اسلام میں خواتین کے حقوق - جدید یا فرسودہ

شمشاد

لائبریرین
سوال : میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ اسلام میں کثرت ازدواج کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟ یعنی مرد کو ایک سے زائد شادیوں کی اجازت کیوں ہے؟

جواب : میری بہن نے پوچھا ہے کہ اسلام میں کثرت ازدواج کی اجازت کیوں دی گئی ہے یا دوسرے لفظوں میں مرد ایک سے زیادہ بیویاں کیوں رکھ سکتا ہے؟ بہن نے جو لفظ استعمال کیا ہے وہ ہے Polygamy۔ پولی گیمی کا مطلب ہے ایک سے زیادہ شادیاں کرنا۔ اس کی دو اقسام ہیں۔ ایک لفظ ہے Polygamy جو ایک مرد کے ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ اور دوسرا لفظ ہے Polyandry جو عورت کے ایک سے زائد شوہر رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ گویا دو طرح کی کثرت ازدواج ممکن ہے جن ایک کے بارے میں بہن نے سوال پوچھا ہے۔ یعنی یہ کہ مرد ایک سے زیادہ شادیاں کیوں کر سکتا ہے؟

میں سب سے پہلے تو یہ کہنا چاہوں گا کہ قرآن دنیا کی واحد الہامی کتا ب ہے جو ایک ہی شادی کی ترغیب دیتی ہے اور کوئی ایسی مقدس کتاب موجود نہیں ہے جو ایک شادی کا حکم دیتی ہو۔

آپ پوری "گیتا" پڑھ جائیں، پوری "راماین" پڑھ لیں، پوری "مہا بھارت" پڑھ لیں۔ کہیں آپ کو یہ لکھا نہیں ملے گا کہ ایک شادی کرو حتٰی کہ بائبل میں بھی آپ ایک شادی کا حکم تلاش نہیں کر سکیں گے۔

بلکہ اگر آپ ہندوؤں کے متون مقدسہ کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ بیشتر راجوں، مہاراجوں کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں۔ "وشرتھ" کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں۔ کرشنا کی بھی بہت سی بیویاں تھیں۔

اگر آپ یہودی قانون کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہودیت میں گیارھویں صدی عیسوی تک مرد کو کثرت ازدواج کی اجازت حاصل رہی ہے۔ یہاں تک ربی گرشم بن یہوواہ نے اس پر پابندی عاید کر دی۔ اس کے باوجود عرب علاقوں میں آباد یہودی 1950ء تک ایک سے زیادہ شادیاں کرتے رہے لیکن 1950ء میں اسرائیل کے علما نے کثرت ازدواج پر مکمل پابندی لگا دی۔

اسی طرح عیسائی انجیل بھی کثرت ازدواج کی اجازت دیتی ہے۔ یہ تو چند صدیاں پہلے عیسائی علما نے ایک سے زاید شادیوں پر پابندی لگائی ہے۔

اگر آپ ہندوستانی قانون کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ پہلی دفعہ 1954ء میں کثرت ازدواج پر پابندی لگائی گئی۔ اس سے قبل ہندوستان میں قانونی طور پر بھی مرد کو ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت تھی۔

1954ء میں ہندو میرج ایکٹ کا نفاذ ہوا جس میں ہندوؤں کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے پر پابندی عاید کر دی گئی۔

اگر آپ اعداد و شمار کا تجزیہ کریں تو صورتِ حال آپ کے سامنے واضح ہو جائے گی۔ یہ اعداد و شمار "اسلام میں عورت کا مقام" کے عنوان سے تحقیق کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ میں شامل ہیں۔ 1975ء میں شائع ہونے والی رپورٹ کے صفحہ 66 اور 67 پر ایک سے زاید شادیوں کے ھوالے سے اعداد و شمار دیے گئے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ ہندوؤں میں ایک سے زاید شادیوں کی شرح 5٫56 فی صد تھی جبکہ مسلمانوں میں یہ شرح 4٫31 فی صد تھی۔

لیکن چھوڑیئے اعداد و شمار کو۔ ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ آخر اسلام میں مرد کو ایک سے زاید شادیوں کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا اس وقت قرآن ہی دنیا کی واحد مذہبی کتاب ہے جو ایک شادی کا حکم دیتی ہے۔

سورۃ نساء میں ارشاد ہوتا ہے :

وَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تُقْسِطُواْ فِي الْيَتَامَى فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ اَدْنَى اَلاَّ تَعُولُوا۔ (سورۃ 4، آیہ 3)

اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے)، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو) یا وہ کنیزیں جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں آئی ہوں، یہ بات اس سے قریب تر ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو۔"

یہ حکم کہ پھر ایک ہی شادی کرو، قرآن کے علاوہ کسی صحیفہ مقدسہ میں نہیں دیا گیا۔ عربوں میں اسلام سے قبل مرد بہت سی شادیاں کیا کرتے تھے۔ بعض مردوں کی تو سینکڑوں بیویاں تھیں۔

اسلام نے ایک تو بیویوں کی حد مقرر کر دی اور زیادہ سے زیادہ تعداد چار معین کر دی اور ایک سے زاید شادیوں کی صورت میں ایک بہت سخت شرط بھی عاید کر دی وہ یہ کہ اگر آپ ایک سے زاید شادیاں کرتے ہین تو پھر آپ کو اپنی دونوں، تینوں یا چاروں بیویوں کے درمیان پورا عدل کرنا ہو گا بصورتِ دیگر ایک ہی شادی کی اجازت ہے۔

اللہ تبارک و تعالٰی سورۃ نساء میں فرماتا ہے :

وَلَن تَسْتَطِيعُواْ اَن تَعْدِلُواْ بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلاَ تَمِيلُواْ كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوھَا كَالْمُعَلَّقَۃِ وَاِن تُصْلِحُواْ وَتَتَّقُواْ فَاِنَّ اللّہَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا۔ (سورۃ 4، آیہ 129)

"اور تم ہرگز اس بات کی طاقت نہیں رکھتے کہ (ایک سے زائد) بیویوں کے درمیان (پورا پورا) عدل کر سکو اگرچہ تم کتنا بھی چاہو۔ پس (ایک کی طرف) پورے میلان طبع کے ساتھ (یوں) نہ جھک جاؤ کہ دوسری کو (درمیان میں) لٹکتی ہوئی چیز کی طرح چھوڑ دو۔ اور اگر تم اصلاح کر لو اور (حق تلفی و زیادتی سے) بچتے رہو تو اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔"

گویا ایک سے زیادہ شادیاں کوئی اُصول نہیں ہے بلکہ ایک استثنائی صورتحال ہے۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام ایک سے زیادہ شادیوں کا حکم دیتا ہے۔

لیکن صورتحال یہ ہے کہ اسلام میں اعمال کے پانچ درجے یا اقسام ہیں :

پہلا درجہ "فرض" ہے۔ یعنی وہ کام جن کا کرنا ضروری اور لازمی ہے۔

دوسرا درجہ مستحب اُمور کا ہے۔ ان کاموں کا جنہیں فرض تو نہیں کیا گیا لیکن ان کے کرنے کی تاکید یا حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔

تیسرے درجے میں وہ کام آتے ہیں جن کی نہ حوسلہ افزائی کی گئی اور نہ روکا گیا ہے۔

چوتھے درجہ میں مکروہ اُمور آتے ہیں۔ اور

پانچواں درجہ حرام کاموں کا ہے یعنی جن سے قطعی طور پر منع کر دیا گیا ہے۔

ایک سے زیادہ شادیوں کا معاملہ تیسرے یا درمیان والے درجےمیں آتا ہے۔ یعنی وہ کام جن کے کرنے کی نہ تو قرآن و سنت میں تاکید کی گئی ہے اور نہ ہی منع کیا گیا ہے۔ پورے قرآن میں اور اسی طرح احادیث میں بھی وہ ہمیں کوئی ایسا بیان نہیں ملتا جس میں کہا گیا ہو کہ جو مسلمان ایک سے زیادی شادیاں کرتا ہے وہ اس مسلمان سے بہتر ہے جو ایک ہی شادی کرتا ہے۔

آئیے تجزیہ کرتے ہیں کہ اسلام مرد کو ایک سے زاید شادیوں کی اجازت کیوں دیتا ہے؟

قدرتی طور پر مرد اور عورتیں تقریباً مساوی تعداد میں پیدا ہوتے ہیں لیکن جدید علم طب ہمیں بتاتا ہے کہ بچیوں میں قوت مدافعت بچوں کی بہ نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ ایک بچی جراثیم اور بیماریوں کا مقابلہ بہتر طریقے سے کر سکتی ہے بہ نسبت ایک بچے کے۔ صحت کے لحاظ سے عورت مرد کے مقابلے میں بہر صنف ہے۔ لہذا ہوتا یہ ہے کہ شیر خوارگی کی سطح پر ہی بچیوں کی تعداد بچوں سے کچھ زیادہ ہو جاتی ہے۔

دنیا میں جنگیں ہوتی رہتی ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ دورانِ جنگ مردوں کی اموات عورتوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوتی ہیں۔ حالیہ دور میں ہم نے دیکھا کہ افغانستان میں ایک طویل جنگ ہوئی۔ اس جنگ کے دوران تقریباً پندرہ لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے۔ ان مرنے والوں میں غالب اکثریت مردوں کی تھی۔ شہداء کی کثیر تعداد مردوں پر ہی مشتمل تھی۔

اس طرح اگر آپ حادثات کے اعداد و شمار کا تجزیہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ حادثات میں جاں بحق ہونے والوں کی اکثریت بھی مردوں پر ہی مشتمل ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ منشیات کے استعمال سے ہونے والی اموات میں بھی غالب اکثریت مردوں ہی کی ہوتی ہے۔

مندرجہ بالا تمام عوامل و اسباب کے نتیجے میں دنیا میں مردوں کی آبادی عورتوں کے مقابلے میں کم ہے۔ ایشیا اور افریقہ کے چند ایک ممالک کے علاوہ پوری دنیا میں ہی عورتوں کی آبادی مردوں سے زیادہ ہے۔ جن ممالک میں عورتوں کی آبادی کم ہے ان میں سے ایک اہم ملک ہندوستان ہے۔ اور ہندوستان میں عورتوں کی آبادی مردوں کے مقابلے میں کم ہونے کا بنیادی سبب ہم آپ کو پہلے ہی بتا چکے ہیں۔ یہاں ہر سال دس لاکھ سے زیادہ اسقاطِ حمل کیے جاتے ہیں اور یہ معلوم ہوتے ہی کہ پیدا ہونے والی بچی ہو گی اسقاط کرواد دیا جاتا ہے۔ اور اس طرح بچیوں کو قتل کیے جانے کی وجہ سے ہی مردوں کی آبادی زیادہ ہے۔

اگر آج یہ کام بند ہو جائے تو چند ہی دہائیوں میں آپ دیکھیں گے کہ ہندوستان میں بھی عورتوں کی تعداد مردوں سے بڑھ جائے گی۔ جیسا کہ باقی ساری دنیا میں ہے۔

اس وقت صرف امریکہ کے شہر نیویارک میں عورتوں کی تعداد مردوں سے ایک لاکھ زیادہ ہے۔ پورے امریکہ میں صورتِ حال یہ ہے کہ مردوں کے مقابلے میں 78 لاکھ خواتین زیادہ ہیں۔ مزید برآں کہا جاتا ہے کہ نیویارک میں ایک تہائی مرد ہم جنس پرست ہیں۔ پورے امریکہ میں ہم جنس پرست مردوں کی تعداد ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے۔

برطانیہ کا معاملہ بھی مختلف نہیں۔ وہاں بھی مردوں کے مقابلے میں چالیس لاکھ عورتیں زیادہ ہیں۔ جرمنی میں یہ فرق اس سے بھی زیادہ ہے۔ وہاں مردوں کے مقابلے میں پچاس لاکھ عورتیں زیادہ موجود ہیں۔ روس میں عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں ستر لاکھ زیادہ ہے۔

اسی طرح اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پوری دنیا میں مردوں کی تعداد عورتوں کے مقابلے میں کس قدر کم ہے۔ فرض کیجیے میری بہن امریکہ میں رہتی ہے اور تعداد کے اس فرق کی وجہ سے وہ ان خواتین میں شامل ہے جنہیں شادی کے لیے شوہر نہیں مل سکتا۔ کیونکہ تمام مرد ایک ایک شادی کر چکے ہیں۔ اس صورتِ حال میں اس کے پاس دو ہی راستے بچتے ہیں

