صدام کا حلبچہ پر کیمیائی بم گرانا اور امریکہ بہادر کی حکومت کا منافقانہ رویہ
فواد صاحب:
اس ايشو کے حوالے سے بل کلنٹن انتظاميہ اور موجودہ امريکی حکومت کے علاوہ ديگر ممالک کو جو مسلسل رپورٹس ملی تھيں اس ميں اس بات کے واضح اشارے تھے کہ صدام حسين مہلک ہتھياروں کی تياری کے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس حوالے سے صدام حسين کا ماضی کا ريکارڈ بھی امريکی حکام کے خدشات ميں اضافہ کر رہا تھا۔ نجف، ہلہ،ہلاجہ اور سليمانيہ ميں صدام کے ہاتھوں کيميائ ہتھیاروں کے ذريعے ہزاروں عراقيوں کا قتل اور 1991 ميں کويت پر عراقی قبضے سے يہ بات ثابت تھی کہ اگر صدام حسين کی دسترس ميں مہلک ہتھياروں کا ذخيرہ آگيا تواس کے ظلم کی داستان مزيد طويل ہو جائے گی۔ اس حوالے سے خود صدام حسين کی مہلک ہتھياروں کو استعمال کرنے کی دھمکی ريکارڈ پر موجود ہے۔ 11 ستمبر 2001 کے حادثے کے بعد امريکہ اور ديگر ممالک کے خدشات ميں مزيد اضافہ ہو گيا۔
امریکی اور یورپی اقوام کے مثبت رویے اور کردار کی میں نے ہمیشہ دل کھول کر تعریف کی ہے اور انکو اسکا مکمل کریڈٹ دیا ہے۔ واقعی یہاں پر انسان اور انسانیت کا احترام ہے۔
بہرحال امریکی حکومت اور سی آئی اے کے کچھ کردار بہت منافقانہ رہے ہیں۔
ایران دشمنی میں امریکہ نے صدام حسین سے دوستی یاری کی بہت پینگیں بڑھائی تھیں اور میں اس مسئلے کی تفصیل میں نہیں جا رہی۔ میرا پہلا موضوع ہے حلبچہ پر صدام حسین کا کیمیائی حملہ اور امریکی حکومت کا اس ضمن میں کردار۔
///////////////////////////////
حلبچہ پر کیمیائی حملے کی مختصر تفصیل:
۱۔ حلبچہ عراق کا حصہ ہے جہاں کرد آبادی رہتی ہے اور یہ صدام حسین کے مخالف تھے۔
۲۔ صدام حسین کے حکم پر حلبچہ کے پورے شہر پر کیمیائی بم برسائے گئے جس سے ایک رات میں پانچ ہزار سے زیادہ عورتیں، بچے اور عام شہری ہلاک ہو گئے۔
حلبچہ کی اس پانچ ہزار معصوم نہتی آبادی پر ان کیمیائی بموں کا جو رد عمل ہوا، وہ "انسانیت" کے منہ پر ایک طمانچہ تھا۔ ذرا حوصلہ کر کے سنیے کہ کیا ہوا:
۱۔ چونکہ اس سے قبل صدام حسین ایرانی فوج کے خلاف کیمیائی بم استعمال کر رہا تھا اس لیے اُسے امریکی حکومت کی مکمل حمایت حاصل رہی [اور یہ حمایت اس صورت میں تھی کہ امریکہ میں ان کیمیائی حملوں کے خلاف میڈیا میں
ایک آواز بلند نہ ہوئی]
۲۔ چنانچہ جب حلبچہ کی شہری آبادی پر بم برسائے گئے تو امریکہ کے اخبارات و میڈیا اور حکومت کی طرف سے ایک ذرا سا بھی ردعمل نہ تھا [جبکہ اگر اسرائیل کا ایک فوجی مارا جائے تو پورا امریکہ درد سے چلا اٹھتا ہے]
۳۔ چونکہ پاکستان بھی امریکہ اور سعودیہ کے زیر اثر تھا، اس لیے پاکستان کے اخبارات میں بھی انسانیت پر اس ظلم کے خلاف ایک خبر نہیں چھپی۔ [سعودیہ، کویت، عرب امارات وغیرہ سب اس جنگ میں صدام حسین کے حلیف تھے اور اس لیے انکے اخبارات میں تو ویسے ہی کوئی خبر نہیں چھپ سکتی تھی]
میڈلین البرائیٹ اور حلبچہ کے کیمیائی بم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حلبچہ میں انسانیت پر ہونے والے اس عظیم ظلم کے بہت سالوں بعد امریکہ نے پہلی خلیجی جنگ لڑی اور صدام حکومت کو شکست دی۔
۔ اس پہلی جنگ ہارنے کے بعد صدام نے وعدہ کیا کہ وہ کیمیائی ہتھیار تباہ کر دے گا۔
۔ مگر عراق پر دوسرا حملہ کرنے کے لیے امریکی حکومت مسلسل الزام لگاتی رہی کہ صدام حسین کے پاس کیمیائی بم ہیں۔
