خاص مقصد کو بیان کرتا ہے۔ تمہید یہ قصائد میں پہلے تشبیب پھر گریز پھر خطاب یا مدّعا اس کے بعد دعا اورآخر میں خاتمہ کےمتعلّق کچھ اشعار ہوتے ہیں۔
تشبیب:
تشبیت بروزنِ تدبیر بمعنیٰ ایّامِ شباب کا ذکر کرنا۔ اس کو تمہید بھی کہتے ہیں۔ لغوی معنیٰ جوانی کا حال اور معشوق کی صفت بیان کرنا ہے، کیونکہ شاعر نفسِ مضمون کو معشوق کے ذکر سے بلند کرتا ہے اس لئے اس کو تشبیب کہا گیا ۔
گریز:
گریز بروزنِ منڈیر بمعنیٰ بھاگنا۔ اصطلاحِ شاعری میں ایک مضمون سے ہٹ کر دوسرے مضمون کی جانب آنے کو کہتے ہیں یعنی وہ شعر جو تشبیب کے بعد نفسِ مضمون کی جانب اشارہ کرے۔گریز جس قدر خوبصورتی کے ساتھ کیا جائے گا اُسی قدر قصیدہ اچھّا ہوگا۔
خطاب:
خطاب بروزنِ عتاب، بمعنیٰ بات کرنا، گریز کے بعد شاعر مدّعا بیان کرتا ہے اس کو خطاب کہتے ہیں۔
دُعا:
دُعا بروزنِ خُدا بمعنیٰ مانگنا، خواہش۔ وہ اشعار جو بطورِ دُعا نظم کئے جائیں۔
خاتمہ:
خاتمہ بروزنِ فاطمہ، بمعنیٰ انجام۔ وہ اشعار جن پر قصیدہ ختم کیا جائے (مثال کے لئے قصائدِ سودا اور ذوقؔ وغیرہ ملاحظہ ہوں)