کیسے کیسے فیصلے آ رہے ہیں
18/12/2019 ایاز امیر
جنرل مشرف والے فیصلے کی اہمیت علامتی ہے۔ وہ ملک سے باہر ہیں اور پہلے بھی واپس نہیں آ رہے تھے۔ اب کہاں آنا ہے۔ اس کے علاوہ اُن کے پاس اپیل کا بھی حق ہے۔ لہٰذا اُن کا مقدمہ ابھی چلتا رہے گا۔ علامتی اہمیت بہرحال اپنی جگہ ہے کہ ایک سابق آرمی چیف کو ایسی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔
لیکن آرمی چیف کی توسیع کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ‘ جو جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا ہے‘ بہت اہم ہے۔ قانونی موشگافیوں سے ہٹ کر اُس فیصلے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اُس نے موجودہ آرمی چیف کی توسیع پہ سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ فیصلے کے مطابق وزیر اعظم یا حکومت اُن کو توسیع دے ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ اس کی گنجائش کسی قانون میں موجود نہیں۔ نہ آرمی ایکٹ میں ایسا کوئی تصور ہے‘ نہ کسی اور قانون میں۔ لہٰذا جو سمریاں بنیں توسیع کے حوالے سے ان کا کوئی قانونی وجود بنتا ہی نہیں تھا۔ جس زاویے سے بھی دیکھا جائے یہ بہت دُور رس نتائج کی حامل تشریح ہے ‘خاص طور پہ ہمارے تناظر میں جہاں یا تو فوجی سربراہ اپنے آپ کو توسیع دیتے رہے ہیں یا حکومتیں اُن کی مدتِ ملازمت بڑھاتی رہی ہیں۔
فیصلہ کہتا ہے کہ توسیع دینی ہے تو قانون بنانا پڑے گا‘ نہیں تو موجودہ چیف کو جو مہلت چھ ماہ کی دی گئی ہے وہ ختم ہو جائے گی اور نیا چیف مقرر کرنا پڑے گا۔ یہ بہت بڑا فیصلہ ہے اور ظاہر ہے‘ بہتوں کیلئے پریشانی کا باعث بھی بن سکتا ہے کیونکہ جو چیز واضح سمجھی جا رہی تھی کہ تین سال کی توسیع ہو گئی ہے وہ اس فیصلے سے دھندلی پڑ جاتی ہے۔ ویسے تو کوئی پرابلم نہیں ہونی چاہیے حکومت کو قانون پاس کرنے میں۔ لیکن ابھی تک یہ بھی واضح نہیں کہ حکومت کو کس قسم کا قانون پارلیمنٹ میں لانا پڑے گا۔ ابھی تک تو یہی سمجھا جا رہا ہے کہ تمام پارٹیاں توسیع کے مسئلے پہ متفق ہوں گی یا ہو جائیں گی۔ لیکن یہ تو اب کا تاثر ہے۔ پتہ نہیں قانون سازی کیا شکل اختیار کرتی ہے اور پھر جب معاملہ قومی اسمبلی یا پارلیمنٹ کے سامنے جاتا ہے تو وہاں کیا آراء سامنے آتی ہیں۔
کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جو صاف نہیں کہی جا سکتیں۔ یقینی صورتحال جب غیر یقینی میں تبدیل ہو جائے تو پھر طرح طرح کی قباحتوں کا پیدا ہونا فطری ہو جاتا ہے۔ جنہوں نے پہلے چپ سادھی ہو اُن کے خیالات کو بھی زبان لگ جاتی ہے۔ کچھ حلقے فیصلے پہ خوش ہوں گے اور یقینا کچھ ہیں جن کو اچھا نہیں لگے گا۔ بہرحال یہ غیر یقینی صورتحال اچھی نہیں اور اِس بارے میں حکومت پہ ضرور یہ الزام لگے گا کہ کچھ تیاری کی ہوتی یا ذہن واضح ہوتے تو اس جھمیلے سے بچا جا سکتا تھا۔ لیکن حکومت نے ہر چیز عجلت میں کی اور اس مسئلے کو خراب کیا۔ اب کوئی مانے یا نہ مانے بہتوں کیلئے اِس سارے مسئلے کا الجھاؤ باعثِ شرمندگی ثابت ہو رہا ہے۔
لیکن ایک پہلو خیر کا بھی اس ماجرے سے نکلتا ہے۔ یہ توسیع والا مسئلہ شاید ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے۔ قانون جو بھی پاس ہو یا نہ ہو‘ آئندہ کسی کی توسیع اتنی آسان نہ رہے گی جتنا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ اپنے آپ کو توسیع دینے والے بھی محتاط ہو جائیں گے اور سویلین حکومتوں کا یہ دردِ سر ختم ہو جائے گا کہ کسی کو توسیع دینی ہے یا نہیں۔ دیگر ممالک کو چھوڑئیے‘ امریکا اور برطانیہ سے ہم نے اپنا کیا موازنہ کرنا ہے لیکن ہمارے ہمسائے بھارت میں یہ توسیع والا مسئلہ کبھی پیش نہیں آیا۔ ایک مخصوص مدت کیلئے آرمی چیف آتے ہیں اور میعاد پوری ہونے پہ گھر چلے جاتے ہیں۔ یہ ہماری ہی انوکھی تاریخ رہی ہے کہ لوگ توسیع لیتے رہے ہیں۔
