السلام علیکم
میں یہاں آپ سب سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ اسلام میں تعلیم کی کیا حیثیت ہے۔ میرے محدود علم کے مطابق ہمارے مزہب میں تعلیم پر کافی زور دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں سب سے بڑھ کر ہمارے پیارے نبی ص کی دعا "رب ذدنی علماً " اور مزید احادیث بھی موجود ہیں "علم کا حاصل کرنا ہر مرد و عورت پر فرض ہے" اور " علم حاصل کرنے کے لئے اگر چین بھی جانا پڑے تو جاؤ" ۔
ایسے میں آج کل کی صورتحال میں مجھے، ہم لوگوں کا رویہ علم دوستانہ نہیں لگتا تمام مسلمان ممالک تعلیمی میدان میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ کچھ لوگ یہ توجیہہ دیتے ہیں کہ علم سے مراد حدیث، فقہ، سنت جیسے مضامین ہیں اور آج کل کے جدید دور میں جو تعلیم دی جاتی ہے وہ فنون کے زمرے مین آتی ہے-
لہٰزا میرا سوال یوں ہے کہ علم اور فنون کی مہارت کس حد تک حاصل کرنی چاہئے اور آج کل جو اعلیٰ تعلیم کا تصور ہے کیا وہ اسلام کے تصور کے مطابق ہے یا متصادم۔
نیز عورتوں اور مردوں کے لئے تعلیم کی یکسان اہمیت مزہب میں تسلیم کی گئی ہے یا اس سلسلے میں کچھ شرائط موجود ہیں۔
السلام و علیکم۔
بہت شکریہ۔ آپ نے بالکل درست فرمایا۔ تمام بزرگوں اور تمام نبیوں نے تعلیم کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ اور علم حاصل کرنے کو بہت اہم قرار دیا ہے۔
آیات کی وجہ سے یہ ایک طویل جواب ہو گیا ہے۔ میں نے اپنے جواب کو ہرے رنگ سے لکھا ہے۔ کوشش میری یہ رہی ہے کہ اس ضمن میں آیت پیش کروں اور اپنا خیال کم سے کم۔ آپ میرے تمام کے تمام جواب کو ایک طرف رکھ کر ان آیات پر غور کیجئے۔
میرے سوال کا مقصد تھا کہ ذہن میں وہ سوچ اجاگر کی جائے جو کسی بھی چیز کو بناتے وقت ذہن میں ہوتی ہے یعنی اس کا مقصد اور اس فخر کا تذکرہ کیا جائے جو کسی چیز کو بناتے وقت ہوتی ہے۔ یہ سوچ آپ کے سوالات کے جوابات کے لئے میں نے ضروری سمجھی۔
اسلام میں تعلیم کی کیا حیثیت ہے؟ کیا--- حدیث، فقہ، سنت --- ہی علوم ہیں؟ کیا اعلیٰ تعلیم اسلام کے مطابق ہے؟
اللہ تعالی آدم کی تخلیق کے وقت یاد دلا رہے ہیں۔ غور سے دیکھئے اس کا مقصد ساتھ ساتھ بیان ہورہا ہے۔
[AYAH]2:30 [/AYAH] اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں، انہوں نے عرض کیا: کیا تُو زمین میں کسی ایسے شخص کو (نائب) بنائے گا جو اس میں فساد انگیزی کرے گا اور خونریزی کرے گا؟ حالانکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے رہتے ہیں اور (ہمہ وقت) پاکیزگی بیان کرتے ہیں، (اللہ نے) فرمایا: میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
[AYAH]2:31[/AYAH] [ARABIC]
وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلاَئِكَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَ۔ؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ[/ARABIC]اور اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو
تمام (اشیاء کے) نام سکھا دیئے پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا، اور فرمایا: مجھے ان اشیاء کے نام بتا دو اگر تم (اپنے خیال میں) سچے ہو
[AYAH]2:32 [/AYAH] فرشتوں نے عرض کیا: تیری ذات (ہر نقص سے) پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اسی قدر جو تو نے ہمیں سکھایا ہے، بیشک تو ہی (سب کچھ) جاننے والا حکمت والا ہے