پہلی صورت تو یہ ہے کہ وہ کسی شادی شدہ مرد سے شادی کر لے اور دوسری یہ کہ وہ عوامی ملکیت بننے کے راستے پر چل پڑے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی تیسری صورت نہیں ہے۔ اور یہی دونوں راستے باقی بچتے ہیں۔ میں نے بے شمار لوگوں سے یہ سوال پوچھا سب نے ایک ہی جواب دیا کہ ایسی صورتحال میں وہ پہلی صورت کو ہی ترجیح دیں گے۔ آج تک کسی نے دوسری صورت کو پسند نہیں کیا۔ البتہ بعض ذہین لوگوں نے یہ جواب دیا کہ وہ پسند کریں گے کہ ان کی بہن ساری عمر کنواری ہی رہے۔

لیکن علم طب ہمیں بتاتا ہے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔ مرد یا عورت کسی کے لیے بھی ساری عمر کنوارا رہنا بہت مشکل ہے اور اگر ایسا کیا جائے گا تو اس کا نتیجہ بدکرداری ہی کی صورت میں برآمد ہو گا۔ کیونکہ اور کوئی صورت ہے ہی نہیں۔

وہ "عظیم" جوگی اور سنت جو تارک الدنیا ہو جاتے ہیں اور شہروں کو چھوڑ کر جنگلوں کی جانب نکل جاتے ہیں ان کے ساتھ دیوداسیاں بھی نظر آتی ہیں، کیوں؟ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

ایک رپورٹ کے مطابق چرچ آف انگلینڈ سے وابستہ پادریوں اور ننوں کی اکثریت، جی ہاں اکثریت بدفرداری اور ہم جنس پرستی وغیرہ میں ملوث ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ کوئی تیسرا راستہ موجود ہی نہیں یا تو شادی شدہ مرد سے شادی ہے اور یا جنسی بے راہ روی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
سوال : ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کے لیے کیا شرائط اور وجوہات ہیں؟

جواب : سوال یہ پوچھا گیا ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کے لیے کیا کیا شرائط ہیں۔ ایک ہی شرط عاید کی گئی ہے اور وہ یہ کہ شوہر اپنی دونوں، یا تینوں یا چاروں بیویوں میں پورا انصاف کر سکتا ہے یا نہیں؟ اگر وہ عدل کر سکتا ہے تو اسے زیادہ شادیوں کی اجازت ہے۔ بصورت دیگر اسے ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنا ہو گا۔

متعدد ایسی صورتیں ہیں جن میں مرد کے لیے ایک سے زاید شادیاں کرنا بہتر ہوتا ہے۔ پہلی صورت تو وہی ہے جس کا ذکر گزشتہ سوال کے جواب میں کیا گیا۔ چونکہ خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے اس لیے خواتین کی عفت اور عصمت کی حفاظت کے حوالے سے ایک سے زیادہ شادیاں کرنا ضروری ہے۔

اس کے علاوہ بھی متعدد صورتیں ہیں۔ مثال کے طور پر فرج کیجیے ایک نوجوان خاتون کی شادی ہوتی ہے اور شادی کے کچھ ہی عرصہ بعد وہ کسی حادثے کا شکار ہو کر معذور ہو جاتی ہے، اور اس کے لیے وظایف زوجیت ادا کرنا ممکن نہیں رہتا۔ اب اس صورت حال میں شوہر کے پاس دو راستے ہیں یا تو وہ اپنی اس معذورت بیوی کو چھوڑ کر دوسری شادی کر لے اور یا اس بیوی کو بھی رکھے اور دوسرے شادی کر لے۔

میں آپ سے پوچھتا ہوں ، فر ض کر لیجیے کہ خدانخواستہ یہ بدقسمت خاتون جو حادثے کا شکار ہوئی ہے، آپ کی بہن ہے۔ آپ ان دونوں صورتوں میں سے کون سی صورت پسند کریں گے؟ یہ کہ آپکے بہنوئی دوسری شادی کر لیں یا یہ کہ وہ آپ کی بہن کو طلاق دے کر پھر دوسری شادی کرے؟

اسی طرح اگر اگر بیماری یا کسی اور وجہ سے بیوی اپنے فرائض سرانجام دینے سے قاصر ہو جاتی ہے تو اس صورت میں بھی بہتر یہی ہے کہ شوہر دوسری شادی کر لے۔ اور یوں یہ دوسری بیوی نہ صرف اپنے شوہر کی بلکہ پہلی بیوی کی بھی دیکھ بھال کرے اور اگر پہلی بیوی کے بچے موجود ہیں تو ان بچوں کی بھی پرورش کرے۔

بہت سے لوگ یہاں یہ کہیں گے کہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ شوہر اس مقصد کے لیے، یعنی بچوں کی دیکھ بھال کے لیے کوئی ملازمہ یا آیا وغیرہ بھی تو رکھی جا سکتی ہے۔ بات درست ہے۔ میں اس سے اتفاق کرتا ہوں، بچوں اور معذور بیوی کا خیال رکھنے کے لیے تو ملازمہ رکھی جا سکتی ہے لیکن خود شوہرکا خیال کون رکھے گا؟

عملاً یہی ہو گا کہ بہت جلد ملازمہ اس کا بھی "خیال رکھنا" شروع کر دے گی۔ لہذا بہترین صورت یہی ہے کہ پہلی بیوی کو بھی رکھا جائے اور دوسری شادی بھی کر لی جائے۔

اسی طرح بے اولادی بھی ایک ایسی صورت ہے جس میں دوسرے شادی کا مشورہ دیا جا سکتا ہے۔ طویل عرصے تک اولاد نہ ہونے کی صورت میں جب کہ شوہر اور بیوی دونوں اولاد کی شدید خواہش بھی رکھتے ہوں بیوی خود شوہر کو دوسری شادی کا مشورہ دے سکتی ہے۔

یہاں بعض لوگ کہیں گے کہ وہ کسی بچے کو گود بھی تو لے سکتے ہیں۔ لیکن اسلام اس عمل کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا جس کی متعدد وجوہات ہیں۔ ان وجوہات کی تفصیل میں، میں یہاں نہیں جاؤں گا۔ لیکن اس صورت میں بھی شوہر کے پاس دو ہی راستے باقی بچتے ہیں یعنی یا تو وہ پہلی بیوی کو طلاق دے کر دوسری شادی کرے اور یا پہلی شادی کو برقرار رکھتے ہوئے دوسری شادی کرے اور دونوں کے ساتھ پورا عدل کرے۔

میرے خیال میں یہ کافی وجوہات ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
سوال : کیا عورت سربراہِ مملکت بن سکتی ہے؟

جواب : میرے بھائی نے سوال پوچھا ہے کہ کیا عورت سربراہِ مملکت بن سکتی ہے؟

میرے علم کی حد تک قران میں کوئی ایسی آیت موجود نہیں، کوئی ایسا حکم موجود نہیں کہ عورت "سربراہِ حکومت نہیں بن سکتی۔"

لیکن متعدد احادیث ایسی موجود ہیں مثال کے طور پر ایک حدیث جس کا مفہوم ہے :

"وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جس نے اپنا سربراہ عورت کو بنایا ۔"

بعض علماء کا کہنا ہے کہ ان احادیث کا تعلق اسی زمانے سے ہے۔ یعنی ان کا حکم اسی زمانے کے لیے محدود ہے جس زمانے میں فارس میں عورت حکمران تھی۔ جب کہ دیگر علماء کی رائے مختلف ہے۔ وہ اس حکم کو ہر زمانے کے لیے عام سمجھتے ہیں۔

آئیے ہم تجزیہ کر کے دیکھتے ہیں کہ ایک عورت کے لیے سربراہِ حکومت بننا اچھا ہے یا نہیں؟ اگر ایک اسلامی ریاست میں عورت سربراہِ حکومت ہو گی تو لازماً اسے نمازوں کی امامت بھی کروانی ہو گی۔ اور اگر ایک عورت نماز باجماعت کی امامت کرواتی ہے تو اس سے لازماً نمازیوں کی توجہ بھٹکے گی۔ کیونکہ نماز کے متعدد ارکان ہیں۔ مثلاً قیام، رکوع، سجدہ وغیرہ۔ جب ایک عورت مرد نمازیوں کی امامت کروائے گی اور یہ ارکان ادا کرے گی تو مجھے یقین ہے کہ نمازیوں کے لیے پریشانی پیدا ہو گی۔

اگر عورت ایک جدید معاشرے میں سربراہِ حکومت ہو گی، جیسا کہ ہمارا آج کل کا معاشرہ ہےتو بسا اوقات اسے بحیثیت سربراہِ حکومت دوسرے سربراہان مملکت سے ملاقاتیں کرنی ہوں گی جو کہ بالعموم مرد حضرات ہوتے ہیں۔ اس طرح کی ملاقاتوں کا ایک حصہ عموماً بند کمرے کی ملاقات بھی ہوتا ہے۔ جس میں دونوں سربراہان تنہائی میں ملاقات کرتے ہیں جس کے دوران کوئی اور موجود نہیں ہوتا۔ اسلام ایسی ملاقات کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام کسی عورت کو تنہائی میں کسی نامحرم سے ملاقات کی اجازت نہیں دیتا۔

اسلام مرد و عورت کے اختلاط کو ناجائز قرار دیتا ہے۔ بحیثیت سربراہ حکومت عورت کو منظر عام پر رہنا ہوتا ہے۔ اس کی تصاویر بنتی ہیں۔ اس کی ویڈیو بنتی ہیں۔ ان تصاویر میں وہ نامحرم مردوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ کوئی بھی عورت مثال کے طور پر مارگریٹ تھیچر اگر سربراہِ حکومت ہو تو آپ کو اس کی بے شمار تصاویر مل سکتی ہیں جن میں وہ مردوں سے ہاتھ ملا رہی ہو گی۔ اسلام اس طرح کے آزادانہ اختلاط کی قطعی اجازت نہیں دیتا۔

بحیثیت سربراہِ مملکت ایک عورت کے لیے عوام کے قریب رہنا اور ان سے مل کر ان کے مسائل معلوم کرنا بھی مشکل ہو گا۔

جدید سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ ایام حیض کے دوران عورت میں متعدد نفسیاتی، ذہنی اور رویے سے متعلق تبدیلیاںواقع ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ ہارمون ایسٹوجن ہوتے ہیں۔ اب اگر یہ عورت سربراہِ مملکت ہے تو یہ تبدیلیاں یقیناً اس کی قوت فیصلہ پر اثر انداز ہوں گی۔ سائنس ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ عورت میں بولنے کی، گفتگو کی صلاحیت مرد کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ جبکہ مرد میں ایک خاص صلاحیت Special agility زیادہ ہوتی ہے۔ اس صلاحیت سر مراد ہوتی ہے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے، مستقبل کو دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت ۔ یہ صلاحیت ایک سربراہِ حکومت کے لیے از حد ضروری ہے۔ عورتوں کو گفتگو کی صلاحیت مردوں کے مقابلے میں زیادہ دی گئی ہے کیونکہ یہ صلاحیت بحیثیت ماں کے اس کے لیے ضروری ہے۔

ایک عورت حاملہ بھی ہو سکتی ہے اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں اسے چند ماہ کے لیے آرام کرنا ہو گا، اس دوران اس کے فرائض کون ادا کرے گا۔ اس کے بچے ہوں گے اور ماں کے فرائض نہایت اہم ہیں۔ ایک مرد کے لیے سربراہِ حکومت کی ذمہ داریاں اور ایک باپ کی ذمہ داریاں بیک وقت ادا کرنا زیادہ قابل عمل ہے۔ جب کہ ایک عورت کے لیے سربراہِ مملکت اور ماں کی ذمہ داریاں بیک وقت ادا کرنا بہت مشکل ہے۔

ان وجوہات کے باعث میری رائے ان علمائے کرام کے زیادہ قریب ہے جو کہتے ہیں کہ عورت کو سربراہِ مملکت نہیں بنایا جانا چاہیے۔

لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ عورت فیصلوں میں حصہ نہیں لے سکتی یا قانون سازی کے عمل میں شریک نہیں ہو سکتی۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا عورت یقیناً قانون سازی کے عمل میں حصہ لے سکتی ہے۔ اسے ووٹ دینے کا حق بھی حاصل ہے۔ صلح حدیبیہ کے دوران حضرت اُم سلمٰی رضی اللہ تعالٰی عنہا حضور رنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیتی رہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب تمام مسلمان پریشان تھے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دلجوئی بھی فرمائی اور انہیں مشورے بھی دیے۔

آپ جانتے ہیں کہ سربراہِ حکومت تو صدر یا وزیر اعظم ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات سیکریٹری یا PA کو بہت سے فیصلے کرنے ہوتے ہیں لہذا یقیناً ایک عورت مرد کی مدد ضرور کر سکتی ہے۔ اور اہم فیصلے کرنے میں اسے مفید مشورے اور رہنمائی فراہم کر سکتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
سوال : اگر اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ مرد اور عورت کے حقوق برابر ہیں تو پھر عورت کو پردے کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟

