیں جا سکتے لیکن آپ کھانا بھی کھا سکتے ہیں (بشرطیکہ کھابا حلال ذریعے سے کمایا ہو اور ہاتھ صابن سے دھوئے ہوں :D )
 

سید ذیشان

محفلین
آپ کی مرضی آپ مانیں یا نہ مانیں۔
اور ویسے بھی آپ لوگوں کی تو مجبوری ہے۔
بھائی صاحب ڈسکشن کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کے خیالات سے آگاہ ہوں۔ اور اس سے کچھ سیکھیں۔ لیکن ایک بات ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھنا پڑے گا۔ لیکن نفرتوں کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
 
بھائی صاحب ڈسکشن کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کے خیالات سے آگاہ ہوں۔ اور اس سے کچھ سیکھیں۔ لیکن ایک بات ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھنا پڑے گا۔ لیکن نفرتوں کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
بھائی صاحب میں نے ہندو کے ساتھ بیٹھنے والی بات کی تھی کہ آدمی پر اسکی صحبت کا اثر ہوتا ہے۔اور اکثر اوقات یہی پڑھنے سننے کو ملتا ہے کہ بری صحبت سے بچو۔
اور میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر آپ کے ساتھ کو غیر مسلم کام کرتا ہے تو کریں آپکو کوئی نہیں روکتا لیکن آفس سے ہٹ کر دوستیاں کرنا میں اسکے سخت خلاف ہوں اور یقیناُ اسلام میں بھی اسکی ممانعت ہے۔یہ میری ذاتی رائے ہے اور ہر کوئی اس سے اختلاف کر سکتا ہے
باقی ہر آدمی کا اپنا فعل ہے جو چاہے کرے میں کون ہوتا ہوں روکنے والا
 
میرا بیٹا اگر باتھ روم سے آکر ہاتھ دھوئے بغیر میرے ساتھ کھانے میں شریک ہوجائے تو میں اسے منع کروں گا اور اسے ہاتھ دھوکر آنے کیلئے کہوں گا۔۔۔کیا اس سے یہ مطلب نکالا جائے گا کہ مجھے اپنے بیٹے سے محبت نہیں ہے یا میرا یہ رویہ نفرت پر مبنی ہے؟
سیدھی سی بات ہے کہ اکثر نان مسلمز میں یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ کچھ معاملا ت میں صفائی کا خیال نہیں رکھتے۔ میں جب گلف میں نیا نیا آیا تو یہاں فلپائینی باشندوں کے ساتھ واسطہ پڑا۔ میں نے اکثر دیکھا کہ ان میں سے کافی سمجھدار حضرات بھی کافی کا کپ ہاتھ میں لئیے بلاتکلف ٹائلٹ میں چلے جایا کرتے اور اسی حالت میں واپس آکر دوبارہ کھانے کی ٹیبل پر یا دوستوں میں بیٹھ جاتے۔۔۔اسی طرح گلف می کئی بار اخبارات میں ایسی خبریں آئی ہیں کہ انڈیا سے تعلق رکھنے والی کچھ ہندو خادمائیں اپنے کفیل اور اسکے اہلِ خانہ کے کھانے میں اپنا پیشاب مکس کر کے انہیں کھانا کھلاتی رہی ہیں (اس عقیدے کی بنیاد پر کہ اس طرح انکا کفیل انکا مطیع ہوکر رہے گا یعنی ناجائز تنگ نہیں کرے گا)۔۔۔اسی طرح میرے ایک دوست نے یہ چشم دید واقعہ سنایا کہ ایک ہندو آفس پوائے اپنے باس کی چائے میں پہلے تھوکتا تھا اور پھر اسے یہ چائے پیش کرتا تھا۔۔۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ احتیاط اچھی چیز ہے، نفرت اچھی نہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
ایام کالج کے دوران جب میں فرسٹ یر میں تھا تو ان دنوں نیا نیا شیعیت پر مائل ہوا تھا، لہذا مذہبی بنیاد پرستی کا نشہ چڑھا ہوا تھا۔ میرا بہت اچھا دوست 'جے کمار لاکھوانی' تھا جس کا تعلق ہندو برادری سے تھا۔ شیعہ مجتہدین کے مطابق کافر نجس ہیں (موجودہ مجتہدین اہلِ کتاب کو پاک قرار دینے لگے ہیں)، اور ان کے جسم کی رطوبت بھی نجس ہے۔ اس لیے ان کے ساتھ کھانا کھانے کو ناجائز قرار دیا جاتا ہے۔ خیر، ہم سب دوست روزانہ کالج کے بعد کھانا کھانے جاتے تھے، سب ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔ مگر میرے کٹر پنے کی حد یہ تھی کہ میں اس کی چھوئی ہوئی چیز کو کھانے سے انکار کر دیتا تھا، کوشش کرتا تھا کہ اس کی پلیٹ الگ ہو اور اگر ایسا ممکن نہ ہوتا تو میں اصرار کر کے الگ نکلوایا کرتا تھا۔ اب وہ بچہ تو ہے، یقینا سمجھ گیا ہوگا کہ اس کے ساتھ میں امتیازی سلوک برتتا ہوں اور برا بھی لگتا ہوگا، مگر وہ کیا کہہ سکتا تھا۔۔۔ خیر، اب جب میں نے عقیدوں وقیدوں کو پسِ پشت ڈال دیا ہے اور اب اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو بہت شرم محسوس کرتا ہوں۔ کیونکہ اگر یہی حرکت کوئی میرے ساتھ کر رہا ہوتا تو مجھے بالکل برداشت نہیں ہوتی۔ لیکن یہی رویہ میں نے اس کے ساتھ دو سال تک جاری رکھا، صرف اس کے ہندو ہونے کی بنا پر۔۔۔

