اسلام میں شاعری کی حیثیت-- صفحہ 12

الف نظامی

لائبریرین
page%20012.jpg
 

فرخ

محفلین
غالبؔ بُرا نہ مان جو واعظ بُرا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھّا کہیں‌جسے​
قصیدہ:
قصیدہ بروزنِ ملیدہ بمعنیٰ مُوئے مغز-وہ نظم جس میں کسی کی مدح یا ہجو ہو۔ قصیدہ بھی غزل کی طرح ہوتا ہے، مگر فرق صرف اتنا ہے کہ غزل میں حسن و عشق، ہجر و وصال کا مضمون ہوتا ہے جب کہ قصیدوں میں حمد، نعت، منقبت،مدح، ہجو، نصیحت، شکایت ِ روزگار وغیرہ کا تذکرہ ہوتا ہے۔ قصیدہ میں کم از کم بیس (۲۰) اشعار ہونے چاہیئں، زیادہ کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ قصیدہ اکثر قافیہ اور ردیف کے نام سے مشہور ہوتا ہے۔ مثلاً اگر قافیہ کنول، آنچل ہے تو اس کو لامیہ کہیں گے۔ اگرآفتاب ردیف ہے جیسے بہارآفتاب، قرارآفتاب تو قصیدہ شمسیہ ہوگا۔ اقسامِ نظم میں قصیدہ کا لکھنا مشکل ہے۔ اس کے لئے شوکتِ الفاظ اور عمدہ تراکیب کے علاوہ مضمونِ دقیق، معنیٰٔ بلند اور استعارۂ نازک کی ضرورت رہتی ہے، متأخرین غزل اور قصیدہ ایک ہی طرز پر لکھتے ہیں۔ قصیدہ دو قسم کا ہوتا ہے خطابیہ اور تمہیدیہ۔ قصیدہ، قصد سے مشتق ہے بمعنیٰ کسی کی جانب متوجّہ ہونا۔

خطابیہ:

خطابیہ وہ قصیدہ ہوتا ہے جس میں مطلع سےآخری شعر تک شاعر کسی خاص مقصد تحت سامعین کو مخاطب کرے۔ اس میں وعظ، پند، مدح، ہجو وغیرہ شامل ہیں اس میں تمہید نہیں ہوتی۔

تمہیدیہ:

تمہید کے معنیٰ لُغّت میں ہموار اور درست کرناکے ہیں۔ یہاں بھی شاعر ایک
 
Top