[AYAH]2:33[/AYAH] اللہ نے فرمایا: اے آدم! (اب تم) انہیں ان اشیاء کے ناموں سے آگاہ کرو، پس جب آدم (علیہ السلام) نے انہیں ان اشیاء کے ناموں سے آگاہ کیا تو (اللہ نے) فرمایا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی (سب) مخفی حقیقتوں کو جانتا ہوں، اور وہ بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو
ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے انسان کی تخلیق اس کو زمین میں نائب بنانے کے لئے کی اور اس نیابت کے لئے ضروری سمجھا کہ اس کو تمام کی تمام اشیاء کا علم دیا جائے [ARABIC]وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاءَ كُلَّهَا [/ARABIC]
تخلیق آدم کا کا مقصدنیابت فی الارض یعنی اور اس نیابت کے لئے سب سے بڑا ہتھیار "تمام قسم کے علوم" تمام ناموں کے سکھانے سے بہت ہی واضح ہے۔ گویا تخلیق انسانی کےبنیادی مقصد کو پورا کرنے کی ضرورت بنیادی طور پر علم کا حصول ثابت ہوئی۔
دہکھئے۔ اقراء کی اہمیت
ہمارے ایمان کے مطابق، تخلیق انسانی کے وقت سے رسول اکرم کا انتظار تھا۔ دیکھئے اللہ اور نبیوں کا عہد۔
[AYAH]3:81[/AYAH] اور (یاد کرو) جب لیا تھا اللہ نے عہد، نبیوں سے کہ یہ جو عطا کی ہے میں نے تم کو کتاب و حکمت (اس احسان کا تقاضایہ ہے کہ) پھر جب آئے تمہارے پاس ایک عظیم رسول تصدیق کرتا ہوا اس کتاب کی جو تمہارے پاس ہے تو تم ضرور اور بہر حال ایمان لاؤ گے اس پر اور مدد کرو گے اس کی۔ ارشاد ہوا ! کیا اقرار کرتے ہو تم اور کرتے ہو ان شرائط پر مجھ سے عہد؟ انہوں نے کہا ہم نے اقرار کیا۔ ارشاد ہوا ! سو گواہ رہو تم اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔
مزید دیکھئے کہ جب کعبہ کی دیواریں اٹھائی جارہی تھیں تو ابراہیم علیہ السلام اس عہد کا اعادہ کرتے ہوئے کیا دعا فرما رہے تھے؟ دیکھے
[AYAH]2:127[/AYAH]
اور جب اٹھا رہے تھے ابراہیم بنیادیں بیت اللہ کی اور اسماعیل بھی۔ (اور دعا کرتے جاتے تھے)۔ اے ہمارے رب!قبول فرما۔ ہم سے (یہ خدمت) بے شک تو ہی ہے سب کچھ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا۔
[AYAH]2:128[/AYAH] اے ہمارے رب! اور بنا ہم دونوں کو فرمانبردار اپنا اور ہماری نسل میں سے (اٹھا) ایک امت جو مطیع فرمان ہو تیری اور بتا ہمیں طریقے اپنی عبادت کے اور قبول فرما ہماری توبہ بے شک تو ہی ہے توبہ قبول فرمانے والا، رحم فرمانے والا۔
[AYAH]2:129[/AYAH]
اے ہمارے رب! اور بھیج ان میں ایک رسول ان ہی میں سے (جو) پڑھ کر سُنائے ان کو تیری آیات اور تعلیم دے ان کو کتاب و حکمت کی اور پاک کرے ان (کے دلوں اور زندگیوں) کو۔ بیشک توہی تو ہے ہر چیز پر غالب اور کامل حکمت والا۔
بعثت نبوت ایک ایسا عظیم موقعہ تھا جس کا ابتدائے افرینش سے انتظار و اہتمام تھا۔ جب وہ وقت آیا تو اللہ تعالی نے جس پہلی وحی کا اہتمام کیا، اور جس پہلی آیت کا اہتمام کیا، اور اس کے لئے جس پہلے لفظ کا اہتمام کیا وہ ہے "اقرا" Read or Learn
آپ کے اس سوال کا کہ اسلام میں تعلیم کی کیا حیثیت ہے؟ اور کیا صرف مذہبی تعلیم حاصل کرنا چاہئے؟ اس کا بہت واضح اور تفصیلی جواب مل چکا ہے کہ
1۔ تخلیق انسانی کا مقصد نیابت اور اس نیابت کا واحد ہتھیار علم۔ کہ بنا علم آپ کچھ بھی نہیں بنا سکتے۔
