اسلامی پہچان اور قوم کا سوال

یہ سوال پہلے بھی اٹھائے جاتے رہے ہیں کہ اگر دنیا بھر کے سبھی مسلمان ایک ہی قوم کا حصہ ہیں تو اتنے الگ الگ مسلم ممالک کیوں؟
اگر مسلم اُمہ صرف ایک خیال نہیں بلکہ حقیقت ہے تو پھر اسلامی ملک نیشن اسٹیٹ کی سرحدوں میں کیوں بندھے ہوئے ہیں؟ اور کیوں دوسرے غیر مسلم ممالک کی طرح آپس کی جنگ میں الجھ جاتے ہیں؟ اگر ہندؤں اور مسمانوں کو دو الگ الگ قومیں مان کر پاکستان بنا تو پھر بنگلہ دیش کے بننے کا کیا فلسفہ اور کون سی بنیاد تھی؟
لیکن اگر اس بات کو خارج کر دیا جائے کہ مسلم اُمہ جیسی کوئی چیز در حقیقت نہیں ہے تو پھر ایسا کیوں ہے کہ فلسطینیوں کی جدوجہد پر بنگلہ دیش یا سوڈان کا مسلمان جتنا حساس بنتا ہے، اتنا تبت کی آزادی کی جنگ کے لیے نہیں؟ان سوالات کے جوابات اب اس بچے نے تلاش کرنے کی کوشش کی ہے جسے ان کے والد نے ڈیڑھ سال کی عمر میں ہی چھوڑ دیا اور پھر کبھی پلٹ کر ان کی طرف نہیں دیکھا۔
اس بچے کی والدہ بھارتی اور والد پاکستانی ہیں۔ وہ اٹھائیس سال پہلے اپنی ایک کتاب شائع ہونے کے بعد دِلی آئے اور ان کی ملاقات ایک نامی گرامی صحافی خاتون سے ہوئی۔ ایک ہفتے تک دونوں کے درمیاں نزدیکیاں بڑھ گئی اور نتیجتاً آتِش تاثیر کا جنم ہوا۔پاکستان سے آئے اس شخص کا نام سلمان تاثیر ہے جو پاکستان پیپلز پارٹی کے بڑے رہنماؤں میں سے ایک ہیں اور ان دنوں پنجاب کے گورنر بھی ہیں۔
رشتوں میں کھنچاؤ
والد کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے آتِش تاثیر کی پیدائش کی بات پسِ پردہ رکھی گئی۔ آتِش کی پرورش بھارت میں ہی ہوئی لیکن ان کی والدہ نے انہیں اسلامی شناخت دی حالانکہ وہ خود سکھ مذھب میں یقین رکھتی ہیں۔
آتِش کے والدین کے درمیان پھر کبھی رابطہ نہیں ہوا۔ آتِش کو مذہبی پرورش سے دور رکھا اور یہی وجہ تھی کہ بڑے ہونے پر ان کے سامنے شناخت کی بڑی مشکل پیدا ہوگئی۔
یہ مشکل صرف ہندستانی یا پاکستانی ہونے کی نہیں بلکہ ایک مسلمان والد اور سکھ والدہ کی اولاد ہونے کی وجہ سے بھی تھی۔
آتِش کے لیے ان کے سیاستدان والد، ان کا مذھب اور قومیت اتنے انجان رہے کہ بڑے ہونے پر انہوں نے ایک سفر کے ذریعے ان سبھی کو پہچاننے کی کوشش کی۔ لیکن یہ نہایت ہی نجی سفر بڑے سوالات میں الجھتا چلا گیا اور نتیجتاً ایک کتاب تیار ہوئی۔ ’اسٹرینجر ٹو ھسٹری: اے سنز جرنی تھرو اسلامک لینڈز‘(Stranger to History: A Sons Journey Through Islamic Lands)۔
مسلم پہچان
اٹھائیس سال کے آتِش تاثیر لکھتے ہیں کہ وہ مسلمان ہونے کے گہرے نہیں بلکہ ایک ہلکے سے احساس کے ساتھ بڑے ہوئے۔ چھ سال کی عمر میں اپنے ماموں زاد اور خالہ زاد بھائی بہنوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے ایک بھائی نے چلا کر کہا۔ ’آتِش کا سُوسُو ننگا ہے۔‘
یہ جملہ آتِش کی یادوں سے ابھی تک نہیں مٹ سکا ہے اور شاید تب پہلی بار انہیں محسوس ہوا کہ وہ اپنے دوسرے سکھ بھائیوں سے تھوڑا الگ ہیں۔
اسی احساس نے انہیں اپنے مسلمان والد اور ان کے مسلم ملک پاکستان کو زیادہ جاننے اور سمجھنے پر اکسایا۔
