یہ واقعہ لکھنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی کی دوسری تخلیقات کی طرح لِے بھی کائنات میں ایک حقیقت ہے جسے ہم تخلیق کا ایک اہم جزو بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہی لَے شعر کا بنیادی وصف ہے ، اس کے بغیر شعر کو شعر نہیں کہا جا سکتا۔ دریاوں کا بہاو ، سمندروں کا تلاطم ، ہواوں کا خرام ، آوازوں کا زیر و بم ، زمین اور فضا میں اڑنے والے پرندوں اور جہازوں کی اڑان اور اجرامِ فلکی کی مختلف چالیں ، در حقیقت اسی لَے کی مرہونِ منت ہیں۔
دیکھا دیکھی شعر موزوں کر لینا اور بات ہے اور باقاعدہ شاعر ہونا اور شاعری کرنا بالکل اور بات ہے۔ بعض لوگ صرف وزن میں الفاظ جوڑ کر اور بعض اوزانِ شعر کا شعور نہ رکھنے کے باوجود محض تک بندی کی بنیاد پر خود کو بڑا شاعر سمجھ لیتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں شاعری کی تعریف کے سراسر خلاف ہیں۔
یہاں ہم اپنی مطالعاتی محنت اور ذوق کے تحت دنیائے شعر سے متعلق اساتذہء عروض کی تصریحات اور ان کی پیش کردہ تعریفاتِ اصطلاحات کا اجمالی ذکر مناسب سمجھتے ہیں ، تاکہ بعض سہل نٍگاروں پر یہ حقیقت واضح ہو جائے کہ شاعری صرف چند الٹے سیدھے لفظوں کو جوڑ لینے یا وزن میں دو مصرعے کہہ لینے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک باقاعدہ اور مشکل ترین فن ہے ، جسے باقاعدہ ایک علمِ موہوبی بھی کہہ سکتے ہیں ، ایسا علم جس کا سلسلہ وما علمنہ الشعر پر منتہی ہوتا ہے جسے خود اللہ تعالی نے ایک علم قرار دیا ، کیونکہ علمنا کا مادہ ء اشتقاق ثلاثی مجرد کی صورت میں علم ہی قرار پاتا ہے۔ اگر شعر گوئی کوئی باقاعدہ علم یا فن نہ ہوتا تو حضور سے اس کے انتفائے نسبت کے وقت مادہ علم سے مشتق لفظ استعمال میں نہ لایا جاتا۔ اس سے یہ امر بھی پایہ ثبوت کو پہنچا کہ شاعری نبی کے شایانِ شان ہونے کے باعث نبی کے لئے درجہ علم نہیں