اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت کا حکم سنایا

زیرک

محفلین
مشہور کامیڈین امان کی اس جگت کو غور سے پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ کیسے ہم پر ماوراء آئین ڈاکو بار بار شب خون مارتے ہیں کیونکہ عدالت کی کتیا ان سے ملی ہوئی تھی، امان اللہ کہنے لگے؛ "رات کو گھر میں چور گھس آئے، میں نے اندر سے کلاشنکوف نکالی جسے دیکھ کر چور بھاگ گئے تھوڑی دیر بعد پولیس آ گئی، 'اوئے پتہ چلا ہے تمہارے گھر میں کلاشنکوف ہے؟' میں نے ٹوائے گن کھا کر کہا 'سنتری بھائی یہ تو بچوں کا کھلونا ہے بس ذرا چوروں کو ڈرایا تھا'، پولیس گئی ہی تھی کہ چور پھر آ گئے"، اسے کہتے ہیں کتی چوراں نال رلی ہوئی اے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مشرف نے 40 سال ملک کی خدمت کی، ان کیلیے انصاف چاہتے ہیں، ایم کیو ایم پاکستان
نمائندہ ایکسپریس پير 23 دسمبر 2019
1926386-mqmflagfile-1577078022-601-640x480.jpg

ہمیشہ عدلیہ کو سر اہا، لیکن ڈرتے ہیں کہ عدالتوں پر اعتماد نہ ختم ہوجائے، آمر کے دور میں جمہوری دور سے زیادہ ترقی ہوئی، خالد مقبول صدیقی۔ فوٹو: فائل

کراچی / لاہور: کنوینر ایم کیو ایم پاکستان ڈاکٹر خالد مقبو ل صدیقی نے کہا کہ جو پاکستان پر احسان کر تا ہے وہ ہم پر احسان کر تا ہے، 40سال جنر ل پر ویز مشرف کے ملک کی خد مت کی۔

ڈاکٹر خالد مقبو ل صدیقی نے کہا کہ آج ریلیاں پھر کر اچی کی سڑکو ں پر ہیں اور پاکستان کی 70سالہ تا ریخ کو دیکھتے ہوئے بہت ساری طبقاتی کشمکش موجود ہے، 20لا کھ جا نوں کا نذرانہ دیکر پاکستان بنایا، ہمیں کہا جا تا ہے کہ فرزند زمین نہیں ہو۔

انہوں نے کہا کہ اس سڑکو ں پر آنے والے اسی طرح کی صورتحال کا شکار ہیں کہ جو فر د سزاکا مستحق کہلا یا وہ بھی فر زند زمین نہ ہو نے کا طعنہ سن رہا ہے ، پر ویز مشرف نے خطرات کا مقابلہ کیا، اپنی جا ن جو کھوں پر رکھی لیکن ملک کا نام روشن کیا، دشمن کے دانت کھٹے کیے، آج عوام کی ایم کیو ایم پاکستان کے مظاہرے میں شرکت نوشتہ دیوار ہے، ہم عدالتو ں کا احترام کر تے ہیں۔

خالد مقبول نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ عدالتو ں کے انصاف کو سر اہا ہے لیکن ہم ڈرتے ہیں کہ عدالتو ں سے نظام انصاف سے اعتما د نہ ختم ہو ،کل سندھ بھر میں بڑے بڑے اجتماعات ہو ئے، ہم نے ثا بت کیا کہ ہم احسان فرامو ش نہیں ، جو پاکستان پر احسان کر تا ہے وہ ہم پر احسان کر تا ہے ، ہم پر ویز مشرف کی سزاکو متنازع کہہ رہے ہیں ،40سال جنر ل پر ویز مشرف کے ملک کی خد مت کی، آرٹیکل 6لگتا ہے تو کسی کے پا س حق نہیں کہ اسکے ساتھ جڑے افراد کو چھوڑ دے۔

انہوں نے کہا کہ ایک آمرنے جمہو ریت سے زیا دہ تر قی کا ریکا رڈ قائم کیا، اعلی عدالتو ں سے درخواست کر یں گے کہ ایسے الفاظ عدالتوں سے نہ نکا لے جا ئیں جس سے کسی قوم کے جذبات مجروح ہوں۔