لیکن آتِش نے پایا کہ ان کے والد حالانکہ مذھبی بنیاد پرست نہیں ہیں اور شراب کے شوقین ہیں۔ پھر بھی وہ خود کو تہذیبی نقطہ نظر سے مسلمان مانتے ہیں۔
تہذیبی طور پر مسلمان ہونے کی معنی کی تلاش میں آتِش نے شام اور سعودی عرب سے لے کر ترکی، ایران اور پاکستان کے سفر کا فیصلہ کیا تاکہ مسلمانوں کی نفسیات اور اس نفسیات کو تیار کرنے میں اسلام کے کردار کو سمجھ سکیں۔
پہچان کی تلاش
تاثیر کی کتاب اس سفر کی دستاویز ہے۔ انہوں نے ان ممالک کے سفر کے دوران عام مسلمانوں یعنی طالبِ علم، دوکاندار، پینٹر، ٹیکسی ڈرائیور اور ایسے ہی دوسرے لوگوں سے ملاقاتیں کی۔
ان کی کتاب اس معنی میں کامیاب کہی جا سکتی ہے کہ وہ اس سفر کی تفصیلات بتاتے ہوئے کافی گمبھیر سوالات اٹھاتے ہیں۔ ترکی میں ان کی ملاقات ایسے اسلام پرستوں سے ہوئی جو وہاں کی سخت سیکیولر حکومت سے نفرت کرتے ہیں اور اسے پہلی فرصت میں زمین دوز کر دینا چاہتے ہیں۔
لیکن ترکی کے اسلام پرست جس طرح کی خالص اسلامی حکومت کا خواب دیکھتے ہیں، ویسی حکومت ایران میں عام لوگوں کو اسلام کے قریب لانے کے بجائے اسے دور کرتی چلی گئی ہے۔
تہران میں آتِش تاثیر ایسے لوگوں سے ملتے ہیں جو مسلمان ہونے کے باوجود پردے کے پیچھے بت پرست ہرے راما ہرے کرشنا کمیونٹی کو مانتے ہیں اور کرشن بھگوان کے مجسمے کے سامنے بھجن پڑھتے ہیں۔
تہران میں ہی ان کی ملاقات ایک پینٹر سے ہوئی جو کبھی مذہبی رہا ہو گا۔ لیکن ایک بار ان کے ایک دوست نے ان کی کار سے قرآن شریف کو اٹھا کر باہر پھنک دیا اور کہا کہ اس میں کچھ نہیں ہے۔
یہ واقعہ اس پینٹر کے لیے زندگی کی راہ بدلنے والا ثابت ہوا۔ ان کے لیے یہ اسلام سے زیادہ اس حکومت اور انتظامیہ کے خلاف ایک چھوٹا سا قدم تھا جو پولیس کی طاقت پر اسلامی قانون نافذ کرتی ہے۔
تاثیر لکھتے ہیں، ’ایران پہنچ کر مجھے پتا لگا اور شام میں اس کا ہلکا احساس ہوا کہ مذہبی عقیدے کو باقی دنیا کے خلاف ایک منفی سوچ سے جب ایک مثبت تجربے میں بدلا جاتا ہے تو وہ کس قدر خود ہی کو زخمی کرنے والا بن جاتا ہے۔‘
سازش؟
آتِش کہتے ہیں کہ ترکی کے لوگ اس خالص اسلامی نظام کا تصور کرتے ہیں جو غالباً اسلام کے پیغمبر کے زمانے میں رہا ہو۔ وہ ماڈرن دنیا کو اسلام کے خلاف ایک سازش کے طور پر دیکھتے ہیں اور اسے پوری طرح خارج کرتے ہیں۔ پر اسی اسلامی یوٹوپیا کو جب ایران میں ممکن کر دیا جاتا ہے جو وہ خواب درہم برہم ہو جاتا ہے۔
کتاب میں مسلم دنیا کے تضادات کو تو بہت دلچسپ طریقے سے اٹھایا گیا ہے لیکن یہ یاد رکھا جانا چاہیے کہ آتِش تاثیر کی پرورش جس ماحول میں ہوئی وہاں آتِش کے والد پر صرف ناراضگی اور غصہ تھا۔
آتِش نے ذاتی رشتوں میں ہوئی کڑواہٹ اور غصے کو بڑے پیمانے پر سمجھنے کی کوشش کی ہے، اس لیے مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں ان کے کئی خیالات سطحی ہیں اور ان پر تعصب کا سایا صاف دیکھا جا سکتا ہے۔
 

arifkarim

معطل
اور اسی سوال کا جواب بھی کئی بار دیا جا چکے ہے کہ ہم میں مغربی نظریہ قومیت رچ بس گیا ہے۔ اسوجہ سے ایرانی مسلمان اور پاکستانی مسلمان بھائی بھائی ہونے کے باوجود اپنی اپنی "حدود" میں رہتے ہیں۔
 
Top