جواب : میری بہن نے ایک بہت اچھا سوال پوچھا ہے کہ اگر اسلام حقوق نسواں میں یقین رکھتا ہے، اگر اسلام مرد اور عورت کو برابر سمجھتا ہے تو پھر اسلام پردے کا حکم کیوں دیتا ہے؟ اور دونوں جنسوں یعنی مرد اور عورت کو الگ رکھنے کی تاکید کیوں کرتا ہے۔

میں پردے کے حکم کے بارے میں گفتگو تھوڑی دیر بعد کروں گا، میں اپنی بہن کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جس نے یہ سوال پوچھا ہےکیونکہ میں پردے یا حجاب کے بارے میں گفتگو نہیں کر پایا تھا۔

اگر آپ قرآن کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ عورت کو حجاب کا حکم دینے سے پہلے قرآن مرد کو حجاب کا حکم دیتا ہے :

سورۃ نور میں ارشادِ باری تعالٰی ہے :

قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَھُمْ ذَلِكَ اَزْكَى لَھُمْ اِنَّ اللَّہَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ۔ (سورۃ نور (24)، آیہ 30)

"آپ مومن مَردوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں، یہ ان کے لئے بڑی پاکیزہ بات ہے۔ بیشک اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو یہ انجام دے رہے ہیں۔"

اور اس کے بعد اگلی ہی آیت میں ارشاد ہوتا ہے :

وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِھِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَھُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَھُنَّ اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلَى جُيُوبِھِنَّ ۔۔۔۔۔۔ (سورۃ نور (24)، آیہ 31)

"اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں ۔۔۔۔۔۔۔"

اس کے بعد رشتہ داروں کی ایک طویل فہرست دی گئی ہے اور ظاہر ہے کہ خواتین بھی اس میں شامل لیں۔ ان کے علاوہ اسے تمام لوگوں سے پردہ کرنا ہے۔ یعنی "حجاب" کے اُصولوں پر عمل کرنا ہے۔ اسلامی حجاب کے یہ اُصول قرآن مجید اور احادیث میں بیان کیے گئے ہیں۔ یہ اُصول تعداد میں چھ ہیں :

  • پہلا اُصول حجاب کی حد یا معیار کا ہے۔ جو کہ مرد اور عورت کے لیے مختلف ہیں۔ مرد کے لیے ستر کی حد ناف سے گھٹنے تک ہے جبکہ عورت کے لیے سارا جسم ہی سترِ عورت میں شامل ہے۔ جو اعضا نظر آ سکتے ہیں وہ صرف چہرہ اور کلائیوں تک ہاتھ ہیں۔ ان کے علاوہ سارے جسم کا حجاب یعنی چھپایا جانا ضروری ہے۔ اگر وہ چہرہ اور ہاتھ بھی چھپانا چاہے تو اسے منع نہیں کیا گیا لیکن ان اعضا کا محرم کے سامنے چھپانا لازم نہیں ہے۔ یہ وہ واحد اُصول ہے جو مرد اور عورت کے لیے مختلف ہے۔ باقی تمام اُصول دونوں کے لیے یکساں ہیں۔
  • دوسرا اُصول یہ ہے کہ عورت کا لباس تنگ اور چست نہیں ہونا چاہیے۔ یعنی اس قسم کا لباس نہیں پہننا چاہیے جس سے جسم کے نشیب و فراز واضح طور پر نظر آنے لگیں۔
  • تیسرا اُصول یہ ہے کہ عورت کا لباس شفاف نہیں ہونا چاہیے۔ یعنی ایسا لباس نہیں پہننا چاہیے جس میں سے آرپار نظر ائے۔
  • چوتھا اُصول یہ ہے کہ لباس بہت زیادہ شوخ اور بھڑکیلا نہیں ہونا چاہیے یعنی ایسا لباس بھی نہیں ہونا چاہیے جو جنس مخالف کو ترغیب دینے والا ہو۔
  • پانچواں اُصول یہ ہے کہ جنس مخالف سے مشابہت رکھنے والا لباس نہیں پہننا چاہیے یعنی مردوں کو عورتوں جیسے اور عورتوں کو مردوں جیسے لباس پہننے سے پرہیز کانا چاہیے۔ جس کی ایک مثال مردوں کا کانوں میں بالیاں وغیرہ پہننا ہے۔ اگر آپ ایک کان میں بالی پہنتے ہیں تو اس سے مراد کچھاور لی جاتی ہے لیکن اگر دونوں کانوں میں پہنی جائے تو اس کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے۔ اس سے اسلام میں منع کیا گیا ہے۔
  • چھٹا اور آخری اُصول یہ ہے کہ آپ کو ایسا لباس بھی نہیں پہننا چاہیے جس میں کفار سے مشابہت ہوتی ہو۔

مندرجہ بالا نکات میں اسلامی حجاب کے بنیادی اُصول بیان کر دیے گئے ہیں۔ اب ہم اصل سوال کی جانب آتے ہیں۔ یعنی یہ کہ عورتوں پر پردے کی پابندی کیوں لگائی گئی ہے اور دوسرے یہ کہ دونو جنسوں کے اختلاط سے کیوں روکا گیا ہے؟

اس مقصد کے لیے ہم دونوں طرح کے معاشروں کا تجزیہ کرتے ہیں یعنی وہ معاشرے جن میں پردہ کیا جاتا ہے اور وہ معاشرے جن میں پردہ موجود نہیں ہے۔ دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ جرائم جس ملک میں ہوتے ہیں وہ ملک امریکہ ہے۔

امریکی تحقیقاتی ادارے "فیڈرل بیورو آف انوسٹی گیشن" کی 1990 میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس ایک سال کے دوران ایک ہزار دو سو پچاس زنا بالجبر کی وارداتیں ہوئیں۔ یہ وہ واقعات ہیں جن کی رپورٹ ہوئی۔ اور یہی رپورٹ کہتی ہے کہ صرف 16 فی صد واقعات رپورٹ ہوئے۔ اس حساب سے اگر آپ اصل تعداد معلوم کرنا چاہیں تو وہ خود ضرب تقسیم کر لیں۔ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ صرف ایک سال کے عرصے میں کتنی خواتین کے ساتھ زنا بالجبر کے واقعات ہوئے۔ بعد میں یہ تعداد بڑھ گئی اور یہاں تک پہنچی کہ روزانہ ایک ہزار نو سو واقعات ہونے شروع ہو گئے۔

شاید امریکی زیادہ بولڈ ہو گئے ہوں گے۔

1993 کی رپورٹ کے مطابق ہر 1٫3 منٹ کے بعد ایک خاتون کے ساتھ زنا بالجبر کا واقعہ ہو رہا ہے۔

لیکن ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

امریکہ نے خواتین کو زیادہ حقوق دیے ہیں اور وہاں زیادتی کے واقعات زیادہ ہو رہے ہیں۔

مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ صرف دس فیصد مجرم گرفتار ہوتے ہیں۔ یعنی صرف 16 فیصدواقعات رپورٹ ہوتے اور دس فیصد گرفتاریاں ہوتی ہیں یعنی عملاً صرف 1٫6 فی صد ملزم گرفتار ہوتے ہیں۔ ان گرفتار ہونے والوں میں سے بھی نصف باقاعدہ کوئی کیس چلنے سے قبل ہی رہا کر دیے جاتے ہیں یعنی اعشاریہ آٹھ فیصد مجرموں کے خلاف باقاعدہ کیس چلتا ہے۔

اس سارے تجزیے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک سو پچیس خواتین کے ساتھ زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے تو امکان یہ ہے کہ ایک دفعہ اس کے خلاف باقاعدہ قانونی کاروائی کی جائے گی۔

اس صورت میں بھی پچاس فی صد امکان یہ ہے کہ اسے ایک سال سے بھی کم قید کی سزا ہو گی۔

اگر امریکی قانون میں زنا بالجبر کی سزا عمر قید ہے لیکن اگر مجرم پہلی مرتبہ گرفتار ہوا ہے تو قانون اسے ایک موقع دینے کے حق میں ہے اور اسی لیے پچاس فی صد واقعات میں مجرم کو ایک سال سے بھی کم سزا سنائی جاتی ہے۔

خود ہندوستان میں صورتِ حال یہ ہے کہ نیشنل کرائم بیورو کی ایک رپورٹ کے مطابق جو یکم دسمبر 1992 کو شائع ہوئی ہے، ہندوستان میں ہر 54 منٹ کے بعد زنا بالجبر کا ایک کیس رپورٹ ہوتا ہے۔ اسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہر 26 منٹ کے بعد جنسی استحصال کا ایک واقعہ ہوتا ہے اور ہر ایک گھنٹہ 43 منٹ کے بعد جہیز کی وجہ سے قتل کی ایک واردات ہوتی ہے۔

اگر ہمارے ملک میں ہونے والی زنا بالجبر کی وارداتوں کی کل تعداد معلوم کی جائے تو تقریباً ہر دو منٹ کے بعد ایک واردات کی اوسط نکلے گی۔

اب میں ایک سادہ سا سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ یہ بتائیے کہ اگر امریکہ کی ہر عورت پردہ کرنا شروع کر دے تو کیا ہو گا؟

کیا زنا بالجبر کی وارداتوں کی شرح یہی رہے گی؟

کیا ان وارداتوں میں اضافہ ہو گا؟

یا ان وارداتوں میں کمی واقع ہو گی؟

پھر یہ کہ اسلامی تعلیمات کو ان کے مجموعی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ اسلام حکم دیتا ہے کہ قطع نظر اس کے کہ کوئی عورت پردہ کرے یا نہ کرے، مرد کے لیے بہرحال لازم ہے کہ وہ نظریں نیچی رکھے۔

اور اگر کوئی مرد زنا بالجبر کا مرتکب ہوتا ہے تو اسلام میں اس کے لیے سزائے موت ہے۔ کیا آپ کے خیال میں یہ "وحشیانہ سزا" ہے؟

میں نے یہ سوال بہت سے لوگوں سے کیا ہے اور آپ سے بھی کرنا چاہتا ہوں۔ فرض کیجیے آپ کی بہن کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے اور آپ کو جج بنا دیا جاتا ہے۔ اب اس سے قطع نظر کہ اسلامی قانون کیا کہتا ہے اس سے بھی قطع نظر کہ ہندوستانی قانون کیا کہتا ہے اور اس سے بھی قطع نظر کہ امریکی قانون کیا کہتا ہے؟ اپ بتائیے کہ اگر آپ کو جج بنا دیا جاتا ہے تو آپ مجرم کو کیا سزا سنائیں گے؟

ہر کسی نے ایک ہی جواب دیا : "سزائے موت"

بعض تو اس سے بھی آگے بڑھ گئے اور کہا کہ وہ مجرم کو اذیتیں دے دے کر ہلاک کرنا پسند کریں گے۔

میں دوبارہ پوچھتا ہوں کہ اگر امریکہ میں اسلام شریعت نافذ کر دی جائے تو ان وارداتوں میں اضافہ ہو گا؟ کمی ہو گی؟ یا ان کی تعداد یہی رہے گی؟

اگر ہندوستان میں اسلامی قانون کا نفاذ کر دیا جائے تو پھر کیا ہو گا؟ کیا زنا بالجبر کی شرح یہی رہے گی؟ کمی ہو گی یا بڑھ جائے گی؟

اگر ہم عملی تجزیہ کریں تو جواب واضح ہے۔

آپ کہتے ہیں کہ آپ نے عورت کو حقوق دیے ہیں۔ مگر یہ حقوق محض نظری طور پر دیے گئے ہیں عملاً آپ نے عورت کو ایک طوائف اور ایک داشتہ کی حیثیت دے دی ہے۔

میں محض پردے کے موضوع پر کئی دن تک گفتگو کر سکتا ہوں۔ لیکن میں اپنا جواب مختصر رکھتے ہوئے ایک مثال پیش کرنا چاہوں گا۔

فرض کیجیے دو خواتین ہیں جو آپس میں جڑواں بہنیں ہیں۔ اور دونوں خواتین یکساں خوبصورت ہیں۔ دونوں ایک گلی میں سے گزر رہی ہیں۔ گلی کی نکڑ پر ایک بدمعاش کھڑا ہے۔ جو لڑکیوں کو چھیڑتا ہے، تنگ کرتا ہے۔ یہ دونوں خواتین یکساں خوبصورت ہیں لیکن ایک اسلامی لباس میں ہے، یعنی اس نے پردہ کیا ہوا ہےجب کہ دوسرے مغربی لباس میں ہے یعنی اس نے منی سکرٹ وغیرہ پہنا ہوا ہے۔ اب یہ بدمعاش ان میں سے کسے چھیڑے گا؟ ظاہر ہے کہ مغربی لباس والی خاتون کو۔