بہت بہت سالوں بعد جب میڈلین البرائیٹ نےپھر ایک کانفرنس میں صدام حسین کے کرتوتوں کا ذکر کرتے ہوئے حلبچہ کا ذکر کیا توایک صحافی نے سوال کیا: "آج جب کم از کم ظاہری طور پر عراق میں تمام کیمیائی مواد تباہ کیا جا چکا ہے اُس کے باوجود آپ اسرائیل کی سلامتی کے لیے ان کیمیائی ہتھیاروں پر اتنا شور کر رہی ہیں، مگر کیا وجہ ہے کہ جب صدام حسین نے حلبچہ پر کیمیائی بم برسا کر ایک ہی رات میں 5 ہزار سے زائد شہری آبادی کو نیست و نابود کر دیا تھا تو اس پر آپکے اخبارات میں ایک لفظ نہیں چھپا اور نہ ہی آپ نے کوئی شور و واویلا کیا، بلکہ سال ہا سال گذر گئے اور آپ نے ایک لفظ نہیں کہا، مگر آج آپ کو صدام کے تمام گناہ یاد آ رہے ہیں تو اسکی کیا وجہ ہے۔"
اب ذرا دل تھام کر امریکی حکومت کی اس اہم شخصیت میڈلین البرائیٹ کا بہانہ سنیے۔
میڈم میڈلین البرائیٹ اس سوال پر ناخوش ہوتی ہیں اور جواب میں کہتی ہیں: "جب صدام حسین نے حلبچہ پر حملہ کیا تھا اُس وقت سی آئی اے کو یقین نہیں تھا کہ صدام حسین کے پاس کیمیائی بم موجود ہیں۔"
جی ہاں، یہ میڈم البرائیٹ کے الفاظ تھے سی آئی اے کے متعلق۔۔۔۔ یعنی نہ سی آئی اے کو ان کیمیائی ہتھیاروں کا علم تھا اور نہ ان 5 ہزار کرد شہریوں کے مرنے کا علم۔
////////////////////////////
جس دن میڈلین البرائیٹ نے یہ انٹرویو دیا اس وقت میں ہوسپٹل میں تھی اور وہاں پر ایک جرمن نرس میڈلین البرائیٹ کو برا بھلا کہہ رہی تھی کیونکہ اُس کے مطابق حلبچہ کی جنگ سے قبل صدام حسین نے کئی ہزار ایرانیوں پر کیمیائی بم حملے کیے تھے اور ان میں سے کئی ہزار کو علاج کے لیے ایرانی حکومت نے جرمنی بھیجا تھا اور یہ نرس وہاں پر معمور رہی تھی۔
چنانچہ اُس رات کو اُس جرمن نرس نے میڈلین البرائیٹ اور امریکہ کو برا بھلا کہا کہ سی آئی اے کو کیسے ان تمام سالوں میں صدام حسین کے کیمیائی ہتھیاروں کا علم نہ ہو سکا جبکہ جرمنی میں ہزاروں متاثرہ افراد علاج کروا چکے تھے۔
اسکے بعد اگلے ویک اینڈ تک ہسپتال سے میں فارغ ہو چکی تھی اور جمعے کو ایرانی مسجد میں مجلس جانے کا اتفاق ہوا۔ اس مسجد میں پورے ہفتے کے پرانے اخبارات ذخیرہ رہتے تھے اور تمام ایرانی اخبارات میڈلین البرائیٹ کے اس جھوٹ پر سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے کہ اتنے ہزاروں لوگوں کو صدام حسین نے پوری جنگ کے دوران کیمیائی بموں سے نیست و نابود کر دیا مگر سی آئ اے اس سے بے خبر رہی، اور خبر ہوئی تو صرف اور صرف اُس وقت ہوئی جب اسرائیل کو اس سے خطرہ محسوس ہوا۔
///////////////////////////
میرا ماننا یہ ہے کہ امریکی حکومت اور سی آئی اے اپنے مفادات کے نام پر کہیں پر بھی کسی بھی وقت "انسانیت" کو نیست و نابود کرنے میں دیر نہیں لگاتے ہیں اور جب ایسا معاملہ درپیش ہو تو امریکی میڈیا بھی اپنی حکومت کا مکمل وفادار ہے۔
فواد صاحب نے مزید تحریر فرمایا ہے:
يہ رپورٹ پڑھنے کے بعد يہ فيصلہ ميں آپ پر چھوڑتا ہوں کہ عراق کے مستقبل کے ليے کيا صورتحال زيادہ بہتر ہے صدام حسين کا وہ دوراقتدار جس ميں وہ اپنے کسی عمل کے ليے کسی کے سامنے جوابدہ نہيں تھے اور سينکڑوں کی تعداد ميں عراقيوں کو قید خانوں ميں ڈال کر ان پر تشدد کرنا معمول کی بات تھی يا 12 ملين عراقی ووٹرز کی منتخب کردہ موجودہ حکومت جو عراقی عوام کے سامنے اپنے ہر عمل کے ليے جوابدہ ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ حکومت سازی کے حوالے سے ابھی بھی بہت سے مسائل ہيں ليکن مستقبل کے ليے اميد افزا بنياديں رکھ دی گئ ہيں۔عراق کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے يہ حقيقت بھی مد نظر رکھنی چاہيے کہ امن وامان کی موجودہ صورتحال کی ذمہ دارامريکی افواج نہيں بلکہ وہ دہشت گرد تنظيميں ہيں جو بغير کسی تفريق کے معصوم عراقيوں کا خون بہا رہی ہيں۔ حال ہی ميں الغزل نامی بازار ميں ذہنی معذور لڑکيوں کے جسم پر بم باندھ کر ان کے ذريعے کروائے جانے والے دھماکے اور اس کے نتيجے ميں سو سے زيادہ بے گناہ عراقيوں کی موت اس سلسلے کی تازہ مثال ہے۔کيا آپ تصور کر سکتے ہيں کہ عراق کی صورت حال کيا ہو گی اگر ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائ نہ کی جائے جو بس اسٹيسن، بازاروں اور سکولوں پر حملہ کرنے ميں کوئ عار محسوس نہيں کرتے۔
