علم دست شناسی یعنی ہاتھ کی لکیروں کا پڑھنا اسلام کے نزدیک کیسا ہے؟ قرآن اور حدیث اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟بحث کرتے ہوئے اس بات کو پیش نظر رکھیے گا کہ دست شناسی باقاعدہ سائنس کی شکل اختیار کر چکی ہے. کوشش کریں کہ آپ کی رائے مدلل اور حوالے مستند ہوں۔
علم دست شناسی یعنی ہاتھ کی لکیروں کا پڑھنا اسلام کے نزدیک کیسا ہے؟ قرآن اور حدیث اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟
سکہ سیدھا گرے یا الٹا، تیر نشانے پر لگے یا نہیں ۔ لکیر ایک طرحکی ہو یا دوسری طرحکی۔ اس طرحکی نشانیوں سے مجموعی طور پر کوئی نتیجہ اخذ کرنا - یعنی کوے کے دیوار پر بولنے سے مہمان کا آنا، یا ایسی ہی کسی نشانی سے یہ دریافت کرنا کہ مستقبل میں کیا ہوگا - مجموعی طور پر ازلام کہلاتا ہے
[arabic] يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [/arabic]
ازلام : زلم تیر، اشارہ یا پوائنٹر کو کہتے ہیں۔ یعنی کسی طور پر بھی ایک معاملہ یا واقعہ یا نشانی سے کسی طرف اشارہ کرنا یا نتیجہ اخز کرنا یعنی فال نکالنا یا پانسہ پھینکنا - کہ ایسا ہوا ہے تو اب ایسا ہوگا، ہاتھ کی لکیر ایسی ہوئی ہیں تو ایسا ہوگا، شخصیت ایسی ہوگی یا قسمت ایسی ہوگی۔ اس بارے میں واضح حکم ہے کہ یہ
رجس یعنی ناپاک ہے اور
من عمل الشیطان- یعنی شیطانی کاموں میں سے ہے - تو پھر کیا کرو؟
فاجتنبوہ - پس اس سے اجتناب کرو -
لعلکم تفلحون - کہ اگر تم فلاح پانے والوں میں ہونا چاہتے ہو۔
یہ ہے ایمانی دلیل - ایمان کے لئے کسی عقلی یا منطقی دلیل کی ضرورت نہیں۔ منظقی دلیل بہت سے دوست یہاںپیش کرچکے ہیں۔
الفاظکے معنوں کے لئے دیکھئے:
رجس:
[AYAH]6:145[/AYAH] [arabic] قُل لاَّ أَجِدُ فِي مَا أُوْحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلاَّ أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْ۔زِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ [/arabic]
آپ فرما دیں کہ میری طرف جو وحی بھیجی گئی ہے اس میں تو میں کسی (بھی) کھانے والے پر (ایسی چیز کو) جسے وہ کھاتا ہو حرام نہیں پاتا سوائے اس کے کہ وہ مُردار ہو یا بہتا ہوا خون ہو یا
سؤر کا گوشت ہو کیو نکہ یہ ناپاک ہے یا نافرمانی کا جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام بلند کیا گیا ہو۔ پھر جو شخص (بھوک کے باعث) سخت لاچار ہو جائے نہ تو نافرمانی کر رہا ہو اور نہ حد سے تجاوز کر رہا ہو تو بیشک آپ کا رب بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے
ازلام:
اس آیت کے 23 تراجم دیکھئے:
http://www.openburhan.net/ob.php?sid=5&vid=90
ازلام کے لئے مزید دیکھئے: [AYAH]5:3[/AYAH] [arabic] حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالْدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلاَّ مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُواْ
بِالْأَزْلاَمِ ذَلِكُمْ فِسْقٌ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمْ فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلاَمَ دِينًا فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ فَإِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ [/arabic]
تم پر مردار (یعنی بغیر شرعی ذبح کے مرنے والا جانور) حرام کر دیا گیا ہے اور (بہایا ہوا) خون اور سؤر کا گوشت اور وہ (جانور) جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو اور گلا گھٹ کر مرا ہوا (جانور) اور (دھار دار آلے کے بغیر کسی چیز کی) ضرب سے مرا ہوا اور اوپر سے گر کر مرا ہوا اور (کسی جانور کے) سینگ مارنے سے مرا ہوا اور وہ (جانور) جسے درندے نے پھاڑ کھایا ہو سوائے اس کے جسے (مرنے سے پہلے) تم نے ذبح کر لیا، اور (وہ جانور بھی حرام ہے) جو باطل معبودوں کے تھانوں (یعنی بتوں کے لئے مخصوص کی گئی قربان گاہوں) پر ذبح کیا گیا ہو اور
یہ (بھی حرام ہے) کہ تم پانسوں (یعنی فال کے تیروں) کے ذریعے قسمت کا حال معلوم کرو (یا حصے تقسیم کرو)، یہ سب کام گناہ ہیں۔ آج کافر لوگ تمہارے دین (کے غالب آجانے کے باعث اپنے ناپاک ارادوں) سے مایوس ہو گئے، سو (اے مسلمانو!) تم ان سے مت ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرا کرو۔ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔ پھر اگر کوئی شخص بھوک (اور پیاس) کی شدت میں اضطراری (یعنی انتہائی مجبوری کی) حالت کو پہنچ جائے (اس شرط کے ساتھ) کہ گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو (یعنی حرام چیز گناہ کی رغبت کے باعث نہ کھائے) تو بیشک اﷲ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے
یہ ذہن میںرہے کہ جس کا دل کسی بات پر مائل ہو چکا ہو وہ نہ قران سے اور نہ ہی سنت سے قائل ہوتا ہے قائل نہیں ہوتا بلکہ طرح طرح کی تاویلات نکالتا ہے۔ اگر قرآن و سنت کے بارے میں سوال کیجئے تو دل میں یہ سوچ کر کیجئے کہ قرآن و سنت کے مطابق اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہے۔ یقیناً قرآن و سنت تبدیل نہیں ہونگی۔