یا فرض کیجیے کہ ان میں سے ایک خاتون تو پردے میں ہے اور دوسری بھی شلوار قمیص میں ہے لیکن اس کا لباس تنگ ہے، سر سے دوپٹہ غائب ہے، اس صورت میں بھی وہ کسے چھیڑے گا؟ پردہ دار خاتون کو یا بے حجاب خاتون کو؟ صاف ظاہر ہے کہ دوسری خاتون کو۔

یہ اس بات کا ایک عملی ثبوت ہے کہ اسلام نے عورت کو حجاب کا حکم اس کی عزت اور وقار کی حفاظت کے لیے دیا ہے اس کی عزت گھٹانے کے لیے نہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
سوال :اسلام مسلمان مردوں کو تو اہل کتاب خواتین سے شادی کی اجازت دیتا ہے لیکن مسلمان عورتوں کو اہل کتاب مردوں سے شادی کی اجازت نہیں دیتا، ایسا کیوں ہے؟

جواب : بھائی نے سوال پوچھا ہے کہ قرآن مسلمان مردوں کو تو اہل کتاب عورت سے شادی کی اجازت دیتا ہے لیکن مسلمان عورت کو اہل کتاب مرد سے شادی کی اجازت نہیں دیتا، ان کی بات بالکل درست ہے۔

سورۃ مائدہ میں اس حوالے سے ارشاد ہوتا ہے :

الْيَوْمَ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِينَ اُوتُواْ الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّھُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ اُوتُواْ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ اِذَا آتَيْتُمُوھُنَّ اُجُورَھُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلاَ مُتَّخِذِي اَخْدَانٍ وَمَن يَكْفُرْ بِالْاِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ وَھُوَ فِي الْآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِينَ ۔ (سورۃ 5، آیہ 5)

"آج تمہارے لئے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں، اور ان لوگوں کا ذبیحہ (بھی) جنہیں (اِلہامی) کتاب دی گئی تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال ہے، اور (اسی طرح) پاک دامن مسلمان عورتیں اور ان لوگوں میں سے پاک دامن عورتیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی (تمہارے لئے حلال ہیں) جب کہ تم انہیں ان کے مَہر ادا کر دو، (مگر شرط) یہ کہ تم (انہیں) قیدِ نکاح میں لانے والے (عفت شعار) بنو نہ کہ (محض ہوس رانی کی خاطر) اِعلانیہ بدکاری کرنے والے اور نہ خفیہ آشنائی کرنے والے، اور جو شخص (اَحکامِ الٰہی پر) ایمان (لانے) سے انکار کرے تو اس کا سارا عمل برباد ہوگیا اور وہ آخرت میں (بھی) نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔"

اس آیت کی روشنی میں اسلام کا حکم یہ ہے کہ مسلمان مرد اہل کتاب عورت سے شادی کر سکتا ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ایک اہل کتاب عورت، یہودی یا عیسائی عورت ایک مسلمان مرد سے شادی کرے گی تو اس کا خاوند یا اس کے خاوند کے اہل خاندان اور گھر والے اس عورت کی مقدس ترین ہستیوں یعنی انبیائے کرام کی توہین یا ان کی شان میں کسی گستاخی کے مرتکب نہیں ہوں گے کیونکہ بحیثیت مسلمان ہم یہودیوں اور عیسائیوں کے انبیائے کرام یعنی حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام پر ہم بھی ایمان رکھتے ہیں۔

چونکہ اس اہل کتاب عورت کے انبیائے کرام ہمارے لیے بھی محترم ہیں اس لیے مسلمان خاندان میں اس عورت کا مذاق نہیں اُڑایا جائے گا۔ لیکن اہل کتاب یعنی یہودی اور عیسائی ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نہیں رکھتے۔ لہذا اگر ایک مسلمان عورت اہل کتاب خاندان میں جائے گی تو وہاں اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام اور تقدس ملحوظ نہیں رکھا جائے گا اور عین ممکن ہے کہ اس کے عقاید کا مذاق اُڑایا جائے۔

یہی وجہ ہے کہ مسلمان عورت کو اہل کتاب مرد سے شادی کی اجازت نہیں دی گئی جب کہ مسلمان مرد کو اہل کتاب عورت سے شادی کی اجازت ہے۔

سوال پوچھنے والے بھائی نے ایک اور آیت کی طرف بھی ازادہ کیا ہے۔ یہ سورۃ بقرہ کی ایک آیت ہے جس میں ارشاد ہوتا ہے :

وَلاَ تَنكِحُواْ الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُؤْمِنَّ وَلَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَۃٍ وَلَوْ اَعْجَبَتْكُمْ وَلاَ تُنكِحُواْ الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُواْ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ اَعْجَبَكُمْ اُوْلَ۔ئِكَ يَدْعُونَ اِلَى النَّارِ وَاللّہُ يَدْعُوَ اِلَى الْجَنَّۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ بِاِذْنِہِ وَيُبَيِّنُ آيَاتِہِ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ يَتَذَكَّرُونَ (سورۃ 2، آیہ 221)

"اور تم مشرک عورتوں کے ساتھ نکاح مت کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہو جائیں، اور بیشک مسلمان لونڈی (آزاد) مشرک عورت سے بہتر ہے خواہ وہ تمہیں بھلی ہی لگے، اور (مسلمان عورتوں کا) مشرک مردوں سے بھی نکاح نہ کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہو جائیں، اور یقیناً مشرک مرد سے مؤمن غلام بہتر ہے خواہ وہ تمہیں بھلا ہی لگے، وہ (کافر اور مشرک) دوزخ کی طرف بلاتے ہیں، اور اﷲ اپنے حکم سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے، اور اپنی آیتیں لوگوں کے لئے کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔"

گویا ایک کافر عورت دنیا کی امیر ترین عورت کیوں نہ ہو۔ دنیا کی خوبصورت ترین عورت کیوں نہ ہو وہ بریطانیہ کی ملکہ ہی کیوں نہ ہو ایک مسلمان لونڈی اس سے بہتر ہے۔

اس آیت میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ مشرک مرد سے اپنی بیٹیوں کا نکاح نہ کرو کیونکہ ایک کافر مرد کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو ایک مسلمان غلام بھی اس سے بہتر ہے۔

ہمیں قرآنی احکامات کو ان کے مجموعی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔

سورۃ مائدہ میں ارشادِ باری تعالٰی ہے :

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُواْ اِنَّ اللّہَ اُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي اِسْرَائِيلَ اعْبُدُواْ اللّہَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ اِنَّہُ مَن يُشْرِكْ بِاللّہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّہُ عَلَيہِ الْجَنَّۃَ وَمَاْوَاہُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ اَنصَارٍ۔ (سورۃ 5، آیہ 72)

"درحقیقت ایسے لوگ کافر ہوگئے ہیں جنہوں نے کہا کہ اﷲ ہی مسیح ابنِ مریم (علیہما السلام) ہے حالانکہ مسیح (علیہ السلام) نے (تو یہ) کہا تھا: اے بنی اسرائیل! تم اللہ کی عبادت کرو جو میرا (بھی) ربّ ہے اور تمہارا (بھی) ربّ ہے۔ بیشک جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گا تو یقیناً اﷲ نے اس پر جنت حرام فرما دی ہے اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے، اور ظالموں کے لئے کوئی بھی مدد گار نہ ہوگا۔"

ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے :

كُنتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہِ وَلَوْ آمَنَ اَھْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّھُم مِّنْھُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَاَكْثَرُھُمُ لْفَاسِقُونَ ۔ (سورۃ آلِ عمران (3)، آیہ 110)

"تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو، اور اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو یقیناً ان کے لئے بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ ایمان والے بھی ہیں اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔"

گویا قرآن کا حکم یہ ہے کہ اہل کتاب میں سے بھی انہیں خواتین سے شادی کرنے کی اجازت ہے جو ایمان لانے والی ہیں۔ جو حضرت عیسیٰ کو خدا یا خدا کا بیٹا نہیں بلکہ پیغمبر تسلیم کرتی ہیں۔ اور ایک اللہ پر ایمان رکھتی ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
سوال : اسلام میں عورت کو، خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ وصیت کرنے اجازت کیوں نہیں ہے؟

جواب : بہن نے پوچھا ہے اسلام میں عورت کو وصٰت کرنے کی اجازت کیوں نہیں ہے۔ یہ بالکل غلط ہے۔ جیسا کہ میں نے اپنی گفتگو کے دوران بھی عرض کیا، اسلام نے عورت کو پورے معاشی حقوق دیے ہیں اور یہ حقوق اس نے مغرب کے مقابلے میں 1400 برس پہلے ہی دے دیے تھے۔

میں نے اپنی گفتگو کے دوران واضح طور پر کہ کوئی بھی عاقل اور بالغ عورت اپنے ان حقوق کا استعمال کر سکتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ عاقل اور بالغ ہونے والی شرط تو لازماً ہو گی۔

کوئی بھی عاقل اور بالغ عورت، اس سے قطع نظر کہ وہ شادی شدہ ہے یا غیر شادی شدہ، یہ حق رکھتی ہے کہ آزادی سے اپنی جائیداد کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کر سکے۔ وہ چاہے تو اس سلسلے میں کسی سے مشاورت کر سکتی ہے ورنہ اس کی بھی پابندی نہیں۔

اسے وصیت کرنے کا بھی حق حاصل ہے اور اسلام اس سے قطعا منع نہیں کرتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
سوال : اگر اسلام مرد اور عورت کو برابر سمجھتا ہے تو پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ مرد کو تو چار شادیوں کی اجازت دی گئی ہے لیکن عورت کو یہ اجازت نہیں دی گئی؟

جواب : میرے بھائی نے سوال پوچھا ہے کہ اگر اسلام مرد کو چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے تو عورت کو یہ اجازت کیوں نہیں دیتا؟ عورت کیوں مرد کی طرح ایک سے زاید شادیاں نہیں کر سکتی؟

اس سلسلے میں آپ کو چند نکات ذہن میں رکھنے چاہییں۔ پہلی بات تو یہ کہ مرد میں جنسی خواہش اور جذبہ عورت کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ دونوں جنسوں کی حیاتیاتی ساخت میں فرق اس نوعیت کا ہے کہ مرد کے لیے ایک سے زیادہ بیویوں کے ساتھ زندگی گزارنا آسان ہے جب کہ عورت کے لیے بہت مشکل۔ طبی سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ ایام حیض کے دوران کچھ ذہنی اور نفسیاتی تبدیلیوں سے گزرتی ہے۔ جس کی وجہ سے اس کے مزاج میں چڑچڑاپن پیدا ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میاں بیوی کے درمیان بیش تر جھگڑے انہی دنوں میں ہوتے ہیں۔

خواتین کے جرائم کے بارے میں ایک رپورٹ امریکہ میں شایع ہوئی ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مجرم خواتین کی اکثریت ایام حیض کے دوران جرائم کی مرتکب ہوئی۔

اس لیے اگر ایک عورت کے ایک سے زیادہ خاوند ہوں تو اس کے لیے ذہنی طور پر اس صورتِ حال سے نپٹنا بہت مشکل ہے۔

ایک اور سبب یہ ہے کہ جدید علم طب کے مطابق اگر ایک عورت ایک سے زیادہ مردوں کے ساتھ جنسی روابط رکھتی ہے تو اس کے بیماریوں کے شکار ہونے اور یہ بیماریاں پھیلانے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ جب اگر ایک مرد ایک سے زیادہ شادیاں کرتا ہے تو ایسے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ اگر ایک مرد کی ایک سے زیادہ بیویوں سے اولاد ہے تو اس کے ہر بچے کو اپنی ماں کا بھی علم ہو گا اور باپ کا بھی۔ یعنی یہ بچہ اپنے والدین کی یقینی شناخت کر سکے گا۔ دوسری طرف اگر ایک عورت کے شوہر ایک سے زیادہ ہیں تو اس کے بچوں کو اپنی ماں کا تو علم ہو گا لیکن باپ کا علم نہیں ہو گا۔

اسلام والدین کی شناخت کو بھی بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ اور ماہرین نفسیات بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ایک بچے کو اپنے والدین کا علم نہ ہو تو یہ بات اس کے لیے ذہنی صدمے کا باعث بن سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بدکردار عورتوں کے بچوں کا بچپن بالعموم بہت برا گزرتا ہے۔

