کلامِ موزوں کا شعر ہونا بطریقۂ احسن بیان ہو چُکا۔ لیکن شعر و شاعری کی شرعی حیثّیت پر بھی کلام کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔اگرچہ بعض اساتذۂ سخن اور محقّق علمائے اسلام نے اِس موضوع پر سیر حاصل گفتگو فرمائی ہے۔ ہمارا یہ مختصر مقالہ اس کا متحّمل نہیں تاہم بالاختصار اس پر ہم کچھ ضرور عرض کریں گے۔ جو لوگ شعر گوئی کو ناجائز اور منافیِ علم و تحقیق خیال کرتے ہیں وہ سب سے پہلے دو دلیلیں آیاتِ قرآنی کے حوالے سے دیتے ہیں۔ پہلی آیت جو سب سے زیادہ پیش کی جاتی ہے۔ سورۂ یٰسین شریف میں ہے۔
وما علّمنہُ الشعر وماینبغی لہ
ترجمہ: اور ہم نے اُن (محمدؐ ﷺ) کو شاعری نہیں سکھائی اور نہ شاعری اُن کے شایانِ شان ہے۔
اِس آیات محوّلہ بالا سے استدلال کرتے ہوئے معترضین کہتے ہیں کہ جناب رسولؐ اللہ ﷺ کی ذات کو اللہ تعالٰی نے مجمع الکمالات بنایا اور آپ سے ہر نقص اور رِجس کی نفی کردی ہے۔ اگر شاعری کوئی کمال والی بات ہوتی تو اللہ تعالٰی اپنے محبوبؐﷺ کو شاعری کی تعلیم دینے کی نفی نہ کرتے۔ شاعری کیونکہ اچھی چیز نہیں اس لئے اللہ تعالٰی نے اُس کی ذاتِ رسالت مآبؐ ﷺ سے نفی فرما دی۔
اس اعتراض کے متعدد جوابات ہیں:
نمبر ۱: وما علّمنہُ الشعَرک کی حکمت و علّت وماینبغی لہ ہے یعنی صرف رسولِ اکرم کی ذاتِ اقدس کے شایانِ شان شاعری نہیں۔ یہ نہیں کہا گیا کہ فی نفسہٖ شاعری کسی کے لئے بھی جائز یا مناسب نہیں۔ کیونکہ قرآنِ مجید کی فصاحت و بلاغت بے مثال ہے اور اِس میں باعتبارِ فواصل ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جو فنِ شاعری کے حوالے سے کلامِ موزوں (شعر) محسوس ہوتی ہیں۔ اور اِسی بنا پر منکرینِ قرآن یہ