2۔ تمام کے تمام علوم سکھانا خالق حقیقی کا مقصد ہے اور بہت ہی واضح ہے۔ اعلیٰ تعلیم کو حصول مسلمان کا فرضہے۔
قران مصدر "علم" سے بنے ہوئے 100 الفاظ 891 بار استعمال کرتا ہے۔ یہ موضوع اس قدر طویل ہے کہ اس پر ایک مکمل کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ اگر ان سوالات کا جواب مل چکا ہے تو ہم مزید سوالات دیکھ سکتے ہیں۔
نیز عورتوں اور مردوں کے لئے تعلیم کی یکسان اہمیت مذہب میں تسلیم کی گئی ہے یا اس سلسلے میں کچھ شرائط موجود ہیں؟
اس کا جواب مختلف لوگ مختلف طرح دیتے ہیں۔ سب سے پہلے میں آپ کے اس سسوال سے کچھ مائیلیج حاصل کرلوں
یہ تو تھا ایک مزاحیہ جملہ ، سچ بات یہ ہے کہ جب تک آپ کو عورتوںکے علم حاصل کرنے کی مخالفت کرنے والوں کے نکتہءنظر کے بارے میں علم نہ ہو تو بہت مشکل ہے کہ آپ بحث کو سمجھ سکیں
اہل حدیث کے کئی فرقہ اس بات پر متفق ہیں کہ
1۔ لڑکیوںکو سورۃ یوسف (کچھ روایتوں میں سورۃ النور اور کچھ میں سورۃ مریم) کی تعلیم نہ دی جائے
2۔ لڑکیوں کو لکھنا نہ سکھایا جائے۔
یہ بنیاد ہے لڑکیوں کے اسکولوں کو بم سے اڑا دینے کی۔ پاکستان میں ہی نہیں ، دوسرے "اسلامی" ممالک میں یہ عمل طرح طرح کے حربوں سے جاری ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ جدید کتب روایات یعنی حدیث کی کتابوں سے یہ روایت اب غائب ہوتی جارہی ہے۔
وہ حدیث مع اس کی اسناد کے یہ ہے۔ اور اس پر بحث کا لنک یہ ہے۔ ۔
حدثنا محمد ابن ابراہیم ابو عبد اللہ الشامی حدثنا شعیب ابن اسحق الدمشقی عن ھشام ابن عروۃ عن ابیہ عن عایشۃ رضی اللہ تعالی عنھاقالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لاتسکنوا من الغرفۃ والا تعلموھن الکتابۃ و علموھن الغزل و سورۃ النور" ( رواۃ الحاکم فی المستدرک والسیوطی)
یہ ترجمہ نہیں اس روایت کا۔ بنیادی لب لباب یہ لکھا گیاہے۔
عورتون کو لکھنا نہ سکھایا جائے کہ ان لکھنا سکھانا مکروہ ہے، اس کی اصل امام بیقہی کی بیان کردہ وہ حدیث ہے ، جو انہوں نے شعدب الایمان میں حضرت عایشہ صدیقہ سے اس سند کے ساتھ روایت کی ہے۔
احادیث کے بارے میں امام احمد رضا بریلوی کا انٹرویو قابل غور ہے۔
سوال نمبر12:
مسلمانوں کے یہاں سب سے اول درجہ کی کتاب صحیح بخاری پھر صحیح مسلم ہے یا نہیں؟
جواب (احمد رضا شاہ بریلوی) : :
بخاری و مسلم بھی نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ڈھائی سو برس بعد تصنیف ہوئیں۔مسلمانوں کے بہت سے فرقے انہیں مانتے ہی نہیں اور اس کے سبب وہ اسلام سے خارج نہ ہوئے۔ماننے والوں میں بہت سے لوگ کسی خاص کتاب کو سب سے اول درجہ کی نہیں کہتے۔اس کی مدار صحت سند پر رکھتے ہیں۔بعض جو ترتیب رکھتے ہیں وہ مختلف ہیں۔مشرقی صحیح بخاری کو ترجیح دیتے ہیں اور مغربی صحیح مسلم کو۔
اور حق یہ ہے کہ
جو کچھ بخاری یا مسلم اپنی تصنیف میں لکھ گئے سب کو بے تحقیق مان لینا ان کی بری تقلید ہے جس پر وہابی غیر مقلدین جمع ہوئے ہیں حالانکہ تقلید کو حرام کہتے
ہیں۔انہیں خدا اور رسول یاد نہیں آتے۔خدا اور رسول نے کہاں فرمایا ہے کہ کہ جو کچھ بخاری یا مسلم میں ہے سب صحیح ہے۔
اب آتے ہیں قرآن کی طرف۔ عورتوں کی تعلیم کے سوال سے پہلے یہ آیات دیکھئے۔
[AYAH]3:104[/AYAH] [ARABIC]وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ
وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُوْلَ۔ئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ[/ARABIC]
اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں
یہ وہ جماعت ہے جو ایک اچھے کاموں کی ترویج اور برے کاموں سے روکنے کے لئے ایک قانون ساز ادارہ کا کام کرے گی۔ اس میں اعلی تعلیم یافتہ حضرات ہونے چاہئیے یا غیر تعلیم یافتہ؟ یقینی جواب ہوگا اعلی تعلیم یافتہ تاکہ ان کی نظر علم کے ہر شعبہ پر ہواور وہ مناسب قانون سازی کرسکیں چاہے وہ بینکنگ کا قانون ہو یا اجمتماعی قانون ، وہ خانگی قانون ہو یا پبلک سیفٹی ایکٹ۔ اس طرح یہ جماعت [ARABIC]وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ [/ARABIC] کا کام سر انجام دے سکے گی۔ کوئی شبہ ہے ان کی قابلیت اور تعیلیم یافتہ ہونے کی ضرورت پر ؟ ( میں نے سرٹیفیکیٹیافتہ نہیں کہا)۔
اب دیکھئے اس جماعت میں کون کون ہونا چاہئیے جو [ARABIC] وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ [/ARABIC] کا کام سر انجام دے؟
[ARABIC]
[AYAH]9:71[/AYAH]
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ
يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَ۔ئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ [/ARABIC]
اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ حکم دیتے ہیں بھلائی کا اور منع کرتے ہیں بُرائی سے قائم کرتے ہیں نماز اور دیتے ہیں زکوٰۃ اور اطاعت کرتے ہیں اللہ کی اور اس کے رسُول کی۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ ضرور رحمت نازل فرمائے گا ان پر اللہ۔ بے شک اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔
[ARABIC]وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ [/ARABIC] کے اس عظیم فریضہ میں جس کے لئے تعلیم و لیاقت ایک ضروری امر ہے مومن مردوںاور مومن عورتوں کو اس فریضہ کی ادائیگی کے لئے رفیق کہا گیا ہے۔ قانون ساز ادارہ کی یہ رفاقت بنا تعلیم کے ممکن ہی نہیں۔ اور اس رفاقت کے بغیر خواتین کے حقوق کا دفاع ممکن ہی نہیں۔ لہذا خواتین کی تعلیم اور اعلی ترین تعلیم کی اہمیت سے انکار ایک اہم فریضہ کی راہ میں رکاوٹبن جائے گا۔
ہم مزید یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے معاشرہ میں عورتوں اور مردوں کو ایک مساوی مقام عطا کیا ہے۔ درض ذیل آیات دیکھئے
[ayah]33:35[/ayah] بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، اور مومن مَرد اور مومن عورتیں، اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، اور صدق والے مرد اور صدق والی عورتیں، اور صبر والے مرد اور صبر والی عورتیں، اور عاجزی والے مرد اور عاجزی والی عورتیں، اور صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کے لئے بخشِش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے
قرآن کی ہر آیت ایک قانون ہے اور مسلمان پر فرض ہے۔ جو لوگ ان آیات کو جھٹلا کر مسلمان مردوں اور عورتوں کو ان کے ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہونے پر تکلیف دیتے ہیں ان کو اس طرح مخاطب کرتا ہے۔
[ayah]33:58[/ayah] اور جو لوگ مومِن مَردوں اور مومِن عورتوں کو اذیتّ دیتے ہیں بغیر اِس کے کہ انہوں نے کچھ (خطا) کی ہو تو بیشک انہوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ (اپنے سَر) لے لیا
