اسلام میں شاعری کی حیثیت-- صفحہ 15

الف نظامی

لائبریرین
page%20015.jpg
 

فرخ

محفلین
پھر ذرا کہہ دیجئے ہنس کر کہ دیکھا جائے گا، آپ کا کیا جائے گا
مسمّط:
مسمّط بروزنِ مسبّغ بمعنیٰ لڑی میں موتی پرونا۔ لُغّت میں تسمیط جمع کرنے کو کہتے ہیں اور اصطلاح میں چند متّفق الوزن والقافیہ مصرعوں کو ایک جگہ جمع کرنا۔ اس کی آٹھ قسمیں ہیں۔ مثلّث، مربعّ، مخمس، مسدّس، مسبّع، مثمن، متسّع، معشّر۔
بہرحال شعر کے لوازم و محاسن کو سامنے رکھتے ہوئے شعر کہنا انتہائی مشکل کام ہے۔ ندرتِ فکر اور بلندیِ تخیل کے ساتھ ساتھ ابلاغِ مفہوم کے لئے الفاظ کا چناؤ اِس قدر کٹھن مرحلہ ہے کہ اللہ اکبر۔ خواجہ آتشؔ نے ایسی ہی شاعری کے لئے کہا تھا۔ ع
شعر گوئی کام ہے آتشؔ ! مُرصَّع ساز کا
نگینوں کی طرح الفاظ کا رکھنا، اِس طرح کہ اگر کوئی اُس کو اُٹھا لے اور کوئی دوسرا لفظ اُسکی جگہ رکھنا چاہے تو شعر بے جان ہو کر رہ جائے۔ مثلاً غالبؔ نے ایک مصرعہ میں ایک بھاری بھرکم لفظ رکھ دیا، جو بظاہر نثر کا معلوم ہوتا ہے، مگر کوئی بڑے سے بڑا شاعر اور زبان دان اُسکی جگہ اُس سے بہتر کوئی لفظ نہیں رکھ سکتا۔ وہ مصرع یہ ہے۔ ع
تھی وہ اِک شخص کے تصوّر سے
اس مصرعے میں شخص کی جگہ آپ اور کوئی لفظ نہیں لا سکتے اور اگر لائیں گے تو شعریّت ختم ہو کر رہ جائے گی۔ اساتذہ کی شاعری اور آج کل کی شاعری میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ آج کے اکثر شاعر جو الفاظ استعمال کرتے ہیں، اُن سے بہتر الفاظ کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ مگر اساتذۂ متقدّمین جب شعر کہتے تھے تو یہ تمام گنجائشیں ختم کر دیتے تھے۔
 

فرخ

محفلین
ویسے اس صفحے پر جو شاعری کی جیومیٹری بتائی گئی ہے اس سے کچھ طبق روشن ہوتے ہوتے رہ گئے۔
آپ اندازہ کر سکتے ہیں اتنی مشکل باتوں کو پڑھنا پھر لکھنا۔
:grin:
 
Top