منہاجین
محفلین
اسلام اور جدید سائنس سے ایک اقتبا
صدی جب کروٹ بدلتی ہے تو ایک ممکن کو حقیقت کا روپ مل چکا ہوتا ہے۔ پچھلی نسل جس ترقی کی خواہش کرتی تھی موجودہ نسل اسے کئی منزلیں پیچھے چھوڑ چکی ہے سائنسی تحقیقات کی موجودہ تیزی نے زمین و آسمان کی پہنائیوں میں پوشیدہ لاتعداد حقائق بنی نوع انسان کے سامنے لا کھڑے کئے ہیں۔ آج سے کم و پیش ڈیڑھ ہزار سال پہلے بنی نوع انسان کے ذہن میں علم کے موجودہ عروج کا ادنیٰ سا تصور بھی موجود نہ تھا۔ انسان یوں جہلِ مرکب میں غرق تھا کہ اپنی جہالت کو عظمت کی علامت گردانتے ہوئے اس پر نازاں ہوتا تھا۔ اسلام کی آفاقی تعلیمات نے اُس دورِ جاہلیت کا پردہ چاک کرتے ہوئے ہزار ہا ایسے فطری ضوابط کو بے نقاب کیا جن کی صداقت پر دورِ حاضر کا سائنسی ذہن بھی محوِ حیرت ہے۔
قرونِ وُسطیٰ میں مسلمان سائنسدانوں نے جن سائنسی علوم کی فصل بوئي تھی آج ہو پک کر جوان ہو چکی ہے اور موجودہ دور اسی فصل کو کاشت کرتے ہوئے اس کے گوناگوں فوائد سے مستنیر ہو رہا ہے۔ مسلمان جب تک علمی روش پر قائم رہے سارے جہاں کے امام و مقتدا ر ہے اور جونہی علم سے غفلت برتی 'ثریا سے زمیں پر آسمان نے ہم کو دے مارا۔ اور آج حالت یہ ہے کہ ہمارے اسلاف کا علمی ورثہ اپنے اندر ہونے والے بے شمار اضافہ جات کے ساتھ اغیار کا اوڑھنا بچھونا ہے اور ہم ان کے پیچھے علمی و ثقافتی اور سیاسی و معاشی میدانوں میں در در کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔
2 جنوری 1492ء کا تاریخی دن مغربی دنیا کیلئے علم و فن، تہذیب و تمدن اور سانئس و ٹیکنالوجی کا تحفہ لئے طلوع ہوا۔ غرناطہ میں ہونے والی سیاسی شکست کے بعد مسلم قوم ذہنی شکست خوردگی کی دلدل میں الجھ کر سو گئی اور عالم مغرب مسلمانوں کی تحقیقات و اکتشافات پر سے ان کے موجدوں کا نام کھرچ کر انہیں اپنے نام سے منسوب کرنے لگا۔ اسلامی سپین کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم عیسائی و یہودی طلباء مسلمانوں کا علمی وطیرہ اپنے ساتھ اپنے ممالک کو لے گئے اور ہم غرناطہ میں سیاسی شکست کھانے کے بعد اسے مقدر کا لکھا کہتے ہوئے رو پیٹ کر بیٹھ رہے اور سیاسی میدان میں ہونے والی شکست کے بعد علمی میدان سے بھی فرار کا راستہ اختیار کر لیا۔ اغیار نے ہمارے علمی ورثے سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور سائنسی ترقی کی اوج ثریا تک جا پہنچے۔ غفلت کی نیند بے سدھ پڑی مسلمان قوم کو فقط ایک ٹہو کے کی ضرورت ہے ، فقط اپنی میراث سے شناسائی ضروری ہے۔ جس روز اس قوم نے اغیار کے قبضے میں گھری اپنی قیمتی متاع کو پہچان لیا یقینا اپنے کھوئے ہوئے ورثے کے حصول کے لیے تڑپ اٹھے گی۔ وہ دن تاریخ عالم کا سنہری دن ہو گا۔
بیسوی صدی عالم اسلام کے لیے اللہ رب العزت کی بے شمار نعمتیں لے کر آئی۔ اس صدی میں جہاں کرہ ارضی کے بیشتر مسلمان سیاسی آزادی کی نعمت سے بہرہ مند ہوئے وہاں علمی میدان میں بھی مثبت تبدیلی کے آثار نمودار ہو ئے لیکن مسلمان حکمرانوں نے نہ صرف آزادی کے اثرات کو اپنے عوام کی پہنچ سے دور رکھا بلکہ صحیح فطری خطوط پر ان کی تعلیم کا خاطر خواہ انتظام بھی نہ کیا، جس کی وجہ سے قحط الرجال کا مسئلہ جوں کا توں باقی رہا۔ اس وقت دنیا کی معیشت کا بڑا انحصار تیل پیدا کرنے والے مسلمان ممالک پر ہے۔ عرب کی دولت مسلمانوں کی معاشی ابتری سے نجات اور عالمی سطح پر سیاسی تفوق کی بحالی کے لیے بہترین مدد گآر ثابت ہو سکتی تھی مگر افسوس کہ وہ بھی شاہی اللوں تللوں میں ضائع ہو گئی اور من حیث المحجموع امت مسلمہ اس سے کوئی خاص فائدہ نہ اٹھا سکی۔