اور جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ غیر مسلم پاکیزگی کا خیال نہیں رکھتے اور ان کے ساتھ کھانے میں ابکائی آتی ہے، انہیں میں بتاتا چلوں کہ ایک اچھے گھرانے سے تعلق رکھنے والا میرا ہندو دوست لاکھوں مسلمانوں سے زیادہ پاک صاف رہا کرتا تھا۔۔۔ اس لیے یہ کہنا کہ وہ ناپاک ہوتے ہیں صرف مذہبی تعصب پر مبنی بات ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
سیدھی سی بات ہے کہ اکثر نان مسلمز میں یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ کچھ معاملا ت میں صفائی کا خیال نہیں رکھتے۔

اس بات کا حقیقت سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے مذہبی منافرت سے البتہ یہ کافی قریب ہے۔
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ پاکستان میں لوگ سڑکوں پر گندگی پھیلاتے ہیں اور جب بھی آپ سڑک پر سفر کرتے ہیں تو جب آبادی آنے لگتی ہے تو آپ کو گندگی کے ڈھیروں سے معلوم ہو جاتا ہے کہ آبادی آ گئی ہے۔ جب کہ پاکستان میں 97 فی صد مسلمان ہیں۔ جب کبھی یورپ یا امریکہ سے کوئی "کافر" آئے گا تو آپ کے خیال سے وہ یہ سمجھے گا کہ ہم کافر تو بہت گندے لوگ ہیں اور یہ مسلمان بہت ہی پاک صاف لوگ ہیں؟
ایک دو شخصی مثالوں سےیہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ غلیظ لوگ ہیں۔ یہ مثالیں تو یہی ثابت کرتی ہیں کہ دوسرے مذاہب کے لوگوں سے ہم شاکی رہتے ہیں اور ان پر اعتماد نہیں کر سکتے۔
اگر کوئی آپ سے آپ کے مذہب کی وجہ سے شاکی رہے اور آپ پر انسانی بنیادوں پر اعتماد نہ کرے تو ایسے انسان کو آپ کیا سمجھیں گے؟
 
Top