عمران خان سیاست کی وہ لڑاکا بہو ہیں کہ جس کی جس سے بنی پھر اس سے نہیں بنی۔ بھلے وہ نواز شریف سے نوعمری کے زمانے کی دوستی ہو کہ جنرل پرویز مشرف کے ابتدائی اقتداری دنوں کی مداحی کہ برطرف چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے گن گانے کا زمانہ کہ جیو نیٹ ورک سے الیکشن سے پہلے کی یاری ۔ ان دنوں عمران خان کی صحبت شیخ رشید، چوہدری برادران اور چار کے انصافی ٹولے کے ساتھ ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔
قوم شمالی وزیرستان کی طرف دیکھ رہی ہے اور عمران خان متنازع چار سیٹوں پر ٹکٹکی لگائے بیٹھے ہیں۔ باقی دنیا غزہ کی فکر میں دبلی ہو رہی ہے مگر چار سیٹوں پر کیا قیامت بیت گئی اس کی اسرائیل سے چین تک کسی کو پرواہ نہیں۔ داعش نے شام اور عراق میں اپنی خلافت تو قائم کرلی لیکن مجال ہے جو چار سیٹوں پر ایک لفظ بھی فتوی دیا ہو۔ سب کو یوکرین میں روسی جارحیت تو نظر آ رہی ہے مگر چار سیٹوں پر دھاندلی نہ پوتن کو دکھائی دے رہی ہے نہ یورپی یونین کو۔
امریکہ سمیت چھ مغربی ممالک جوہری پروگرام کو بین الاقوامی نگرانی میں دینے کےلیے ایران پر مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں۔ مگر مجال ہے جو ایران سمیت کسی نے بھی چار سیٹوں کے معاملے میں شریف حکومت پر ذرا بھی دباؤ ڈالا ہو۔ حتیٰ کہ اقوامِ متحدہ پر بھی عمران خان کی چار سیٹوں کی بابت ایک مجرمانہ خاموشی طاری ہے۔
تو کوئی ایسا ادارہ بچا ہے جو عمران خان کی فریاد کو سنجیدگی سے لے ؟ بقول خان صاحب الیکشن کمیشن چوروں سے ملا ہوا ہے۔ الیکشن ٹریبونل کے فیصلے غیر جانبدار ہو ہی نہیں سکتے اور ججوں کو چار سیٹوں سے زیادہ موسمِ گرما کی عدالتی تعطیلات سے دلچسپی ہے۔ اب خدا ہی کچھ کرے تو کرے۔اس لیے چڑھ دوڑو اسلام آباد کے سومناتھ پر اور توڑ ڈالو وہ سب بت جو ان دنوں مجھے پسند نہیں۔
عمران خان کو قدرت نے حریف بھی شریف برادران جیسا عطا کیا جو گیند ڈی تک لے جانے میں تو مہارت رکھتے ہیں لیکن گول کیسے کرنا ہے یہ نہیں معلوم۔ تین مرتبہ آرام دہ اکثریت ملنے کے باوجود ان کی حالت اس غریب کی سی ہے جسے لاٹری میں مرسڈیز مل جائے تو اسی فکر میں برباد ہوجاتا ہے کہ اسے رکھنا کہاں ہے ؟ کھڑی کھڑی کو کوئی شرارتی لونڈا اسکریچ مار گیا تو کیا ہوگا ؟ سڑک پے نکالوں گا تو کہیں کوئی گدھا گاڑی ہی نہ ٹکرا جائے اور گدھا گاڑی سے بچ گئی تو کوئی پستول دکھا چابیاں ہی نہ چھین لے۔اور پھر اردگرد والوں پر میگا میگا منصوبوں کی باتیں کرکے دھاک بھی تو بٹھانی ہے۔
کچھ حاسد کہتے ہیں: ’اوچھے کے ہاتھ میں تیتر، باہر رکھوں کے بھیتر۔‘ ۔لیکن ہم ان چچھوروں سے بار بار کہتے ہیں کہ ذاتیات پر اترنا اچھی بات نہیں اور شریف برادران کے بارے میں یہ محاورہ قطعاً بے محل و ناشائستہ ہے۔
باقی رہ گئے آصف علی زرداری ۔تو ہمیں عمران خان کی سیاسی چنچی سے لٹکے شیخ رشید کے اس مشاہدے سے سو فیصد اتفاق ہے کہ پاکستانی فنِ سیاست میں پی ایچ ڈی کی ڈگری صرف زرداری صاحب کے پاس ہے۔ جہاں دوسروں کی سیاست ختم ہوتی ہے وہاں سے زرداری کی شروع ہوتی ہے۔
اب دیکھیے کہ مرکز اور تین صوبوں میں صفایا ہونے کے بعد بھی پیپلز پارٹی لیڈر آف دی اپوزیشن ہے۔ کون انکار کرسکتا ہے کہ سادہ سے بھی کم اکثریت ہونے کے باوجود زرداری نے پانچ گیندیں بغیر گرے اچھالتے ہوئے پانچ برس ایسے نکالے کہ کیا کوئی مکھن میں سے بال نکالےگا۔اور اب کسی بڑے جھگڑے میں پڑے بغیر ایک صوبائی کونے میں بیٹھے دہی کھا رہے ہیں اور وہ بھی چینی ڈال کے۔ دوستی سب سے دشمنی کسی سے نہیں۔
میں نے اپنے محلے کے صلو قصائی سے زیادہ زرداری کا بھگت آج تک نہیں دیکھا۔ صلو بھائی کے بقول:
’پہلی بات تو یو ہے کہ قسم اللہ پاک کی میں نے تو آج تک آل پاکستان میں کوئی ایسا جوان کا بچہ نہیں دیکھا جس کا دسترخوان بھائی زرداری کے لنگر سے بڑا ہو۔ آپ بھائی زرداری کو ایک کلو گوشت دے دو۔جتے بھی آدمی ہوں گے وتوں سے پوچھے گا بھئی تیرے کو کیا چہئیے ؟ کسی کو پسندہ پسند ہے تو کسی کو بھنا قیمہ تو کسی کو قورمہ تو کسی کو کڑاہی تو کسی کو شوربے والی بوٹی۔ بھائی کے ہاتھ میں اوپر والے نے ایسی برکت ڈالی ہے کہ اسی ایک کلو گوشت میں سے سب کی فرمائشیں پوری کردے گا اور تب بھی آدھا کلو صاف بچا لے جائےگا۔ مگر بابو جی ہم پاکستانی لوگ ایسوں کی قدر کہاں کرتے ہیں۔ہم تو بس ویسوں کے پیچھے ہانپتے پھرتے ہیں۔‘
اگر کوئی عمران اور شریفوں تک صلو قصائی کی بات پہنچا دے تو ہوسکتا ہے کچھ بہتری آ جائے۔ ویسے بھی زرداری واحد سیاستداں ہیں جن کےلیے صلو قصائی، عمران خان اور نواز شریف تینوں کے دل میں نرم گوشہ ہے۔
بصورتِ دیگر آرٹیکل دو سو پینتالیس کے اونٹ نے جب بھی خیمے میں گردن ڈال دی تو کسی بھی دن باقی تام تو بڑے کے ساتھ چار سیٹیں بھی کوہان پر ڈال روانہ ہو جائے گا۔
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ مصر اور تھائی لینڈ میں کیا ہوا ؟
بشکریہ ۔
بی بی سی اردو