پروف ریڈنگ:
دی گئی ہو پہلے تو قطعہ میںمطلع نہیںہوتا تھ مگر ذوق نے مطلع کو بھی قطعہ میںشامل کیا ہے۔ ہر وہ غزل قطعہ ہے جس میںمطلع نہ ہو مگر واضح ہو کہ قطعہ کا موضوع غزل سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔غزل کا ہر شعر علیحدہ ہوتا ہے اور قطعہ کے اشعار میںبلحاظِ مضمون تسلسل ہونا چاہئیے۔ مثال
کیا ہو جینا جس میں ہو کوشش نہ دیں کے واسطے
واسطے واں کے بھی کچھ، یا سب یہیں کے واسطے
ذوق عاصی ہے تو اس کا خاتمہ کیجو بخیر
یا الہیٰ اپنے ختم المرسلیںؐ کے واسطے
غزل اور قصیدے میںاکثر قطعہ بند اشعار ہوتے ہیں۔
غزل:
غزل بروزنِ اثر۔
بمعنیٰ حسن و محبت کی باتیں کرنا،
چنانچہ غزل میں تغّزل کا ہونا شرطِ اوّل ہے مگر فی زمانہ غزل میں فلسفہ، منطق،
سائنس،
ہیئت، بہار و خزاں، مناظرِ قدرت اور فطری جذبات جیسی باتوں کا ذکر بھی شامل ہے۔غزل کے پہلے شعر کو مطلع کہتے ہیں۔ طلوع
بمعنیٰ نکلنا گویا مطلع سے غزل شروع ہوتی ہے۔ مطلع میں دونوں مصرعے ردیف اور قافیے رکھتے ہیں۔ غزلِ داغ مشہور ہے جس کا مطلع یہ ہے
شرکتِ غم بھی نہیں چاہتی غیرت میری
غیر کی ہو کے رہے یا شبِ فرقت میری
غزل کا آخری شعر مقطع ہوتا ہے۔ مقطع میں شاعر اپنا تخلص نظم کرتا ہے جس کی وجہ سے سامعین یہ معلوم کر لیتے ہیں کہ یہ غزل فلاں شاعر کی ہے جیسے غالب کا مقطع ہے