سینئر ڈپٹی کنوینر عامر خان نے کہا کہ اہل کر اچی میں تاجر،سماجی تنظیموں اور تمام قومیتو ں سے تعلق رکھنے والوں نے پرویز مشرف کی حمایت میں مظاہرہ کر کے اظہار یکجہتی کا ثبو ت دے دیا ہے ، جو لو گ بھارتی شہر یت ما نگ رہے تھے انہیں مستر د کر نے کا اعلان کر تے ہیں،ہمیں ججوں پر اعتماد ہے وہ ہی اس گتھی کو سلجھائیں گے ،وہ جنر ل مشرف جس نے اس پاکستان کی 40بر س خدمت کی جس نے کارگل میں جا کر بھارت کو لرزا کر رکھ دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ بھارتی کہتے ہیں کہ یہ وہ جنر ل ہے جو 19کلو میٹر اند ر بھارت میں گھس گئے تھے، پاکستان نے انکے دور میں تر قی کی، اس جنر ل مشرف کو غدار کہنا افسوسنا ک اور انتقامی سوچ کی عکا سی کر تا ہے۔

ڈپٹی کنوینر ومئیر کر اچی وسیم اختر نے کہا کہ آج کا اجتما ع ثابت کر رہا ہے کہ عوام نے فیصلہ دے دیا ہے اور وہ اپنے جذبات کے اظہا ر سے پرویز مشرف کے ساتھ انصاف کے متقاضی ہیں، سپر یم کورٹ سے التجا ہے کہ وہ اس پیر ا 66کو حذف کر ے، پیر ا66آئینی غیر شرعی اور اس سے تعصب کی بو آتی ہے ، ہم آئین تو ڑنے کیخلا ف ہیں، اگر کو ئی آئین تو ڑتا ہے تو آرٹیکل 6تو درست طر یقے سے استعما ل کیا جا ئے، نہ وہ واحد کا معاملہ نہ ہو بلکہ اس سے جڑے ہر فرد کو اسکا حصہ ہو ناچاہیے۔

فیصل سبزواری نے کہا کہ کر اچی شہر میں آج ایم کیو ایم پاکستان نے ایک ایسی ریلی منعقد کی ہے جس پر تنقید کے نشتر بر سائے جا رہے ہیں، ہم نے اس کا انعقاد اس لیے کیا ہے کہ انصا ف ہو لیکن اس میں انتشارنہ ہو، فیصلے میں پیر ا 66انتہا ئی افسوسنا ک ہے ۔ دریں اثنا ایم کیو ایم پاکستان کا لیا قت آبا د فلا ئی اوور پر اسکر ین پر جیے متحدہ، پر ویز مشرف کو انصاف دو، 22 دسمبر 2019ء متحد ہ قومی موومنٹ پاکستان درج تھا، جبکہ اسٹیج کے نیچے کی جا نب’ جسٹس فار مشرف‘ درج تھا۔

لیاقت آباد فلا ئی اوور کے ارد گر د عما رتو ں پر ایم کیو ایم کے سہ رنگی پر چم آویز ں تھے جن پر درج تھا ’ ہے پتنگ اپنا نشان ‘ جبکہ پاکستان اور ایم کیو ایم کے پر چم چاروں طر ف آویز اں تھے۔ 2بجے دن ہی سے فلا ئی اوور پر عوام کی آمد ورفت شروع ہو چکی تھی جو پر جو ش تھے وہ جسٹس فار پرویز مشرفاور پر ویز مشرف کو انصاف دو کے نعرے لگا رہے تھے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے روایتی نعرے بھی لگا ئے جا رہے تھے۔

پنڈال میں قومی نغمے ملی نغمے اور اس پر چم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہر دل کی آواز پاکستان نغمے بجا ئے جا رہے تھے جس پر عوام میں جو ش وخروش دید نی تھا۔ خو اتین کی ریکا رڈ تعداد بھی مظا ہر ے میں شریک تھی جبکہ نو جو انو ں ،بزرگ ،بچے اور معذورافراد بھی پر ویز مشرف کی حما یت میں کیے گئے مظا ہر ے میں شریک تھے۔ مظا ہر ے نے ایک بڑے جلسہ عام کی شکل اختیار کر لی تھی۔