اگر ایک ایسے بچے کو آپ سکول میں داخل کروانا چاہیں تو کیا کریں گے۔ ولدیت کے خانے میں دو نام لکھنے پڑیں گے۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ایسے بچے کو کیا کہہ کر پکارا جائے گا؟

میں جانتا ہوں کہ آپ جواباً کچھ دلائل پیش کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ اگر بے اولادی کی وجہ سے، بیوی کے بانجھ ہونے کی وجہ سے شوہر کو دوسری شادی کی اجازت ہے تو شوہر میں کوئی خرابی ہونے کی صورت میں بیوی کو دوسری شادی کی اجازت کیوں نہیں ہے؟

اس سلسلے میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ کوئی مرد سو فیصد نامرد نہیں ہوتا۔ اگر وہ جنسی عمل سر انجام دے سکتا ہے تو اس کے باپ بننے کے امکانات موجود رہتے ہیں۔ خواہ وہ نس بندی ہی کیوں نہ کروا لے۔ لہذا اولاد کی ولدیت میں شک بہرحال موجود رہے گا۔ کوئی بھی ڈاکٹر آپ کی سو فی صد گارنٹی نہیں دے سکتا کہ یہ شخص باپ نہیں بن سکتا۔

اسی طرح آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر بیوی کے حادثے کا شکار ہونے یا شدید بیمار ہونے کی صورت میں شوہر دوسری شادی کر سکتا ہے تو شوہر کے کسی حادثے کا شکار ہونے یا بیمار ہونے کی صورت میں یہی اجازت بیوی کو بھی ہونی چاہیے۔

اس سلسلے میں عرض ہے کہ ایسی کسی صورتحال کے دو طرح کے اثرات ظاہر ہوں گے۔ ایک تو یہ ہو گا کہ شوہر کے لیے بیوی بچوں کے اخراجات پورے کرنا ممکن نہیں رہے گا اور دوسرے یہ کہ وہ بیوی کے ازدواجی حقوق ادا نہیں کر سکے گا۔

جہاں تک پہلے مسئلے کا تعلق ہے اسلام ایسی کسی صورتحال کے لیے "زکوٰۃ " کا ذریعہ فراہم کرتا ہے۔ وہ لوگ جن کے پاس مالی وسائل نہیں ہیں ان کی مدد زکوٰۃ کی رقوم سے کی جانی چاہیے۔

دوسرے مسئلے کا معاملہ یہ ہے کہ طبی سائنس کی تحقیقات کے مطابق عورت میں جنسی خواہش مرد کے مقابلے میں کم ہوتی ہے لیکن اگر عورت سمجھے کہ وہ غیر مطمئن ہے تو اس کے پاس "خلع" کے ذریعے علیحدگی کا راستہ موجود ہے۔ وہ اپنے شوہر سے خلع لے کر دوسری شادی کر سکتی ہے۔ اس طرح عورت کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ کیونکہ خلع کے ذریعے علیحدہ ہونے والی عورت صحت مند ہوتی ہے۔ اور دوبارہ شادی کر سکتی ہے۔ بصورتِ دیگر، اگر وہ خود بیمار یا معذور ہو تو کون اس سے شادی کرے گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
سوال : یوں تو تمام مذاہب کی مقدس کتابوں میں اچھی باتیں لکھی ہوئی ہیں لیکن عملاً ان مذاہب کے ماننے والوں کا رویہ عورت کے ساتھ غیر منصفانہ رہا ہے۔ اصل اہمیت کتابوں میں تعلیمات کی ہے یا عملی رویے کی؟

جواب : میرے بھائی نے بہت اچھا سوال پوچھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کتب مقدسہ میں تو اچھی باتیں ہی لکھی ہوئی ہیں لیکن سوال تو یہ ہے کہ لوگ عملاً کیا کرتے ہیں۔ یقیناً ہمیں نظری گفتگو سے زیادہ اہمیت عمل کو دینی چاہیے۔ لہذا میں اس بات کی پوری حمایت کرتا ہوں۔ اور یہی ہم کر رہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے اپنی گفتگو کے دوران بھی واضح کیا بہت سے مسلمان معاشرے قرآن و سنتکی تعلیمات سے دور ہٹ چکے ہیں اور ہم یہی کر رہے ہیں کہ لوگوں کو دعوت دیں کہ وہ دوبارہ قرآن و سنت کی طرف لوٹ آئیں۔

جہاں تک سوال کے پہلے حصے کا تعلق ہے کہ تمام مذہبی کتابوں میں اچھی باتیں ہی لکھی ہوئی ہیں تو میں اس بات سے قطعا اتفاق نہین کرتا۔ میں آپ کی اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ تمام متون مقدسہ میں اچھی باتیں ہیں اور ہمیں ان کے بارے میں بات ہی نہیں کرنی چاہیے۔

میں "اسلام اور دیگر مذاہب میں عورت کا مقام" کے موضوع پر ایک لیکچر دے چکا ہوں جس میں میں نے اسلام میں عورت کے مقام کا تقابل بدھ مت، ہندو مت، عیسائیت اور یہودیت میں عورت کے مقام کے ساتھ کیا تھا۔ آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں۔ میرا وہ لیکچر سن کر آپ خود یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کون سا مذہب خواتین کو زیادہ حقوق دیتا ہے۔ اب ہمیں کرنا یہ ہے کہ ان تعلیمات پر عمل بھی کریں۔

اور جزوی طور پر ان تعلیمات پر عمل کیا بھی جا رہا ہے۔بعض پہلوؤں پر عمل ہو رہا ہے اور بعض پر نہیں۔ مثال کے طور پر جہاں تک حدودکے نفاذ اور اسلامی نظامِ تعزیرات کا تعلق ہے۔ سعودی عرب میں اس پر عمل ہو رہا ہے۔ الحمد للہ سعودی حکومت اس حوالے سے بہت اچھا کام کر رہی ہے۔ اگرچہ بعض معاملات میں وہ بھی قرآن سے دور ہٹ گئے ہیں۔ ہمیں کرنا یہ چاہیے کہ سعودی عرب کے نظامِ قانون کی مثال سامنے رکھیں، اس کا جائزہ لیں اور اگر یہ نظام مؤثر ہے تو پوری دنیا میں اس پر عمل کیا جائے۔

اسی طرح اگر کسی اور معاشرے میں اسلام کے معاشرتی قانون پر عمل ہو رہا ہے تو اس کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے اور اگر وہ مؤثر ہے تو پوری دنیا میں اس کا نفاذ ہونا چاہیے۔

میرے بھائی ہم یہاں اس لیے جمع ہوئے ہیں کہ آپ کو بتا سکیں کہ اسلامی قانون ہی بہترین قانون ہے۔ اگر ہم اس قانون پر عمل نہیں کر رہے ہیں تو یہ ہمارا قصور ہے، دین اسلام کا نہیں۔ اسی لیے ہم نے لوگوں کو بلایا ہے۔ تاکہ لوگ قرآن و حدیث کی تعلیمات کو صحیح تناظر میں سمجھ سکیں اور ان تعلیمات پر عمل کر سکیں۔

میں امید رکھتا ہوں کہ سوال کا جواب مل چکا ہو گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
سوال : اسلام کے مطابق کوئی عورت پیغبر کیوں نہیں ہو سکتی؟

جواب : میری بہن نے سوال پوچھا ہے کہ اسلام میں کسی عورت کو پیغبر کا درجہ کیوں نہیں ملا؟ اگر "پیغمبر" سے آپ کی مراد کوئی ایسی شخصیت ہے جس پر اللہ تعالٰی کا وہی نازل ہوتی ہو اور وہ کسی قوم کی رہنمائی بھی کرے تو پھر آپ کی بات درست ہے کہ اسلام میں ایسی کوئی خاتون پیغمبر موجود نہیں ہے۔ قرآن واضح طور پر بتاتا ہے کہ خاندان کا سربراہ مرد ہے۔ سو اگر خاندان اور گھر کا سربراہ مرد ہے تو پھر قوم کی سربراہی عورت کس طرح کر سکتی ہے؟

جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا سربراہی کی صورت میں عورت کو امامت بھی کرنی پڑے گی۔ اگر ایک عورت امام ہے اور مقتدی مرد ہیں تو پھر ارکانِ نماز یعنی رکوع و سجود کے دوران لازماً نمازیوں کو پریشانی ہو گی۔ ایک پیغمبر کو عام لوگوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہنا ہوتا ہے۔ لیکن اگر ایک عورت پیغبر ہوتی تو اس کے لیے یہ ممکن نہ ہوتا۔ کیونکہ اسلام مرد و عورت کے آزادانہ اختلاط ہی کی اجازت نہیں دیتا۔ اسی طرح اگر ایک عورت پیغمبر ہو اور وہ حاملہ ہو جائے تو ظاہر ہے کہ کچھ عرصے تک وہ اپنے فرائض سر انجام نہیں دے سکے گی۔ ایک مرد کے لیے ایک ہی وقت میں بہ طور باپ اور بہ طور پیغمبر اپنی ذمہ داریاں نبھانا آسان تھا جب کہ عورت کے لیے ایسا کرنا بہت مشکل تھا۔ لیکن اگر پیغمبر سے آپ کی مراد کوئی مقدس اور متبرک ہستی ہے تو پھر ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ بہترین مثال جو میں آپ کے سامنے پیش کر سکتا ہوں وہ حضرت مریم کی ہے۔

اللہ تعالٰی قرآن مجید میں ان کے بارے میں فرماتا ہے :

وَاِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِكَۃُ يَا مَرْيَمُ اِنَّ اللّہَ اصْطَفَاكِ وَطَھَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاءِ الْعَالَمِينَ ۔ (سورۃ آل عمران (3)، آیہ 42)

"اور جب فرشتوں نے (مریم سے) کہا، کہ مریم! اللہ نے تم کو برگزیدہ کیا ہے اور پاک بنایا ہے اور جہان کی عورتوں میں منتخب کیا ہے۔"

لہذا اگر آپ پیغمبر سے مراد اللہ کی منتخب کردہ کوئی برگزیدہ ہستی لیتے ہیں تو پھر حضرت مریم یعنی حضرت عیسٰی علیہ السلام کی والدہ کی مثال ہمارےسامنے ہے۔ مزید مثالیں بھی موجود ہیں۔

اگر آپ قرآن مجید کی سورۃ تحریم کا مطالعہ کریں تو آپ یہ آیت بھی دیکھیں گے۔

وَضَرَبَ اللَّہُ مَثَلًا لِّلَّذِينَ آمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِندَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّۃِ وَنَجِّنِي مِن فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ۔ (سورۃ 66، آیہ 11)

"اور اللہ نے اُن لوگوں کے لئے جو ایمان لائے ہیں زوجہ فرعون (آسیہ بنت مزاحم) کی مثال بیان فرمائی ہے، جب اس نے عرض کیا: اے میرے رب! تو میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا دے اور مجھ کو فرعون اور اُس کے عملِ (بد) سے نجات دے دے اور مجھے ظالم قوم سے (بھی) بچا لے۔"

ذرا اندازہ لگائیے حضرت آسیہ فرعون کی بیوی ہیں یعنی اپنے وقت کے طاقتور ترین شخص کی ملکہ اور وہ تمام آسائشوں اور سہولتوں کو رد کر کے جنت کے گھر کی دعا فرما رہی ہیں۔ اسلام میں حضرت مریم اور حضرت آسیہ علیہما السلام کے علاوہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا جیسی برگزیدہ خواتین بھی موجود ہیں۔

میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کو اپنے سوال کا جواب مل چکا ہو گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
سوال : آپ نے کہا کہ اسلام میں زیادہ سے زیادہ چار شادیوں کی اجازت ہے تو پھر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ شادیاں کیوں کیں؟

جواب : بھائی نے سوال پوچھا ہے کہ اسلام میں تو زیادہ سے زیادہ چار شادیوں کی اجازت ہے تو پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ شادیاں کیوں کیں؟

بھائی کہ یہ بات بالکل درست ہے کہ اسلام میں زیادہ سے زیادہ چار شادیاں کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

سورۃ نساء میں ارشاد باری تعالٰی ہے :

فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ ط (سورۃ 4، آیہ 3)

"تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کر لو۔"

لیکن سورۃ احزاب میں اللہ تعالٰی کا یہ حکم بھی ملتا ہے :

لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِن بَعْدُ وَلَا اَن تَبَدَّلَ بِھِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَلَوْ اَعْجَبَكَ حُسْنُھُنَّ اِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ وَكَانَ اللَّہُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ رَّقِيبًا۔ (سورۃ 33، آیہ 52)

