بلال
محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
کچھ عرصہ قبل سے اب تک اسلام کے نام پر کچھ ایسے SMS اور E-Mails ہو رہی ہیں جن میں کبھی اللہ تعالٰی یا حضورﷺ کے نام، کسی آیت کا ترجمہ، درود شریف یا کوئی اسلامی مسئلہ وغیرہ ہوتا ہے۔ یہاں تک تو ٹھیک اچھی بات ہے۔ اسلامی معلومات دوسروں تک پہنچانا اور تبلیغ کرنی چاہئے۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ ساتھ اور بھی تحریر ہوتی ہے جس کی دو مثالیں درج ذیل ہیں۔
1۔ یہ SMS یا E-Mail اتنے لوگوں کو بھیجو گے تو اتنے دن میں خوشی حاصل ہو گی نہیں تو اتنے سال تک بد قسمت ہو جاؤ گے۔
2۔ اس درود شریف کو اتنے لوگوں کو بھیجو جتنا حضورﷺ سے پیار کرتے ہو۔
اب آپ خود اندازہ لگائیں کتنا مجبور کیا جا رہا ہے کہ اس SMS یا E-Mail کو ضرور آگے بھیجو۔ نہیں تو یہ ہو جائے گا۔ نہیں تو وہ ہو جائے گا۔ اور حضورﷺ سے جتنا پیار کرتے ہو اتنے لوگوں کو بھیجو۔
اس طرح کی بے شمار باتیں اسلام کے نام پر عوام الناس میں عام کر دی گئی ہیں۔ جب کہ جہاں تک میرا خیال ہے اس طرح کی باتوں کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ باقی اللہ تعالٰی بہتر جاننے والا ہے۔
اسی سلسلہ کی روک تھام کے متعلق ایک SMS مجھے کچھ دن پہلے ملا جس میں لکھا تھا "ایک ضروری مسئلہ! وہ اسلامی یا اللہ تعالٰی کے نام کے SMS جن میں لکھا جاتا ہے کہ اتنے لوگوں کو آگے بھیجو تو خوشخبری ملے گی ورنہ کئی سال کے لئے بدقسمت ہو جاؤ گے۔۔۔ کو آگے بھیجنا گناہِ کبیرہ ہے۔ جو SMS آگے بھیج چکے ہو ان پے سچے دل سے توبہ کرنی چاہئے۔۔۔(مفتی اکمل صاحب۔ Q-T.V ۔پروگرام سحری ٹائم۔ تاریخ 5-10-2007)"
چند SMS اور E-Mails ہمیں اسلام کے نام پر ایسی بھی ملتی ہیں جن میں جو بات لکھی ہوتی ہے اس کا کوئی حوالہ ہی نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی تو مستند نہیں ہوتا جس کی مثالیں یہ ہیں۔
1۔ ذیقعد مبارک۔ جو مسلمان دوسرے مسلمان کو ذیقعد کی خبر دے اس کے لئے جنت کی خوشخبری ہے (فرمانِ رسولﷺ)
2۔ ذوالحج مبارک۔ جو مسلمان دوسرے مسلمان کو ذوالحج کی خبر دے اس کے لئے جنت کی خوشخبری ہے (فرمانِ رسولﷺ)
جب ذیقعد کا مہینہ شروع ہوا تو مجھے پہلے والا SMS ملا اور اسی طرح ذوالحج کے شروع میں دوسرا۔ اب مجھے یہ تو پتہ نہیں کہ یہ دونوں فرمانِ رسولﷺ ہیں بھی یا نہیں کیونکہ کسی مستند حدیث کی کتاب کا کوئی حوالہ نہیں۔
اصل بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ہمیں چاہئے جب بھی کوئی بات خاص طور پر اسلامی بات کسی کو بتائیں۔ چاہے وہ SMS یا E-Mails یا کسی بھی صورت میں ہو تو پہلے اس کی مکمل تحقیق کر لیں اور ساتھ ساتھ مستند اور مکمل حوالہ دیں تاکہ کوئی دوسرا تحقیق کرنا چاہے تو آسانی سے کر سکے۔ اگر صرف اتنا ہی کہہ دیا جائے کہ فرمانِ رسولﷺ ہے تو احادیث کی تعداد بہت زیادہ ہے اب کوئی کہاں تلاش کرتا پھرے گا۔
اب آپ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ اور کوئی علماء دین سے یہ بات مزید تفصیل میں پتہ کر دے تو اس کی بہت مہربانی ہو گی۔
Q-T.V کے پروگرام سحری ٹائم میں مفتی اکمل صاحب کا جو فتوی ہے وہ ٹھیک بھی ہے یا وہ بھی کسی نے ایسے ہی افواہ پھیلائی ہے کیونکہ میں نے خود اس دن کا پروگرام نہیں دیکھا تھا۔ اگر کسی نے وہ پروگرام دیکھا ہے یا کسی اور ذرائع سے بات کی تصدیق کر سکتا ہے تو میں اس کا بہت شکر گزار ہوں گا۔
اگر اس تحریر میں کوئی غلطی ہو گئی ہو تو میں اللہ تعالٰی سے معافی چاہتا ہوں کیونکہ حقیقی علم اللہ تعالٰی ہی کو ہے
اگر کسی دوست کو کوئی بات بُری لگے تو میں اس سے معذرت چاہتا ہوں۔