بلا شبہ مجھے صدام حسین کی قتل و غارت یا آج ان دہشت گرد تنظیموں سے انتہائی نفرت ہے۔
مگر کاش کہ فواد صاحب، یا امریکی حکومت مجھے یہ بتا دے کہ آج آپ لکھ رہے ہیں کہ صدام حسین سینکڑوں کی تعداد میں عراقیوں کو قید خانوں میں ڈال کر تشدد کرنا معمول سمجھتا تھا اور اُس کا گناہ حلبچہ کی کرد آبادی پر کیمیائی بم برسانا بھی تھا۔۔۔۔۔ مگر فواد صاحب کاش کہ آپ اور آپ کی امریکی حکومت یہ قبول کر سکے کہ نہ صرف انکی خارجہ پالیسیوں میں غلطی ہوتی رہی ہے بلکہ وہ انتہائی منافقانہ و ظالمانہ بھی رہی ہیں اور صدام کے جو مظالم آج آپ اور آپ کی امریکی حکومت بیان کر رہی ہے، صدام حسین کے انہی جرائم کی وہ اُس وقت مکمل پشت پر تھے جب یہ جرم کیے جا رہے تھے۔
امریکہ کی طرح پاکستانی اخبارات میں بھی حلبچہ اور صدام حسین کے مظالم پر ایک خبر شائع نہیں ہوئی۔ اور پاکستان کے کالم لکھنے والے تمام تر دانشوران اس پر اُس وقت خاموش رہے۔
اور آج جب القاعدہ جیسی دھشت گرد تنظیمیں عراق میں تین چار لاکھ معصوم شہریوں کو بموں کا حملہ بنا چکے ہیں تو پھر ہمارے یہ کالم لکھنے والے دانشوران پھر چپ سادھے ہوئے ہیں اور اپنے گریبان کے گندگی کو دیکھنے کے لیے تیار نہیں اور القاعدہ اور ان انتہا پسندوں کے خلاف کچھ لکھتے ہوئے انکے قلموں کی سیاہی پھر خشک ہو جاتی ہے جبکہ دوسروں کے خلاف لکھ لکھ کر انہوں نے دفتر بھر دیے ہیں۔
انہی دانشوران کے اس ناانصافانہ رویے کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں یہ القاعدہ کے خود کش حملہ آور پلتے بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور عوام میں ان کو اپنے لیے ہمدردیاں مل رہی ہیں۔
ہمارے یہ دانشور ایسے ہیں کہ ہمارے یہ انتہا پسند کتنے ہی بے گناہوں کو قتل نہ کر دیں، وہ فورا اس سب کی خرابی کا ذمہ دار امریکہ کو ٹہرا دیتے ہیں۔
اور ہمارے یہ دانشور ایسے ہیں کہ انہیں سات پردوں میں بھی لپٹی ہوئی ہر امریکی سازش کا علم ہوتا ہے اور اس خیالی سازش کے زوروں پر بہت زوردار آرٹیکل لکھ رہے ہوتے ہیں، مگر جب بات آتی ہے القاعدہ کی تو انکے نزدیک ابھی تک القاعدہ کا کوئی وجود نہیں بلکہ امریکہ نے خود ہوا کھڑا کرنے کے لیے گیارہ ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ کروایا تھا، اور عراق میں جو یہ تین چار لاکھ معصوم شہری خود کش حملوں کی وجہ سے مر چکے ہیں تو یہ تمام خوش کش حملے امریکہ کروا رہا ہے جبکہ مسلمانوں کا اپنا دامن تو بالکل پاک صاف ہے اور اپنے گریبان کی گندگی دور کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
اب میں کس کس چیز کا رونا رووں؟
کیا امریکہ بہادر کی حکومت کا رونا رووں، یا عراق میں مارے گئے لاکھوں معصوموں کا یا پھر اپنے ملک عزیز میں ہونے والے خود کش حملوں کا۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب کے سب انسانیت کے دشمن ہیں اور میری دعا یہی ہے کہ میڈیا واقعی ایک دن اتنا آزاد ہو جائے کہ حکومتوں کے مفادات سے اوپر اٹھ کر انسانیت کے مفادات کو تحفظ فراہم کر سکے۔ امین۔