صدی جب کروٹ بدلتی ہے تو ایک ممکن کو حقیقت کا روپ مل چکا ہوتا ہے۔ پچھلی نسل جس ترقی کی خواہش کرتی تھی موجودہ نسل اسے کئی منزلیں پیچھے چھوڑ چکی ہے سائنسی تحقیقات کی موجودہ تیزی نے زمین و آسمان کی پہنائیوں میں پوشیدہ لاتعداد حقائق بنی نوع انسان کے سامنے لا کھڑے کئے ہیں۔ آج سے کم و پیش ڈیڑھ ہزار سال پہلے بنی نوع انسان کے ذہن میں علم کے موجودہ عروج کا ادنیٰ سا تصور بھی موجود نہ تھا۔ انسان یوں جہلِ مرکب میں غرق تھا کہ اپنی جہالت کو عظمت کی علامت گردانتے ہوئے اس پر نازاں ہوتا تھا۔ اسلام کی آفاقی تعلیمات نے اُس دورِ جاہلیت کا پردہ چاک کرتے ہوئے ہزار ہا ایسے فطری ضوابط کو بے نقاب کیا جن کی صداقت پر دورِ حاضر کا سائنسی ذہن بھی محوِ حیرت ہے۔
قرونِ وُسطیٰ میں مسلمان سائنسدانوں نے جن سائنسی علوم کی فصل بوئي تھی آج ہو پک کر جوان ہو چکی ہے اور موجودہ دور اسی فصل کو کاشت کرتے ہوئے اس کے گوناگوں فوائد سے مستنیر ہو رہا ہے۔ مسلمان جب تک علمی روش پر قائم رہے سارے جہاں کے امام و مقتدا ر ہے اور جونہی علم سے غفلت برتی 'ثریا سے زمیں پر آسمان نے ہم کو دے مارا۔ اور آج حالت یہ ہے کہ ہمارے اسلاف کا علمی ورثہ اپنے اندر ہونے والے بے شمار اضافہ جات کے ساتھ اغیار کا اوڑھنا بچھونا ہے اور ہم ان کے پیچھے علمی و ثقافتی اور سیاسی و معاشی میدانوں میں در در کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔
2 جنوری 1492ء کا تاریخی دن مغربی دنیا کیلئے علم و فن، تہذیب و تمدن اور سانئس و ٹیکنالوجی کا تحفہ لئے طلوع ہوا۔ غرناطہ میں ہونے والی سیاسی شکست کے بعد مسلم قوم ذہنی شکست خوردگی کی دلدل میں الجھ کر سو گئی اور عالم مغرب مسلمانوں کی تحقیقات و اکتشافات پر سے ان کے موجدوں کا نام کھرچ کر انہیں اپنے نام سے منسوب کرنے لگا۔ اسلامی سپین کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم عیسائی و یہودی طلباء مسلمانوں کا علمی وطیرہ اپنے ساتھ اپنے ممالک کو لے گئے اور ہم غرناطہ میں سیاسی شکست کھانے کے بعد اسے مقدر کا لکھا کہتے ہوئے رو پیٹ کر بیٹھ رہے اور سیاسی میدان میں ہونے والی شکست کے بعد علمی میدان سے بھی فرار کا راستہ اختیار کر لیا۔ اغیار نے ہمارے علمی ورثے سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور سائنسی ترقی کی اوج ثریا تک جا پہنچے۔ غفلت کی نیند بے سدھ پڑی مسلمان قوم کو فقط ایک ٹہو کے کی ضرورت ہے ، فقط اپنی میراث سے شناسائی ضروری ہے۔ جس روز اس قوم نے اغیار کے قبضے میں گھری اپنی قیمتی متاع کو پہچان لیا یقینا اپنے کھوئے ہوئے ورثے کے حصول کے لیے تڑپ اٹھے گی۔ وہ دن تاریخ عالم کا سنہری دن ہو گا۔
بیسوی صدی عالم اسلام کے لیے اللہ رب العزت کی بے شمار نعمتیں لے کر آئی۔ اس صدی میں جہاں کرہ ارضی کے بیشتر مسلمان سیاسی آزادی کی نعمت سے بہرہ مند ہوئے وہاں علمی میدان میں بھی مثبت تبدیلی کے آثار نمودار ہو ئے لیکن مسلمان حکمرانوں نے نہ صرف آزادی کے اثرات کو اپنے عوام کی پہنچ سے دور رکھا بلکہ صحیح فطری خطوط پر ان کی تعلیم کا خاطر خواہ انتظام بھی نہ کیا، جس کی وجہ سے قحط الرجال کا مسئلہ جوں کا توں باقی رہا۔ اس وقت دنیا کی معیشت کا بڑا انحصار تیل پیدا کرنے والے مسلمان ممالک پر ہے۔ عرب کی دولت مسلمانوں کی معاشی ابتری سے نجات اور عالمی سطح پر سیاسی تفوق کی بحالی کے لیے بہترین مدد گآر ثابت ہو سکتی تھی مگر افسوس کہ وہ بھی شاہی اللوں تللوں میں ضائع ہو گئی اور من حیث المحجموع امت مسلمہ اس سے کوئی خاص فائدہ نہ اٹھا سکی۔