کچھ عرصہ قبل سے اب تک اسلام کے نام پر کچھ ایسے SMS اور E-Mails ہو رہی ہیں جن میں کبھی اللہ تعالٰی یا حضورﷺ کے نام، کسی آیت کا ترجمہ، درود شریف یا کوئی اسلامی مسئلہ وغیرہ ہوتا ہے۔ یہاں تک تو ٹھیک اچھی بات ہے۔ اسلامی معلومات دوسروں تک پہنچانا اور تبلیغ کرنی چاہئے۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ ساتھ اور بھی تحریر ہوتی ہے جس کی دو مثالیں درج ذیل ہیں۔
1۔ یہ SMS یا E-Mail اتنے لوگوں کو بھیجو گے تو اتنے دن میں خوشی حاصل ہو گی نہیں تو اتنے سال تک بد قسمت ہو جاؤ گے۔
2۔ اس درود شریف کو اتنے لوگوں کو بھیجو جتنا حضورﷺ سے پیار کرتے ہو۔
اب آپ خود اندازہ لگائیں کتنا مجبور کیا جا رہا ہے کہ اس SMS یا E-Mail کو ضرور آگے بھیجو۔ نہیں تو یہ ہو جائے گا۔ نہیں تو وہ ہو جائے گا۔ اور حضورﷺ سے جتنا پیار کرتے ہو اتنے لوگوں کو بھیجو۔
اس طرح کی بے شمار باتیں اسلام کے نام پر عوام الناس میں عام کر دی گئی ہیں۔ جب کہ جہاں تک میرا خیال ہے اس طرح کی باتوں کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ باقی اللہ تعالٰی بہتر جاننے والا ہے۔
اسی سلسلہ کی روک تھام کے متعلق ایک SMS مجھے کچھ دن پہلے ملا جس میں لکھا تھا "ایک ضروری مسئلہ! وہ اسلامی یا اللہ تعالٰی کے نام کے SMS جن میں لکھا جاتا ہے کہ اتنے لوگوں کو آگے بھیجو تو خوشخبری ملے گی ورنہ کئی سال کے لئے بدقسمت ہو جاؤ گے۔۔۔ کو آگے بھیجنا گناہِ کبیرہ ہے۔ جو SMS آگے بھیج چکے ہو ان پے سچے دل سے توبہ کرنی چاہئے۔۔۔(مفتی اکمل صاحب۔ Q-T.V ۔پروگرام سحری ٹائم۔ تاریخ 5-10-2007)"
چند SMS اور E-Mails ہمیں اسلام کے نام پر ایسی بھی ملتی ہیں جن میں جو بات لکھی ہوتی ہے اس کا کوئی حوالہ ہی نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی تو مستند نہیں ہوتا جس کی مثالیں یہ ہیں۔
1۔ ذیقعد مبارک۔ جو مسلمان دوسرے مسلمان کو ذیقعد کی خبر دے اس کے لئے جنت کی خوشخبری ہے (فرمانِ رسولﷺ)
2۔ ذوالحج مبارک۔ جو مسلمان دوسرے مسلمان کو ذوالحج کی خبر دے اس کے لئے جنت کی خوشخبری ہے (فرمانِ رسولﷺ)
جب ذیقعد کا مہینہ شروع ہوا تو مجھے پہلے والا SMS ملا اور اسی طرح ذوالحج کے شروع میں دوسرا۔ اب مجھے یہ تو پتہ نہیں کہ یہ دونوں فرمانِ رسولﷺ ہیں بھی یا نہیں کیونکہ کسی مستند حدیث کی کتاب کا کوئی حوالہ نہیں۔
اصل بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ہمیں چاہئے جب بھی کوئی بات خاص طور پر اسلامی بات کسی کو بتائیں۔ چاہے وہ SMS یا E-Mails یا کسی بھی صورت میں ہو تو پہلے اس کی مکمل تحقیق کر لیں اور ساتھ ساتھ مستند اور مکمل حوالہ دیں تاکہ کوئی دوسرا تحقیق کرنا چاہے تو آسانی سے کر سکے۔ اگر صرف اتنا ہی کہہ دیا جائے کہ فرمانِ رسولﷺ ہے تو احادیث کی تعداد بہت زیادہ ہے اب کوئی کہاں تلاش کرتا پھرے گا۔
اب آپ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ اور کوئی علماء دین سے یہ بات مزید تفصیل میں پتہ کر دے تو اس کی بہت مہربانی ہو گی۔
Q-T.V کے پروگرام سحری ٹائم میں مفتی اکمل صاحب کا جو فتوی ہے وہ ٹھیک بھی ہے یا وہ بھی کسی نے ایسے ہی افواہ پھیلائی ہے کیونکہ میں نے خود اس دن کا پروگرام نہیں دیکھا تھا۔ اگر کسی نے وہ پروگرام دیکھا ہے یا کسی اور ذرائع سے بات کی تصدیق کر سکتا ہے تو میں اس کا بہت شکر گزار ہوں گا۔
اگر اس تحریر میں کوئی غلطی ہو گئی ہو تو میں اللہ تعالٰی سے معافی چاہتا ہوں کیونکہ حقیقی علم اللہ تعالٰی ہی کو ہے
اگر کسی دوست کو کوئی بات بُری لگے تو میں اس سے معذرت چاہتا ہوں۔