تعداد کے اعتبا ر سے یہ ایک بڑا جلسہ عام اور2019 کا بڑا پا ور شو تھا۔ پل کے دونوں اطراف عوام سے بھرے ہو ئے تھے۔دریں اثنا سابق صدر پرویز مشرف سے اظہار یکجہتی کے لییملک بھر میں پانچویں روزبھی ریلیاں نکالی گئیں،جس میں مختلف مکاتب فکرکے لوگوں نے شرکت کی۔ لاہور میں الحمرا مال روڈ سے ریلی نکالی گئی،جس میں علماء ودیگر شریک ہوئے۔

ادھر گوجرانوالہ میں بھی شہری باہر نکل آئے۔ فیصل آبادمیں پی ٹی آئی رہنما زاہد محمود نے ریلی کی قیادت کی ،ارکان اسمبلی فیض اللہ کموکا ،خرم شہزاد ،لطیف نذر گجر ،میاں وارث اور دیگر نے شرکت کی ۔کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف شہروں میں جلسوں اور ریلیوں کا انعقاد کیا گیا۔

نصیر آباد میں عوامی تحریک کے سر پرست اعلیٰ عبدالستار شراورقربان منگی کی قیادت میںریلی نکالی گئی۔الفتح پینل کے زیراہتمام چاغی اور دالبندین میں ریلیاں نکالیں گئیں، شرکاء نے فوج کے حق میں نعرے بازی کی۔
 

جاسم محمد

محفلین
حکومت پرویز مشرف کی سزا کیخلاف اپیل دائر کرنے پر گومگو کا شکار
حسنات ملک 2 گھنٹے پہلے
تحریک انصاف کے اندر قانونی و سیاسی وجوہات پر اپیل کی سخت مخالفت کی جا رہی ہے،ذرائع (فوٹو: انٹرنیٹ)


اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سابق صدر پرویز مشرف کو خصوصی عدالت کی جانب سے سنگین غداری کیس میں ملنے والی سزائے موت کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کے معاملے میں گومگو کا شکار ہے۔

ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ حکومت نہ صرف پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ نہیں کر پا رہی بلکہ وہ خصوصی عدالت کے فیصلے کو چیلنج کرنے بھی دلچسپی نہیں رکھتی تاہم حکومتی عہدیدار اس سے قبل اپنے میڈیا بیانات میں حکومت کی جانب سے صدارتی ریفرنس اور اپیل دائر کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے اندر قانونی اور سیاسی وجوہات کی بنا پر خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کی سخت مخالفت کی جا رہی ہے،ذرائع نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ سیاسی لحاظ سے ایسا کرنا پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کیلئے سبکی کا باعث ہو گا جو ماضی میں پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس چلانے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔

تحریک انصاف کے ایک حصہ کا کہنا ہے کہ قانونی لحاظ سے حکومت کیسے خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتی ہے جبکہ وہ خود اس کیس میں شکایت کنندہ ہے،دوسری جانب معلوم ہوا ہے کہ پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر غداری کیس کے فیصلے کے خلاف اپیل کی تیاری کر رہے ہیں جو رواں ہفتے دائر کر دی جائے گی۔

بعض حکومتی عہدیدار چاہتے ہیں کہ یہ کیس معروف وکیل مخدوم علی خان کو دیا جائے،یہ بھی معلوم ہو ا ہے کہ تحریک انصاف کا ایک حصہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے متعلقہ اس ہائی پروفائل کیس میں کارکردگی نہ دکھانے پر وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل انور منصور خان کے خلاف بھی متحرک ہے۔
 
ناجانے کیوں یہ محسوس ہوناشروع ہو گیا ہے کہ جنوب مشرقی ایشیائی خطہ انتہائی تیزی سے اس جانب بڑھ رہا ہے ۔۔۔۔

ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
۔۔۔
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
۔۔۔
اور راج کرے گی خلقِ خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
 
، 20لا کھ جا نوں کا نذرانہ دیکر پاکستان بنایا، ہمیں کہا جا تا ہے کہ فرزند زمین نہیں ہو۔

نئی سرحدوں کے دونوں اطراف لاکھوں پنجابی مارے گئے، ایم کیو ایم انکا ذکر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتی اور صرف اپنے آباؤاجداد جو یو پی، ایم پی وغیرہ سے ہجرت کر کے آئے تھے کی قربانیوں کو پاکستان بننے کی وجہ قرار دے دیتی ہے۔

