منصور، اسلام ایک مذہب ہے جس کی کتاب قرآن ہے۔ مسلمان ایک قوم ہیں، جن کی کوشش یہ رہی ہے کہ کس طرح وہ اپنی روایات کو قرآن سے ثابت کردیں۔ چونکہ قرآن کی بنیاد پر کوئی حکومت مسلمانوں نہیں قائم کی، لہذا کبھی یہ ضروری نہیں رہا کہ جن اصولوں کو قرآن بیان کرتا ہے ان کو کسی طور بھی ملکی قوانین میں شامل کیا جاتا۔
قرآن کو اور مسلمانوں کے اعمال کو ایک سمجھنابذات خود سب سے بڑا کنفیوژن ہے۔ یہ کنفیوژن اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے مسلمانوں کے اعمال پر انسانوں کی لکھی ہوئی کتابوں کا تڑکا یعنی بگھار لگایا جائے۔عام مسلمان بھی آج بھی عام انسانوںکی لکھی ہوئی کتابوں اور قوانین پر عمل پیرا ہے۔ اور قرآن کو بند کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ سکہ بند ملا اپنے خیالات کو ثابت کرنے کے لئے روایات، اجماع وغیرہ سب لے آتے ہیں لیکن قرآن نہیں لاتے۔ کیوں؟ اور پھر منظق کا ایسا تانا بانا بنتے ہیں کہ لوگ مجبور ہو جاتے ہیں کہ وہ قرآن کے علاوہ ہر کتاب پر ایمان ایمان لے آتے ہیں۔
آپ نے قرآنی احکامات نہیں بلکہ قرآن کے اصولوں سے مشابہت رکھنے والا آئین دیکھنا ہے تویہاں دیکھئے۔۔۔ جس زمانے میں یہ آئین لکھا گیا، قانون کی بہت کم کتب دستیاب تھیں اور اس آئین کے لکھنے والوں میں کم از کم چار کے پاس قرآن تھا اور قرآن سے قوانین کے حوالے دیتے رہے۔
کہ جب تک قران جیسے اصول کسی آئین کا حصہ نہیں ہونگے، اس ملک کے باشندے اس پر عمل بھی نہیں کریں گے اور جب عمل نہیں کریں گے تو غلام آزاد بھی نہیں کریں گے۔ نلکہ ایسی دریافتیں کرتے رہیں گے جو قرآن سے مزید دور لے جائے۔