مثنوی:
مثنوی بروزنِ سرسری بمعنیٰ منسوب بہ مثنیٰ جس کے معنیٰ دو کے ہیں۔ چونکہ مثنوی کے ہر بیت میںدوقافیہ مختلف ہوتے ہیں، اسی نسبت سے اس کو مثنوی کہا گیا ہے۔ اس کی ترتیب تمہید، توحید، نعت، مناجات، ساقی نامہ وغیرہ ہوتی ہے۔ مثنوی کے تمام ارکان ایک ہی وزن پر ہوتے ہیں۔ اس کے اشعار کی تعداد معیّن نہیں۔ مثنوی میںعام طور پر قصّے کہانیاں نظم ہوتی ہیں مگر اب واقعات بھی لکھے جاتے ہیں۔ مثال میں مثنوی میر حسنؔ اور گلزار ؔ نسیم دیکھئے یا حالیہ مثنوی پیام ساوتری کا مطالعہ کیجئے۔
ترجیع بند:
ترجیع بند وہ نظم ہے جو غزل کی طرح ردیف اور قافیہ کی پابندی سے لکھی جائے اور ان اشعار کے بعد ایک مطلع دوسری ردیف قافیہ میں لکھا جائے جو موضوع کے مطابق ہو اور یہ مطلع ہر بند کے آخر میںبغیر تبدیلی کے آتا رہے۔
ترکیب بند:
یہ نظم ترجیع بند کی طرح لکھی جاتی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ بند کا مطلع تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ دیکھئے ترکیب بندِ حالیؔ مرحوم۔
مستزاد:
مستزاد بروزنِ مستجاب بمعنیٰ زیادہ کیا گیا۔ رباعی یا غزل کے وزن میںہر مصرع کے بعد ایک یا دو رکن اسی وزن کے اور بڑھا دیں۔ پہلے تو صرف رباعی کے وزن کو مستزاد کیا جاتا تھا اب غزل کے وزن کو بھی مستزاد کر لیا جاتا ہے، مثال ع