سپر یم کورٹ سے التجا ہے کہ وہ اس پیر ا 66کو حذف کر ے، پیر ا66آئینی غیر شرعی اور اس سے تعصب کی بو آتی ہے
بوری بند لاشوں کا انبار لگانے والے بھی پیرا 66 کو غیر شرعی قرار دے رہے ہیں۔ :)
 

زیرک

محفلین
سیانے جاسم محمد سے اتنا ہی کہنا ہے کہ آپ اور دیگر حامی مشرف کے دور میں ہونے والے "اچھے" کاموں کو ضرور اجاگر کریں، ہم آپ کو ان کی یا ان کے کاموں کی جتنی چاہیں تشہیر کریں کر سکتے ہیں۔ لیکن ان سے اس کا جرم چھپ نہیں سکتا، جرم کیا ہے تو ہر جرم کی ایک سزا ہے اور یہ سزا ملک کی ہی ایک بڑی عدلیہ نے دی ہے۔ مدح سرا لیگ اس سزا کو غلط سمجھتے ہے تو واویلا مت کرے، قانونی پراسس ہے کہ جائیں اپر کورٹ میں اپیل کریں اور خود کو بے گناہ ثابت کریں۔
 

زیرک

محفلین
مؤرخ لکھے گا کہ "ایسے وقت میں جب ایک عدالت نے جنرل مشرف کو لٹکانے کا تاریخی فیصلہ دیا، خفیہ ادارےکے اہلکار سزا کے بعد سزا یافتہ فراری جنرل مشرف کے بینر لٹکانے میں مصروف پائے گئے تھے"۔

 

زیرک

محفلین
جھوٹے کیس بنوانے اور بنانے والے کب کٹہرے میں لائے جائیں گے؟​
یہ پوسٹ کسی سیاسی فرد کے لیے نہیں بلکہ عمومی تناظر میں ہے کہ بالآخر جھوٹے مقدمات کا انجام، جھوٹے کیسز کے اخراج یا پکڑے جانے والے کی رہائی کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ ایسے کیسز میں کسی کو سزا ہوئی ہو ہاں اگر انصاف کے تقاضے پورے نہ کیے گئے ہوں تو ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ بے گناہ پھانسی پر بھی چڑھے ہیں، ان کو سزائیں بھی ہوئی اور جلاوطنیاں بھی بھگتنی پڑی ہیں۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر تو کیس بے بنیاد تھا تو ہمارا آئین جھوٹا بے بنیاد کیس بنانے اور بنوانے والوں کے لیے جو سزا تجویز کرتا ہے عدالتیں اس پر عمل کیوں نہیں کرتیں، شاید اس وجہ سے کہ اکثر کیسز ماورائے ریاست قوتوں کے اشارے پر بنائے جاتے ہیں۔ بالآخر ان قوتوں کی نصیب میں ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں آتا لیکن سوال یہ ہے کہ جھوٹے کیس بنوانے اور بنانے والے کب کٹہرے میں لائے جائیں گے؟
 

ظفری

لائبریرین
عدلیہ کے اس اخلاقی جرات ( جس میں ڈی چوک پر مرنے کے بعد بھی لٹکانے کا حکم صادر کیا گیاہے ) کے بعد یہ بات تو واضع ہو گئی کہ عدلیہ فرشتوں کی فوج نہیں ہے بلکہ بیوروکریسی جیسی کرپٹ کڑی کا ہی ایک حصہ ہے ۔ ملک کی انتہائی پیچیدہ صورتحال میں پے در پے ایسے فیصلوں کی بھر مارسامنے آئی جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ عدلیہ بھی وہ کام کررہی ہے جو ایک کرپٹ سیاستدان ، مولویت اور ڈکیٹر کا خاصہ ہے ۔ واقعی لیاقت علی خان نے اپنی شہا دت کے وقت یہ سب دیکھ لیا تھا ۔ شاید اسی وجہ سے انہوں نے اپنے ان آخری الفاظوں پر دم توڑا کہ " اللہ پاکستان کی حفاظت کرے " ۔ اور یہ سچ بھی ہے جس ملک عدلیہ کرپٹ ہو اس ملک کا خدا حافظ ہی ہے ۔
 