اس کے بعد (کہ انہوں نے دنیوی منفعتوں پر آپ کی رضا و خدمت کو ترجیح دے دی ہے) آپ کے لئے بھی اور عورتیں (نکاح میں لینا) حلال نہیں (تاکہ یہی اَزواج اپنے شرف میں ممتاز رہیں) اور یہ بھی جائز نہیں کہ (بعض کی طلاق کی صورت میں اس عدد کو ہمارا حکم سمجھ کر برقرار رکھنے کے لئے) آپ ان کے بدلے دیگر اَزواج (عقد میں) لے لیں اگرچہ آپ کو ان کا حُسنِ (سیرت و اخلاق اور اشاعتِ دین کا سلیقہ) کتنا ہی عمدہ لگے مگر جو کنیز (ہمارے حکم سے) آپ کی مِلک میں ہو (جائز ہے)، اور اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے

قرآن مجید کی یہ آیت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی تمام موجود بیویاں رکھنے کی اجازت دے رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی مزید نکاح کرنے سے روک بھی رہی ہے۔ علاوہ لونڈیوں کے۔

پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف یہ کہ مزید شادیاں نہیں کر سکتے تھے بلکہ ان بیویوں کو بھی طلاق نہیں دے سکتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں مسلمانوں کی مائیں یعنی امہات المؤمنین ہیں۔ لہذا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بھی کوئی ان سے شادی نہیں کر سکتا تھا۔

اگر آپ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام شادیوں کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ شادیاں یا تو معاشرتی اصلاحات کے لیےکی گئی تھیں اور یا سیاسی وجوہات سے۔ اپنی خواہش کی تسکین کے لیے یہ شادیاں ہرگز نہیں کی گئی تھیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا نکاح حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے کیا۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی عمر 25 سال تھی۔ جب کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی عمر 40 سال تھی۔ جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا حیات رہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرا نکاح نہیں فرمایا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 50 سال تھی، جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی کا انتقال ہوا۔

اپنی عمر کے 53ویں سال سے 56 سال کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام نکاح فرمائے۔ اگر ان شادیوں کی وجوہات جنسی ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نوجوانی میں زیادہ نکاح فرماتے۔ کیونکہ علم طب تو یہ کہتا ہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ جنسی خواہش گھٹتی چلی جاتی ہے۔

صرف دو نکاح ایسے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مرضی سے فرمائے۔ حضرت خدیجہ کے ساتھ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے ساتھ۔ باقی تمام نکاح حالات کے پیش نظر اور سیاسی معاشرتی اصلاح کے لیے کیے گئے تھے۔

صرف دو امہات المؤمنین کے علاوہ باقی سب کی عمریں 36 اور 50 سال کے درمیان تھیں۔ ہر نکاح کی وجوہات اور اسباب بیان کیے جا سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر حضرت جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا معاملہ دیکھیں۔ آپ کا تعلق قبیلہ بنی مصطلق سے تھا۔ اس قبیلے کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات بہت خراب تھے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں نے ان پر حملہ کر کے انہیں شکست دی۔ اس کے بعد جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے نکاح کر لیا تو مسلمانوں نے قبیلہ بنی مصطلق کے تمام قیدیوں کو یہ کہہ کر رہا کر دیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کو کس طرح قید رکھ سکتے ہیں؟ اس واقعے کے بعد اس قبیلہ کے تعلقات مسلمانوں کے ساتھ بہت اچھے ہو گئے۔

اسی طرح حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا قبیلہ نجد کے سردار کی بہن تھیں۔ یہ وہی قبیلہ ہے جس نے مسلمانوں کے ایک 70 افراد پر مشتمل وفد کو شہید کر دیا تھا۔ یہ قبیلہ مسلمانوں کے شدید ترین مخالفین میں شمار ہوتا تھا لیکن اس شادی کے بعد اس قبیلہ نے مدینے کو اپنا مرکز اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رہنما تسلیم کر لیا۔

اُم المؤمنین حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مکہ کے سردار ابو سفیان کی صاحبزادی تھیں۔ لہذا ظاہر ہے کہ اس نکاح نے فتح مکہ کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔

اُم المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک اہم یہودی سردار کی بیٹی تھیں۔ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان سے نکاح کر لینے کے بعد مسلمانوں کے تعلقات یہودیوں کے ساتھ خوشگوار ہو گئے تھے۔

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف سیاسی اور معاشرتی وجوہات کے پیش نظر یہ نکاح فرمائے۔ حضرت زینب کے ساتھ شادی یہ غلط تصور ختم کرنے کے لیے کی گئی کہ متبنٰی اصل بیٹے کی طرح ہوتا ہے اور اس کی مطلقہ کے ساتھ شادی نہیں ہو سکتی۔

اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام شادیوں کا جائزہ لینے کے بعد یہ حقیقت سامنے آ جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نکاح جنسی خواہش کی وجہ سے ہرگز نہیں کیے تھے۔

میں امید رکھتا ہوں کہ سوال کا جواب مل چکا ہو گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
سوال : کیا اسلام میں بچے کو گود لینے کی اجازت ہے؟

جواب :بھائی پوچھتے ہیں کہ کیا اسلام میں بچے کو گود لینے Adoption کی اجازت ہے یا نہیں۔ اگر تو گود لینے سے مراد یہ ہے کہ آپ ایک غریب اور بے سہارا بچے کا سہارا بنیں اور اس کو روٹی کپڑا مکان مہیا کریں تو یقیناً اسلام اس کے حق میں ہے بلکہ قرآن میں غریب اور ضرورت مند لوگوں کی مدد پر بڑا زور دیا گیا ہے۔

اگر آپ اس طرح کسی بچے کے لیے پدرانہ شفقت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے کام آنا چاہتے ہیں تو اسلام اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے لیکن جہاں تک تعلق ہے قانونی طور پر متبنٰی کرنے کی تو اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ آپ قانونی طور پر اس بچے کی ولدیت کے خانے میں اپنا نام نہیں لکھوا سکتے۔ اس بات کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ قانونی طور پر اس بچے کو آپ کی اولاد قرار دینے کے نتیجے میں بہت سی پیچدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہےکہ اس بچے یا بچی کی اپنی شناخت بالکل ختم ہو جائے گی۔

دوسری بات یہ کہ اگر آپ بے اولادی کی وجہ سے بچے کو گود لیتے ہیں اور اس کے بعد آپ کی اپنی اولاد پیدا ہو جاتی ہے تو اس گود لیے ہوئے بچے کے ساتھ آپ کے رویے میں تبدیلی آ جائے گی۔

تیسری بات یہ کہ اگر آپ کی اپنی اولاد اور متبنٰی بچے کی جنس مختلف ہے تو پھر ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے بھی مشکلات پیش آئیں گی کیونکہ وہ بہرحال حقیقی بہن بھائی تو نہیں ہیں۔ اسی طرح بالغ ہوجانے کے بعد مسائل مزید پیچیدہ ہو جائیں گے، کیونکہ اگر وہ لڑکا ہے تو گھر کی خواتین کو پردہ کرنا پڑے گا۔ اور اگر لڑکی ہے تو اسے اپنے نام نہاد باپ سے بھی پردہ کرنا پڑے گا کیونکہ وہ اس کا حقیقی باپ تو نہیں ہے۔

مزید برآں اس طرح وراثت کے مسائل بھی پیدا ہوں گے۔ وفات کے بعد فوت ہونے والے کی تمام جائیداد اُس قانون کے مطابق تقسیم کی جاتی ہے جو قرآن میں بیان کر دیا گیا ہے۔ اگر گود لیے ہوئے بچے کو یہ مال ملتا ہے تو گویا دیگر رشتہ داروں کا حق مارا جاتا ہے۔

اگر گود لینے والے شخص کی اپنی اولاد بھی موجود ہے تو پھر اس اولاد کا حق مارا جائے گا اور اگر اولاد نہیں ہے تو بیوی اور دیگر رشتہ داروں کا۔

اس پیچیدگی سے بچنے کے لیے اسلام نے بچوں کو قانونی طور پر گود لینے کی اجازت نہیں دی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
سوال :آپ نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ طلاق کے بعد جب تک عورت کی عدت پوری نہیں ہوتی، شوہر عورت کے نان و نفقہ مہیا کرنے کا ذمہ دار ہے۔ سوال یہ ہےکہ عدت کے بعد عورت کے اخراجات کا ذمہ دار کون ہو گا؟

جواب : میری بہن نے بہت اچھا سوال پوچھا ہے۔ طلاق کی صورت میں دورانِ عدت یہ مرد کا فرض ہے کہ وہ عورت کے اخراجات برداشت کرے اور اسے نان و نفقہ فراہم کرے۔ یہ مدت غالباً تین ماہ یا اگر عورت حاملہ ہے تو وضع حمل تک ہے۔

جیسا کہ میں نے اپنی گفتگومیں کہا کہ یہ باپ اور بھائی کی ذمہ داری ہے کہ وہ عورت کو تمام ضروریات زندگی فراہم کریں۔

اگر بالفرض والدین اور بھائی یہ فرض ادا نہیں کر سکتے تو اس صورت میں یہ دیگر قریبی رشتہ داروں کا فرض بنتا ہے۔ اور اگر کسی وجہ سے وہ بھی ایسا نہیں کر سکتے تو اس صورت میں یہ مسلم اُمت کا فریضہ بن جاتا ہے۔ بحیثیت مسلمان یہ ہم سب کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ ایسے ادارے تشکیل دیں اور زکوٰۃ کی تقسیم کا ایسا نظام بنائیں کہ ان خواتین کو بنیادی ضروریات کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔

امید ہے کہ سوال کا جواب مل چکا ہو گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
سوال : آپ نے اپنی گفتگو کے دوران کہا کہ مرد اور عورت برابر ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر دونوں کو جائیداد میں برابر حصہ کیوں نہیں ملتا؟

جواب : بھائی کا سوال یہ ہے کہ اپنی گفتگو کے دوران میں نے کہا تھا کہ اسلام میں مرد اور عورت کو مساوی معاشی حقوق حاصل ہیں۔ اگر ایسا ہے تو وراثت کی تقسیم کے وقت اسے برابر حصہ کیوں نہیں ملا؟ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ عورت کا حصہ مرد سے آدھا ہے۔

اس سلسلے میں قرآنِ مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔

"خدا تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو ارشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے اور اگراولاد میت صرف لڑکیاں ہی ہوں یعنی (دو یا) دو سے زیادہ تو کل ترکے میں سے ان کا دو تہائی اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اس کا حصہ نصف۔ اور میت کے ماں باپ کا یعنی دونوں میں سے ہر ایک کا ترکے میں چھٹا حصہ بشرطیکہ میت کے اولاد ہو اور اگر اولاد نہ ہو اور صرف ماں باپ اس کے وارث ہوں تو ایک تہائی ماں کا حصہ اور اگر میت کے بھائی بھی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ (اور یہ تقسیم ترکہ میت کی) وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو اس کے ذمے ہوعمل میں آئے گی)تم کو معلوم نہیں کہ تمہارے باپ دادوں اور بیٹوں پوتوں میں سے فائدے کے لحاظ سے کون تم سے زیادہ قریب ہے۔ یہ حصے خدا کے مقررکیے ہوئے ہیںاور خدا سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔" (سورۃ نساء (4) آیات 11، 12)

مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ بیش تر صورتوں میں عورت کا آدھا حصہ ہوتا ہے۔ لیکن ہر صورت میں ایسا نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر :

دونوں کو ہی چھٹا حصہ ملتا ہے۔ اگر مرنے والے کی کوئی اولاد نہ ہو تو ماں اور باپ دونوں کو ہی چھٹا حصہ ملتا ہے۔ بعض اوقات اگر مرنے والی خاتون ہو، اس کی اولاد بھی نہ ہو تو اس کے شوہر کو نصف، ماں کو تیسرا حصہ اور باپ کو چھٹا حصہ ملتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بعض صورتیں ایسی بھی ہیں جن میں عورت کا حصہ مرد سے دوگنا ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ اس مثال میں ماں کا حصہ باپ کے مقابلے میں دگنا ہے۔

لیکن میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ بیش تر صورتوں میں عورتوں کا حصہ مردوں کے مقابلے میں آدھا ہی ہوتا ہے۔ لیکن اس کی وجہ یہ ہے اسلام میں معاشی ذمہ داریاں مرد پر ڈالی گئی ہیں اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے مرد کا حصہ زیادہ رکھا گیا ہے۔ خاندان کے تمام معاشی اخراجات پورے کرنے کی وجہ سے ضروری ہے کہ عورت کے مقابلے میں مرد کو زیادہ حصہ ملے۔ بصورت دیگر یہ ہو گا کہ ہمیں "مرد کے حقوق" پر بھی لیکچر دینے پڑیں گے۔