یہ کام جنرل ایوب خان سے شرو ع ہوا تھا۔ چار سال کے لئے کمانڈر انچیف بنائے گئے اور پھر چار سال کی اُنہیں توسیع دی گئی جس کی قطعاً کوئی ضرورت نہ تھی‘ لیکن تب حکمرانی ہی ایسی تھی کہ اصل طاقت اوپر کی نوکر شاہی کے ہاتھ میں تھی۔ سیاست دان بیچارے ایک درواز ے سے اندر لائے جاتے اور دوسرے درواز ے سے نکالے جاتے تھے۔ چوہدری محمد علی اور سکندر مرزا سُپر بیوروکریٹ تھے‘ اور اصلی فیصلہ ساز وہی تھے۔ اُن کے شانہ بشانہ جنرل ایوب خان تھے جو فوج کے سربراہ ہوتے ہوئے وزیر دفاع بھی تھے اور اس حوالے سے کابینہ کی میٹنگوں میں شامل ہوتے تھے۔ اس تناظر میں اُن کو توسیع ملنی ہی تھی۔ اُن کی توسیع کے دوران ہی ملک کا پہلا مارشل لاء نافذ ہوا۔
ایوب خان جب صدر بنے تو فوج کا سربراہ اُنہوں نے جنرل موسیٰ خان کو بنایا۔ معیارقابلیت کی بجائے وفاداری کا تھا۔ موسیٰ خان کچھ زیادہ زیرک جرنیل نہ تھے بس ایوب خان کے سائے میں چلنے کے عادی تھے اور اِسی وجہ سے لمبے عرصے کیلئے فوج کی کمان اُن کے ہاتھوں میں رہی۔ نقصان یہ ہوا کہ جب ایوب خان نے 65ء کی جنگ کی شروعات کی تو جنرل موسیٰ خان فیصلے میں کہیں نظر نہ آئے۔ جب باقاعدہ جنگ چھڑ گئی تو اُن کی کمان غیر معمولی کارکردگی نہ دکھا سکی۔ موسیٰ خان کے بعد جنرل یحییٰ خان آئے اور اُن کو بھی کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ ایوب خان بیمار پڑے‘ اُن پر فالج کا حملہ ہوا تو جنرل یحییٰ خان نے معاملات کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ایوانِ صدر میں تو ایوب خان تھے لیکن اقتدار کا جھکاؤ جنرل یحییٰ خان کی طرف جا چکا تھا۔ پھر جب ایوب خان کے خلاف تحریک شروع ہوئی اور کہنے والے کہتے ہیں کہ کچھ اداروں نے جنرل یحییٰ خان کے اشارے پہ اُس تحریک کو ہوا دی تو حالات ایوب خان کے ہاتھوں سے بالکل ہی نکل گئے۔ جب انہوں نے صدارت سے سبکدوش ہونے کا اعلان کیا تو اقتدار جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر دیا۔ پھر جو کچھ مشرقی پاکستان میں ہوا وہ ہم جانتے ہیں۔ کہتے تو ہم یہ ہیں کہ ہندوستان نے یہ کیا وہ کیا لیکن سانحہِ مشرقی پاکستان کے زیادہ اسباب ہمارے اپنے بنائے ہوئے تھے۔
یہ بات بھی ماننی چاہیے کہ حالات کی سنگینی میں ذوالفقار علی بھٹو کی بھی بھاری ذمہ داری بنتی ہے۔ بحران تو تھا ہی لیکن اُس کی شدت میں اضافہ بھٹو نے کیا۔ یحییٰ خان کو استعمال کرنا وہ خوب جانتے تھے اور شیخ مجیب الرحمان سے کوئی سمجھوتہ کرنے کیلئے بالکل تیار نہ تھے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں ہو جاتا تو شاید حالات اتنی تیزی سے خراب نہ ہوتے۔ لیکن یحییٰ خان کا کنٹرول اپنے قریبی جرنیلوں پہ کمزور پڑ چکا تھا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ عوامی لیگ سے کوئی سمجھوتہ ہو۔ بھٹو اُن جرنیلوں کے ساتھ اندرونِ خانہ ملے ہوئے تھے۔
یہ تو جملہ معترضہ ہوا۔ جب جنرل ضیاء الحق سربراہ بنے اور 1977ء کا مارشل لاء لگ گیا تو وہ اپنے آپ کو توسیع دیتے گئے۔ وہ بخوبی سمجھتے تھے کہ اُن کی فوج کی کرسی ہی اُن کے اقتدار کی ضمانت ہے‘ لہٰذا جہاں اور سیاسی تبدیلیاں ہوئیں اُس کرسی کو اُنہوں نے نہ چھوڑا۔
یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کئی ایک جرنیلوں نے اچھی مثال بھی قائم کی۔ جب جنرل جہانگیر کرامت کا نواز شریف سے کسی بات پہ مسئلہ بنا تو اُنہوں نے چپکے سے استعفیٰ دے دیا اور گھر چلے گئے۔ بعد میں جا کے یہ واقعہ نواز شریف کو بہت مہنگا پڑا۔ جنرل کرامت کی جگہ فوج کے سربراہ جنرل مشرف بنے اور اُنہیں اس عہدے کیلئے اس لئے چُنا گیا کہ نواز شریف کے کچھ افلاطون یہ خیال کرتے تھے کہ مشرف اردو سپیکنگ ہے اور اُن کی فوج میں اپنی لابی نہ ہو گی۔ مشرف نے پھر جو حشر نواز شریف کا کیا وہ ہمارے سامنے ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ سپریم کورٹ نے قوم اور سیاسی پارٹیوں پہ یہ احسان کیا ہے کہ اس مسئلے کا مستقل حل پیش کر دیا ہے۔ اگر سیاست دانوں میں عقل ہو اور صحیح قانون پاس کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ مسئلہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو سکتا ہے۔ ایک مدت کیلئے لوگ آئیں گے اور رخصت ہو جائیں گے۔ بیچ کی ریشہ دوانیاں ختم ہو جائیں گی۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اگر عقل سے کام لیا گیا‘ نہیں تو معاملات کو ٹیڑھا کرنے کی ہماری صلاحیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