جاسم محمد

محفلین
جھوٹے کیس بنوانے اور بنانے والے کب کٹہرے میں لائے جائیں گے؟​
یہ پوسٹ کسی سیاسی فرد کے لیے نہیں بلکہ عمومی تناظر میں ہے کہ بالآخر جھوٹے مقدمات کا انجام، جھوٹے کیسز کے اخراج یا پکڑے جانے والے کی رہائی کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ ایسے کیسز میں کسی کو سزا ہوئی ہو ہاں اگر انصاف کے تقاضے پورے نہ کیے گئے ہوں تو ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ بے گناہ پھانسی پر بھی چڑھے ہیں، ان کو سزائیں بھی ہوئی اور جلاوطنیاں بھی بھگتنی پڑی ہیں۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر تو کیس بے بنیاد تھا تو ہمارا آئین جھوٹا بے بنیاد کیس بنانے اور بنوانے والوں کے لیے جو سزا تجویز کرتا ہے عدالتیں اس پر عمل کیوں نہیں کرتیں، شاید اس وجہ سے کہ اکثر کیسز ماورائے ریاست قوتوں کے اشارے پر بنائے جاتے ہیں۔ بالآخر ان قوتوں کی نصیب میں ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں آتا لیکن سوال یہ ہے کہ جھوٹے کیس بنوانے اور بنانے والے کب کٹہرے میں لائے جائیں گے؟
جھوٹ اور سچ کا فیصلہ عوام نے نہیں عدالت نے کرنا ہے۔ اگر یہ فیصلہ عوام پر ہی چھوڑنا ہے تو ملک کی عدالتوں کو تالے لگا دیں۔
 

زیرک

محفلین
جھوٹ اور سچ کا فیصلہ عوام نے نہیں عدالت نے کرنا ہے۔ اگر یہ فیصلہ عوام پر ہی چھوڑنا ہے تو ملک کی عدالتوں کو تالے لگا دیں۔
ماوراء آئین مافیا نے تالے ہی تو لگائے ہوئے ہیں افسوس کسی کو نظر نہیں آتے، ان اندھیر نگری میں اگر کوئی وقار احمد اٹھ کر ان تالوں کو توڑنے کی ہمت کرتا ہے تو شاہ سے زیادہ شاہ کے وافاداروں کا چیخنا چلانا دیکھ چکا ہوں۔
 

زیرک

محفلین
عدلیہ کے اس اخلاقی جرات ( جس میں ڈی چوک پر مرنے کے بعد بھی لٹکانے کا حکم صادر کیا گیاہے ) کے بعد یہ بات تو واضع ہو گئی کہ عدلیہ فرشتوں کی فوج نہیں ہے بلکہ بیوروکریسی جیسی کرپٹ کڑی کا ہی ایک حصہ ہے ۔ ملک کی انتہائی پیچیدہ صورتحال میں پے در پے ایسے فیصلوں کی بھر مارسامنے آئی جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ عدلیہ بھی وہ کام کررہی ہے جو ایک کرپٹ سیاستدان ، مولویت اور ڈکیٹر کا خاصہ ہے ۔ واقعی لیاقت علی خان نے اپنی شہا دت کے وقت یہ سب دیکھ لیا تھا ۔ شاید اسی وجہ سے انہوں نے اپنے ان آخری الفاظوں پر دم توڑا کہ " اللہ پاکستان کی حفاظت کرے " ۔ اور یہ سچ بھی ہے جس ملک عدلیہ کرپٹ ہو اس ملک کا خدا حافظ ہی ہے ۔
ڈی چوک والی بات کے علاوہ فیصلے میں کوئی قانونی لقونہ نکال کر دکھائیں، باقی فیصلہ بہے متوازن ہے، پیراگراف 66 ایک آئینہ ہے جو ماوراء آئین قوتوں کو دکھایا گیا ہے، یہ پیراگراف اپیل میں اڑ جائے گا۔
پاکستان کا معاشرہ ہی کرپٹ خیالات کا حامل ہے، اپنا جرم اچھا ثانت کرنے والا دہرا جرم کرتا ہے، ایوانِ اقتدار کے باسی ہوں، یا عدالتیں یا ملک کے محافظ جنہوں نے اج تک ملک کی حفاظت کم اپنے گندے انڈوں کی زیادہ حفاظت کی ہے اور اس کے لیے ہر قانون توڑا ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
ماوراء آئین مافیا نے تالے ہی تو لگائے ہوئے ہیں افسوس کسی کو نظر نہیں آتے، ان اندھیر نگری میں اگر کوئی وقار احمد اٹھ کر ان تالوں کو توڑنے کی ہمت کرتا ہے تو شاہ سے زیادہ شاہ کے وافاداروں کا چیخنا چلانا دیکھ چکا ہوں۔