میں یہاں ایک مثال پیش کرتا چاہوں گا۔ فرض کیجیے ایک صاحب فوت ہوئے۔ ان کی جائداد میں سے باقی تمام حقوق ادا کرنے کے بعد بچوں کے حصہ میں ڈیڑھ لاکھ روپے آتے ہیں۔ اس شخص کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔ اسلامی شریعت کی رو سے بیٹے کو ایک لاکھ اور بیٹی کو پچاس ہزار روپے ملیں گے۔ لیکن بیٹے پر ایک پورے خاندان کی معاشی ذمہ داریاں ہیں۔ لہذا اسے اس میں ایک لاکھ کا بیشتر حصہ مثال کے طور پر 10 ہزار یا شاید پورا ایک لاکھ ہی ان ذمہ داریوں کی وجہ سے خرچ کرنا پڑ جائے گا۔ دوسرے طرف خاتون کو پچاس ہزار ملیں گے لیکن یہ ساری رقم اسی کے پاس رہے گی کیونکہ اس پر ایک پائی کی بھی ذمہ داری نہیں ہے۔ لہذا اسے خاندان پر کچھ بھی خرچ کرنے کی ضرورت نہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
سوال : آپ نے اپنی گفتگو کے دوران فرمایا کہ اگر کسی لڑکی کی شادی زبردستی کر دی جائے تو ایسی شادی کو فسخ کیا جا سکتا ہے۔ میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا کوئی ایسا ادارہ موجود ہے جو اس سلسلے میں بااختیارہو اور کوئی لڑکی اپنے اپنے حقوق کے سلسلے میں اس سے رجوع کر سکے؟

جواب : بہن نے بہت اچھا سوال پوچھا ہے۔ ان کا سوال خواتین کے حقوق سے متعلق ہے۔ قرآن و حدیث سے یہ بات بالکل واضح طور پر سامنے آ جاتی ہے کہ اگر کسی خاتون کی شادی زبردستی کر دی جائے تو ایسی شادی کالعدم قرار دی جا سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دورِ حاضر میں کوئی ایسا ادارہ موجود ہے جو اس طرح کی شادی کو کالعدم قرار دے سکے۔ ایسے ادارے کئی ممالک میں موجود ہیں مثال کے طور پر ایران اور سعودی عرب میں۔ لیکن بدقسمتی سے ہندوستانی حکومت مسلمانوں کو ایسی عدالتیں بنانے کی اجازت نہیں دیتی۔ اگرچہ یہاں "مسلم پرسنل لا" موجود ہے لیکن اس میں تمام حقوق شامل نہیں ہیں۔

اگر ہندوستانی حکومت سے درخواست کی جائے اور وہ اجازت دے تو یہاں بھی ایسے ادارے قائم ہو سکتے ہیں۔ فی الحال تو محدود حقوق ہی حاصل ہیں۔ تمام حقوق نہیں دیے گئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
سوال : اسلام مردوں اور عورتوں کو مل جل کر کام کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس رویے کو آپ جدید قرار دیں گے یا فرسودہ؟ اور سوال کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ کیا عورت ایئر ہوسٹس کی نوکری کر سکتی ہے؟ یہ ایک اچھی اور زیادہ تنخواہ والی نوکری ہے۔

جواب : جہاں تک سوال کے پہلے حصے کا تعلق ہے کہ اسلام عورتوں اور مردوں کے آزادانہ اختلاط کی اجازت نہیں دیتا۔ کیا یہ رویہ جدید ہے یا فرسودہ؟ تو عرض یہ ہے کہ اگر جدت سے آپ کی مراد یہ ہے کہ دونوں جنسوں کے اختلاط کی اجازت دے دی جائے۔ عورت کو خرید و فروخت کی شے بنا کر رکھ دیا جائےاور اسے ماڈلنگ جیسے پیشوں سے وابستہ کر دیا جائے تو پھر میرا خیال ہے کہ اسلام فرسودہ ہی ہے۔ کیونکہ مغربی میڈیا ظاہر تو یہ کرتا ہے کہ مغربی کلچر میں عورت کو زیادہ حقوق دیے گئے ہیں لیکن حقیقاً وہاں عورت کے مقام و مرتبے میں اضافہ کرنے کی بجائے اس کا استحصال ہو رہا ہے۔

اعداد و شمار ہمیں بتاتے ہیں کہ یونیورسٹیوں میں جانے والی اور کام کرنے والی خواتین میں سے پچاس فی صد کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے۔ پچاس فی صد خواتین یعنی آدھی خواتین کے ساتھ۔ آپ جانتے ہیں کیوں؟

اس لیے کہ وہاں عورت اور مرد کے آزادانہ اختلاط کی اجازت ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ عورتوں کے ساتھ زنا بالجبر کی اجازت دینا جدت ہے تو پھر السم فرسودہ ہی ہے۔ اور اگر آپ ایسا نہیں سمجھتےتو پھر اسلام جدید ترین مذہب ہے۔

اب آتے ہیں سوال کے دوسرے حصے کی طرف۔ کیا اسلام عورت کو ایئر ہوسٹس کے طور پر نوکری کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ کیونکہ یہ ایک زیادہ تنخواہ والی نوکری ہے لیکن جہاں تک دوسری بات کا تعلق ہے یعنی یہ کہ "یہ ایک اچھی اور مناسب نوکری ہے" تو اس کا ہمیں تجزیہ کرنا چاہیے۔

ایئر ہوسٹس کا انتخاب بنیادی طور پر "حسن" کے حوالے سے ہوتا ہے۔ آپ نے کبھی کوئی بدصورت ایئر ہوسٹس نہیں دیکھی ہو گی۔ انہیں اس لیے منتخب کیا جاتا ہے کہ وہ خوبصورت، اس لیے کہ وہ جوان ہیں، اس لیے کہ وہ جاذب نظر ہیں۔

انہیں ایسا لباس پہننے کا پابند کیا جاتا ہے جو اسلامی اخلاقیات کے مطابق نہیں ہوتا۔ انہیں آرایش و زیبایش کا بھی پابند کیا جاتا ہے تاکہ وہ مسافروں کو راغب کر سکیں۔ انہیں مسافروں کی بعض ضروریات پوری کرنی ہوتی ہیں اور یہ مسافر بالعموم مرد ہوتے ہیں۔ اس طرح عورت اور مرد ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں اور بعض اوقات یہ مسافر ایئر ہوسٹسوں کو تنگ بھی کرتے ہیں لیکن وہ انہیں کوئی سخت جواب نہیں دے سکتی کیونکہ یہ اس کی ڈیوٹی کا تقاضا ہے۔ مثال کے طور پر اگر مسافر کہے "محترمہ ذرا میری سیٹ بیلٹ تو باندھ دیجیے" تو ظاہر ہے کہ ایئر ہوسٹس کو باندھنا ہو گی۔

بیش تر فضائی کمپنیاں اپنی پروازوں کے دوران شراب بھی پیش کرتی ہیں اور اسلام میں نہ صرف شراب کا پینا حرام ہے بلکہ اس کا پیش کرنا بھی حرام ہے۔

تمام فضائی میزبان خواتین ہی ہوتی ہیں۔ مرد حضرات یعنی "پرسر" جہاز میں موجود ہوتے ہیں لیکن وہ کچن وغیرہ میں رہتے ہیں یعنی جہاز میں الٹا ہی نظام چلتا ہے۔ مرد باورچی خانے میں اور عورت مسافروں کی خدمت کر رہی ہے۔

آپ یقین کیجیے کہ اب خواتین کے بغیر کسی ایئر لائن کا گزارہ ہی نہیں یہاں تک کہ سعودی ایئر لائن جسے سب سے زیادہ اسلامی "فرض کیا جاتا ہے" اس کا بھی یہی حال ہے۔ لیکن چونکہ وہ سعودی لڑکیاں بھرتی نہیں کر سکتے لہذا یہ کرتے ہیں کہ لڑکیاں درآمد کرتے ہیں اور غیر ملکی لڑکیوں کو بھرتی کرتے ہیں۔

یہ دہرا معیار ہے۔ اور یہ دہرا معیار اس لیے اپنایا گیا ہے کہ فضائی سفر کے کاروبار میں اس کے بٖغیر گزارا نہیں۔ اس کاروبار میں مسافروں کو راغب کرنے کے لیے خوبصورت خواتین کو سامنے لانا پڑتا ہے۔

اور آپ کو شدید صدمہ پہنچے گا، اگر آپ فضائی کمپنیوں کے کچھ اصول و ضوابط کا پتہ چل جائے۔ مثال کے طور پر انڈین ایئر لائن اور ایئر انڈیا دونوں کا اصول یہ ہے کہ منتخب ہونے کے بعد کوئی ایئر ہوسٹس چار برس تک شادی نہیں کر سکتی۔ بعض ایئر لائنز تو یہ بھی کہتی ہیں کہ حاملہ ہونے کی صورت میں نوکری ختم ہو جائے گی۔ اور 35 سال کی عمر میں انہیں ریٹائر کر دیا جاتا ہے کیونکہ ان کی جاذبیت کم ہو جاتی ہے۔

کیا آپ اسے ایک اچھی اور مناسب نوکری کہتے ہیں؟
 

شمشاد

لائبریرین
سوال : کیا اسلام مخلوط تعلیم کی اجازت دیتا ہے؟

جواب : میرے بھائی نے پوچھا ہے کہ کیا اسلام میں مخلوط تعلیم کی اجازت ہے؟ یعنی کیا لڑکے اور لڑکیاں ایک ہی سکول، کالج یا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں؟

پہلے ہم سکول کا معاملہ لیتے ہیں اور تجزیہ کرتے ہیں کہ کیا لڑکے لڑکیوں کا ایک ہی سکول میں پڑھنا مناسب ہے۔ پچھلے سال ہی ایک رپورٹ چھپی ہے۔ یہ رپورٹ "The World This Week" نامی رسالے میں شایع ہوئی ہے۔ اس رپورٹ میں مخلوط اور جداگانہ تعلیم والے سکولوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ رپورٹ برطانیہ کے سکولوں کے بارے میں ہے۔

اس سروے میں بتایا گیا ہے کہ مجموعی طور پر جداگانہ تعلیم والے اداروں کے نتائج مخلوط تعلیم والے سکولوں کے مقابلے میں بہت بہتر تھے۔ جب اس سلسلے میں اساتذہ سے بات چیت کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ جداگانہ تعلیم والے اداروں میں طالب علم تعلیم پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔جب طالب علموں سے پوچھا گیا تو انہوں نے مخلوط سکولوں میں پڑھنے کر ترجیح دی۔ جس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔

اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ مخلوط اداروں میں پڑھنے والے بچے زیادہ وقت جنس مخالف کی توجہ حاصل کرنے میں صرف کرتے ہیں۔ ان کی زیادہ توجہ جنس مخالف کے ساتھ تعلق بنانے پر ہوتی ہے نہ کہ تعلیم پر۔

یہ بھی بتایا گیا کہ برطانوی حکومت جداگانہ اداروں کی تعداد بڑھانے پر غور کر رہی ہے۔ امریکہ کے بارے میں ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ لڑکیاں حصول علم پر کم اور اپنے جماعتوں سے جنسی معلومات حاصل کرنے پر زیادہ وقت صرف کر رہی ہیں۔

ہندوستان میں بھی صورتِ حال کم و بیش ایسی ہی ہے۔

جب آپ کالجوں اور یونیورسٹیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو جو نکات آپ کو سکولوں کے بارے میں بتائے گئے وہ زبان شدت کے ساتھ نظر آتے ہیں۔

مارچ 1980ء میں نیوز ویک میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں یونیورسٹیوں میں خواتین پر ہونے والے جنسی حملوں کے اعداد و شمار دیے گئے ہیں۔ میں وقت کی کمی کی وجہ سے اس رپورٹ کی تمام تفاصیل آپ کے سامنے پیش نہیں کو سکوں گا لیکن اس رپورٹ کی بنیادی بات یہ تھی کہ اساتذہ نے، پروفیسروں اور لیکچراروں نے بہتر نمبروں کا لالچ دے کر طالبات کا جنسی استحصال کیا۔