اور جو لوگ نیک کام کی راہ میں رفیق و مددگار مردوں اور عورتوں پر لگائے گئے بہتان کو سن کر اس کو کھلا بہتان قرار نہیں دیتےتو اس طرح مخاطب کرتا ہے
[ayah]24:12[/ayah] ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے اس (بہتان) کو سنا تھا تو مومن مرد اور مومن عورتیں اپنوں کے بارے میں نیک گمان کر لیتے اور (یہ) کہہ دیتے کہ یہ کھلا (جھوٹ پر مبنی) بہتان ہے
خدا خود گواہی دیتا ہے کہ مومن مرد و عورتیں، معاشرے میں اپنے کام کی بناء پر اور اس آپسی رفاقت اور مددگاری کے باعث آخرت میں کس صورت ہوں گے۔
[ayah]57:12[/ayah] (اے حبیب!) جس دن آپ (اپنی امّت کے) مومن مَردوں اور مومن عورتوں کو دیکھیں گے کہ اُن کا نور اُن کے آگے اور اُن کی دائیں جانب تیزی سے چل رہا ہوگا (اور اُن سے کہا جائے گا) تمہیں بشارت ہو آج (تمہارے لئے) جنتیں ہیں جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں (تم) ہمیشہ ان میں رہو گے، یہی بہت بڑی کامیابی ہے
[ayah]4:124[/ayah] اور جو کوئی نیک اعمال کرے گا (خواہ) مرد ہو یا عورت درآنحالیکہ وہ مومن ہے پس وہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اوران کی تِل برابر (بھی) حق تلفی نہیں کی جائے گے
اللہ کسی کا کام ضائع نہ کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت:
[ayah]3:195[/ayah] پھر ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی (اور فرمایا) یقیناً میں تم میں سے کسی محنت والے کی مزدوری ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے میں سے (ہی) ہو، پس جن لوگوں نے (اللہ کے لئے) وطن چھوڑ دیئے اور (اسی کے باعث) اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے اور میری راہ میں ستائے گئے اور (میری خاطر) لڑے اور مارے گئے تو میں ضرور ان کے گناہ ان (کے نامہ اعمال) سے مٹا دوں گا اور انہیں یقیناً ان جنتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، یہ اللہ کے حضور سے اجر ہے، اور اللہ ہی کے پاس (اس سے بھی) بہتر اجر ہے
مرد و عورت کو نیکی کا بدلہ برابر عطا ہوگا۔
[ayah]40:40[/ayah] جس نے برائی کی تو اسے بدلہ نہیں دیا جائے گا مگر صرف اسی قدر، اور جس نے نیکی کی، خواہ مرد ہو یا عورت اور مومن بھی ہو تو وہی لوگ جنّت میں داخل ہوں گے انہیں وہاں بے حساب رِزق دیا جائے گا
جنت میں بھی مرد و عورت مساوی حق سے داخل ہونگے کوئی حق تل۔فی مرد یا عورت ہونے کے ناطے نہ ہوگی۔
[ayah]4:124[/ayah] اور جو کوئی نیک اعمال کرے گا (خواہ) مرد ہو یا عورت درآنحالیکہ وہ مومن ہے پس وہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اوران کی تِل برابر (بھی) حق تلفی نہیں کی جائے گی
میرا خیال ہے کہ ان تمام آیات کی روشنی میں یہ بہت واضح ہے کہ
1۔ حصول علم ہی ہماری تخلیق کا بنیادی مقصد ہے۔ مزید احادیثو آیات اس کو گواہ ہیں۔
2۔ اعلی ترین تعلیم اور مذہبی تعلیم سب علوم ہیں، صرف مذہبی علوم کا حصول اور باقی علوم سے دور رہنا، قرآن سے کسی طور ثابت نہیں۔
3۔ خواتین اور حضرات کا معاشرہ میں فعالیت کے لحاظ سے مساوی مقام ہے۔ ان کے علمی فرائض کے لئے حصول علم کے ضرورت بھی مساوی ہے ۔
اوپر دی گئی آیات اس بات کا ثبوت ہیں اور مزید اس سلسلے میں بہت سے احادیث نبوی بھی موجود ہیں۔
رب زدنی علماً
والسلام