کہتے ہیں کہ ایک جھوٹ سب سچ کو مشکوک کردیتا ہے ۔ سیٹھ صاحب نے فیصلہ جو کیا سو کیا مگر اس پر اپنا ذاتی بغض اور عناد بھی نکالا ہے ۔ جو ایک جج کو تو کم از کم زیب نہیں دیتا ۔ جو کسی کی زندگی اور موت کا فیصلہ کرنے لگا ہو ۔ مگر فیصلہ میں جو کچھ نظر آیا اس سے یہ بات تو ثابت ہوگئی ہے کہ مشرف نے جس کو بھی جوتے مارے تھے ۔ صحیح مارے تھے ۔ :thinking:
 

زیرک

محفلین
کہتے ہیں کہ ایک جھوٹ سب سچ کو مشکوک کردیتا ہے ۔ سیٹھ صاحب نے فیصلہ جو کیا سو کیا مگر اس پر اپنا ذاتی بغض اور عناد بھی نکالا ہے ۔ جو ایک جج کو تو کم از کم زیب نہیں دیتا ۔ جو کسی کی زندگی اور موت کا فیصلہ کرنے لگا ہو ۔ مگر فیصلہ میں جو کچھ نظر آیا اس سے یہ بات تو ثابت ہوگئی ہے کہ مشرف نے جس کو بھی جوتے مارے تھے ۔ صحیح مارے تھے ۔ :thinking:
حکومتی حامیوں کو عینک لگوانی چاہیے اور پیراگراف 66 کے ساتھ ساتھ باقی پیراگرافس کی غلطیاں نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے، جو انہیں بسیار کوشش کے دکھائی نہیں دے گی، فردوس عاشق اعوان نے کہا تھا کہ جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف جیوڈیشل کونسل میں جا رہے ہیں، جب جج نااہل ان فٹ قرار پائے گا تو اس کا فیصلہ بھی کالعدم ہو جائےگا۔ جانتے ہیں اسی حکومت کے اٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور خان نے اس پر کیا کہا تھا، ان کا کہنا تھا کہ "جج کے ان فٹ قرار دیئے جانے کے باوجود فیصلہ برقرار رہے گا"۔
 

زیرک

محفلین
گھر گِرے تو سبھی چپ چاپ تھے
کتنے طوفان اٹھے جب گِرا مقبرہ​
اس شعر میں آپ مقبرے کو مشرف پڑھ سکتے ہیں۔
 

سروش

محفلین
نئی سرحدوں کے دونوں اطراف لاکھوں پنجابی مارے گئے، ایم کیو ایم انکا ذکر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتی اور صرف اپنے آباؤاجداد جو یو پی، ایم پی وغیرہ سے ہجرت کر کے آئے تھے کی قربانیوں کو پاکستان بننے کی وجہ قرار دے دیتی ہے۔
اس بات کا تفصیلی جواب اسد عمر نے اسمبلی فلور پر دیا تھا ۔۔۔
 
ایوب خان کے مارشل لاء کے وقت مغربی پاکستان کے چیف جسٹس، جسٹس (ر) ایم آر کیانی کی کتاب ”افکارِ پریشاں“ کے پیش لفظ کا آغاز
20191225-121409.jpg
یہ پیش لفظ جناب افتخار احمد عدنی نے ۱۹۹۰ میں لکھا تھا جب شاید اس کتاب کا پہلا ایڈیشن چھپا ہوگا۔ ہمارے پاس اس کتاب کا گیارہواں ایڈیشن ہے جو ۲۰۰۰ میں چھپا۔
 

سروش

محفلین
Top