یہ تو نیوز ویک کی رپورٹ تھی۔ ہندوستان میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اور ظاہر ہے اس صورتِ حال میں اچھی تعلیم حاصل کرنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔پچھلے سال ایسی ہی ایک خبر اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوئی۔ مجھے کالج کا نام یاد نہیں۔ ایک طالبہ کے ساتھ چار پانچ طالب علموں نے دن دہاڑے، کالج کی حدود میں زیادتی کی۔ اسی طرح پرسوں ایک رپورٹ ٹائمز آف انڈیا میں شایع ہوئی۔ یہ اصل میں نیویارک ٹائمز کی رپورٹ ہے جسے ٹائمز آف انڈیا میں نقل کیا گیا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق امریکہ میں سکول اور یونیورسٹی جانے والی 25 فیصد طالبات زنا بالجبر کا شکار ہوتی ہیں۔

میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ آپ اپنے بچوں کو درسگاہوں میں علم حاصل کرنے کے لیے بھیجنا چاہتے ہیں یا اس لیے کہ وہ جنسی استحصال کا شکار ہوں؟ اگر آپ کا مقصد حصولِ علم ہے تو پھر میں آپ کو یہی مشورہ دوں گا کہ انہیں ایسے اداروں میں بھیجیں جہاں جداگانہ طرزِنو تعلیم ہے مخلوط نہیں۔ اور ایسے ادارے بہت ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
سوال : آپ کی گفتگو سے پتہ چلا کہ قرونِ اُولٰی میں بہت سے عالم خواتین موجود تھیں لیکن میرا سوال یہ ہے کہ آج کتنی خواتین علما ہیں جو قرآن و حدیث کی تفسیر کر سکتی ہیں اور مرد علما کے مقابلے میں ان کا تناسب کیا ہے؟ اگر ایسی خواتین ہوتیں تو تسلیمہ نسرین کے حق میں بولتیں؟

جواب : آپ کو میری اس بات سے تو اتفاق ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں عالم خواتین موجود تھیں۔ جو نہ صرف قرآن و حدیث کی وضاحت کرتی تھیں بلکہ انہیں احادیث یاد بھی تھیں۔ صرف اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے دو ہزرا دو سو دس احادیث روایت کی گئی ہیں۔ لیکن آپ کا سوال یہ ہے کہ دورِ حاضر میں کتنی عالم خواتین موجود ہیں۔ آپ اُن کا تناسب بھی جاننا چاہتے ہیں۔

عالم خواتین اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ اور متعدد ایسے ادارے ہیں جہاں خواتین دینی علوم حاصل کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر ممبئی میں اور دارالعلوم ندوۃ العلما میں، دارالعلوم اصلاح البنات میں خواتین دینی علوم حاصل کر رہی ہیں اور عالم خواتین سامنے آ رہی ہیں۔ ان کے تناسب اور فی صد تعداد کا تو مجھے علم نہیں ہے لیکن بہرحال عالمہ خواتین کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔

جہاں تک سوال کے دوسرے حصے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ کیا تسلیمہ نسرین کی حمایت کی جا سکتی ہے؟ تسلیمہ نسرین کے معاملے پر میں ایک مباحثے میں حصہ لے چکا ہوں جس میں میرے علاوہ ڈاکٹر ویاس فادر پریرا اور اشوک شاہانی شامل تھے جنہوں نے "لجا" کا مراٹھی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ بہت سے لوگوں نے مجھے اس مباحثے میں شریک ہونے سے منع کیا اور کہا کہ میری باتوں کو غلط معنی پہنائے جائیں گے۔ میں شش و پنج میں تھا لیکن میرے والد نے مجھے کہا کہ "اللہ کا نام لو اور جاؤ۔" میں وہاں گیا اور الحمد للہ، محض اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے یہ مباحثہ نہایت کامیاب رہا۔ یہ مباحثہ اس قدر کامیاب رہا کہ کسی ایک اخبار میں بھی اس کی خبر شائع نہیں ہوئی۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ کسی ایک اخبار نے بھی اس مباحثے کی رپورٹ شائع نہیں کی۔ حالانکہ ٹائمز آف انڈیا کے نمائندے وہاں موجود تھے۔ انڈین ایکسپریس کے نمائندے اور متعدددیگر اخبارات اور خبر رساں اداروں کے نمائندے موجود تھے۔ لیکن کسی نے بھی رپورٹنگ نہیں کی کیوں؟ اس لیے کہ میں نے وہ سب کچھ نہیں کہا جو وہ سننا چاہتے تھے۔ اگر میں وہ سب کچھ کہتا تو اگلے دن بری بڑی سرخیاں لگتیں کہ مشہور اسلامی دانشور ڈاکٹر ذاکر نائیک نے یہ کہا اور وہ کہا لیکن چونکہ ایسا نہیں ہوا لہذا کوئی خبر نہیں لگی۔
 

شمشاد

لائبریرین
سوال : میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ اسلام میں صرف شوہر ہی کو طلاق دینے کا حق کیوں دیا گیا ہے؟ عورت کو یہ حق کیوں حاصل نہیں؟

جواب : بہن نے سوال پوچھا ہے کہ مرد کو تو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے سکے۔ لیکن کیا عورت کو بھی یہ حق ہے کہ وہ طلاق دے سکے۔اس سوال کا جواب یہی ہے کہ عورت طلاق نہیں دے سکتی۔ طلاق عربی کا لفظ ہے اور یہ اسی موقع کے لیے خاص ہے جب شوہر اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کرے۔ اسلام میں میاں بیوی کی علیحدگی کے پانچ طریقے ہیں۔

پہلا طریقہ تو باہمی رضا مندی کا ہے۔ اگر دونوں فریق یہ فیصلہ کر لیں کہ بس ہم اور اکٹھے نہیں چل سکتے اور ہمیں علیحدہ ہو جانا چاہیے تو وہ اس رشتے کو ختم کر سکتے ہیں۔

دوسری صورت یہ ہے کہ شوہر اپنی مرضی سے بیوی کو چھوڑ دے۔ اسے طلاق کہتے ہیں۔ اس صورت میں اسے مہر سے دستبردار ہونا پڑتا ہے اور اگر ابھی تک ادا نہیں کیا گیا تو ادا کرنا پڑتا ہے۔ اور جو کچھ وہ تحایف کی صورت میں دے چکا ہے وہ بھی بیوی ہی کی ملکیت رہتا ہے۔

تیسری صورت یہ ہے کہ عورت اپنی مرضی سے نکاح کو ختم کرنے کا اعلان کر دے۔ جی ہاں۔ بیوی بھی اس طرح کر سکتی ہے اگر یہ بات معائدہ نکاح میں طے ہو جائے کہ بیوی کو بھی یہ حق ہو گا۔

چوتھی صورت یہ ہے کہ اگر بیوی کو شوہر سے شکایات ہوں کہ وہ اس سے برا سلوک کرتا ہے یا اس کے حقوق ادا نہیں کرتا یا اس کے اخراجات کے لیے وسائل فراہم نہیں کرتا تو وہ عدالت میں جا سکتی ہےاور قاضی ان کا نکاح فسخ کر سکتا ہے۔ اس صورت میں وہ شوہر کو مہر کی پوری یا جزوی ادائیگی کا حکم بھی دے سکتا ہے۔

پانچویں اور آخری قسم خلع ہے۔ اگر بیوی محض ذاتی ناپسندیدگی کے باعث علیحدگی چاہتی ہے۔ شوہر میں کوئی خرابی نہیں مگر وہ پھر بھی علیحدہ ہونا چاہتی ہے تو وہ خود علیحدگی کی درخواست کر سکتی ہے۔ اسے خلع کہتے ہیں۔ لیکن اس سلسلے میں بہت کم گفتگو کی جاتی ہے۔

بہر حال اسلام میں علیحدگی کی یہی اقسام ہیں۔ امید ہے آپ کو اپنے سوال کا جواب مل چکا ہو گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
سوال : خواتین کو مسجد میں جانے کی اجازت کیوں نہیں ہے؟

جواب : سوال یہ پوچھا گیا ہے کہ خواتین کو مسجد میں جانے کی اجازت کیوں نہیں ہے اور یہ ایک مشکل سوال ہے کیونکہ پورے قرآن میں کسی بھی جگہ خواتین کو مساجد میں جانے سے منع نہیں کیا گیا۔ اور نہ ہی احادیث میں خواتین کو مسجد میں نماز پڑھنے سے روکا گیا ہے۔ بعض لوگ ایک خاص حدیث کا حوالہ دیتے ہیں جس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت کے لیے مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے کہ وہ گھر میں نماز پڑھے اور گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے کہ کمرے میں پڑھے۔ لیکن یہ لوگ صرف ایک حدیث پر زور دیتے رہے ہیں اور باقی تمام احادیث کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب 27 گنا زیادہ ہے۔ ایک خاتون نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے شیرخوار بچے ہیں اور ہمیں گھر کا کام کاج کرنا ہوتا ہے ہم کس طرح مسجد میں آ سکتی ہیں۔ تو جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت کے لیے مسجد کی بہ نسبت گھر میں گھر کے صحن کی بہ نسبت کمرے میں نماز پڑھنا بہتر ہے۔ اگر اس کے بچے چھوٹے ہیں یا کوئی اور مسئلہ ہے تو اسے وہی ثواب ملے گا جو مسجد میں نماز پڑھنے کا ہے۔

متعدد احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین کو مسجد میں آنے سے منع نہیں کیا گیا۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ "اللہ کی بندیوں کو مسجد میں آنے سے نہ روکو۔" ایک اور حدیث کا مفہوم ہے۔

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوہروں کو کہا کہ اگر ان کی بیویاں مسجد میں جانا چاہیں تو انہیں روکا نہ جائے۔"

اس طرح کی متعدد احادیث میں ہیں۔ میں اس وقت تفصیل میں نہیں جانا چاہتا لیکن اصل بات یہ ہے کہ اسلام خواتین کو مسجد میں آنے سے نہیں روکتا۔ شرط یہ ہے کہ مسجد میں خواتین کے لیے انتظام اور سہولت موجود ہو کیونکہ مرد اور عورت کے اختلاط کی اجازت اسلام نہیں دیتا۔

ہم جانتے ہیں کہ دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں میں کیا ہوتا ہے۔ وہاں لوگ عبادت کے لیے کم اور نظر بازی کے لیے زیادہ آتے ہیں۔ لہذا اس کی اجازت تو اسلام نہیں دیتا۔ البتہ اگر مسجد میں خواتین کے لیے الگ انتظام ہو، ان کے راستے الگ ہوں۔ وضو وغیر کا انتظام علیحدہ ہو، خواتین کے لیے الگ جگہ بنی ہوئی ہو جو مرد نمازیوں کے سامنے نہ ہو، تو وہ مسجد میں نماز پڑھ سکتی ہے۔

نماز میں ہم کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے ہیں۔ اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ خواتین کا جسمانی درجہ حرارت مردوں سے ایک زیادہ ہوتا ہے۔ لہذا اگر اگر خواتین مردوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہوں گی تو لازماً ان کی توجہ بھٹکے گی۔ اسی لیے خواتین پیچھے کھڑی ہوتی ہیں۔

اگر آپ سعودی عرب جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ خواتین مساجد میں آتی ہیں اگر آپ امریکہ جائیں یا لندن جائیں تو وہاں بھی خواتین مسجد میں نماز پڑھتی ہیں۔ صرف ہندوستان اور کچھ اور ممالک ایسے ہیں جہاں خواتین مسجد میں نماز نہیں پڑھ سکتیں۔

یہاں تک کہ حرم شریف اور مسجد نبوی میں بھی خواتین کو آنے کی اجازت ہے۔ ہندوستان میں بھی اب بعض مساجد میں خواتین کے لیے اہتمام ہوتا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ مزید مساجد میں بھی یہ اہتمام ہو گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
سوال : کیا دوسری شادی کرنے کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینا ضروری ہے؟

جواب : سوال پوچھا گیا ہے کہ مرد کو دوسری شادی کرنے کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینا ضروری ہے۔ اسلام میں مرد کو دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینے کا پابند نہیں کیا گیا۔

قرآن میں ایک سے زیادہ شادیوں کے لیے ایک ہی شرط عاید کی گئی ہے اور وہ ہے عدل۔ اگر وہ اپنی بیویوں میں عدل کر سکتا ہے تو وہ ایک سے زیادہ شادیاں کر سکتا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر پہلی بیوی کی اجازت سے دوسری شادی کی جائے تو شوہر اور بیویوں کے تعلقات زیادہ خوشگوار رہیں گے۔

صرف ایک ہی صورت ہے جس میں مرد کو دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینی پڑتی ہے اور وہ یہ کہ اگر بیوی نے شادی کے وقت نکاح کے وقت یہ شرط رکھی ہو کہ شوہر دوسری شادی نہیں کرے گا تو پھر دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت لازمی ہو جاتی ہے۔ بصورتِ دیگر کسی اجازی کی ضرورت نہیں ہے۔
 
Top